میں ہزارہ ہوں! 345

میں ہزارہ ہوں!

میں ہزارہ ہوں!

آج صبح بخیر زندگی ہزارہ کے نام ہے جو شدید ترین سردی میں یخ بستہ دل والوں کے ساتھ پنجہ آزمائی کر رہے ہیں. ان کی خاموشی کتنی توڑ دینے والی ہے. حاشر بن ارشاد نے قلم سے کلیجہ مسل کر رکھ دیا ہے.

دنیا کی اداس ترین کہانی
(حاشر ابن ارشاد)

1910 میں امریکہ کے ایک چھوٹے سے مقامی اخبار میں ایک اشتہار شائع ہوا

“ہاتھ سے بُنے ہوئے چھوٹے بچے کے کپڑے اور ایک جھولا برائے فروخت۔ دونوں استعمال نہیں ہوئے”

شاید اسی اشتہار کو پڑھنے والے کسی نامعلوم شخص نے برسوں بعد وہ کہانی تخلیق کی جو آج بھی دنیا کی اداس ترین کہانی سمجھی جاتی ہے۔ عام طور پر ہیمنگوے سے موسوم اس مختصر کہانی میں صرف چھ لفظ ہیں۔

For Sale: baby shoes , never worn

( برائے فروخت: بچے کے جوتے، جو کبھی پہنے نہیں گئے )

چھ لفظوں میں ماں کی محبت ، باپ کی امنگ ، بہنوں اور بھائیوں کے ارمان سب ایک لمحے میں فنا ہوتے دیکھنے ہوں تو یہ کہانی ایک دفعہ دل سے پڑھ لیجیے ۔

مجھے لگتا تھا کہ دنیا کی سب سے اداس کہانی لکھ دی گئی ہے۔ اب اس سے آگے کیا ممکن ہے۔ پھر کابل یونیورسٹی میں ایک دن امید مہریار کو ایک پیغام ملا۔

کابل یونیورسٹی کا قتل عام تو یاد ہو گا ۔ نوجوان طالب علموں کی لاشوں کے ساتھ ان کے سامان کو اکٹھا کرتے ہوئے موبائل فونز پر لگاتار آنے والی کالز کا کوئی کیا جواب دیتا اور اور بھی اس وقت جب کالر سکرین پر ماما یا بابا لکھا نظر آ رہا ہو۔ امید مہریار میں بھی یہ ہمت نہ تھی اس لیے گھنٹیاں بجتی رہیں اور وہ بس دیکھتے رہے۔

ایک مقتول طالبہ کے فون پر ایک سو بیالیس دفعہ کال آئی پر کون اٹھاتا ، کون جواب دیتا۔ پھر شکستہ فون کی سکرین پر وہ پیغام آیا جو اب بھی مجھے سونے نہیں دیتا

“کجا ہستی، جان پدر”
(کدھر ہو، بابا کی جان)

دنیا کی سب سے اداس کہانی اب انگریزی میں نہیں ، فارسی میں تھی ۔

میں کبھی کبھی اپنی بیٹی کی تصویر دیکھتا ہوں اور اس باپ کا تصور کرنے کی کوشش کرتا ہوں جو اپنی جان سے عزیز متاع کے بارے میں بس یہ جاننا چاہتا ہے کہ وہ کہاں ہے۔ لیکن یہ تصور بھی نہیں کیا جاتا۔ خیال کی دنیا میں ابھی اتنی وسعت نہیں ہے کہ اس میں اتنا غم سما سکے۔

ایک دفعہ پھر یہی سوچا کہ اس سے زیادہ دلخراشی اور کیا ممکن ہے پر مچھ کے قاتل میری سادگی پر کہیں دور سفاکی سے ہنستے تھے ۔

اشفاق صاحب نے فیض احمد فیض کے بارے میں لکھا تھا کہ اگر فیض صاحب حضور کے زمانے میں ہوتے تو ان کے چہیتے غلاموں میں سے ہوتے۔ جب بھی کسی بد زبان، تند خو، بد اندیش یہودی دکاندار کی دراز دستی کی خبر پہنچتی تو حضور کبھی کبھی ضرور فرماتے: آج فیض کو بھیجو، یہ دھیما ہے، صابر ہے، برد بار ہے، احتجاج نہیں کرتا، پتھر بھی کھا لیتا ہے۔ ہمارے مسلک پر عمل کرتا ہے۔

ہزارہ بھی حضور کے اسی مسلک کی مثال ہیں جس کی تصویر کبھی فیض صاحب کی شکل میں اشفاق احمد کو نظر آئی تھی۔ وہ خوبصورت ہیں، دلجو ہیں ، دلکش ہیں، دھیمے لہجے میں بات کرتے ہیں۔ شکایت بھی کرتے ہیں تو ایک خوشبو سی مہک جاتی ہے پر خوشبو کے ہاتھ کو تھامنے والے مہربان بادل ہماری زمینوں سے روٹھ گئے ہیں اور بدزبان، تند خو اور بداندیش صرصر خوشبو کو مٹانے پر ہر وقت بضد رہتی ہے۔

گیارہ نوجوانوں کو ذبح کر دیا گیا کہ وہ حضور کے مسلک پر عمل کرتے تھے۔ ان میں وہ بھائی بھی تھا جو کوئلے کی کان میں اس لیے کوئلہ ہوتا تھا کہ اس کی چھ بہنیں پڑھ سکیں۔ ایک بہن کا نام معصومہ ہے۔ معصومہ کے پاس بولنے کو، شکایت کرنے کو، ریاست کو ، حکام کو برا بھلا کہنے کو بہت کچھ تھا۔ پر ٹوٹی آواز میں جب وہ بولی تو صرف یہی کہہ پائی

“بھائی کا جنازہ اب ہم بہنوں کو اٹھانا ہے کیونکہ گھر کے سب مرد ختم ہو گئے ہیں”

دیکھیے، یوں ایک فقرے میں دنیا کی اداس ترین کہانی اب انگریزی میں نہیں ، فارسی میں نہیں، اردو میں ہے، ہزارہ میں ہے۔

اب اس پر فخر کرنا ہے یا شرم سے سر کو جھکانا ہے، یہ میں آپ پر چھوڑ دیتا ہوں۔