drugs and our society 201

وطن عزیز منشیات کے خوفناک زہر کے حصار میں

وطن عزیز منشیات کے خوفناک زہر کے حصار میں
حاجی لطیف کھوکھر
ہمارے معاشرے میں منشیات کا بڑھتا ہوا رجحان اور نفسیاتی مسائل کسی سنگین خطرے سے خالی نہیں.ہر روز ہم اخبارت اور شوشل میڈیا پر اس طرح کی کئی خبریں دیکھتے اور سنتے ہیں۔ منشیات کا نشہ ایک ایسی لعنت ہے جو سکون کے دھوکے سے شروع ہوتی ہے اور زندگی کی بربادی پر ختم ہوجاتی ہے۔ منشیات کی لعنت صرف اعلیٰ تعلیمی اداروں اور ہائی سوسائٹیز میں ہی نہیں بلکہ جگہ جگہ ایک فیشن کے طور پر سامنے آرہی ہے۔ دیہاتوں میں بھی لوگ اس سے محفوظ نہیں رہے ہیں۔ جس کے انتہائی مضر اثرات نمایاں نظر آرہے ہیں۔ افسوس راہ چلتے چھوٹے بچے بھی سگریٹ کا دھواں اڑاتے دیکھائی دیتے ہیں۔اکثر بچے اور نوجوان والدین کی غفلت اور ان کے رویہ کی وجہ سے نشے کی عادت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ والدین اپنی مصروف زندگی میں سے کچھ وقت اپنے بچوں کو بھی دیں۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ وہ کیا کرتے ہیں۔کہاں جاتے کس سے ملتے ہیں۔ بعض مرتبہ تو غلط صحبت ملنے سے نشے کے عادی ہوجاتے ہیں۔کئی اپنے مسائل سے ڈر کر اور کئی حقیقت سے فرار حاصل کرنے کے لئے بھی نشہ کا سہارا لیتے ہیں۔ہم دیکھتے ہیں کہ یہ نوجوان نسل فیشن کے طور پر سگریٹ یا دیگر نشہ آور چیزوں کا استعمال شروع کرتی ہے پھر یہ فیشن یہ شوق وقت کے ساتھ ساتھ ضرورت بن جاتا ہے اور اس طرح وہ شخص مکمل طور پر نشے کاعادی بن جاتا ہے۔ اورپھر اس کے دل و دماغ کو مکمل تباہ و برباد کردیتا ہے۔ پھروہ شخص ہر وقت نشے میں مدمست رہتا ہے۔ اور اس کو پورا کرنے کے لئے ہر وہ غلط کام کرنے لگتا ہے جہاں سے پیسے حاصل کرسکے۔ اور اس طرح اچھا بھلا تندرست صحت مند انسان اپنی زندگی کو تباہی کی دہلیز پر لا کر کھڑا کرتا ہے۔ اس وقت پوری دنیا منشیات کے خوفناک زہر کے حصار میں ہے۔ نئی نسل اپنے تابناک مستقبل سے لا پرواہ ہوکر تیزی کے ساتھ اس زہر کو کھائے جارہی ہے۔ منشیات کا نشہ نوجوان نسل کو تباہ کر رہا ہے ان کی زندگی کو اندھیرے میں ڈال کر ان کی جوانی کو آہستہ آہستہ کھوکھلا کر رہا ہے۔منشیات کی عادت ایک خطرناک مرض ہے یہ خود انسان کو اور اس کے گھربار کو معاشرے اور پورے ملک و قوم کو تباہ کر دیتا ہے۔ اگر ایک بار کوئی نشہ کرنے کا عادی ہوجائے تو وہ پھنستا ہی جاتا ہے اور پھنسے کے بعد اس کے مضر اثرات کا انہیں ادراک ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج پوری دنیا میں اس کے خلاف آواز اٹھائی جاری ہے، لیکن اس کے باوجود اس میں دن بہ دن اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ آخر کیوں؟۔منشیات کی پیداوار اور نشے میں استعمال کی مختلف صورتیں اور ان کے نتیجے میں اثر انداز ہونے والے عوامل انسانی زندگی کو بے حد نقصان پہنچاتے ہیں۔ منشیات کا استعمال کس دور میں اور انسانی تاریخ کے کس مرحلے میں شروع ہوا؟ یہ تو معلوم نہیں تاہم نشے کے استعمال سے تکلیف، دردو غم ذہنی دبا صرف وقتی طور پر ختم ہو جاتا ہے۔ بعض لوگ پریشانیوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے منشیات کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں۔ نشے کو چھوڑنے کا احساس پیدا ہو بھی جائے تو شدید مشکلات سے دو چار ہونا پڑتا ہے۔ ہے منشیات انسان کے ذہن ، دل ، جسم اور اخلاق کے علاوہ اجتماعی معاشرتی زندگی کو بھی اپتنے برے اثرات کی بدولت تباہ و برباد کر دیتا ہے۔ نشے کا استعمال کرنے والے افراد حقیقت میں بزدل اور کمزور قوت ارادی کے مالک ہوتے ہیں۔ بعض اوقات بے چینی اور اضطرابی کی کیفیت بھی انسان کو نشے میں مبتلا کرنے کا سبب بنتی ہے۔منشیات ایک ایسا میٹھا زہر ہے جو انسان کو دنیاو آخرت سے بیگانہ کر دیتا ہے۔ اس کو استعمال کرنے و الا ہر شخص حقیقت سے فرار حاصل کرتا ہے اور خیالوں میں بھٹکتا ہے۔