کیا ٹرمپ جاتے جاتے ایٹمی جنگ چھیڑ سکتے ہیں؟ 358

کیا ٹرمپ جاتے جاتے ایٹمی جنگ چھیڑ سکتے ہیں؟

منگل کے دن ڈونلڈ ٹرمپ کے وزیرِ دفاع مارک ایسپر کو عہدے سے سبکدوش کرنے کے فیصلے نے صدر اور امریکی اسلحہ خانہ میں رکھے ایٹمی میزائل کسی کے مشورے یا پیشگی اطلاع دیے بغیر اپنی مرضی سے استعمال کرنے کے درمیان آخری رکاوٹ بھی دور کر دی۔
امریکی صدر ایٹمی ہتھیار چلانے سے پہلے اپنے وزیرِ دفاع سے مشورے کا پابند ہے لیکن اگر وزیرِ دفاع اعتراض کرتا ہے تو صدر اسے مسترد کر سکتا ہے۔ صدر کے پاس حتمی اور مکمل اختیار ہے کیونکہ وہ اختلاف کی صورت میں وزیرِ دفاع کو عہدے سے ہٹا سکتا ہے۔ نائب صدر مائیک پینس ہی وہ شخصیت ہیں جو صدر کو بالواسطہ طور پر پاگل قرار دیتے ہوئے عہدے سے ہٹا کر ایٹمی حملے سے باز رکھ سکتے ہیں۔
امریکی آئین کی 25ویں ترمیم کی شق 4 مائیک پینس کو یہ اختیار دیتی ہے لیکن اس کے لیے انہیں کابینہ کی متفقہ حمایت درکار ہو گی۔ کسی کا خیال نہیں کہ پینس ٹرمپ کے سامنے اس طرح سے ڈٹ سکتے ہیں کیوں کہ ٹرمپ کی کابینہ میں ان کے پرجوش حامیوں کی اکثریت ہے، بظاہر ان میں سے بیشتر کو مہارت یا قابلیت کے بجائے ذاتی وفاداری کی وجہ سے منتخب کیا گیا ہے۔
ایسپر کابینہ میں شامل ہونے سے پہلے اسلحہ ساز کمپنیوں کے لابی اسٹ تھے۔ ٹرمپ نے انہیں ذاتی وفاداری کی بنا پر وزیر بنایا تھا۔ اب ان کی جگہ نسبتاً کمزور شخص کرسٹوفر سی ملر کے تعیناتی کا مطلب ہے کہ ٹرمپ اور قیامت کے درمیان آخری رکاوٹ بھی ہٹ گئی ہے۔
اس اقدام سے ہر طرف خوف و ہراس کے بادل چھا گئے ہیں، یہاں تک کہ رپبلکن پارٹی کے سینئیر رکن مارکو روبیو نے کہا کہ ایٹمی خفیہ کوڈز پر مکمل اختیار کے معاملے میں ٹرمپ پر اعتماد نہیں کیا جانا چاہیے کیونکہ وہ ایک ’سرپھرا شخص‘ ہے۔
لیکن ماہرین کے مطابق ٹرمپ کے میزائل چلانے کی ضد کا متوقع نتیجہ اس کی حکم عدولی کی صورت میں نکلے گا۔ یہ فوجی بغاوت اور آئینی بحران ہی نہیں بلکہ عمومی افراتفری اور امریکی سیاسی نظام کے تباہی کا باعث بھی بنے ہو گا۔ اس سال کے آغاز میں کلنٹن کے دور میں وزیرِ دفاع ولیم جے پیری نے The Button نامی ایک کتاب شائع کی جو امریکی ایٹمی ہتھیاروں کی پالیسی اور ضابطہ اخلاق میں وقتاً فوقتاً کی گئی تبدیلیوں سے متعلق ہے۔ پیری ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کا اختیار صدر سے لے کر ماہرین کی فیصلہ ساز کمیٹی کے سپرد کرنا چاہتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ مثال کے طور پر روس میں بھی ماہرین کے ہاتھوں میں ایٹمی کوڈز ہیں اور ولادی میر پوتن بھی ماہرین کی کونسل کے اتفاق کیے بغیر ایٹمی حملے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ ممکن ہے ماضی کے چند راہنماؤں کے طرز عمل نے ایٹمی کوڈز محض سربراہ مملکت کے حوالے کرنے سے روسیوں کو ہوشیار کیا ہو۔ مثال کے طور پر شراب اور ادویات قلب کے استعمال کی وجہ سے صدر بورس ییلسن کی اپنے حواس کھو بیٹھتے تھے۔
