Relation of Society and Masjid 413

معاشرہ اور مسجد کا باہمی تعلق

معاشرہ اور مسجد کا باہمی تعلق
مفتی گلزار احمد نعیمی
اگر چہ معاشرے کے ارتقاء، اصلاح اور تعمیر کی اساس تبدلِ زمانہ کے ساتھ مختلف ہوتی رہی ہے۔ لیکن اسلامی معاشرے کی تعمیر اور اصلاح میں مسجد کو ہمیشہ خصوصی اہمیت حاصل رہی ہے۔ آغاز اسلام میں مسلمانوں کی درسگاہ کے ساتھ ساتھ تربیت کا مرکز صرف مساجد تھیں ۔ حضور اکرمﷺ نے ہزاروں اور لاکھوں صحابہ کرام کی تربیت خانہ خدا اور مسجد نبوی ہی میں کی تھی وہ افراد جو علم کے اعتبار سے بالکل کورے تھے نہ لکھنا جانتے تھے بہ پڑھنا جانتے تھے اور جو جانتے تھے ان کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی جنھیں اپنے بدووانہ طرز حیات میں جانوروں کے چرانے کے علاوہ کچھ کام نہ آتا تھا لیکن وہی صحابہ کرام حضور اکرمﷺ کی تربیت کے طفیل قوموں کے امام ، قائد اور رہنما بن گئے۔
یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ عصرِ حاضر کے ترقی یافتہ معاشرے کی مانند معاشرے میں نہیں رہ رہے تھے۔ اگر وہ اس قسم کے معاشرے میں زندگی گزار رہے ہوتے تو شاید دیگر قوموں کے امام نہ بن سکتے، چونکہ معاشرہ بھی ناپائیدار اصولوں پر قائم تھا اس لیے انھیں ذرا بہتر مواقع میسر آگئے جس کا انھوں نے فائدہ حاصل کرلیا۔
لیکن ذہن میں یہ بات رہے کہ اس زمانہ میں بھی روم اور ایران میں شہنشاہیت کے لبادے میں جو نظام ہائے حیات قائم و دائم تھا ان کی حیثیت ایسی ہی تھی جیسی آج کل سُپر طاقتوں کی ہے اور فارس و روم کے اقتدار کی بنیاد بھی اپنے اپنے اعتبار سے نہایت مضبوط تھیں لیکن اسلام کی تعلیمات نے ان مضبوط بنیادوں پر قائم معاشروں کو ریت کی مانند، قائم شدہ دیواروں کو خس و خاشاک کی طرح بہا کر نست و نابود کردیا۔
اسلامی معاشرے میں مسجد کا بنیادی مقصد تو اجتماعی حیثیت سے یادالٰہی سے اپنے قلوب کو منور کرتے ہوئے پاکباز روح کو اس کی غذابھی مہیا کرناہے ۔عبادات سے تعلق پیدا کرنا ہے.۔ حیات مستعار میں باقاعدگی کے اوصاف پیدا کرناہے ۔اذان کی صدا آتے ہی مسلمان کی توجہ کا مسجد کی جانب مبذول ہوجانا ہے ۔اپنے اندر پابندیِ وقت کے ساتھ ساتھ چستی اور مستعدی کے اوصاف پیدا کرناہے ۔تمام خاندانی، نسلی اور طبقاتی امتیازات کو ختم کرنا ہے ۔ایک ہی صف میں کھڑے ہو کر مساوات و برابری کا عملی ثبوت مہیا کرنا ہے ۔کالے اور گورے، غریب اور امیر کی تمیز کو ختم کرنا ہے ۔گویا
ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز
مسجد میں اخوت و محبت اور ہمدردی کا درس حاصل ہوتا ہے ، آپس میں میل جول اور بھائی چارے اور تعاون کے جذبات عروج پر پہنچتے ہیں، ایک دوسرے کے درمیان دکھ اور سکھ میں شرکت کے احساس پیدا ہوتے ہیں ، آپس میں شناسائی کے مواقع میسر آتے ہیں،غریب اور محتاجوں کے دکھ درد کو ختم کرنے کے احساس عود کر آتے ہیں ،اطاعت امیر کی عملی تربیت بھی ملتی ہے ،نظم و ضبط کے جوہر پیدا ہوتے ہیں اور یہی تربیت دنیاوی امور میں رہنمائی کے مواقع مہیا کرتی ہے ،اطفال سے اکابر تک قرآن و حدیث کی تعلیمات سے آگاہ ہوتے ہیں،روزمرہ کے ضروری مسائل سے واقفیت حاصل ہوتی ہے ،اسلامی تہذیب و تمدن,اسلامی ثقافت کی نشو نما پر وان چڑھتی ہے ،آداب معاشرت اور آداب مجلس سے آگاہی اور عملی تربیت کے مواقع میسر آتے ہیں،مسلمانوں میں اتحاد و اتفاق کے جذبات پروان چڑھتے ہیں،ولی کدورتوں کا خاتمہ ہوتا ہے ،انس و محبت کے سوتے پھوٹتے ہیں،صفائی ، طہارت اور پاکیز گی سے انسیت پیدا ہوتی ہے، برائیوں کو مٹانے اور نیکیوں کو پھیلانے کی تعلیم حاصل ہوتی ہے ،سوئے سوئے اور بیگانہ احساسات کو دوبارہ شعور اور خفیہ جذبات کو جلا ملتی ہے۔ احترام ِ قانون اور معاشرتی ذمہ داریوں کو برداشت کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ مسلمانوں کی عظمت رفتہ کی بحالی مسجد کی عظمت کی بحالی میں مضمر ہے۔ جب مسجد کی حیثیت کو بحال کرنے کی بات ہوتی ہے تو حقیقت میں مسلمانوں کی کھوئی ہوئی عظمت کو بحال کرنے کی تفکیر و تدبیر ہوتی ہے۔