syed saqib akbar 673

مسجد الاقصیٰ: اسلام اور تاریخ کے نقطہ نظر سے

مسجد الاقصیٰ: اسلام اور تاریخ کے نقطہ نظر سے
ثاقب اکبر
مسجد اقصیٰ، معراج النبیؐ اور قبلۂ اول
مسجد اقصیٰ کو مسلمانوں کا قبلہ اول کہا جاتا ہے۔ اسے اسلامی نقطۂ نظر سے خانہ کعبہ اور مسجد نبوی کے بعد مقدس ترین مقام کی حیثیت حاصل ہے۔ یہ مسجد فلسطین کے دارالحکومت بیت المقدس کے مشرقی حصے میں واقع ہے جس پر اس وقت اسرائیل کا قبضہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مسجد کے اندر پانچ ہزار نمازیوں کی گنجائش ہے البتہ اس کے وسیع صحن بھی موجود ہیں جن میں ہزاروں افراد نماز ادا کر سکتے ہیں۔
مسجد اقصیٰ کا ذکر قرآن حکیم کی سورہ بنی اسرائیل کی پہلی آیت میں کیا گیا ہے۔ یہ آیت رسول اسلامؐ کے واقعۂ معراج کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ یہ واقعہ اپنے مقام پر جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت و فضیلت پر دلالت کرتا ہے وہاں مسجد اقصیٰ کے فضل و شرف کا بھی غماز ہے۔ قرآن شریف میں فرمایا گیا ہے:
سُبْحٰنَ الَّذِیْٓ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِیْ بٰرَکْنَا حَوْلَہٗ لِنُرِیَہٗ مِنْ اٰیٰتِنَا اِنَّہٗ ھُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ۔
پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو راتوں رات لے گئی مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک جس کے اردگرد کو ہم نے برکتوں والا بنایا ہے تاکہ ہم اسے اپنی نشانیاں دکھا سکیں بے شک وہ وہی ہے جو سمیع بھی ہے بصیر بھی۔
مسجد اقصیٰ کی طرف سفر
مسجد اقصیٰ کو مسلمانوں کا قبلہ اول اس لیے کہا جاتا ہے کہ معراج شریف میں نماز کے فرض ہونے کے بعد سولہ سے سترہ ماہ تک مسلمان اسی مسجد کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے رہے بعدازاں مدینہ شریف میں ایک نماز کے دوران میں قبلہ کی تبدیلی کا حکم آ گیا اور خانہ کعبہ کو قبلہ قرار دے دیا گیا۔ تاہم ایک عرصے تک پیغمبر اسلام ؐاور مسلمانوں کا قبلہ رہنے کی وجہ سے مسجد اقصیٰ کو ایک خاص مقام حاصل ہو گیا۔
احادیث کے مطابق مسجد حرام، مسجد اقصیٰ اور مسجد نبوی کی طرف سفر کرنا باعث برکت ہے۔ بعض روایات کے مطابق مسجد کوفہ کوبھی ان بافضیلت مساجد میں شمار کیا گیا ہے جن کی طرف سفر کرنا باعث برکت ہے۔
بیت المقدس قبل از اسلام
بیت المقدس مختلف ادوار میں مختلف اقوام کے زیر اقتدار رہا ہے۔ حضرت موسیٰؑ نے اپنی قوم کو اس شہر میں داخل ہونے کا حکم دیا تو انھوں نے انکار کردیا۔ پھر ایک مدت تک بنی اسرائیل صحرائوں میں بھٹکتے رہے، بعدازاں وہ اس شہر کی طرف آئے اور اسے فتح کر لیا۔ اس کے بعد مختلف ادوار میں اس شہر میں یہودیوں کی حکومت رہی۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی بنی اسرائیل سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کی زندگی میں تو یہودیوں نے ان پر ظلم و ستم روا رکھا اور ان کے الٰہی مقام و مرتبہ کو قبول کرنے سے انکار کردیا لیکن بعدازاں ایک عرصہ تک مسیحیوں کی بھی اس شہر پر حکومت رہی۔