تصدیق شدہ اطلاعات کے مطابق امریکی خفیہ اداروں نے ییلسن کو امریکہ کے سرکاری دورے کے دوران محض انڈرویئر میں ملبوس آدھی رات شراب کے نشے میں دھت واشنگٹن ڈی کے پینسیلوینیا ایونیو پر ٹیکسی روکنے کی کوشش کرتے ہوئے دیکھا تھا۔
جبکہ ییلسن جس صدر بل کلٹن سے ملنے آئے تھے، وہ ایک بار امریکی ایٹمی کوڈز ایسے بھول گئے تھے جیسے میں یا آپ گاڑی کی چابیاں کہیں رکھ کر بھول جائیں۔ صدر کلنٹن اس بات پر ایسے شرمندہ تھے کہ انہوں نے کئی ماہ تک خفیہ اداروں کو اس سے آگاہ نہیں کیا تھا۔
کلنٹن عہد حکومت کے جوائنٹ چیف آف سٹاف کے چیئرمین جنرل ہیو شیلٹن کے مطابق جب صدر کلنٹن سے معمول کی سکیورٹی وجوہات کی بنا پر تبدیل کرنے کی غرض سے خفیہ کوڈ مانگا گیا تو انہیں نے چالاکی سے یہ کہہ کر اپنا پلو بچانے کوشش کرتے ہوئے کہا کہ وہ کسی میٹنگ میں مصروف ہیں اور اس معاملے کو بعد میں دیکھیں گے۔ پھر پوری امریکی ایٹمی میزائل فورس کو اس عمل سے روک دیا گیا کیونکہ کلنٹن اپنے ماتحتوں کے سامنے خفت نہیں اٹھانا چاہتے تھے اور ان کے علاوہ کسی کے پاس ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کی اجازت کا اختیار نہ تھا۔ شیلٹن کہتے ہیں کلنٹن کی ایٹمی کوڈز کی نگرانی ’کامیڈی آف ایرر‘ تھی۔
صدر نکسن کے بطور صدر اپنے آخری دن شدید دباؤ، تھکاوٹ، ذہنی عدم توازن، نیند کی گولیوں اور کثرت شراب کے سہارے وائٹ ہاؤس کی راہداریوں کو گھورتے اور سابق صدور کی دیواروں سے لٹکی تصاویر سے باتیں کرتے ہوئے گزرتے۔ اپنی صدارت کے ابتدائی دنوں میں نکسن نے شراب کے نشے میں دھت ہو کر شمالی کوریا پر بطور جنگی چال ایٹمی حملے کے احکامات جاری کرنے کی کوشش کی تھی لیکن وہ اپنی بات مکمل نہ کر سکے تھے۔
صدر ٹرمپ کی شہرت یہی ہے کہ وہ پینے پلانے سے گریز کرتے ہیں۔ لیکن کرونا کے علاج کے لیے وہ کورٹیکو سٹیرائیڈز کا استعمال کرتے ہیں یا کرتے رہے ہیں۔ اس دوا کے مضر اثرات میں اضطراب سے لے کر دماغی خلل، شدید غصہ اور ناقابل برداشت جذبات جیسی بدلتی کیفیات شامل ہیں۔ لیکن ابھی تک ان کی دیوار پر نصب تصاویر سے بات کرنے کی اطلاعات نہیں ملیں۔ اگرچہ ٹرمپ کے مخصوص طرز زیست کے پیش نظر بھی ان کا رویہ بالکل عجیب و غریب اور غیر متوقع ہے۔ بطور امریکی فورسز کے سربراہ ٹرمپ ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کی اجازت دے سکتے ہیں اور اس کام کے لیے اگر وہ خود نہ چاہیں تو انہیں کسی سے مشورے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔
ہر صبح روزانہ کی انٹیلی جنس سمری کے ساتھ کریڈٹ کارڈ کی طرح کا ایک پلاسٹک کارڈ انہیں ایک چھوٹے سے بند بٹوے میں دیا جاتا ہے جس کے اوپر نمبروں کی ایک قطار ہوتی ہے۔ کارڈ کو ’دا بسکٹ‘ کا نام دیا گیا ہے۔ کلنٹن کے واقعے کے بعد سے پینٹاگون کی طرف سے سنہرے حروف کے سلسلے سے سجا ہر روز تازہ ترین بسکٹ صدر کو ہیش کیا جاتا ہے۔
