نسیم شاہد 337

ناموسِ رسالتؐ ہماری جان: فرانس اور فرانسیسی صدر پر لعنت

ناموسِ رسالتؐ ہماری جان: فرانس اور فرانسیسی صدر پر لعنت
فرانسیسی صدر پر جتنی لعن طعن برس رہی ہے، اُس کے بعد پوری فرانسیسی قوم کو ڈوب کر مر جانا چاہئے،اپنے صدر کا مواخذہ نہ کرنے والے فرانسیسی عوام بھی اتنے ہی لعنت ملامت کے ذمہ دار ہیں جتنا کہ اُن کا صدر،جس نے گستاخانہ خاکوں پر انتہائی غیر ذمہ دارانہ بیان دے کر پوری دُنیا کے مسلمانوں کو نہ صرف تکلیف پہنچائی،بلکہ اُن کے مذہبی عقائد کی توہین بھی کی۔اِس سے پہلے جب ڈنمارک یا سویڈن میں ایسے گستاخ سامنے آئے تھے، تو وہاں کے حکمران اُن کی حمایت میں کبھی بیان نہیں دیتے تھے،البتہ انہیں رکوانے میں اپنی بے بسی کا اظہار کرتے تھے۔ فرانس کے صدر نے تو باقاعدہ ان خاکوں کی حمایت میں بیانات دیئے ہیں، جو اُس کی اسلام دشمنی اور مسلمانوں سے نفرت کی دلیل ہیں۔دُنیا کئی بار اِس حقیقت کا ادراک کر چکی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ناموس اور تقدس کے لئے ہر مسلمان سر دھڑ کی بازی لگانے کو اپنی سعادت سمجھتا ہے،اُن کی شانِ اقدس میں گستاخی کرنے والے کو کافر اور زندیق قرار دے کر صفحہئ ہستی سے مٹانا اُس کا خواب ہوتا ہے۔ اقوام متحدہ میں کئی قراردادیں بھی اس حوالے سے منظور ہو چکی ہیں کہ تمام مذاہب کی مقدس ہستیوں کے بارے میں کوئی ہرزہ سرائی نہ کی جائے، مگر اس کے باوجود مغرب میں اسلام کے خلاف نفرت کا مظاہرہ کرنے والے اپنی مذموم حرکتوں سے باز نہیں آئے۔ آزادی ئاظہار کے نام پر شعائر اسلامی اور ناموسِ رسالتؐ پر حملے کئے جاتے ہیں، تاہم مغربی ممالک کی حکومتیں خود کو ہمیشہ ایسی سرگرمیوں کی حمایت سے دور رکھتی ہیں،مگر اس بار فرانس کے صدر نے اپنی متعصبانہ ذہنیت سے پورے فرانس کو اسلامی دُنیا کی نظر میں ایک قابل ِ نفرت ملک بنا دیا ہے،نہ صرف فرانسیسی صدر، بلکہ فرانس پر بھی لعنتوں کی برسات جاری ہے۔
پاکستان اور پاکستانی عوام اپنے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حرمت پر کٹ مرنے کا اٹوٹ جذبہ رکھتے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ پاکستانیوں نے ہمیشہ ایسی کسی بھی گستاخی پر احتجاج کے لئے سب سے پہلے آواز بلند کی ہے۔ پاکستانی وہ ہر اول دستہ ہیں، جو ناموسِ رسالتؐ کی حفاظت کے لئے سب سے پہلے میدان میں آتا ہے۔ یہ معاملہ ہمارے ایمان کا ہے اور کوئی مسلمان اُس وقت تک سچا مسلمان ہو نہیں سکتا، جب تک خواجہ ئ یثربؐ کی حرمت پر جان نچھاور کرنے کا جذبہ نہ رکھتا ہو۔ کل جب فرانسیسی صدر کے چہرے پر گندہ ٹماٹر مل دیا گیا تو گویا یہ ایک پیغام تھا کہ کوئی دُنیا کا کتنا ہی بڑا حکمران ہو، کتنے ہی زیادہ سیکیورٹی کے حصار میں ہو، مگر نبیؐ کے جو پروانے ہیں اُن کا راستہ کوئی نہیں روک سکتا۔ شاید فرانس کے صدر نے ماضی کے واقعات سے سبق نہیں سیکھا کہ جس نے بھی پیارے نبی اکرمؐ کی شان میں گستاخی کی، اُس کا حال بدتر ہوا۔فرانسیسی صدر اور وہاں خاکے بنانے والے بہت جلد عبرت کا نشان بن جائیں گے۔ وہ خود اپنے ملک فرانس میں منہ چھپاتے اور جان بچاتے پھریں گے، کیونکہ یہ اللہ کا فیصلہ ہے کہ جس نے نبی ئ آخر الزماں ؐ کی ذاتِ اقدس کی بے حرمتی کرنے کا سوچا بھی، وہ عبرت کا نشان بن جائے گا۔