بیت المقدس آغوش اسلام میں
15ہجری میں حضرت عمرؓ بن خطاب کے دور میں مسلمانوں نے بیت المقدس کو فتح کیا۔ خود حضرت عمرؓ بھی اس شہر میں پہنچے۔ صخرہ، مسجد اقصیٰ کے قریب وہ مقام ہے جہاں سے نبی کریمؐ معراج پر تشریف لے گئے تھے۔ آج کل دنیا میں الاقصیٰ کے ذکر کے ساتھ جو تصویر آنکھوں کے سامنے ابھرتی ہے، وہ اسی مقام کی ہے جس کے اوپر عبدالمالک بن مروان کے دور میں ایک گنبد تعمیر کر دیا گیا تھا۔ حضرت عمرؓ نے روانگی کے وقت صخرہ اور براق باندھنے کی جگہ کے قریب مسجد کی تعمیر کا حکم دیا۔ وہیں پر انھوں نے نماز بھی ادا کی۔ مسجد اقصیٰ سے یہ مقام چونکہ بہت قریب ہے اس لیے یہی مسجد بعد میں مسجد اقصیٰ کہلائی۔
فلسطین کی آبادی نے رفتہ رفتہ اسلام قبول کرلیا۔ اس طرح سے فلسطین کی سرزمین آغوش اسلام میں آ گئی۔ یہودیوں کی مختصر آبادی کے علاوہ عیسائیوں کی بھی کچھ آبادی اس سرزمین پر ہمیشہ موجود رہی۔ رسول اسلامؐ سے پہلے چونکہ یہ سرزمین ہمیشہ انبیاء کا مرکز رہی ہے اس لیے دنیا کے تین بڑے ادیان کے نزدیک یہ آج بھی محترم ہے۔ شاید دنیا میں کسی اور سرزمین کو یہ خصوصیت اور حیثیت حاصل نہیں ہے۔
مسجد اقصیٰ کا بانی
یہ سوال بہت اہم ہے کہ مسجد اقصیٰ کا بانی کون ہے بعض لوگ حضرت آدمؑ کو، بعض حضرت ابراہیمؑ کو اور بعض حضرت یعقوب علیہ السلام کو اس کا بانی قرار دیتے ہیں، اسرائیل بھی حضرت یعقوبؑ ہی کا نام ہے اور آپؑ ہی کی اولاد کو بنی اسرائیل کہا جاتا ہے۔ آپؑ کی اولاد میں سے حضرت سلیمانؑ نے بھی یہاں معبد تعمیر کیا۔ اسی کو ہیکلِ سلیمانی کہا جاتا ہے۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ حضرت سلیمان نے اس معبد کی تجدید کی جسے حضرت یعقوب علیہ السلا م نے تعمیر کیا تھا یا جو پہلے سے یہاں پر موجود تھا۔ یہودی چونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان نہیں رکھتے اس لیے وہ چیزیں جو ان دو ہستیوں سے مربوط ہیں ان کے احترام کے بھی قائل نہیں۔ ان کا یہ کہنا ہے کہ اس وقت جس جگہ پر مسجد اقصیٰ موجود ہے اسی کے نیچے ہیکلِ سلیمانی کی عمارت موجود ہے۔ اسی لیے ان کی خواہش یہ ہے کہ مسجد اقصیٰ کو گرا کر ہیکلِ سلیمانی کو بحال کیا جائے۔
عبدالملک بن مروان کے دورمیں
یزید بن معاویہ کے بعد حکومت مروان بن حکم نے سنبھال لی چونکہ یزید کے بیٹے نے تخت حکومت پر بیٹھنے سے انکار کردیا تھا۔ مروان کی حکومت زیادہ دیر نہ رہی۔ اس کی وفات یا ایک قول کے مطابق قتل کے بعد حکومت عبدالملک بن مروان کے ہاتھ آ گئی۔ اس کے دور حکومت کے آغاز میں مکہ مکرمہ پر حضرت عبداللہ ابن زبیر کی حکومت تھی۔ حج کے موقع پر وہ اپنی طرف حاجیوں کو دعوت دیتے تھے۔ عبدالملک کو یہ گوارا نہ تھا کہ شام سے جانے والے لوگوں کو وہ اپنی طرف مائل کرلیں۔ اُس نے مناسب سمجھا کہ لوگوں سے کہا جائے کہ مسجد اقصیٰ بھی مسجد حرام ہی کی طرح عظمت رکھتی ہے۔ حج کے لیے اس کی طرف بھی جایا جاسکتا ہے۔ چنانچہ اس نے مسجد اقصیٰ کی تعمیر نو شروع کروائی، گنبد صخرہ بھی بہت خوبصورت بنوایا، تعمیر کا کام البتہ اس کے دور میں مکمل نہ ہو سکا، اس کے بیٹے ولید بن عبدالملک نے مسجد اقصیٰ کی تعمیر مکمل کروائی۔عباسی حکمران ابو جعفر منصور نے بھی اس مسجد کی مرمت کروائی۔
صلاح الدین ایوبی کے دور میں
پہلی صلیبی جنگ کے بعد عیسائیوں نے بیت المقدس پر قبضہ کر لیا۔ انھوں نے اس کے اندر بہت سی تبدیلیاں کیں، کئی نئی عمارتیں بھی بنائیں، بعدازاں صلاح الدین ایوبی نے 1187میں عیسائیوں کو شکست دے کر بیت المقدس پر قبضہ کر لیا اور اسلامی آثار کو بحال کر دیا۔ اُسی نے مسیحی نشانات سے مسجد کو پاک کر وایا۔
معبد سلیمان ؑ اور مسجد اقصیٰ میں آتشزدگی
مسجد اقصیٰ کی عمارت کے نیچے معبد سلیمان جسے معروف طور پر ہیکل سلیمانی کہا جاتا ہے، کے بارے میں یہودیوں کے دعوے کی ان کے پاس کوئی دلیل اور ثبوت نہیں ہے۔ تاہم وہ یہی عقیدہ رکھتے ہیں اور جیسا کہ ہم نے کہا کہ وہ اسے گرا کر اور کھدائی کرکے بزعم خویش نیچے سے ہیکل سلیمانی نکالنا چاہتے ہیں۔ اسی عقیدے کی وجہ سے 21اگست 1969 کو ایک آسٹریلوی یہودی ڈینس مائیکل روحان نے قبلہ اول کو آگ لگا دی جس سے مسجد اقصیٰ تین گھنٹے تک آگ کی لپیٹ میں رہی اور جنوب مشرقی جانب سے عین قبلہ کی طرف کا بڑا حصہ گر پڑا۔ محراب میںموجود منبر بھی نذرآتش ہو گیا۔ یاد رہے کہ صلاح الدین ایوبی نے فتح بیت المقدس کے بعد یہ منبر نصب کیا تھا۔ صلاح الدین ایوبی نے قبلہ اول کی آزادی کے لیے تقریباً 16جنگیں لڑیں اور ہر جنگ کے دوران میں وہ اس منبر کو اپنے ساتھ رکھتا تھا تاکہ فتح ہونے کے بعد اسے مسجد میں نصب کر سکے۔
او آئی سی کی تشکیل مسجد اقصیٰ کے لیے
مسجد اقصیٰ میں آتش زدگی کا یہ سانحہ تاریخ کا ایک نیا موڑ ثابت ہوا جس کے بعد مسلمانوں میں بے چینی اور اضطراب کی ایک لہر دوڑ گئی۔ مسلمان حکمرانوں میں بھی ایک بیداری پیدا ہوئی۔ اسی کے نتیجے میں آرگنائزیشن آف اسلامک کانفرنس (OIC) معرض وجود میں آئی، جس کا پہلا اجلاس مراکش کے دارالحکومت رباط میں منعقد ہوا۔ پاکستان کی طرف سے سابق صدر یحییٰ خان نے نمائندگی کی۔ کانفرنس میں اس صہیونی سازش کی سخت مذمت کی گئی تاہم بعدازاں او آئی سی نے بیت المقدس کی آزادی کے لیے کوئی کردار ادا نہیں کیا بلکہ رفتہ رفتہ وہ اعلیٰ اسلامی مقاصد سے دور ہوتی چلی گئی۔ اب تو یہ گمان ہوتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ او آئی سی کو صہیونیت کے خلاف بھڑکے ہوئے مسلمانوں کے جذبات کو ٹھنڈا کرنے کے لیے بنایا گیا ہو۔
بیت المقدس بنی اسرائیل سے پہلے