منشیات کا نشہ پہلے پہل ایک شوق ہوتا ہے پھر آہستہ آہستہ ضرورت بن جاتا ہے۔ نشے کا عادی شخص درد ناک کرب میں لمحہ لمحہ مرتا ہے۔ اس کی موت صرف اس کی نہیں ہوتی بلکہ اس کی خوشیوں کی خواہشات کی تمناوں کی بھی موت ہوتی ہے۔کوئی اگر نشہ کرنا شروع کرتا ہے تو اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی وجہ، کوئی واقعہ، مایوسی، محرومی اور ناکامی کا کوئی پہلو ہوتا ہوگا۔پر انسان یہ کیوں نہیں سوچتا کہ مایوسی اور ناکامی کا علاج صرف نشہ کرنا نہیں۔ بلکہ نشہ انسان کی صحت کے لیے زہر ہے۔ آج کل نئے نئے فلیور میں نشہ آور چیزیں دستیاب ہوتی ہیں۔لیکن یہ نشہ انسان کی صحت خراب کرنے کے ساتھ ذہنی طور پر مفلوج کر دیتا ہے۔نشہ بیچنے والے دلال، لوگوں سے، قوم سے، نئی نسل سے پیسے بٹور کر ان کو تباہی کی طرف ڈھکیل دیتے ہیں۔ نسلیں تباہ ہو رہی ہے ہو جائے اْن کی بلا سے انہیں تو صرف نوٹ بٹورنے ہیں۔کسی بھی قوم کے لیے اصل قوت اِن کے نوجوان ہوتے ہیں۔ نئی نسل کا جذبہ ہی کسی بھی قوم کو بھرپور ترقی سے ہم کنار کرتا ہے۔ کسی بھی ملک میں نئی نسل کو ملک کی بہتر خدمت کے لیے بھرپور انداز سے تیار کرنے پر توجہ دی جاتی ہے۔صرف معاشی ترقی کے لئے ہی ضروری نہیں ہوا کرتی بلکہ ملک کے دفاع میں بھی اس کا بھرپور کردار ہوتا ہے۔ یہ نوجوان ہی ہیں جو سرحدوں پر رات دن جاگ کر ملک کو دشمنوں سے بچاتے ہیں۔ ملک کی آزادی اور خود مختاری کا حقیقی تحفظ نئی نسل ہی کی بدولت ممکن ہو پاتا ہے۔ اگر نئی نسل متحد اور چوکس ہو تو دشمن اپنے ناپاک عزائم کو عملی جامہ کسی بھی طور نہیں پہنا سکتا۔لیکن آج نشے کے تاجروں کے ذریعے نئی نسل کو مختلف نشوں کی عادت میں مبتلا کرنا اپنا ہدف بنا رکھا ہے۔کسی ملک کی نئی نسل منشیات کی عادی ہوجائے نتائج انتہائی خطرناک ہوجاتے ہیں۔ایک طرف تو دنیا بھر میں منشیات کے خلاف بھرپور مہم چلائی جارہی ہے اور کوشش کی جارہی ہے کہ دنیا کو ہر طرح کی منشیات سے بالکل پاک کرکے نوجوانوں کو مکمل تباہی سے بچایا جائے اور دوسری طرف منشیات کا مافیا نئی نسل کو تباہ کرنے کے درپے ہے اور یہ منشیات کی غیر قانونی تجارت سے کروڑوں کماتے ہیں۔ نوجوانوں کو ہیروئن، کوکین، چرس، گانجا، افیم اور نہ جانے کتنے طرح کے نشے میں مبتلا کرنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں اور نئی نسل کا منشیات کی لَت میں مبتلا ہونا انتہائی خطرناک ہے کیونکہ اس کے نتیجے میں آگے چل کر ملک کو افرادی قوت کی شدید قلت کا سامنا ہوسکتا ہے اور سوال صرف معاشی نقصان کا نہیں ہے بلکہ نئی نسل کو منشیات کی لت میں مبتلا کرکے کسی کام کا نہ رہنے دیا جائے۔ جب نئی نسل منشیات کی عادی ہوگی تو معاشرتی خرابیاں بھی پیدا ہوں گی اور اس کے نتیجے میں پورے معاشرے میں بگاڑ پھیلے گا۔معاشرے کی بنیاد ہلانے میں اور نئی نسل کو تباہ و برباد کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رہ جائے گی ۔عالمی رپورٹ کے مطابق دنیا میں نشے کی بے راہ روی کے شکار افراد کی تعداد تین کروڑ 50 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔ کوکین افریقہ، ایشیا، یورپ اور شمالی امریکہ میں زیادہ استعمال کی جا رہی ہے جبکہ گانجے کا استعمال شمالی امریکہ، جنوبی امریکہ اور ایشیا میں زیادہ ہے۔اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گذشتہ ایک دہائی میں مارکیٹ میں موجود منشیات کی تیاری کے طریقہ کار میں تبدیلی آئی ہے یعنی قدرتی جڑی بوٹیوں سے تیار کردہ کوکین اور ہیروئن اب کیمیائی طریقے سے بنائی جا رہی ہے جس سے انسانی اموات میں اضافہ سنگین صورتحال کی غمازی کرتا ہے ۔ منشیات کے فوائد کم اور نقصانات زیادہ اور دیرپا ہیں۔ حشیش ، چرس ، افیون ، گانجا ، پوست یہاں تک کہ سگریٹ اور نشے کے ٹیکے انسان کو تیزی کے ساتھ اس کے منطقی انجام تک پہنچاتے ہیں۔والدین، اساتذہ ، علما، اہل قلم اور میڈیا کو چاہیے کہ لوگوں میں منشیات کے خلاف شعور بیدار کریں۔