ایٹمی جنگ برپا کرنے کے لیے صدر کو بس اپنا بٹوہ کھولنا، اس دن کے سنہرے نمبروں کو پڑھنا اور انہیں اس خفیہ کوڈ سے جوڑنا ہوتا ہے جو صدارت کے عہدے کے ساتھ ہی انہیں یاد کروا دیا جاتا ہے۔ وہ اپنی شناخت یقینی بنانے کے لیے دونوں کوڈ ایک ساتھ استعمال کرتے ہیں۔ یہ دہرا نظام اور روزانہ اپ ڈیٹس صدر کلنٹن کی ناکامی کے بعد اس طرح متعارف کروائی گئی تھیں کہ اگر مثال کے طور پر مونیکا لیونسکی، سٹورمی ڈینیئلز یا روسی خفیہ ایجنسی کے جی بی کے ہاتھ کارڈ لگ جائے یا وہ اسے چرا لیں تو اسے استعمال نہ کر سکیں۔ اس مرحلے پر صدر کو تحریری شکل میں موجود دستاویز OPLAN 80-10 سے رجوع کرنا ضروری ہوتا ہے۔ ان کا دائرہ کار ممکنہ طور پر محدود یا بطور جنگی چال ایٹمی حملے سے لے کر مشہور فلم ’ڈاکٹر سٹرینج لو‘ کی طرح پوری دنیا کو لپیٹ میں لے سکتا ہے۔
معلومات کے بنیادی حق تک رسائی کے قانون کو استعمال کرتے ہوئے امریکی سائنس دانوں کی ایک تنظیم اس دستاویز کے کچھ حصے حاصل کر چکی ہے۔ زیادہ تر اختیارات کا رخ بظاہر روس، چین، شمالی کوریا، ایران، شام اور بڑے پیمانے پر تباہ کن ہتھیاروں کا استعمال کرنے والے غیر ریاستی عناصر یعنی دہشت گردوں کی طرف ہے۔ پینٹاگون کے جانب سے بے شمار جدید ترین منصوبے تیار ہیں اور یہ پہلے سے پروگرام ہوئے ہوتے ہیں جس کے لیے oven ready کی اصطلاح وضع کی گئی ہے۔ ان کے مطابق وہ ایٹمی میزائلوں کی مختلف تعداد اور اقسام کے علاوہ اہداف کی فہرستیں مرتب کرتے ہیں۔ صدر نے بس انگلی سے اپنی مرضی کا انتخاب کرنا ہے۔
’سیاہ کتاب‘ کے نام سے معروف OPLAN 80-10 کتابچہ مخصوص دھات سے بنے بریف کیس میں رکھا جاتا ہے جسے ’ایٹمی فٹبال‘ کہا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ آلاتِ مواصلات، جام نہ کیے جا سکنے والے اور بم پروف فون جیسی بہت ساری دیگر چیزیں بھی اس میں ہوتی ہیں۔ یہ مخصوص فٹبال امریکی صدر کی حفاظتی ٹیم کے ایک رکن کے پاس ہوتا ہے جو ہر وقت چند قدموں کی فاصلے پر اس کے ساتھ ساتھ رہتا ہے۔
اس سال کے آغاز میں سی این این کی ایک رپورٹ کے مطابق جب صدر گولف کھیلتے ہیں تو اپنے گولف کلبز کے ساتھ ساتھ یہ فٹبال گولف گاڑی میں لیے پھرتے ہیں۔ سابق صدور کے لیے فٹبال ایک خوفناک موت کا ناقوس اور احساس ذمہ داری کا باعث تھا، جبکہ اس کے برعکس ٹرمپ نے اپنی مار ا لاگو سیرگاہ کو بطور پیئنگ گیسٹ منتخب کیا اور مسکراتے ہوئے اس کے بٹن پر ہاتھ رکھ کر اپنے دورے کی یادگار کے طور پر تصاویر بنوائیں۔