بعض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ فلسطین میں ہمیشہ سے یہودی یا بنی اسرائیل رہتے تھے۔ یہ خیال تاریخ سے نابلد ہونے کی وجہ سے ہے کیونکہ یہودی مذہب کا سلسلہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد شروع ہوا۔ حضرت موسیٰؑ مصر سے بنی اسرائیل کو نکال کر لائے تھے۔ انھوں نے بنی اسرائیل کو اس مقدس شہر میں داخل ہونے کا حکم دیا جس کا تذکرہ ہم قبل ازیں کر چکے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ شہر اللہ تعالیٰ کے نزدیک بنی اسرائیل کے داخلے سے پہلے ہی مقدس تھا جہاں پر اُس زمانے میں ایک ظالم بادشاہ حکمران تھا جس کے پاس ایک زبردست طاقتور فوج موجود تھی جس سے بنی اسرائیل خوفزدہ ہو گئے تھے۔
یہ سرزمین ہمیشہ سے مقدس تھی
حضرت ابراہیم علیہ السلام بھی نمرودکی سرزمین سے نکل کر اسی سرزمین میں پناہ گزین ہوئے۔ ان کے ساتھ حضرت لوط علیہ السلام بھی تھے۔ قرآن حکیم کی آیات شہادت دیتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اُس زمانے میں موجود اس سرزمین کو مقدس قرار دیا ہے۔ اس سے اس امر کو تقویت پہنچتی ہے کہ خانۂ کعبہ اور بیت المقدس کی سرزمین پروردگار کے ہاں ابتداء ہی سے مقدس قرار دی گئی ہے۔ اس کا تعلق کسی قوم سے نہیں ہے، تاہم یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نہیں چاہتا کہ کوئی سرکش یا ظالم قوم ان مقدس مقامات پر قابض ہویا قابض رہے۔ لہٰذا بنی اسرائیل کو پہلے سے موجود ظالم حکمران کو وہاں سے نکال باہر کرنے کے لیے مامور کیا گیا تھا، بعد میں بھی اگر کوئی قوم ظلم کرنے لگے تو وہ اس سرزمین پر کوئی حق نہیں رکھتی۔ البتہ دوسری طرف کوئی ایسی قوم جو ظلم کے خلاف قیام کرے اور عدل کی حکمرانی کا ارادہ رکھتی ہو، اسے سنت الٰہی کے مطابق قیام کرکے ظالموں سے ان مبارک مقامات کو آزاد کروانے کے لیے اقدام کرنا چاہیے۔
فلسطین میں قدیم ترین قبیلہ کنعانی تھا
ہماری اس رائے کو تاریخ کی اس حقیقت سے تقویت ملتی ہے کہ فلسطین میں سب سے پہلے بودوباش اور سکونت اختیار کرنے والے کنعانی تھے جنھوں نے چھ ہزار سال قبل میلادی وہاں رہائش اختیار کی، یہ ایک عرب قبیلہ تھا اور جزیرہ نمائے عرب سے فلسطین میں آیا تھا۔ اس قبیلے کے یہاں آباد ہونے کے بعد ہی اس سرزمین کو فلسطین کا نام دیا گیا۔ اس سلسلے میں احمد العوضی نے اپنی کتاب الصہیونیۃ نشاتھا ،تنظیماتھا، انشتطھا میں تاریخی حوالوں کے ساتھ اپنا موقف پیش کیا ہے، اس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ سرزمین بنیادی طورپر یہودیوں کا مسکن نہیں تھی، وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بھی تقریباً چھ سو سال بعد اس سرزمین میں داخل ہوئے، جو تقریباً چودہ سو سال قبل مسیح کا زمانہ بنتا ہے۔
قرآن کریم کی شہادت
آئیے اس سلسلے میں قرآن حکیم کی چند ایک آیات پر نظر ڈالتے ہیں۔
حضرت ابراہیم اور حضرت لوط کے بارے میں سورہ انبیاء میں ہے:
وَ نَجَّیْنٰہُ وَ لُوْطًا اِلَی الْاَرْضِ الَّتِیْ بٰرَکْنَا فِیْھَا لِلْعٰلَمِیْنَ (انبیاء:71)
