چیزیں اہم نہیں ہوتی انسان اور احساسات اہم ہوتے ہیں 200

چیزیں اہم نہیں ہوتیں، انسان اور احساسات اہم ہوتے ہیں

چیزیں اہم نہیں ہوتیں، انسان اور احساسات اہم ہوتے ہیں
ڈاکٹر جاوید احمد لغاری
ہمارے ہاں گھروں میں عام طور پر جب کبھی بہو سے گلاس بھی ٹوٹ جائے تو ہماری مائیں بہنیں ایسا رد عمل (Reaction) دکھاتی ہیں جیسے کوئی بہت بڑی چیز ٹوٹ گئی ہے۔اور ایسے برے طریقے سے سب کے سامنے اس کو ڈانٹا جاتا ہے اور اس کی عزت نفس مجروح کی جاتی ہے اور تربیت میں اتنی ساری خامیاں نکالی جاتیں ہیں کہ بات اس کے خاندان کی تربیت تک پہنچ جاتی ہے۔اس سے بھی زیادہ افسوس اس بات پر ہوتا ہے کہ ایک عورت ہی دوسری عورت کی عزت نفس کو مجروح کرتی ہے۔اگر کوئی مرد ایسا کرے تو بھی بہت برا ہے، چہ جائیکہ ایک عورت اپنی جیسی عورت پر اس طرح طنز کرے۔ کیونکہ ایک عورت ہی بہتر طریقے سے دوسری عورت کے جذبات اور احساسات کو سمجھ سکتی ہے۔اس لئے مجھے تو کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ شاید ہمارے معاشرے میں عورت کو مرد سے زیادہ خود عورت سے تحفظ کی ضرورت ہے۔ کیونکہ جتنا جذباتی ، نفسیاتی استحصال اور ذہنی تشدد ہمارے معاشرے میں عورتیں خود عورتوں پر کرتی ہیں ۔اتنا تو شاید مرد حضرات بھی نہیں کرتے ہونگے۔
یاد رکھیں! انسان کی زندگی میں احساسات کی قیمت چیزوں کی قیمت سےکہیں زیادہ ہے۔ کیونکہ چیزیں آسانی کے ساتھ Repair ہو جاتی ہیں۔اور چیزیں Replace بھی ہوجاتی ہیں۔ لیکن انسان کے جذبات اور احساسات اتنی جلدی سے Repair نہیں ہوتے۔ اور انسان اتنی جلدی سے Replace نہیں ہوسکتے۔ اس لئے کسی پر غصہ کرتے وقت، کسی پر تنقید کرتے وقت ،کسی کو اس کی غلطی پر احساس دلاتے وقت اس کے جذبات، احساسات اور عزت نفس کا خیال ضرور رکھنا چاہئے۔اور اگر کبھی غلطی سے زیادتی ہوجائے تو پھر اس سے کھلے دل سے معافی مانگ کر اس کا ازالہ کرنا چاہئے۔ کیونکہ پہلی بات تو یہ ہے کہ کسی کو بھی جان بوجھ کر جسمانی ہو یا جذباتی ،چو ٹ اور زخم نہیں دینا چاہئے۔ لیکن اگر غلطی سے ایسا ہوجائے تو پھر معافی کے مرہم سے اس زخم اور چوٹ کو بھرنا بھی چاہئے تاکہ وہ زخم وہیں پر ختم ہوجائے ناکہ زخم خراب ہوکر ناسور بن جائے۔اب آتے ہیں دوبارہ اسی بات پر کہ فرض کریں آپ کے گھر میں بہو سے گلاس گر کر ٹوٹ گیا۔ تو آپ کا ردعمل کیا ہونا چاہئے؟۔ ذرا سوچیں! اگر آپ یہ کہتیں کہ “بیٹا کہیں چوٹ تو نہیں لگ گئی۔ تھوڑا خیال کیا کرو ۔ شیشہ ہے کہیں ٹوٹ کر ہاتھ پر لگ گیا تو چوٹ لگ جائے گی۔اس لئے آئندہ شیشے کے برتنوں کو احتیاط سے اٹھایا کرو۔” تو آپ خود ہی سوچیں کہ اس کو کتنی خوشی ہوگی کہ اس کے جذبات کا احساس کیا گیا۔اور اس کو نرمی سے سمجھایا گیا۔جس پر وہ آپ کی دل سے شکر گزار ہوگی۔