صدر ٹرمپ مارا لاگو یا دنیا کے کسی بھی کونے سے کسی بھی وقت ایٹمی حملے کی اجازت دے سکتے ہیں لیکن نیوکلیئر پلاننگ ٹیم کو توقع ہو گی کہ وہ یہ کام اپنے گولف کلب یا ٹرمپ ٹاور میں اپنے سونے کی پلیٹوں والے بیت الخلا سے سرانجام دینے کے بجائے وائٹ ہاؤس کے مغربی حصے میں اس مقصد کے لیے بنے تہہ خانے کو ترجیح دیں۔ عوامی ٹیکس کے پیسوں سے بنا یہ تہہ خانہ سی آئی اے، ملٹری انٹیلی جنس، ایٹمی حملے کے خدشے سے پیشگی آگاہی والے نظام، برقی رکاوٹوں اور دنیا بھر سے نہایت مستند اور قابل اعتبار خفیہ خبروں کی خوشہ چینی کے ساز و سامان سے لیس ہے۔
سیاہ کتاب میں ایران پر حملے کی صورت میں ممکنہ اہداف کی پہلے سے تیار شدہ فہرست کی شمولیت واشنگٹن کے لیے باعث تشویش ہے۔ روس، چین اور یہاں تک کہ جنوبی کوریا پر حملے کی صورت میں جوابی حملوں کا خطرہ بہت زیادہ بڑھ جائے گا کیونکہ یہ طاقتیں ایسے طاقتور میزائل رکھتی ہیں جو براعظمِ امریکہ کو نشانہ بنا سکیں۔ جنوبی کوریا کے پاس ایسے میزائل نہیں ہیں جن کی رسائی واشنگٹن یا نیویارک تک ہو لیکن ممکن ہے موجودہ حکومت نے کیلی فورنیا تک مار کرنے کی گنجائش پیدا کر لی ہو جبکہ جاپان، شمالی کوریا اور ان میں موجود امریکی دستوں کی تنصیبات پر ایٹمی حملوں کے لیے میزائل تو یقیناً ان کے پاس موجود ہیں۔ ایک امکان یہ بھی ہے کہ چین، جس کے پاس بین البراعظمی بیلسٹک میزائل نہیں ہیں، وہ جنوبی کوریا کی جانب سے امریکہ کے خلاف جوابی ایٹمی حملے شروع کر دے۔
امریکہ کے خلاف براہ راست جوابی حملوں کی طاقت ایران کے پاس نہیں لیکن ٹرمپ کو یہ اطمینان کر لینا چاہیے کہ روس یا چین اس کی طرف سے جوابی کارروائی نہیں کریں گے۔ بنیادی طور پر ٹرمپ کو ایران پر حملے سے پہلے ولادی میر پوتن سے اجازت لینا ہو گی۔ ٹرمپ کے لیے سیاسی کشش بھی معمولی نہ ہو گی۔ اور کچھ نہیں تو یہ ایرانی انقلابی حکومت کا فوری اور تاریخی خاتمہ ہو گا اور وہ تاریخ کی کتابوں میں اپنا نام نپولین اور چرچل کے ساتھ دیکھنا چاہیں گے، جس کی قیمت لاکھوں ایرانی شہریوں کی موت اور زخمیوں کی صورت میں ہو گی جو آنے والی کئی دہائیوں تک دنیا بھر میں امریکی حیثیت کو بری طرح متاثر کر دے گا۔ اگر ٹرمپ پوتن کی رضامندی کے بغیر ایران پر حملہ کرنا چاہتے ہیں تو انہیں کم سے کم روس کی جانب سے جوابی ایٹمی میزائلوں کے لیے تیار رہنا ہو گا۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہاں وسیع اور ممکنہ حد تک فُول پروف انتظامات پہلے سے موجود ہیں جو سرد جنگ کی طویل سیاہ دہائیوں میں پنپے تھے جب ایسے حملے ہوتے نہیں تھے لیکن بہرحال خدشہ موجود رہتا تھا۔
امریکہ کے خلاف ایٹمی حملے کی صورت میں پہلے میزائل مشرقی ساحل سے روسی آبدوزوں کے ذریعے پھینکیں جائیں گے جو وائٹ ہاؤس، واشنگٹن اور نیویارک کو 15 منٹ میں آ لیں گے۔ ایٹمی فٹبال کے ساتھ صدر وائٹ ہاؤس سے مرین ون میں اینڈریو ایئر فورس بیس کی طرف سفر کریں گے۔ مرین ون صدر کے 30 ہیلی کاپٹروں کے سلسلے میں سے ایک ہے۔ 11 میل کے سفر کے لیے تقریباً چار منٹ درکار ہوں گے۔ مرین ون ہمیشہ ایک جیسے پانچ ہیلی کاپٹروں کے منظم غول کی صورت میں سفر کرتا ہے جس کا مقصد صدر کے مار گرائے جانے کے امکان کو دھوکہ دہی سے کم کرنا ہوتا ہے۔ (ایک ساتھ کئی ہیلی کاپٹر ایک مقبول لیکن جھوٹی سازشی تھیوری کا باعث بھی بنتے ہیں کہ دراصل دو ملانیا ٹرمپ ہیں جن میں سے ایک اصل کی ہمشکل ہے اور وہ مختلف وقتوں میں مختلف تقریبات میں براجمان کی جاتی ہیں اور اس کا مقصد انہی دہشت گردوں کے حملوں کو چکمہ دینا ہے)۔