گستاخانہ خاکوں کے گھناؤنے عمل کے پیچھے درحقیقت اہل ِ مغرب کا وہ خوف ہے کہ اسلام اسی طرح تیزی سے پھیلتا رہا تو یورپ اور امریکہ میں یہود و نصاریٰ اقلیت بن جائیں گے۔ آئے روز یہ اعداد و شمار سامنے آتے رہتے ہیں کہ اسلام قبول کرنے والے یورپی اور امریکی عوام کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔برطانیہ میں جو نسلی فسادات ہوتے ہیں، اُن کا سب سے بڑا محرک بھی یہی ہے کہ وہاں اسلام کے بڑھتے ہوئے اثرو رسوخ کا خوف ذہنوں پر مسلط ہو چکا ہے۔ جب ایسے انتہا پسندوں سے اور کچھ نہیں بن پڑتا تو وہ پیغمبر آخر الزماں ؐ کی شان میں گستاخی پر اُتر آتے ہیں۔ یہ اُن کی گھٹیا سوچ ہوتی ہے کہ اس طرح وہ اسلام کے بڑھتے ہوئے اثر کو روک سکیں گے۔فرانس میں بھی اسلام اس وقت تیزی سے پھیل رہا ہے اور اسلام قبول کر کے اُس کے دائرے میں داخل ہونے والوں کی تعداد روز افزوں ہے۔ ایسے میں انتہا پسند جنونی ایسی حرکتوں پر اُتر آتے ہیں …… حکومتوں کا کام یہ ہوتا ہے کہ ایسی کوششوں پر گرفت کریں، تاکہ ہم آہنگی برقرار رہے،لیکن اس بار فرانسیسی صدر اپنے منصب کے تقاضوں کو بالائے طاق رکھ کر گھٹیا سطح پر اُتر آئے۔ یوں لگتا ہے جیسے انہیں ذاتی طور پر اِس بات کا دُکھ ہے کہ فرانس میں اسلام تیزی سے کیوں پھیل رہا ہے؟ وہ کائنات کے آخری نبیؐ اور آخری دین کی حقانیت کو جھٹلانے کے لئے گستاخانہ خاکوں جیسی مذموم کوششوں کی حمایت کر رہے ہیں،انہیں جلد اس معاملے میں گھٹنے ٹیکنے پڑیں گے،عالم اسلام سے معافی مانگنا پڑے گی۔
اِس وقت فرانس کے خلاف پوری دُنیا کے مسلمان سراپا احتجاج ہیں۔مظاہرے جاری ہیں، فرانسیسی صدرکی تصویروں کو جوتے مارے جا رہے ہیں، چہرہ مسخ کیا جا رہا ہے، پتلے جلائے جا رہے ہیں،دوسری طرف فرانس کی مصنوعات کا بائیکاٹ کر دیا گیا ہے، بڑے چھوٹے سٹوروں سے فرانسیسی اشیاء ہٹا دی گئی ہیں۔ فرانس پلک جھپکنے میں نفرت کی علامت بن گیا ہے، تاہم یہ سب کچھ کافی نہیں، او آئی سی اپنا فوری اجلاس بلائے اور اسلامی ممالک اقوام متحدہ کی جنرل کونسل کا اجلاس بلانے کا بھی مطالبہ کریں۔تمام اسلامی ممالک سے فرانسیسی سفیروں کو نکال کر سفارتی تعلقات منقطع کئے جائیں۔یہ معاملہ پہلے جیسا نہیں،بلکہ دوسری نوعیت کا ہے کہ اس میں خود فرانسیسی حکومت شرمناک کردار ادا کر رہی ہے،اِس لئے فرانس کو دُنیا میں تنہا کرنا ضروری ہے۔ پاکستان کو فرانس سے اپنا سفیر واپس بُلا لینا چاہئے تاکہ ایک واضح پیغام جائے کہ پاکستان اور پاکستانی عوام اِس معاملے میں کوئی رعایت دینے کو تیار نہیں،کیونکہ ہماری زندگی کا بنیادی مقصد ہی ناموسِ رسالتؐ کا تحفظ ہے۔