ارشاد-بھٹی 248

ڈار ہارڈ ٹاک!

ڈار ہارڈ ٹاک!
ارشاد بھٹی
12اکتوبر 1999،مشرف مارشل لالگا، چند دنوں بعد حسن نواز نے بی بی سی کے پروگرام ’ ہارڈ ٹاک‘ کو انٹرویو دیا، حسن نواز سے جب سوال ہوا کہ لند ن میں مے فیئر فلیٹ (ایون فیلڈ فلیٹس) جس میں وہ رہ رہے ہیں، اس کا مالک کون ہے،حسن نواز گھبراہٹ زدہ لہجے میں بولے ’’مجھے نہیں پتا، میں تو کرایہ دار، فلیٹ کا مالک کون ، کرایہ کون دے رہا‘ مجھے نہیں معلوم ۔‘‘ جب حسن نواز کو بتایا گیا کہ یہ فلیٹ دو آف شو ر کمپنیوں نیلسن انٹرپرائزز لمیٹڈ اور نیسکول کی ملکیت، یہ دونوں کمپنیاں برٹش ورجن آئی لینڈ میں رجسٹرڈ، تو حسن نواز نے کہا، میں یہ بھی نہیں جانتا۔

پانامہ لیکس ہوئیں ،نواز شریف اور خاندان کانام آیا،انکی آف شور کمپنیاں نکلیں اور چند دنوں بعد ایک انٹرویو میں حسین نواز نے تسلیم کر لیا کہ آف شورکمپنیاں نیلسن ، نیسکول کے ہم مالک ، وہ فلیٹس (بشمول اس فلیٹ کے جس میں حسن نواز رہ رہا تھا) بھی ہمارے ہیں،حسین نواز نے کہا، میں ان کمپنیوں کا مالک ہوں، یہ کمپنیاں ایک ٹرسٹ کے تحت کام کررہیں اور یہ ٹرسٹ میری بہن مریم نواز چلارہی ہیں، کیسا رہا، حسن نوازکہہ رہے تھے میں کرایہ دار ہوں، حسین نواز کہہ رہے یہ فلیٹس ہمارے ، مریم نواز کہہ رہی تھیں کہ میری بیرون ملک کیا اندرون ملک بھی کوئی جائیداد نہیں ۔

مجھے بھلا یہ سب کیوں یاد آرہا ،مجھے یہ سب دو دن پہلے اسحق ڈار کو بی بی سی پروگرام ’ہارڈ ٹاک ‘ میں رگڑے کھاتے دیکھ کریاد آیا، اس انٹرویو میں تمام تر جھوٹوں، چترچالاکیوں کے باوجود ہونٹوں پر زبان پھیرتے اسحق ڈار چاروں شانے چت دکھائی دیئے،ڈار صاحب فرینڈلی انٹرویو کے عادی تھے ، پولے پولے سوال ،پہلے سے طے شدہ جواب، یہاں سب کچھ الٹا ہوا،پروگرام ہارڈ ٹاک کے میزبان نے پوچھا، آپ اور خاندان کی دنیا بھر میں کتنی جائیدادیں، آئیں بائیں شائیں کرنے کے بعد ڈار صاحب نے جواب دیا، صرف ایک گھر لاہور میں، میزبان نے کہا دبئی میں کوئی جائیداد نہیں ، کہنے لگے ، ارے ہاں، ایک گھر میرے بچوں کا دبئی میں بھی، ڈار صاحب بھول گئے ،بیٹا اقرا ر کر چکا کہ مبینہ طور پر دبئی میں میرے 52فلیٹس ہیں ،ڈار صاحب بھول گئے، ان کا لاہو رمیں ایک گھر ہی نہیں بلکہ 3پلاٹ الفلاح ہاؤسنگ سوسائٹی میں ، 6ایکڑ کا ایک پلاٹ اسلام آباد میں ، دو کنال کا پلاٹ پارلیمنٹرین انکلیو میں ،ایک پلاٹ سینیٹ کوآپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹی میں،ایک پلاٹ نجی ہاؤسنگ سوسائٹی میں ،میزبان نے سوا ل کیا، اگر آپ بے گناہ،بے قصور تو واپس پاکستان جا کر عدالتوں کا سامنا کیوں نہیں کرتے، جواب دیا، ملک میں خفیہ آمریت، جوڈیشل مارشل لا، نیب ایسا انتقامی کہ تشدد سے درجنوں بندے مارچکا، اب باقی چھوڑیں، اسی جھوٹ کو لے لیں کہ نیب درجنوں بندے مارچکا، یہی اسحق ڈار کا کمال،جب چاہیں ،جہاں چاہیں بات سے مکر جائیں،جھوٹ بول جائیں۔