ایئر فورس ون پر محفوظ طریقے سے صدر فٹبال میں سے سیاہ کتاب نکالیں گے، اپنی مرضی کے ایٹمی حملے کا انتخاب کریں گے اور بسکٹ کے استعمال سے اپنی آئی ڈی کنفرم کریں گے اور باقی کارروائی کے لیے جوائنٹس چیفس آف سٹاف کے سربراہ جنرل مارک اے ملری کے حوالے کر دیں گے۔
اس موقعے پر ایٹمی اختیار صدر سے فوج کو منتقل ہو جائے گا جو ہر حال میں منصوبے پر عمل درآمد یقینی بنائے گی چاہے ائیر فورس ون گرا دیا جائے اور صدر جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔ بغیر کوئی سوال کیے اب بات بحث مباحثے، سیاست اور مشوروں کی حدود سے نکل کر فوری عمل درآمد کے زمرے میں داخل ہو جائے گی۔ اس کے بعد صدر کا مزید کردار باقی نہیں رہ جاتا۔
چمکتے دمکتے پررونق بڑے امریکی شہروں سے ممکنہ حد تک الگ تھلگ دور دراز کے علاقے نیبراسکا میں واقع آفٹ ایئر بیس میں موجود امریکی سٹریٹیجک کمانڈ ایچ کیو کے عملے کو ہدایات دیتے ہوئے جنرل ملری فیصلہ کن پوزیشن میں ہوں گے۔ سٹریٹیجک کمانڈ پھر آفٹ میں واقع اپنے جنگی کمرے سے کوڈڈ لانچ سگنلز منتقل کرے گی۔ چند لمحوں بعد منصوبے کے مطابق درجنوں آبدوزیں، اسلحے سے لدے ہوائی جہاز، میزائل اور بمباری والے جنگی جہاز میزائل داغنے لگیں گے۔
یہ پہلی مرتبہ نہیں ہو گا کہ آفٹ سے ایٹمی حملے کیے جائیں گے۔ 1945 میں انولا گے آفٹ میں ہی ایٹم بم سے بھر کر تیار کیا گیا تھا جسے ہیروشیما پر گرایا گیا تھا۔ یہ حملہ ایٹمی عہد اور امریکی جنگی حربوں کی برتری کا نقطہ آغاز تھا۔ سٹینلی کوبرک کی سرد جنگ کے دنوں میں شاہکار طنزیہ فلم ’ڈاکٹر سٹرنیج لو‘ فرضی فضائیہ کے افسانوی لوکیل میں آفٹ کی عکاسی تھی۔ فلم میں جنرل جیک رپر ہے جو عدم توازن کے شکار ٹرمپ کی طرح خود پرست ہے جو حملے کے لیے درکار حتمی کوڈز اس لیے منتقل کر دیتا ہے کیونکہ اس کے خیال میں روس پانی میں فلورین ملا کر امریکیوں کے دماغ قابو میں لینے کی کوشش کر رہا ہے۔
اس کے نتیجے میں ممکنہ خوف و ہراس کے پیش نظر اہم فوجی ذمہ داروں کے درمیان بنکر میں ایک زبردست بحث چھڑ جاتی ہے جو اس لافانی جملے کا باعث بنتی ہے صاحب برائے مہربانی وار روم میں نہ ل نہیں (“Gentlemen, please – no fighting in the war room.”)۔ درحقیقت آفٹ میں معاملات ہمیشہ سیدھے سبھاؤ نہیں ہوتے۔ حالات کی ایک سنگین ستم ظریفانہ کروٹ جو کوبرک کے بھی وہم و گمان میں نہ تھی، وہ پچھلے سال آفٹ کا دریائے مزوری کے سیلاب کی وجہ سے ناکارہ ہونا تھا۔ اس طرح جنرل ملری کا ٹرمپ اور کانگریس کو مشورہ درست ثابت ہوا کہ امریکہ کی قومی سلامتی کے لیے ایٹمی حملے کے امکان سے بڑا خطرہ موسمیاتی تبدیلی ہے۔ یہاں تک کہ جب فوجی اڈا چھ فٹ تک زیرآب نہ ہو تب بھی میزائلوں کی دیکھ بھال اور چلانے والے ذمہ داروں اور افسروں کے درمیان نفسیاتی، اخلاقی اور نظم و ضبط کے مسائل چلتے رہتے ہیں۔
