شاہد ملک 319

کھُلی کھڑکیاں اور شاخوں پہ اشک

کھُلی کھڑکیاں اور شاخوں پہ اشک
شاہد ملک
بعض لوگوں کو اپنی مشابہت فلم ایکٹروں میں تلاش کرنے کا شوق ہوتا ہے۔ ہماری نوجوانی میں یہ جاننے کا خبط عام تھا کہ بھئی، کس کس کی آنکھیں بھارتی اداکارہ ہیما مالنی سے ملتی ہیں۔ دو ایک دوستوں کو جواب میں سننا پڑا کہ جاؤ ہیما مالنی تو ایک طرف، تمہاری تو ایک آنکھ دوسری سے نہیں ملتی۔ اسی وضع کا ایک شاعر گورڈن کالج راولپنڈی کی ادبی تقریب میں نظم سنانے کے لئے اٹھا تو اُس نے ’زاویہ ء نگاہ‘ درست رکھنے کی خاطر بالوں کی لِٹ اپنی ایک قدرے چھوٹی آنکھ پہ گرا رکھی تھی۔ نظم کا عنوان تھا ’کالج کا لیڈیز گارڈن‘ جس کے گرد ایک گھنی باڑ چادر اور چار دیواری کی حفاظت کیا کرتی۔ نوجوان شاعر نے باڑ کو پھلانگنے کی علامتی خواہش ظاہر کرتے ہوئے کہا ”میرے ماتھے پہ آنکھوں کی دو تتلیاں۔۔۔‘‘ سامعین میں سے شعیب بن عزیز کی آواز آئی ”ڈیڑھ تتلی“۔ شاعری قہقہوں کے شور میں ڈوب گئی۔

آج کی کہانی شاعری کے لورے میں رہنے والی ہماری اُس انسانی تکون کے گرد گھومتی ہے جس کا زاویہ ء قائمہ زمان ملک تھا۔ بطور طالب علم لاہور سے راولپنڈی آ جانے پر میری اِس نئے ہم جماعت سے آشنائی تو گورڈن کالج کا گیٹ پار کرتے ہی ہو گئی۔ پھر یہ تعلق عین اُس لمحے پکی دوستی میں بدلا جب زمان نے چھٹی ہونے پر مجھے سڑکوں پہ گھومتے رہنے کی بجائے ہر روز کچھ نہ کچھ وقت ساتھ گزارنے کی کھُلے دل سے دعوت دی تھی۔ ”دوپہر نوں میرے ول آ جایا کر، چنگی روٹی نوں چھڈ کے ہر سہولت ملے گی“۔ اس بے ساختہ پن کی بدولت زمان جلد ہی میری لغت میں ’خان‘ بن گیا، جو اُس کا گھر کا نام تھا۔ ہاں، ڈیڑھ تتلی والے ہم جماعت امانت ندیم مرحوم ہمیشہ ندیم صاحب رہے جن سے تعارف زمان ہی نے کرایا اور پھر وہ ہم تینوں کے مشترکہ شعری مجموعے کے پبلشر بھی بن گئے۔

بین الکلیاتی مشاعروں کو کرکٹ کی اصطلاح میں تخلیقی سرگرمیوں کا ٹونٹی ٹونٹی سمجھنا چاہئیے۔ ہم تینوں اُن پیشہ ور طلبہ میں تو نہیں تھے جن کی گزر بسر کالج یونیورسٹی کے شعری اور تقریری مقابلوں پہ ہوتی ہے۔ پھر بھی کئی بار کلاس میں پہنچ کر پتا چلتا کہ آج ہی پچھلے پہر کسی مقامی درسگاہ میں مشاعرہ ہے اور کل بھی اسی غرض سے شہر سے باہر جانا ہوگا۔ تینوں میں سے ایک آدمی نظم کہنی شروع کر دیتا اور باقی دو بندے طرحی غزل کے مصرعے جوڑنے لگتے۔ میچ جیتنے کے لئے ہم نے اتنی نیٹ پریکٹس کر لی تھی کہ تکون کے ضلعے ذرا آگے پیچھے ہو بھی جائیں تو تینوں زاویوں کا مجموعہ دو قائموں کے برابر ہی رہتا۔ اِس سارے عمل میں چالاکی یہ تھی کہ قافیہ گھسی پٹی ڈگر سے ہٹ کر باندھو اور گرہ لگاتے ہوئے تھوڑا سا ڈرامائی تاثر بھی پیدا کرو۔ نمونے کے طور پر یہ مصرعہء طرح جسے مطلع ہی میں لپیٹ دیا تھا:

