اوریا مقبول جان 194

نیتوں کا فتور

نیتوں کا فتور
اوریا مقبول جان
اشفاق احمد صاحب بلا کے مجلسی آدمی تھے۔ کہانی لکھنے میں تو تحریر کے آسمان کا درخشندہ ستارہ تھے ہی مگر کہانی کہنے اور داستان بیان کرنے کے فن میں بھی کوئی دور تک ان کا ہم پلّہ نظر نہیں آتا۔ برصغیر پاک و ہند کی اردو زبان کی تاریخ میں کوئی ایسا جامع الصفات ادیب پیدا نہیں ہوا جو بیک وقت اعلیٰ درجے کا افسانہ تحریر کرے، ڈرامہ لکھنے لگے تو اس جیسا منظر نامہ، کردار نگاری اور مکالمے کوئی اور نہ لکھ پائے۔ صدا کاری کے میدان میں اپنے لیئے خود تلقین شاہ کا کردار منتخب کرے، اس کے لہجے اور زبان و بیان کی نوک پلک سنوارے، مکالمے کی ادائیگی کے خدوخال بنائے، تمام کرداروں کے مکالمے اور منظرنامہ بھی تحریر کرے اور اس کے ساتھ صداکاری کرتے ہوئے سالوں اس تلقین شاہ کو لوگوں کے دلوں کی دھڑکن کے طور پر زندہ رکھے۔ سیکولر، لبرل اور ملحد نما ادیب ، اشفاق احمد کے کمالِ فن کا اعتراف اس لیئے نہیں کرتے کیونکہ اشفاق صاحب کے اندرایک ایسا اسلام کا سرفروش دیوانہ چھپا ہوا تھا ،جو ان کی تحریروں اور گفتگو میں ایسے چھلکتا تھا جیسے موجیں ساحل سے ٹکرا کر اپنے نقش چھوڑ جاتی ہیں۔ روحانیت کی دنیااور ’’بابوں‘‘ کی سحرانگیز گفتگو اشفاق صاحب کا خاص میدان تھا۔ فورٹریس سٹیڈیم سے نہر کی جانب جانے والی سڑک پر بابا فضل شاہ کا ڈیرہ تھا، جسے آج بھی نور والوں کا ڈیرہ کہتے ہیں۔ بابا جی کی تفسیرِ فاضلی قرآن پاک کی انتہائی سہل اور دلوں میں گھر کر جانے والی تفسیر ہے۔ ان کے ڈیرے پر قدرت اللہ شہاب، بانو قدسیہ اور اشفاق احمد جیسے بڑے بڑے ادیب اکثر حاضری دیتے تھے۔ اس ڈیرے پر ماضی کا کیمونسٹ، شاندار مصور، ادیب اور سیاستدان حنیف رامے بھی آکر بیٹھنے لگا۔ یہ شخص بھٹودور میں پنجاب کا وزیراعلیٰ رہ چکا تھا۔ بابا فضل شاہ کا علم و عرفان اسقدر تھا کہ ہر کوئی ان کی گفتگو کے موتی سمیٹنے، وہاں ہمہ تن گوش موجود رہتا۔ اسی ڈیرے پر اشفاق احمد صاحب کی حنیف رامے سے دوستی گہری ہوتی گئی۔ ایک بار دونوں ڈیفنس میں ایک صاحبِ ثروت شخص کی فاتحہ پر جمع تھے۔ لوگ دونوں کی موجودگی میں گفتگو سننے کے لیئے بے تاب تھے۔ ایسے میں اشفاق صاحب کا مجلسی گفتگو والا فن کار اچانک گویا ہوا۔ کہنے لگے یاررامے! میں کافی عرصے سے جمعہ پڑھنے کے لیئے مساجد بدل رہا ہوں، لیکن کسی بھی مولوی کی تقریر میں مزا نہیں آرہا۔ اس فقرے پر ایک دم سناٹا چھا گیا۔ حنیف رامے سمجھے شاید اشفاق صاحب مولویوں کی بے تکی تقریروں سے تنگ آئے ہوئے ہیں، جواباًکہنے لگے ،آپ یہاں ڈیفنس میں آکر جمعہ ادا کیا کریں، یہاں سب مولوی ایک ڈسپلن کے تحت گفتگو کرتے ہیں اور خاموشی سے نماز پڑھاتے ہیں۔ اشفاق صاحب نے کہا، نہیں یار! مسٔلہ یہ نہیں، دراصل مجھے کوئی ایک مولوی بھی ایسا نہیں ملا جو کہتا ہو کہ سؤر کا گوشت کھانا حلال ہے۔ اس کے بعد محفل ایک گہرے سکوت میں چلی گئی۔ یہ ہے وہ کڑوا سچ اور حقیقت جو برونائی دارالسلام کی مساجد سے لے کر مراکش کی مسجدوں تک روزِ روشن کی طرح مسلّم اور واضح ہے۔ یہ نظارہ ان تمام ممالک کی مساجد میں بھی اسی طرح ہے ،جہاں مسلمان اقلیت میںہیں۔ اسلامی شریعت کے ایسے تمام قوانین، اصول و ضوابط اور معاشرتی طرزِ زندگی کے جرائم کی حدود،جن کا تعلق حکومتی سطح پر نفاذ سے ہے، ان میں شیعہ ،سنی ، بریلوی، دیوبندی یااہل حدیث کسی ایک میں بھی ایک ’’نکتے‘‘ یا ’’کامے‘‘کا بھی اختلاف نہیںہے۔ مسلمانوں کا کوئی ایک مکتبہ فکر بھی ایسا نہیں جو یہ کہتا ہو کہ زنا بالجبریا زنابالرضا حلا ل ہے اور اس جرم کی سزا سنگسار کرنا یا کوڑے نہیں ہے۔ کسی بھی مسلک میں سود یا سودی کاروبار جائز نہیں،بلکہ سب ہی اسے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے ساتھ جنگ قرار دیتے ہیں۔ کوئی فقہ، چوری کے جرم پر ہاتھ کاٹنے کی سزا سے انکار نہیں کرتی ۔ مسلمانوں کا کوئی فرقہ جھوٹ بولنے اور جھوٹی گواہی کو جائز قرار نہیں دیتا اورتمام مسالک اس جرم کی سزا پر بھی متفق ہیں۔ ذخیرہ اندوزی، دھوکے سے مال فروخت کرنا، جھوٹی قسمیں کھا کر کاروبار کرنایا جواء اور سٹہ بازی سے کاروباروں اورگھروں کو اجاڑنا،یہ تمام کے تمام ایسے جرائم ہیں جن کے بارے میںتمام فقہا متفق بھی ہیںاور ان جرائم پر سزاؤں کے نفاذمیں بھی کسی قسم کا کوئی اختلاف نہیںپایا جاتا۔زمینوں پر ناجائز قبضہ کرکے آخرت کی وعید تو اپنی جگہ ہے لیکن اسلامی تاریخ میں قاضیوں نے جو سزامقرر کی ہے، اس پر بھی کوئی تفرقہ بازی نہیںہے۔ پڑوسی کے حقوق کے بارے میںاگر اسلامی شریعت کے مطابق قوانین مرتب ہو جائیں توتمام مسالک ایسے مشترکہ قوانین مرتب کریں گے کہ جدید انسانیت میں امن و آشتی کے لیئے اس سے بہتر کوئی اور قانون میسر نہیں ہوگا۔ مسلمانوں کے کسی مسلک یا فرقے میں فحاشی اور عریانی کی کسی بھی سطح پراجازت نہیں ہے، بلکہ کوئی مسلک بھی مخلوط معاشرے کو جائز تصور نہیں کرتا۔ پردے کے احکامات بھی ہر فقہ یا مسلک میں تھوڑی سی ترمیم کے ساتھ مشترک ہی ہیں۔ کوئی فرقہ خواتین کو زیب و زینت کی کھلے عام نمائش کی آزادی نہیں دیتا۔ غیبت، الزام ،بہتان، اور جھوٹ کی بنیاد پر کردار کشی کے معاملے میں بھی ہر فقہ متفق ہے اور اس پراسّی کوڑوں کی سزا کا بھی اتفاق ہے۔ سوچئے کہ اگر دنیا بھر میں موجود بہتان (Lible) کے قوانین کی جگہ اسلام کا ’’بہتان کا قانون‘‘نافذ ہوجائے توہتک عزت اور بہتان کے بارے میں اسلامی شریعت کے مطابق فیصلوں کے بعد کتنے سیاستدان ، صحافی، کالم نگار، اینکر پرسن اور ادیب جھوٹے الزام اوربہتان کی بنیاد پر چوکوں میں لگی ٹکٹکیوں پر اسّی کوڑوں کی سزا سے’’ لطف اندوز‘‘ ہوکر ’’آزادیٔ اظہار‘‘ کے حق میں نعرے بلند کر رہے ہوں گے۔ تمام مسالک اپنی اپنی فقہ کے مطابق جھوٹے الزام اور بہتان لگانے والے پر یہ ذمہ داری عائد کرتے ہیں کہ ایسا شخص ثابت کرے کہ اس نے جو الزام لگایا ہے وہ سچ ہے اور اس میں کسی صحافی کو یہ چھوٹ بھی حاصل نہیںکہ صحافی اپنے ’’سورس‘‘ (Source) کے بارے میں نہیں بتاتا۔ غرض کوئی ایسا اسلامی قانون نہیںہے جسے ’’نفاذِ شریعت‘‘کے دوران حکومتی سطح پر نافذ کیا جانامقصود ہواور اس میں ذرّہ برابر بھی اختلاف پایا جائے۔ مسلمانوں کے فرقوں میں کہیں اگر اختلاف ہے بھی تو صرف ذاتی سطح پرعبادات اور رسومات کے معاملے میں ہے ۔یہاں تک کہ عبادات کے معاملے میں بھی ادائیگی نماز کے حوالے سے فرائض کی حد تک کوئی اختلاف نہیں ہے۔ کسی فقہ میں پانچ کی بجائے چھ نمازیں، رمضان کے روزوں کی بجائے رجب میں روزے،شوال اور ذوالحج کی عیدوں کی جگہ کسی اور مہینے میں عیدیںنہیں ہیں۔ طواف، سعی، عرفات اور مزدلفہ کی رسومات کی ادائیگی تک ،غرض کسی معاملے کی بنیادی ہیئت اور فرضیت میں کوئی بھی اختلاف موجود نہیں ہے۔ نکاح کے معاملے میں بھی سب فرقے متفق ہیں کہ کس سے نکاح کیا جا سکتا ہے اور کس سے نہیں۔ جو لوگ یہ سوال اٹھاتے ہیںکہ ’’کس فرقے کا اسلام نافذ کریں‘‘، تو ان کی خدمت میں عرض ہے کہ جتنا سب میںمشترک ہے نافذ کردواس کے بعد اسلام کی رو سے کسی اور قانون کے نفاذ کی ضرورت ہی باقی نہیں رہے گی۔ دنیا میں کسی بھی ملک کا آئین ایسانہیں جس کی تشریح پر اختلاف موجود نہ ہو۔ پاکستان کے آئین کی ہر سیاسی پارٹی اور گروہ الگ الگ تشریح کرتا ہے۔ لیکن کوئی یہ سوال نہیں اٹھاتا کہ ہم کس پارٹی کا آئین نافذ کریں۔ اسے نافذ کر دیا گیا ہے اورسپریم کورٹ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اسکی تشریح کرے۔ اگر شریعت کو بھی نافذ کرکے ایک ایسی ہی عدالت ترتیب دے دی جائے جس میں تمام مسالک کے علماء موجود ہوں اور انہیں ہی تشریح کا حق دیا جائے تو اسلامی قوانین میں اتفاقِ رائے اس قدر موجود ہے کہ شاید ہی کوئی کیس اس عدالت میں تشریح کے لیئے آئے۔ لیکن معاملہ صرف نیتوں کا ہے۔ ہم دل سے اسلام کا نفاذ چاہتے ہی نہیں۔۔!!