سٹریٹیجک کمانڈ کوڈز جن کے ذریعے فوری میزائل چلائے جا سکتے ہیں وہ ہر میزائل کے ساتھ ایک تجوری میں بند تہہ خانوں میں رکھے جاتے ہیں اور The Rough Riders کے نام سے معروف میزائل چلانے والے عملے کے حوالے کیے جاتے ہیں۔ ہر میزائل کم سے کم چار افسروں اور پورے عملے کی ایک فہرست رکھتا ہے۔ تجوری کو کھولنے کے لیے عملے کے دو لوگوں کو دو مختلف چابیاں استعمال کرنا پڑتی ہیں۔ مزید پیش بندی کے لیے کم از کم عملے کے دو میں سے ایک بندے کو اسلحے سے لیس ہونا چاہیے اور اسے تربیت دی جاتی ہے کہ اگر عملے کے دوسرے افراد میں سے کوئی بھی پاگل پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے بغیر اجازت میزائل چلانے کی کوشش کرے یا ممکنہ طور پر قانونی ہدایات موصول ہونے کے باوجود میزائل چلانے سے روکنے کی کوشش کرے تو اسے گولی سے اڑا دیا جائے۔
درحقیقت سلامتی کے معاملات میں شکستہ دلی، بدنظمی اور عہد شکنی بکثرت پائی جاتی ہے۔ میزائلوں سے متعلقہ عملے کے باقاعدگی سے نفسیاتی جائزے لیے جاتے ہیں کہ وہ دماغی طور پر تندرست ہیں۔ 2014 میں کئی افسران اس لیے برطرف کیے گئے کہ وہ استعداد جانچنے والے امتحانات کے دوران متعلقہ جوابات انٹرنیٹ کے ذریعے ایک دوسرے کو بتا کر نقل کی کوشش کر رہے تھے۔
پچھلے سال ایک چھاپے کے نتیجے میں مختلف وجوہات کی بنا پر منشیات کا استعمال کرنے والے میزائلوں سے متعلقہ عملے کے 90 لوگ برطرف کیے گئے اور 17 دیگر افسران سلامتی کو درپیش مختلف خطرات کی وجہ سے فارغ کیے گئے۔ اس کے علاوہ عملے کی مناسب راہنمائی نہ کرنے کی بنیاد پر 10 سینیئر افسران اور بیس کمانڈر برطرف کیے گئے۔ محض ایک سال کے دوران اس قسم کے چار سکینڈلز حیران کن ہیں۔ یہ کام نہایت اکتا دینے والا اور حقیقی حملے کے لیے کوڈ وصول ہونے کے امکانات اس قدر کم ہیں کہ عملہ بالخصوص رات کے وقت ایک شخص کو نگرانی سونپ کر نیند کے مزے لوٹنے لگتا ہے۔
سوال یہ ہے کیا ملری صدر کے احکامات بجا لائیں گے؟ ماہرین شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ زیادہ امکان ہے وہ استعفیٰ دے دیں گے یا حکم ماننے سے صاف انکار کر دیں گے۔ اس کا نتیجہ بغاوت بلکہ ایک طرح کی فوجی بغاوت کی صورت میں نکلے گا ماسوائے یہ کہ انہیں یقین ہو کہ امریکہ ایٹمی حملے کے خطرے سے دوچار ہے۔ یہی پیری کا نقطۂ نظر ہے کہ ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کا مکمل اختیار ایک شخص صدر کے حوالے کرنے کا ممکنہ نتیجہ صدر کے کسی بھی دوسرے احمقانہ فیصلے کے مقابلے میں زیادہ تباہ کن سیاسی بحران کا باعث بن سکتا ہے۔
