صفدر زیدی، ہالینڈ 345

کیا یورپ میں ہولوکاسٹ کے خلاف لکھنا ممکن ہے؟ چند حقائق

کیا یورپ میں ہولوکاسٹ کے خلاف لکھنا ممکن ہے؟ چند حقائق
صفدر زیدی، ہالینڈ
یورپ کی آدھی سے زیادہ ریاستوں نے دوسری عالمی جنگ سے قبل اور اس کے دوران یہودیوں کی نسل کشی ( ہولوکاسٹ ) سے انکار کو جرم قرار دیا ہے۔ ہولوکاسٹ کے دوران سرزد ہونے والے جرائم کو جھٹلانے کے قانون کو پاکستان میں عام طور پر اس قانون کی روح کے برعکس دیکھا جاتا ہے۔ عالمی سطح پر اسکالرز اس بات پر مباحث کرتے ہیں کہ مبادا یہ قانون اظہار خیال کی بنیادی آزادی کی روح کو مجروح کرتا ہے۔ وہ یورپی ریاستیں جن کی سر زمین پر کئی برس نسل کشی کا ابلیسی رقص ہوا تھا وہ اس قانون کی مختلف تشریح کرتی ہیں۔
نازی جرمنی کی شکست کے یہودیوں کا قتل عام گو کہ رک گیا تھا۔ گیس چیمبرز میں جانے کے منتظر یہودی قید خانوں سے آزاد ہونا شروع ہو گئے تھے لیکن یورپ بھر میں پھیلے ہوئے نازی نظریات مکمل طور پر ختم نہیں ہوئے تھے۔ یورپ میں نسل پرستی کے طرفداروں نے یہودی نسل کشی کے فوری بعد ہی ان وحشتناک واقعات سے انکار کرنا شروع کر دیا تھا، حالانکہ جنگی جرائم کے نیورم برگ کے تاریخی ٹریبونل نے جنگی جرائم کے مقدمات کی سماعت شروع کردی تھی۔
اس ٹریبونل کے مقدمات میں روح کو لرزانے والے جرائم کے راز مسلسل افشاء ہو رہے تھے۔ جنگی جرائم میں ملوث فوجی افسران اور نازی اہلکار دنیا بھر میں فرار ہو کر پناہ ڈھونڈ رہے تھے لیکن ان کو کہیں پناہ نہیں ملتی تھی۔ ٹریبونل کے کھلے اور شفاف مقدمات کے باوجود نسل پرستانہ نظریات اور تعصبات کے حامل افراد نسل کشی کے واقعات کو جھٹلا رہے تھے۔ یورپی ریاستوں کو اندازہ تھا کہ تاریخ کو اگر مسلسل اور ڈھٹائی کے ساتھ جھٹلایا جائے تو جھوٹ پہلے شک و ابہام میں بدلتا ہے اور پھر یقین کی صورت بھی اختیار کر سکتا ہے۔
یورپی قیادت کو اندازہ تھا کہ اگر اس جھوٹ پر بند نہیں باندھا گیا تو نسلی تعصب کا عفریت یورپ کو ایک بار پھر تباہی سے دو چار کر سکتا ہے۔ اس ضمن میں سب سے پہلے جرمنی اور آسٹریا نے ہولوکاسٹ سے انکار کو جرم قرار دیا، پھر بہت سی یورپی ریاستوں نے اس قانون کو اپنایا۔ اپریل 2007 میں یورپی یونین نے بھی اس ضمن قانون سازی کر کے یورپی ریاستوں کو قانونی سہارا فراہم کیا۔ یورپی قانون سازی کی ضرورت اس وقت خاص طور سے پڑی جب اسلامی جمہوریہ ایران نے ہولوکاسٹ سے انکار کو اپنی ریاستی پالیسی کا حصہ بنایا۔
ایرانی صدر جناب احمدی نژاد نے ہولوکاسٹ کے انکار کے موضوع پر ایک بین الاقوامی کانفرنس بلوائی جس میں ایران کی ریاستی پالیسی کے ہمنوا نام نہاد اسکالرز نے ہولوکاسٹ کے واقع ہونے کے انکار میں مقالے پڑھے۔ عجیب سی بات ہے کہ ہولوکاسٹ کو جھٹلانے میں نسل پرست نیو نازی اور اسلامی شدت پسند ہم نوا نظر آتے ہیں۔ عام پاکستانی شہریوں کے خیال میں ( مضمون نگار کے ذاتی مطالعہ کے مطابق، اس بات سے اختلاف بھی کیا جاسکتا ہے ) نازی ازم کا نظریہ صرف یہودیوں کے وجود کا مخالف تھا جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ شیطانی نظریہ ایک خیالی سفید فام آریائی نسل کی برتری کا نظریہ تھا۔
اسی لئے ہولوکاسٹ میں صرف یہودیوں کی ہی نسل کشی نہیں ہوئی بلکہ اک بڑی تعداد میں جپسیوں ( خانہ بدوشوں ) کو بھی موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ یاد رہے کہ یہ یورپی خانہ بدوش اپنا رشتہ قدیم ہندوستان سے جوڑتے ہیں۔ یورپ میں ہولوکاسٹ پر تنقیدی یا تجزیاتی مضامین لکھنے پر کوئی پابندی نہیں، اس سانحے کے صریحاً انکار کو جرم قرار دیا گیا ہے۔ بہت سے لکھنے والوں نے ہولوکاسٹ کے خلاف بھی لکھا ہے۔ بہت سے مصنفین صرف شہرت پانے کی خاطر ہولوکاسٹ کے خلاف اپنا قلم اٹھاتے تھے۔
اس ضمن میں مشہور مصنف ڈیوڈ ارونگ کا ذکر بے جا نہ ہوگا۔ انہوں نے اس موضوع پر لکھنے کے علاوہ لبنان اور آسٹریا میں ہولوکاسٹ کے واقع ہونے کے خلاف تقاریر بھی کیں۔ ان کا دعوی تھا کہ یہودیوں کے اجتماعی قتل عام کے لئے گیس چیمبرز کا کوئی وجود نہیں تھا اور ہٹلر نے یہودیوں کے قتل عام کا کوئی حکم جاری نہیں کیا تھا۔ ڈیوڈ ارونگ کو آسٹریا میں ہولوکاسٹ کو جھٹلانے کے سلسلے میں گرفتار کر لیا گیا تھا۔ مقدمے کی سماعت کے دوران ان کے پاس اپنے خیالات کو سچ ثابت کرنے کے لئے ثبوت نہیں تھے۔
انہوں نے مقدمے کی سماعت کے دوران اپنے الفاظ واپس لینا چاہے تھے مگر ان سے جرم سرزد ہو چکا تھا۔ جرم ثابت ہونے کے بعد 2006 میں ان کو تین برس قید کی سزا سنائی گئی۔ سزا کاٹنے کے بعد وہ جھوٹے پروپیگنڈے سے تائب ہو گئے تھے۔ یہودیوں کے قتل عام کے طرفدار سے کہنا چاہوں گا کہ ہولوکاسٹ سے انکار کا قانون نازی ازم کی ترویج و اشاعت کو روکتا ہے۔ اگر نازی ازم یورپ میں دوبارہ سر اٹھاتا ہے تو یہودیوں کے ساتھ ساتھ یورپ میں بسے ہوئے تمام تارک وطن خانوادوں کا قتل عام ہوگا، اس وحشت سے پاکستانی تارکین وطن بھی نہیں بچ سکیں گے۔