اس کے بجائے ہمارا عام طور پر ردعمل ایسا ہوتا ہے کہ توڑ دیا نا۔ کردیا نا سارا سیٹ خراب۔ بعض مائیں بہنیں تو برتنوں کے ساتھ جذباتی وابسگتی کا اظہار بھی کرنے لگتی ہیں کہ میری شادی کا سیٹ تھا۔ میرے ماں باپ نے مجھے دیا تھا۔ اتنے عرصہ میں نے سنبھال کر رکھا تھا وغیرہ۔ مگر تم نے توڑ دیا۔ مجھے تو ایسے جملے سن کر اکثر حیرت ہوتی ہے کہ اتنی بے وقعت چیزیں جن کی کوئی خاص قیمت بھی نہیں ہوتی اس کا تو اتنا خیال رکھا۔ لیکن ایک انسان کے جذبات ، احساسات، اور اس کی عزت نفس کا تھوڑا بھی خیال کرنا گوارا نہیں کیا۔اور تنقید ایسے کر تی ہیں جیسے اس نے جان بوجھ کر توڑ دیا ہے۔ایک انسان سے غلطی سے بھی تو کوئی چیز ٹوٹ سکتی ہے۔ فرض کریں اگر وہی گلاس خود ساس کے ہاتھ سے یا امی کے ہاتھ سے گر کر ٹوٹ جاتا تو کیا اس وقت بھی ایسا ہی رد عمل ہوتا۔ نہیں ۔ بالکل بھی نہیں۔اس کا مطلب ہمارے ہاں ردعمل غلطی کی بنیاد پر نہیں ہوتا۔ بلکہ انسان کی بنیاد پر ہوتا ہے کہ اگر بہو نے غلطی کی ہے تو ردعمل مختلف ہوگا۔ اگر بیٹی نے غلطی کی ہے تو اس کے لئے ردعمل تھوڑا ہلکا ہوگا۔ اور اگر ساس یا امی نے خود غلطی سے گلاس توڑا ہے تو پھر شاید کوئی ردعمل ہی نہیں ہوگا۔ اس لئے تو ہمارے معاشرے میں یہ لطیفہ بھی عام ہے کہ اگر گھر میں گلاس گر کر ٹوٹ جائے۔ اور کوئی آواز بھی نہ ہو۔ تو سمجھ جانا کہ گلاس امی یا ساس کے ہاتھوں سے ٹوٹا ہے۔ اور غلطی بھی گلاس کی تھی۔
اس کے علاوہ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایک گلاس یا ایک پلیٹ کی قیمت کتنی ہوتی ہے؟۔ یا اس گلاس کے سیٹ اور ڈنر سیٹ کی قیمت کتنی ہوتی ہے؟۔ اور ان چیزوں کے ٹوٹنے سے کتنا نقصان ہوا ہوگا؟۔ زیادہ سے زیادہ کچھ سو روپے یا ایک دو ہزار روپے۔ کیا ایک انسان کا دل،اس کے جذبات، اس کے احساسات ، اس کی عزت نفس کی قیمت ایک گلاس اور ایک پلیٹ کی قیمت سے بھی کم ہے کہ اس کواتنی چھوٹی سی بات پر مجروح کردیا جائے۔ویسے بھی چیزیں استعمال کرنے کے لئے ہوتی ہیں ۔اس لئے کچھ عرصہ ہی چلتی ہیں، ساری زندگی تھوڑی ساتھ دیں گی۔برتنوں کی بھی ایک عمر ہوتی ہے۔ اس کے بعد وہ بھی ٹوٹ جاتے ہیں۔ اس لئے اس بنیاد پر انسانوں کا دل مت توڑیں ۔ اور اس کی عزت نفس مجروح مت کریں۔ انسان کا دل اور اس کی عزت بہت قیمتی ہے۔ ایک حدیث کا مفہوم تو یہ ہے کہ مومن کی حرمت اور عزت کعبہ سے بھی بڑھ کر ہے۔دوسری حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ مومن وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے انسان محفوظ ہوں۔ اب صرف ان دوحدیثوں کی بنیاد پر ہم اپنے معاشرے کا ایکسرے کر لیں تو ہمارے معاشرے میں عام دنیادار گھرانے تو کیا بہت سارے دیندار گھرانوں میں بھی شاید ہی کچھ گھر اس معیار پر پورا اتر سکیں کہ جہاں پر ساس اپنی بہو ،نند اپنی بھابھی اور گھر میں کام کرنے والی ماسیوں کے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش آتی ہوں۔