’انساں کی آرزو میں خدا بھی شریک ہے‘

چونکہ لوگوں کو شاعرانہ کلام میں معانی تلاش کرنے کی عادت ہوتی ہے، اس لئے ہو سکتا ہے آپ پوچھیں کہ آخر اِس شعر کا مطلب کیا ہے۔ مَیں جواب میں اپنے عہد کے نظیر اکبر آبادی اور استادِ ادب پروفیسر انور مسعود کا یہ مزاحیہ قول دہرا ؤں گا کہ ”میریاں نظماں دی پرہیز ایہہ ہے کہ ایہناں تے بوہتا غور نئیں کرناں‘‘۔ مشاعرہ پڑھنے کے انداز میں ہم تینوں انور مسعود سے زیادہ احمد ندیم قاسمی سے متاثر تھے۔ اسی لئے اُنہی کی طرح سگریٹ پی پی کر ذرا بیٹھی ہوئی مگر گمبھیر آواز نکالنے کی کوشش کرتے اور خاص خاص الفاظ ایک متین اتار چڑھاؤ کے ساتھ ادا کرکے مشاعرہ لوٹ لیتے۔ اگر ہو سکے تو ندیم قاسمی کا لہجہ یاد کیجئے اور پنڈی کے حشمت علی اسلامیہ کالج میں جہاں مرزا غالب ہماری مشقِ سخن کی زد میں آئے، میری غزل کے تیور دیکھئے:
غم کی تجلیات کو ارزاں کئے ہوئے

ہم آ گئے ہیں چاک گریباں کئے ہوئے

شہرِ خیال میں کبھی اترے نگار ِ غم

’مدت ہوئی ہے یار کو مہماں کئے ہوئے‘

ایک مرتبہ گورنمنٹ کالج، اٹک کے انٹر کالجئیٹ انعامی مشاعرے میں پرنسپل، لیفٹننٹ کمانڈر ظہور احمد، ڈاکٹر غلام جیلانی برق اور پشاور کے ترقی پسند شاعر فارغ بخاری، رضا ہمدانی اور خاطر غزنوی کے سامنے بھی مَیں نے خاطر صاحب کی مقبول زمین میں غزل سنائی اور اول انعام حاصل کیا۔ پر جی، حاصل مشاعرہ میرا کلام نہیں بلکہ زمان ملک کی غزل تھی جسے امانت ندیم اور مَیں اپنے پروفیسر کے طور پہ ساتھ لے گئے تھے۔ بیس سالہ زمان نے انٹر کالجئیٹ مقابلہ کے بعد سینئر شعرا کے دور میں بزرگانہ رکھ رکھاؤ کے ساتھ کلام پیش کیا اور آگ لگا دی۔ مقطع سن کر پروفیسر انور مسعود نے کھڑے ہو کر ہاتھ ہوا میں لہرائے۔ ’کیہہ کہہ گیا ایں زمان ملک۔۔۔ کھڑ کیاں کون کھلی چھوڑ گیا آنکھوں کی‘۔ والہانہ داد دیتے ہوئے انور مسعود نے پنجابی طریقہ کے مطابق لفظ ’ملک‘ کے درمیانی ’ل‘ کو ساکن کر دیا تھا۔ پورا شعر ہے:
تیرگی دل میں اترنے لگی راتوں کی، زمان

کھڑکیاں کون کھُلی چھوڑ گیا آنکھوں کی

لگ بھگ پچاس سال کے وقفے سے گورڈن کالج والی ایم اے کے گروپ فوٹو پہ نظر پڑی تو کیا دیکھا کہ انگریزی ڈپارٹمنٹ کے اساتذہ والی قطار میں آزاد جموں و کشمیر کے موجودہ صدر سردار مسعود خان (تب مسعود عبداللہ) کے ساتھ امانت ندیم بھی اگلی کرسیوں پہ ڈٹے ہوئے ہیں۔ پر اِس شان سے کہ تصویر میں بھی بالوں کی لِٹ دائیں آنکھ کی پردہ داری کر رہی ہے۔ اِس تجدیدِ ملاقات پر انہی کی شاعری میرے کالم کا موضوع بنتی تو اچھا تھا۔ یہ اس لئے کہ ہم تینوں کے منتخبہ مجموعے ’لوحِ سفال‘کی اشاعت کی بدولت اس دوست نے مشہوری کے نسخے ہی نہیں، کتابوں کی تجارت کے ایسے اسرار و رموز بھی سمجھا دئے تھے کہ پھر اپنا کلام چھپوانے کی جرات نہیں ہوئی۔ یہ داستان کسی اور وقت۔ آج بس اتنا ہی کہ زمان ملک کی ’کھڑکیاں کون کھلی چھوڑ گیا‘ والی غزل ہو یا امانت ندیم کی تُو نے کس پیڑ پہ جا رنگ بکھیرے اپنے‘ ہمارا گمشدہ ہیرو ایک ہی ہے۔۔۔ اور وہ ہے عین جوانی میں دنیا سے منہ موڑ لینے والا ندیم، جس کا یہ مطلع بھولنے کا نہیں:
تُو نے کس پیڑ پہ جا رنگ بکھیرے اپنے

میری ہر شاخ پہ تو اشک ہیں میرے اپنے