ویسے اسحق ڈار کے کیا کہنے ،پوری زندگی بھانت بھانت کی دونمبریوں سے بھری پڑی ، آپ نے وہ کہانی تو سن رکھی ہوگی کہ ڈار صاحب 7سال لندن میں جس قاضی فیملی کے گھر رہ کر پڑھتے رہے، سیاست ،پارلیمنٹ میں آنے کے بعد اسی قاضی فیملی کے شناختی کارڈوں پر انہوں نے شریف خاندان کیلئے جعلی بینک اکاؤنٹس کھولے ،قرضے لئے، منی لانڈرنگ کی، آپ نے وہ کہانی بھی سن رکھی ہوگی کہ مشرف مارشل لا میں کیسے یہ حدیبیہ پیپرز مل کیس میں شریفوں کیخلاف وعدہ معاف گواہ بنے، کیسے اپنے ہاتھ سے لکھے 17صفحاتی اعترافی بیان میں شریف فیملی کی دس نمبریوں کا کچا چٹھا کھول کر رکھ دیا، آپ نے وہ کہانی بھی سن رکھی ہوگی کہ بہت پہلے جب ان سےاُن کی بے تحاشا جائیدادوں کا پوچھا گیا تو کیسے یہ یوا ے ای شیخ کا “To whom it may concern” ٹائٹل والا خط لے آئے ،جس میں عربی شیخ کہہ رہے ہیں کہ اسحق ڈار جون 2004سے جون 2005تک ایک سال کیلئے میرے مشیر تھے اور میں نے انہیں اس کی 83کروڑ فیس دی ،مزے کی بات، اس کنسلٹنسی فیس کا کوئی بینک ڈیپازٹ ریکارڈ نہ کوئی بینک رسید ، آپ نے وہ کہانی بھی سن رکھی ہوگی کہ کیسے اسحق ڈار نے آئی ایم ایف سے جھوٹ بولے، جعلی اعدادوشمارپیش کئے، کیسے ان کے جھوٹ پکڑے گئے اور کیسے پاکستان کو انکے جھوٹوں،جعلی اعدادوشمار کی وجہ سے آئی ایم ایف کو ساڑھے 5ملین ڈالر جرمانہ اداکرنا پڑا۔

آ پ نے وہ کہانی بھی سن رکھی ہوگی کہ کیسے اسحق ڈار نے قومی اسمبلی میں بتایا کہ پاکستانیوں کے دو سو ارب ڈالر سوئس بینکوں میں پڑے ہوئے اور پھرکیسے یہ اپنے بیان سے مکرگئے، آپ نے وہ کہانی بھی سن رکھی ہوگی کہ جب عمران خان ،قادری دھرنوں کی وجہ سے ن لیگ حکومت کو پی پی تعاون کی ضرورت پڑی تووہ اسحق ڈار جو قومی اسمبلی میں 40صفحاتی دستاویز لہراتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ ہم سوئٹزر لینڈ سے معاہدہ کرنے جارہے کہ سوئس بینکوں سے پیسہ واپس لا سکیں، سوئس حکومت ہمیں تمام معلومات دے رہی ، سوئس حکومت معاہدہ کرنے پر راضی ہوچکی ، وہی اسحق ڈار پی پی کی سوئس دولت کو بچانے کیلئے اپنے بیان سے ہی مکر گئے، آپ نے وہ کہانی بھی سن رکھی ہوگی کہ کیسے اسحق ڈار نے دنیا کے مہنگے ترین قرضے لئے، 5سو ملین یورو سواآٹھ فیصد سود پر بھی لے لیا، آپ نے وہ کہانی بھی سن رکھی ہوگی کہ سینیٹ ،قومی اسمبلی کمیٹیوں ،وزارتوں سب کو ملا کر 84کمیٹیوں کے سربراہ اسحق ڈار نے 2016میں کیسے یہ جھوٹ بولا تھا کہ آئی ایم ایف کے اخبار ایمرجنگ مارکیٹس نے مجھے ایشیا کا فنانس منسٹر آف دا ائیر قرار دیدیا ہے ،

آئی ایم ایف کو کہناپڑ گیا کہ اس اخبار سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ،یہ اور بہت کچھ ،اسحق ڈار کی داستانیں چار سُوبکھری پڑیں، کیا کیا بتائیں ،کیا کیا سنائیں، یہاں تو وہ سب کارروائیاں ڈال کر نکل گئے مگر بی بی سی کے پروگرام میں 25منٹ نہ نکال پائے ، مجھے تو شرم آرہی تھی جب میزبان اسحق ڈار اور نواز شریف کو مجرم ،سزایافتہ ،مفرور ،جھوٹے ،منافق ،ملک کے خلاف کام کرنے والے کہہ رہا تھا، خاص طورپر میزبان نے جب یہ کہا کہ جنرل ضیاء کی پیداوار ہو کر بوٹ پالش کرتے کرتے اب نواز شریف فوج کے خلاف ہوگئے ، یہ منافقت کیوں ،اس پر اسحق ڈارکی بے بسی دیدنی تھی۔