ایک اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ کسی باقاعدہ نگران کے بغیر ایٹمی طاقت اور جب کسی ایک شخص کے پاس انہیں استعمال کرنے کا اختیار نہیں ہو گا تو ایٹمی ہتھیاروں کو جواز فراہم کرنے والی ڈیٹرینس تھیوری کے مطابق یہ حملے کی دعوت یا کم سے کم اچانک ایٹمی حملے کے خطرات بہت زیادہ بڑھا دے گا کیونکہ امریکہ فوری جوابی کارروائی کرنے سے قاصر ہو گا۔ ایسے مسائل کی وجہ سے پچھلے 40 سال میں پہلی بار کانگریس نے ایٹمی ہتھیار چلانے کے خصوصی صدارتی اختیار کا جائزہ لیا ہے۔ امریکی سٹریٹیجک ملٹری کمانڈ کے سابق کمانڈر رابرٹ سی کیلر نے حقائق پیش کرتے ہوئے کہا کہ اگر انہیں ایٹمی حملے کا حکم دیا گیا تو مخصوص حالات کی وجہ سے ہی وہ انکار کریں گے وگرنہ احکامات قانونی ہیں۔
عالمی قوانین میں ایٹمی ہتھیاروں کا کسی بھی طرح کا استعمال یا ان کی استعمال کی دھمکی غیر قانونی سمجھی جاتی ہے کیونکہ اس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر عام شہریوں کا متاثر ہونا ناگزیر ہے۔
ایٹمی حد بندی قانون کے بجائے ہمیشہ طاقت اور ضرورت سے طے کی گئی ہے۔ تاہم جب پوچھا گیا کہ اگر جوائنٹ چیفس آف سٹاف کے سربراہ حکم ماننے سے انکار کر دیں تو کیا ہو گا؟ اس کے جواب میں کیلر نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا، ’میں نہیں جانتا۔‘ کمیٹی ہنسنے لگی۔
ایسا لگتا ہے جنرل ملری ٹرمپ کی طرف سے ایٹمی حملہ کرنے کے بجائے یقیناً استعفیٰ دے دیں گے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اس ہفتے دفاعی شعبے میں ذاتی وفاداری کی بنیاد پر تمام سیاسی تقرریوں کے برعکس ملری نے غیر سیاسی فوجی قائد اور مینجر کے کیریئر سے بتدریج خود مختار طریقے سے یہ عہدہ حاصل کیا ہے۔
ملری ٹرمپ کے خلاف کھڑا ہونے سے خوف زدہ نہیں ہے۔ اس سال کے آغاز میں واشنگٹن کے مقام پر سیاہ فاموں کے احتجاج کو ختم کرنے کے لیے فوج کے استعمال پر ملری نے ٹرمپ کو تنقید کا نشانہ بنایا بلکل اسی غیر وفادار نہ قدم کی بنیاد پر ٹرمپ نے وزیرِ دفاع ایسپر کو اس ہفتے برطرف کیا۔ الیکشن مہم کے دوران اپنے نام اور شہرت کو دوبارہ جیت کے لیے استعمال کرنے پر ملری نے سرعام ٹرمپ کو شرمندہ کیا۔ اگرچہ انہیں کامیابی نہیں ملی لیکن ملری نے ٹرمپ پینٹاگون کو موسمیاتی تبدیلی اور عالمی وبا کا مقابلہ کرنے کے لیے فوجی منصوبوں پر آگے بڑھنے کے لیے قائل کرنے کی کوشش بھی کی تھی۔
ملری ممکن ہے ایٹمی معاملے پر ڈاکٹر فاؤچی جیسے رویے کا مظاہر کریں جنہیں ٹرمپ ناپسند کرتے ہیں لیکن اپنی شعبہ جاتی مہارت کی وجہ سے انہیں ہٹا نہیں سکتے۔ واشنگٹن میں پھیلی غیر یقینی صورت حال اور ابتری کے دوران یہ بات کافی حد تک قابل اطمینان ہے کہ جس شخص کی انگلی بٹن پر ہے وہ ’ڈاکٹر سٹرینج لو‘ کے بجائے ڈاکٹر فاؤچی جیسا ہے۔