اک نظریاتی مخالف 286

اک نظریاتی مخالف

اک نظریاتی مخالف
رؤف طاہر سے آخری ملاقات اخوت یونیورسٹی کی تقریب میں ہوئی۔ ڈاکٹر امجد ثاقب نے اپنے صحافی دوستوں اور محبانِ اخوت کے لئے ایک خوبصورت صبح کا اہتمام کیا تھا۔ رؤف طاہر ملے تو مَیں نے دیکھتے ہی جملہ کس دیا۔رؤف کبھی خاندانِ شریف کے علاوہ بھی کسی کا ذکر کالم میں کر لیا کرو۔ اچھے صحافی اور دانشور بنو، ابھی بات مکمل نہ کر پایا تھا کہ مسکراتے ہوئے کہا وہ آج جمہوریت کا بسمل بن چکا ہے اور یہ کہہ کر آگے بڑھ گئے۔

یہ مشرف آمریت کا دور تھا ایک شام مَیں پریس کلب سے گھر پہنچا تو ہماری ایک پڑوسن خاتون گلی میں مل گئیں۔ سر پر پیار دیا اور فرمانے لگیں کہ بیٹا مَیں عمرہ کر کے آئی ہوں اور تمہاری امی سے مل کر آئی، ساری رودادِ عمرہ سنائی۔ ان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اورکہنے لگیں کہ شاید میری قسمت میں بھی دیارِ محمدؐ دیکھنا ہو، انہیں بہت چاہت ہے۔ مَیں اگلی ہی صبح روزنامہ ”جنگ“ سے وابستہ نوجوان قاضی سہیل کے پاس پہنچا جو عمرہ کا کاروبار کرتے تھے اور میرے گھر کے قریب ہی ایک ٹریول ایجنسی کے مالک تھے۔

مَیں نے ان سے چار افراد کے عمرہ کے مکمل خرچ کا حساب لگانے کو کہا، میری خوش قسمتی کہ میرے پاس بنک میں اتنی رقم موجود تھی۔اگلے دس پندرہ روز مَیں کاغذات مکمل ہو گئے۔مَیں اپنی مرحومہ والدہ، مرحومہ بیوی اور مرحومہ بڑی بہن کے ساتھ عمرہ کے لئے جدہ اور جدہ سے مکہ پہنچ گیا۔ یہ بھی خوب سفر تھا۔ مکہ سے مدینہ کا سفر اگرچہ دشوار گذار تھا،لیکن خواتین کے جذبے کے مظاہر دیکھنے کے تھے،ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ وہ آخرت کے سفر سے قبل ہی جنت مکیں ہو چکی ہیں۔ مکہ میں مسجد عائشہ ؓ میں اگرچہ میری ہمشیرہ اور والدہ کے پرس بھی گم ہو گئے،لیکن اُنہیں اس کا کوئی قلق نہ تھا، مدینہ منورہ کی فضائیں اہل ِ ایمان کے لئے اور خاص طور پر خواتین کے لئے کیا مسحور کن تھیں ناگفتنی ہے۔ اب ایک اور تصویر دیکھئے۔

ضیاء الحق کا دور تھا اور ہر طرف پیپلزپارٹی کے کارکنوں پر تشدد کی یلغار تھی، مال روڈ اور دیگر جگہوں پر جب پیپلزپارٹی کے نوجوان بھٹو کی رہائی کے لئے جلوس نکالتے تو پولیس سے پہلے جمعیت طلبا کے نوجوان ڈنڈا بردار ان کی خبر لینے پہنچ جاتے۔ انار کلی میں ایک نوجوان نے خود سوزی کے لئے اپنے آپ کو آگ لگائی تو پیپلز پارٹی کے چند نوجوانوں نے اُس پر بوری ڈالنے کی کوشش کی۔ وہ اُسے بچانے کی کوشش میں تھے کہ جماعت کے نوجوانوں نے بچانے والوں پر ڈنڈے برسانے شروع کر دیئے اور اس نوجوان کو خاکستر کرنے میں ”مدد“ فراہم کی۔ یہ وہ حالات تھے، جن میں ہماری نوجوان رؤف طاہر سے شناسائی ہوئی۔ ضیاء الحق اور فوجی حکومت کا پُرجوش حامی رؤف طاہر۔

عمر میں مجھ سے کافی چھوٹا تھا۔ اس لئے مَیں اسے صیغہ واحد میں بلاتا تھا۔ایک روز پرانے پریس کلب کے نیچے شیزان ریسٹورنٹ میں مَیں نے اسے کہا: رؤف طاہر تم نے مشرقی پاکستان میں بھی یہی کردار ادا کیا تھا، اور اس کی سزا پاکستان نے بھگتی۔رؤف طاہر نے برملا جواب میں کہا، موقع ملے تو دوبارہ بھی وہی کریں گے،اس دوران رؤف طاہر میاں نواز شریف کے زبردست حامی بن گئے اور جماعت اسلامی کی بجائے مسلم لیگ(ن) کے گن گانے لگے۔ جماعت اسلامی کے دانشوروں کا ایک بڑا حصہ مسلم لیگ(ن) میں آ چکا تھا اور یہ سب بنیادی طور پر ضیاء الحق کے شیدائیوں کا گروہ تھا۔

ان دوستوں میں سے اکثر جمہوریت پسند ہو گئے،لیکن رؤف طاہر اسی نقطہ نظر کے حامل رہے، جس کے وہ ضیاء الحق دور میں تھے اور پھر ایک ملاقات میری اور رؤف طاہر کی اچانک ہوتی ہے۔ مَیں اپنی والدہ، ہمشیرہ اور اہلیہ کے ساتھ عمرہ کی ادائیگی کے بعد اپنے بہنوئی بشیر احمد کے ہاں جدہ میں تھا۔ ایک شام شاپنگ مال میں رؤف طاہر سے اچانک ملاقات ہو گئی وہ اپنی عادت کے مطابق انتہائی تپاک سے ملے۔ میری خیریت دریافت کی، میرے عمرہ کی ادائیگی کے حوالے سے ایک دو خوشگوار جملے کہے اور ملاقات ختم ہو گئی۔ اگلے روز مجھے ان کا پیغام ملا کہ انہوں نے جدہ میں مقیم دوست صحافیوں کے ساتھ میری دعوت کا اہتمام کیا ہے،میرے لئے یہ حیرت کی بات تھی کہ رؤف طاہر میرے لئے دعوت کا اہتمام کر رہے ہیں۔

درجن بھر سے زائد دوستوں کے ساتھ اُن سے ایک خوبصورت پاکستانی ریسٹورنٹ میں رات گئے تک محفل رہی،پاکستان کی سیاست کے حوالے سے بات ہوتی رہی۔ میاں نواز شریف بھی ان دِنوں جدہ میں مقیم تھے اور رؤف طاہر ان سے ملتے رہتے تھے۔ ان ملاقاتوں کے مختصر احوال سے بھی آگاہی ہو گئی اور پھر اُس روز سے ان کے سفر آخرت تک ان کی محبت میرے دِل میں موجود رہی اور ہمیشہ رہے گی۔ دیارِ غیر میں وہ ایک نظریاتی مخالف تھا، جس نے ہم وطن سے ایسی محبت کا مظاہرہ کیا جو اس کے خواب و خیال میں نہ تھا اور ایسے دوست کے لئے مَیں صرف اطہر جعفری کا یہ شعر ہی درج کر سکتا ہوں۔