اوریا مقبول جان 320

کرگس کا جہاں اور ہے شاہیں کا جہاں اور (آخری قسط)

کرگس کا جہاں اور ہے شاہیں کا جہاں اور (آخری قسط)
اوریا مقبول جان
راجستھان کے ضلع اودھے پورمیں ایک پہاڑی مقام ’’موتی مگری‘‘ ہے جس کی سب سے بلند چوٹی پر ہندوؤں کی جدید تاریخ کے سب سے بڑے ہیرو ’’مہاراجہ پرتاب سنگھ‘‘ کا مجسمہ نصب ہے، جو اپنے پسندیدہ گھوڑے چیتک پر سوار ہے۔ یہ مجسمہ 17جون 1576ء میں ہونے والی ہلدی گھاٹی کی لڑائی کی یاد میں تعمیر کیا گیا ہے ۔ یہ لڑائی مغل بادشاہ اکبر کی افواج اورمیواڑ کے راجہ پرتاب سنگھ کے درمیان ہوئی تھی۔۔ لیکن ہم سب کے لیئے حیرت کا ایک اور سامان بھی اسی موتی مگر ی کی پہاڑیوں پر موجود ہے اور وہ ہے ایک پٹھان جرنیل ’’حاکم خان سور‘‘ کا مجسمہ جس میں وہ ایک بہت بڑا نیزہ ہاتھ میں پکڑے، زرہ بکتر پہنے، سر پر خودسجائے آسمان کی بلندیوں کی جانب دیکھ رہا ہے۔ یہ پشتون جرنیل حاکم خان سور، رانا پرتاب سنگھ کی ان ہندو افواج کا سربراہ تھا،جو بظاہر ایک مسلمان بادشاہ اکبر کی فوج سے لڑا تھا۔اکبر کی مسلمان فوج جس کا جرنیل راجہ مان سنگھ تھا۔ حاکم خان سور کے ساتھ دو ہزار کے قریب ایسے وفادار پٹھانوں کا دستہ تھا جو اکبر کی فوجوں کے ساتھ لڑتے ہوئے، ہندوؤں کے نزدیک’’ سورگ باش‘‘ اور مسلمانوں کے نزدیک ’’شہید‘‘ ہوئے تھے۔ حاکم خان سور کا سر کاٹ کر اکبر کی ’’مسلمان‘‘ فوج میں گھمایا گیا تھا، اسی لیئے اس کی قبر ہلدی گھاٹی میں ہے اور اس کے سر کی قبر ’’رختلائی‘‘ میں واقع ہے۔ ہر سال 18جون کو یہ علاقہ روشنیوں اور رنگوں سے جگمگا اٹھتا ہے، رانا پرتاب سنگھ کی برسی منائی جاتی ہے اور حاکم خان سور کا عرس۔ اس عرس کا نام شہیدی دیواس ہے۔ ہندو مہاراجہ پرتاب سنگھ کے لیئے جان دینے والا یہ حاکم خان سور اور اس کے وفادار افغان سپاہی اسی قبیلے سے تعلق رکھتے تھے، جس قبیلے سے برصغیر پاک و ہند کے عظیم پشتون مسلمان حکمران ’’شیرشاہ سوری‘‘ کا نام جڑا ہوا ہے۔نسل، زبان اور رنگ کے ایسے بیشمار حوالوں سے برصغیر کی تاریخ بھری پڑی ہے۔ احمد شاہ ابدالی جس نے جدید افغانستان کی بنیاد رکھی، اس کا برصغیر کے مسلمانوں پر ایک احسان یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ شاہ ولی اللہ کی دعوت پر مرہٹوں سے لڑنے کے لیئے ہندوستان پر حملہ آاور ہو اور اس نے ہندو مرہٹہ راجہ ’’شیوا جی‘‘ کو1761ء میں پانی پت کی تیسری لڑائی میں شکست دے کر آج سے تقریباً تین سو سال قبل ’’ہندوتوا‘‘ کا خواب چکنا چور کر دیا۔ لیکن تاریخ بہت ظالم ہے، اسی احمد شاہ ابدالی کے مقابلے میں ہندو شیوا جی کی فوج کا ڈپٹی کمانڈر ایک پشتون مسلمان ابراہیم خان بھی تھا جو اپنے دو بیٹوں اوراپنے وفادار قبیلے والوں کے ساتھ بے جگری سے لڑا، شدید زخمی ہوا، احمد شاہ ابدالی کے ایک جرنیل شجاع الدولہ نے اسے گرفتار کر کے احمد شاہ ابدالی کے سامنے پیش کیا۔ احمد شاہ ابدالی نے اسے طعنہ دیتے ہوئے کہا کہ تم ایک مسلمان اور پشتون ہونے کے باوجود ایک ہندو مرہٹے کی فوج کے لیئے لڑتے رہے ہو، تم اس پر شرمندگی کا اظہار کرو اور معافی مانگو، تو میں تمہیں اپنی فوج میں اعلیٰ منصب عطا کر دوں گا۔ابراہیم خان کا جواب اس کے بقول ، پشتون ولی اور پشتون روایات کا علمبردار تھا کہ میں اپنی آنے والی نسل کے لیئے بے وفائی کا طعنہ (پیغور) چھوڑ کر نہیں جاؤں گا۔ اس کے بعد اسے اذیتیں دے کر قتل کر دیا گیا۔ دکن کے ہندوؤں کی کہانیوں، گیتوں، فلموں اور ڈراموں میں ابراہیم خان کا کردار ویسے ہی زندہ ہے جیسے مسلمانوں کی تاریخ میں احمد شاہ ابدالی کا کردار۔ میں تاریخ کی ایسی غلاظت مزید کھنگالنا نہیں چاہتا۔ تاریخ بہت ظالم ہے، یہ اقبال کے اس شعر کی مصداق ہے۔ پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں کرگس کا جہاں اور ہے شاہیں کا جہاں اور محمود خان اچکزئی صاحب نے لاہور میں جس جنگ کو ’’افغان وطن‘‘ اور برطانوی استعمار کی جنگ بنا کر پیش کیا،اس جنگ میں ان کا اپنا اچکزئی قبیلہ دو حصوں میں تقسیم ہو گیاتھا ۔ ایک حصہ انگریزوں کے شانہ بشانہ لڑ رہا تھا اور دوسرا انگریزوں کے خلاف۔ یہ لڑائی بھی دراصل دو افغان حکمرانوں امیر دوست محمد اور شاہ شجاع کے درمیان افغان تخت کیلئے شروع ہوئی تھی۔ ایک جانب روس اور ایران کی مدد تھی جو امیر دوست محمد کو حاصل تھی اور دوسری جانب انگریز اور سکھ تھے جو شاہ شجاع کے ساتھ لڑے تھے۔ انگریز خطے میں روس کی عملداری کو آگے بڑھنے سے روکنا چاہتے تھے اور رنجیت سنگھ پشاور پر اپنا قبضہ برقرار رکھنا چاہتا تھا۔ مارچ 1838ء میں انگریزوں نے امیر دوست محمد کو اپنے سفیر ’’برنس‘‘ (Burnes) کے ذریعے یہ پیغام بھیجا کہ وہ روس اور ایران سے تعلقات ختم کرے، پشاور کی آزاد حیثیت کو تسلیم کرے اور قندھار میں شاہ شجاع کی عملداری کو مانے تو پھر انگریز سکھوں سے بات کرکے اس سے ایک پرامن معاہدہ کر لیں گے۔ امیر دوست محمد نے ایسا کرنے کی بجائے ’’عیسائی انگریزوں‘‘ کی بجائے ایک دوسرے ’’عیسائی استعماری ملک‘‘ زارِ روس کے ساتھ معاہدہ کر لیا جس کے بعد وہ جنگ شروع ہوئی جس کا طعنہ محمود خان اچکزئی صاحب نے لاہور میں کھڑے ہو کر دیاہے ۔ کاش اس سے پہلے وہ یہ طعنہ چمن ، قلعہ عبد اللہ اور دوبندی میں موجود اپنے ہم قبیلہ اچکزئیوں کو دیتے پھراس کے بعد لاہور کا رخ کرتے۔ جب 7اپریل 1839ء کو گلستان، قلعہ عبد اللہ اور دیگر پشتون علاقے انگریزوں نے فتح کر لیئے ( ان علاقو ں کو فتح کرنے والوں میں کوئی پنجابی شامل نہیں تھا بلکہ چار چار، پانچ پانچ فٹ کے بنگالی اور مدراسی سپاہی تھے) تو اس علاقے میں موجود اچکزئی قبیلہ دو حصوں میں تقسیم ہو گیا۔ ان میں سے اکثریتی حصہ انگریزوں کا وفادار بن گیا۔ دوسری جانب امیر دوست محمد خان کی سدوزئی پشتون حکومت کو بچانے اور روس کی عملداری قائم کرنے کے لیئے اسی قبیلے ’’اچکزئی‘‘ کا ایک مشر (سربراہ)عبداللہ خان (جس کے نام پر قلعہ عبداللہ کا قصبہ ہے) اپنے خاندان اور وفادار پشتون قبیلے کے ساتھ کابل میں لڑنے کے لیئے چلا گیا اور انگریزوں کے ساتھ لڑائی میں 23دسمبر 1841کو وہ اور اس کے دو بیٹے جاں بحق ہوئے۔ جبکہ اس کے مقابلے میں اچکزئی قبیلے کے دو اہم ’’مشران‘‘ (سربراہ) سربلند خان اچکزئی اور صالح محمد خان نے انگریز فوج کا ساتھ دیا، ان کی نوکریاں قبول کیں، مراعات حاصل کیں اور علاقے میں چمن کی ڈیورنڈ لائن سے لے کر کوئٹہ کے چلتن پہاڑ تک یونین جیک لہرانے میں مدد کی۔ سربلند خان اچکزئی انگریز لیویز میں ’’صد باشی‘‘ کے عہدے پر متمکن ہوا یعنی وہ سو اچکزئی لیویز والوں کی وفاداری کا ذمہ دار تھا اور اسے ماہانہ تین سو روپے ملتے تھے۔ یعنی فی کس، انگریز سے وفاداری کی قیمت تین روپے ماہانہ تھی۔ میںتاریخ کے زخم مزید نہیں کریدنا چاہتا۔ ہر قوم کو طعنہ دینے کے لیئے بے شمار مواد موجود ہے اور ہر قوم نے قابلِ فخر لوگ بھی پیدا کیئے ہیں۔ لیکن تعصب کی دنیا میں زندہ رہنے والوں کے دلوں میں صرف بغض و عناد کی چنگاریاں ہی سلگتی رہتی ہیں۔ وہ کسی اور کا نقصان نہیں کرتے ، پوری زندگی اپنے آپ کواذیت دیتے رہتے ہیں۔ محمود خان اچکزئی صاحب ! میرے اللہ کا یہ دستور ہے کہ وہ نسل، رنگ و زبان کے تصور کو ملیا میٹ کرتا ہے ۔ وہ ایک ہی خاندان بنی ہاشم میں اپنے سب سے پیارے رسول سید الانبیاء ﷺ کو پیدا کرتا ہے اور اسی بنی ہاشم خاندان میں اپنے بدترین دشمن’’ابولہب‘‘ کو بھی پیدا کرتا ہے اور پورے قرآن میں صرف ایک شخص ’’ابولہب‘‘ کا نام لے کر اسکے جہنمی ہونے کی تصدیق کرتا ہے۔ (ختم شد)