کے ٹو 274

کے ٹو: محمد علی سد پارہ اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ کیا ممکنہ حادثہ پیش آیا ہو گا اور ان کی تلاش کے مشن میں کیا ہو رہا ہے؟

کے ٹو: محمد علی سد پارہ اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ کیا ممکنہ حادثہ پیش آیا ہو گا اور ان کی تلاش کے مشن میں کیا ہو رہا ہے؟
دنیا میں کسی بھی جگہ کے سفر پر نکلنے سے پہلے آپ خود کو پیش آنے والی کسی بھی ناگہانی آفت کی صورت میں اپنے بچاؤ کا بندوبست کر کے ہی نکلتے ہیں۔ اور خدانخواستہ آپ کو کوئی حادثہ پیش آ جانے کی صورت میں آپ کے عزیز و اقارب یا دوست رشتہ دار دوڑے دوڑے آپ کی مدد کو پہنچ جاتے ہیں۔

لیکن اگر آپ کو پیش آنے والے اس حادثے کا مقام ’موت کی وادی‘ قرار دیے جانے والے پہاڑوں پر 8000 میٹر سے زیادہ بلندی پر واقع ہو تو سوچیے کیا ہو گا؟

دنیا کے دوسرے بلند ترین پہاڑ کے ٹو کو سردیوں میں سر کرنے کی کوشش کرنے والے پاکستانی کوہ پیما علی سد پارہ سمیت تین کوہ پیماؤں کا رابطہ جمعہ کے روز سے بیس کیمپ، ٹیم اور اہل خانہ سے منقطع ہوا اور سنیچر سے اب تک ان کا سراغ لگانے کی تمام کوششیں ناکام ہوئی ہیں۔

ان کوہ پیماؤں کی تلاش کی کارروائی تین دن تک جاری رہنے کے بعد موسم کی خرابی کی وجہ سے منگل سے تعطل کا شکار ہے۔صوبائی حکومت کے ترجمان امتیاز علی تاج کے مطابق خراب موسم کے باعث آج بدھ کے روز بھی تلاش کا آپریشن شروع نہیں ہو سکا۔ ان کا کہنا تھا کہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ آٹھ ہزار میٹر اور اس سے اوپر تلاش کرنے کے لیے C-130 استعمال کیا جائے گا مگر دوسرا روز ہے کہ موسمی حالات اس کی اجازت نہیں دے رہے۔ ڈی سی شنگر عظیم اللہ کے مطابق اس موسم میں زمینی تلاش بھی ممکن نہیں ہے اور امدادی کارکن بیس کیمپ میں تیار تو ہیں مگر ان کو اس موسم میں آگے جانے سے منع کیا گیا ہے۔

جہاں علی سدپارہ اور ان کے ساتھیوں کی تلاش کے عمل کے بارے میں بہت سے سوالات سامنے آئے ہیں وہاں یہ سوال بھی سوشل میڈیا پر گردش کر رہا ہے کہ ان کوہ پیماؤں کے ساتھ ممکنہ طور پر کیا حادثہ پیش آیا ہو گا اور یہ کہ پاکستان میں سرچ اور ریسکیو کے حوالے سے کیا پروٹوکول ہیں اور اب تک کیا کیا ہو رہا ہے؟

بی بی سی نے اس مضمون میں ان تینوں کوہ پیماؤں کی تلاش کے لیے کیے جانے والے ریسکیو مشن کے حوالے سے متعلقہ انتظامیہ، خاندان کے افراد اور کوہ پیمائی سے وابستہ ماہرین سے بات کر کے ان سوالوں کا جواب جاننے کی کوشش کی ہے۔
مہم جو عمران حیدر تھہیم کوہ پیمائی کے شوقین اور گذشتہ 10 برس سے اس حوالے سے تحقیق کرتے آ رہے ہیں۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے عمران کہتے ہیں کہ اس طرح کے معاملے میں ریسکیو مشن ایک لحاظ سے ’کاسمیٹک‘ یا یہ کہہ لیں کہ انسان سے جتنا ہو سکے وہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