میرے عزیزو! اس طرح کسیانسان کی عزت نفس کو مجروح کرنا بالکل بھی مناسب نہیں۔ کیونکہ اس سے دلوں میں دراڑیں پڑ جاتی ہیں۔ اور من میں میل آجاتا ہے۔جس سے رشتے بننے کے بجائے بگڑ جاتے ہیں۔ ویسے بھی رشتے ہوتے ہی احساس کے ہیں۔ اگر رشتوں میں احساس نہ ہو تو پھر خون کے رشتے بھی خون کے آنسو رلا دیتے ہیں۔ اور اگر احساس ہی نہ ہو تو پھر انسان اور پتھر میں کیا فرق رہ جائیگا؟۔اس لئے ہماری وہ مائیں بہنیں جن کو اللہ تعالیٰ نے ساس بنا یا ہے۔ وہ بہو کو اپنی بیٹی کی طرح سمجھیں۔ اور بہو کی ایسی چھوٹی موٹی غلطیوں پر درگزر کیا کریں۔تاکہ ان کےبیٹوں کے گھر آباد رہ سکیں۔اور میری وہ بہنیں جن کو اللہ تعالیٰ نے بہو بنایا ہے۔ ان سے دل سے درخوا ست کروں گا کہ آپ کی ساس آپ کےشوہر کی جنت ہے۔ اس لئے اپنے شوہر کے لئے ہی سہی ! میری بہن! اپنی ساس کی ایسی باتوں کو دل پر مت لیا کریں۔ بلکہ ان کی عمر کا تقاضا سمجھتے ہوئے ایسی باتوں پران سے الجھنے سے پرہیز کریں ۔ اور جذباتی پختگی (Emotional Maturity) کا مظاہر ہ کرتے ہوئے نرمی سے کہہ دیں کہ امی جی غلطی ہوگئی۔آئندہ خیال کروں گی کہہ کر بات کو سلیقے سے ختم کرنے کی کوشش کیا کریں۔ اوراللہ تعالیٰ کی ذات سے امید رکھیں وہ ضرور اس کا آپ کو دنیا اور آخرت میں اجر دیں گے ۔
اس کے ساتھ ہم سب بھی یہ عہد کریں کہ آئندہ زندگی میں نیچے دی گئی باتوں کا ہمیشہ خیال رکھیں گے تاکہ رشتوں میں محبت اور زندگی کو پرسکون بنانے میں اپنا کردار ادا کرسکیں ۔اور معاشرے کو امن وسکون کا گہوارہ بنانے میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔
1۔ زندگی میں چیزوں سے زیادہ لوگوں کے احساسات ، جذبات اور ان کی عزت نفس کا خیال رکھیں گے۔
2۔ زندگی میں اگر کبھی کسی کو غلطی پر سمجھانا پڑے تو پھر نرمی کے ساتھ تنہائی میں ترغیبی انداز میں سمجھائیں گے۔
3۔ زندگی میں اگر کبھی کسی انسان کو یا کسی کام سے انکار بھی کرنا پڑے تو نرمی کے ساتھ سلیقے سے انکار کریں گے۔
4۔ زندگی میں اگر کبھی کسی کے ساتھ کچھ زیادتی ہوجائےتو کھلے دل کے ساتھ چھوٹے بڑے کا لحاظ کئے بغیر ان سے معافی مانگیں گے ۔
5۔ زندگی میں سب کے لئے ایک ہی اصول رکھیں گے۔ اور اس اصول پر اگر ہم اپنے آپ کو گنجائش دیتے ہیں۔ یا رعایت دیتے ہیں۔ تو پھر وہی گنجائش وہی رعایت دوسروں کو بھی دیں گے۔