اور ہم نے اسے(حضرت ابراہیم) اور لوط کو اس سرزمین کی طرف نجات دی جس میں ہم نے سب جہانوں کے لیے برکت رکھی ہے۔
اس آیہ مجیدہ سے یہ ظاہرہوتا ہے کہ سرزمین فلسطین اور خاص طور پر بیت المقدس کو اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم سے پہلے ہی برکتوں والی سرزمین قرار دے رکھا تھا۔ نیز یہ برکتیں کسی ایک قوم کے لیے نہیں بلکہ سب جہانوں کے لیے ہیں۔
جب بنی اسرائیل کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زحمتوں اور کوششوں کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے فرعون اور اس کی قوم کے مظالم سے نجات دی تو اس سرزمین پر بالآخر انھوں نے حکومت قائم کرلی۔ اس حوالے سے بھی قرآن حکیم میں موجود آیت میں اس سرزمین کو برکتوں والی قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:
وَ اَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِیْنَ کَانُوْا یُسْتَضْعَفُوْنَ مَشَارِقَ الْاَرْضِ وَ مَغَارِبَھَا الَّتِیْ بٰرَکْنَا فِیْھَا(اعراف:137)
اور ہم نے کمزور کر دی جانے والی قوم کو اس سرزمین کے مشارق و مغارب کا وارث بنا دیا جس میں ہم نے برکتیں رکھی ہیں۔
یعنی بنی اسرائیل کے یہاں آنے سے یہ سرزمین بابرکت نہیں ہوگئی بلکہ اللہ کے ہاںیہ پہلے ہی سے بابرکت ہے۔
حضرت سلیمان علیہ السلام کے واقعات قرآن حکیم کی مختلف سورتوں میں مختلف پہلوئوں سے بیان فرمائے گئے ہیںان میں سے ایک آیت سورہ انبیاء میں جس میں اسی امر کا اعادہ کیا گیا ہے جس کا ذکر سطور بالا میں آیا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:
وَ لِسُلَیْمٰنَ الرِّیْحَ عَاصِفَۃً تَجْرِیْ بِاَمْرِہٖٓ اِلَی الْاَرْضِ الَّتِیْ بٰرَکْنَا فِیْھَا (انبیاء:81)
اور سلیمان کے لیے ہم نے تیز ہوا کو مسخر کر دیا تھا جو ان کے حکم سے اس سرزمین کی طرف چلتی تھی کہ جس میں ہم نے برکت رکھ دی ہے۔
ان آیات سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم سے پہلے بھی یہ سرزمین برکت والی تھی، ان کے بعد بھی برکت والی تھی، بنی اسرائیل جب آئے تو اس وقت بھی برکت والی تھی، بعدازاں حضرت سلیمان علیہ السلام کے دور میں بھی برکت والی تھی اور آخری پیغمبرؐ آئے تو اس وقت بھی یہ سرزمین برکت والی تھی جیسا کہ ہم پہلے سورہ بنی اسرائیل کی اس آیت کا ذکر کر چکے ہیں جس میں واقعہ معراج کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے:
سُبْحٰنَ الَّذِیْٓ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِیْ بٰرَکْنَا حَوْلَہٗ لِنُرِیَہٗ مِنْ اٰیٰتِنَا اِنَّہٗ ھُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ۔
پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو راتوں رات لے گئی مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک جس کے اردگرد کو ہم نے برکتوں والا بنایا ہے تاکہ ہم اسے اپنی نشانیاں دکھا سکیں بے شک وہ وہی ہے جو سمیع بھی ہے بصیر بھی۔