پاکستانی سیاست میں استعفون کی دستک 334

پاکستانی سیاست میں استعفون کی دستک

پاکستانی سیاست میں استعفون کی دستک
گتا یہی ہےکہ پی ڈی ایم ، قومی اور صوبائی اسمبلیوں سے اجتماعی استعفوں کی طرف بڑھ رہی ہے۔۔۔۔ قمر زمان کائرہ اور مریم نواز کے بیانات سے ایسا ہی دکھتا ہے، اگر یہ فیصلہ ہوجائے، تو یہ ایک بہت مشکل اور ممکنہ طور پر تباہ کن دور کا آغاز ہوسکتا ہے، پی ڈی ایم میں شامل جہاندیدہ اور تجربہ کار قیادت سے اس قسم کے فیصلہ کی توقع نہی کی جانی چاہئےزرا دیکھتے ہیں کہ قومی اسمبلی میں اس وقت پارٹی پوزیشن کیا ہے ؟ اور ممکنہ استعفوں کے بعد پاکستان کا سیاسی منظر نامہ کس طرح کا بن سکتا ہے ؟
اسوقت 342 کے ایوان میں مسلم لیگ ن ، پیپلز پارٹی، ایم ایم اے اور اے این پی کی مجموعی نشستیں 154 ہیں اور اگریہ سب کے سب مستعفی ہوجائیں تب بھی قومی اسمبلی تحلیل نہیں ہوگی اور خالی ہونے والی نشستوں پر ضمنی انتخابات کراکر نئے اراکین منتخب کئے جاسکتے ہیں۔ اگر ضمنی الیکشن ہوئے ؟ تو پی ڈی ایم استعفی دی گئی نششتوں پر دوبارہ انتخاب میں حصہ نہی لے گی۔۔۔۔ اور لوٹا کریسی کے ٹول کے سہارے، تقریبا” تمام ہی سیٹوں پر تحریک انصاف کے لوگ کامیاب قرار پائینگے۔۔۔۔۔ اس طرح ایوان میں برسراقتدار پارٹی کو پہلے سے بہت زیادہ مستحکم پوزیشن حاصل ہوجائے گی، ایک دوسرا سوال پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت کا بھی ہے، کیا بلاول سندھ حکومت سے دستبردار ہونے کو تیار ہوجائینگے ؟ ایک مہنگا ، بہت مہنگا سودا۔۔۔۔۔۔سندھ اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے ارکان کی تعداد 50 فیصد سے زیادہ ہے اور اگر سب کے سب 96 ارکان مستعفی ہوجائیں تو صوبائی اسمبلی تحلیل ہوسکتی ہے
اجتماعی استعفوں سے جو سب سے بڑا آئینی و نظریاتی خطرہ نظر آرہا ہے وہ آٹھارہویں ترمیم کی منسوخی، اسمبلی توڑنے کے اختیار کی صدر کو واپسی، ناموس رسالت قانون کی تنسیخ اور تحفظ ختم بنوت ترمیم کی تحلیل ہے۔
ایف اے ٹی ایف کے پس منظر میں پاکستان پرناموس رسالت اور ختم نبوت ترمیم کی تنسیخ کیلئے سخت دباو ہے۔ اگر ایم ایم اے کے مٹھی بھر مولوی اسمبلیوں سے نکل گئے تو روشن خیالوں کو کھل کھیلنے کاموقع مل جائیگا۔پاکستان کی سیاست میں استعفوں کے کبھی اچھے نتائج نہی نکلے، تم روٹھے ، ہم چھوٹے کے مصداق، استعفوں کے بعد برسراقتدار پارٹی مزید مضبوط ہوجائےگی، ملک میں طالع ازماوں کے لئے نئے مواقع پیدا ہونگے، لوٹا کریسی کو فروغ ملے گا، نظریاتی محاذ پر اسلام پسندوں توازن کا مزید خراب ہوجائےگا، ضمیر کی خرید و فروخت کی وجہ سے ، ملک کے غریب اور مشکلات میں پھنسی عوام کا مزید بھیانک نقصان ہوگا پاکستانی سیاست میں بائیکاٹ اور استعفوں کی سیاست، یعنی مملکت پاکستان کے لئے خسارے کا سودا