جیسا کہ ساجد سد پارہ کے مطابق جب انھیں ڈیتھ زون میں ہیلیوسنیشن شروع ہوئی اور آکسیجن ماسک کا ریگولیٹر خراب ہو جانے کے باعث انھیں واپس لوٹا پڑا، اس وقت دن کے 10 بجے کا وقت تھا اور علی سدپارہ کی ٹیم 8200 میٹر پر یعنی ڈیتھ زون کے سب سے مشکل سیکشن کے انتہائی خطرناک حصے پر موجود تھی۔
عمران کہتے ہیں کہ اگر تو آپ نے نیپالی شرپاؤں کی لگائی رسی کے بجائے کسی دو سال پرانی کمزور رسی کو ہاتھ لگا لیا تو اس صورت میں اگر آپ گریں یا سلپ ہوں تو فرکشن آپ کے وزن سے 10 گنا زیادہ ہوتی ہے۔

’اگر میرا 80 کلو وزن ہے تو تقریباً 800 کلو کی فرکشن آئے گی‘ (یعنی جب آپ گریں گے تو جو جھٹکا لگے گا وہ 800 کلو کا ہو گا کیونکہ کششِ ثقل آپ کو کھینچ رہی ہوتی ہے۔)

اس صورت میں آپ پینڈولم کی طرح لٹک جائیں گے اور چونکہ فکسڈ لائن پر ایک سے زیادہ کوہ پیما ہوتے ہیں اس لیے وزن کی وجہ سے سب نیچے گِر جائیں گے۔

عمران کے مطابق برف پر گرنے کی صورت میں چونکہ برف نرم ہوتی ہے اور آپ سلائیڈ ہوتے جاتے ہیں اور اس صورت میں جو آپ آئیس ایکس کا استعمال کرتے ہوئے خود کو سیلف ارسٹ (الٹے ہو کر آئیس ایکس کو برف میں مارنا جس سے کسی سٹیج پر جا کر آپ کا پھسلنے کا عمل رک جاتا ہے) کر کے بچا سکتے ہیں۔

لیکن دوسری صورت میں آپ اس حصے میں گریں گے جو پتھریلا چٹانوں والا حصہ ہے جسے تکنیکی زبان میں ابیس Abyss کہتے ہیں (زمین پر جہاں ہوا موجود ہے لیکن خالی گُھپا یا گہرائی ہے اُسے ابِس Abyss کہتے ہیں جبکہ زمین سے اُوپر جہاں ہَوا نہیں اُسے سپیس کہا جاتا ہے۔)

چنانچہ جب کوئی کوہ پیما ابِیس میں گِرتا ہے تو اس کی ہڈیاں ٹُوٹنے اور سر کی چوٹ کا امکان زیادہ ہوتا ہے جس سے فوری موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔

لہٰذا ہو سکتا ہے کہ اگر وہ تینوں پرانی رسی کو استعمال کر رہے تھے تو یہ خطرناک ہے اور ان کے کہیں گرنے کا امکان رد نہیں کیا جا سکتا۔

عمران کے مطابق ان کوہ پیماؤں کے ساتھ سنہ 2008 میں ہونے والے حادثے جیسا بھی کچھ واقعہ ہو سکتا ہے۔

’آپ کی رسی فکسڈ لائن پر کیرابینر کے ذریعے اٹیچ ہوتی ہے۔ کیرابینر ایک کلپ ہوتا ہے جسے آپ رسی کے اندر ڈالتے ہیں جو آپ کی سیفٹی ہوتی ہے۔ لیکن اگلا پیچ لگانے اور اپنے کلپ کو ان کلپ کر کے آگے اٹیچ کرنے کی کوشش میں کوہ پیما گر جاتے ہیں۔ سنہ 2008 میں یہی ہوا تھا اور 11 کوہ پیما ہلاک ہو گئے تھے۔‘

تاہم وہ کہتے ہیں کہ یہ اتنے تجربہ کار کوہ پیما تھے کہ آپ ان سے ایسی چھوٹی چھوٹی غلطیوں کی امید نہیں کر سکتے۔

عمران کے مطابق زیادہ امکان یہی ہے کہ ان میں سے کوئی ایک کوہ پیما عدم توازن کے باعث گر گیا ہے اور باقی سب کو بھی ساتھ لے گیا ہے۔