مریم نواز کی عوامی رابطہ مہم اور اردو سے چھیڑ چھاڑ۔۔۔۔ 206

مریم نواز کی عوامی رابطہ مہم اور اردو سے چھیڑ چھاڑ۔۔۔۔

مریم نواز کی عوامی رابطہ مہم اور اردو سے چھیڑ چھاڑ۔۔۔۔
امجد عثمانی
سوشل میڈیا پر اردو اردو کی صدا لگاتیں محترمہ فاطمہ قمر کو سلیوٹ کرنے کو دل کرتا ہے کہ وہ نوجوان نسل کو قومی زبان کی طرف راغب کرنے کیلئے دن رات ایک کئے ہوئے ہیں….پہلے پہلے ان کی ہر پوسٹ میں اردو کی بات دیکھ کر عجیب سا لگتا تھا مگر اب احساس ہوتا ہے کہ وہ صحیح آوازہ لگا رہی ہیں….وہ اپنے لئے نہیں پاکستان کی زبان کے لئے کشکول پکڑے شہر شہر گھوم رہی ہیں…..ایسے لوگ نہ ہوں تو زبانیں اور ثقافتیں اپنی موت مر جائیں…..انہیں”فقیر اردو ” کہا جائے تو بے جا نہیں ہوگا..۔
مسلم لیگ ن کی نائب صدر محترمہ مریم نواز نے پچھلے دنوں اپنے سیاسی حریف وزیر اعظم عمران خان کو” بندہ ایماندار “کے بعد” بندہ تابع دار” کہہ کر خوب تنقید کے نشتر برسائے …..لیگی کارکنوں نے ان کی” ہم وزن طنز “کو خوب پذیرائی بخشی تو جواب میں پی ٹی آئی ٹائیگرز بھی اسی انداز میں “دھاڑتے” رہے…اور دیکھتے ہی یہ “کراس ورڈنگ”بےہودہ شکل اختیار کر گئی جو بہر کیف افسوسناک ہے…لفظ ایماندار تو ٹھیک مگر “تابع دار “پر ہمیں کھٹکا کہ ہمارے اردو کے استاد تو درخواست نویسی کے قواعد سکھاتے بتایا کرتے تھے کہ تابع دار نہیں تابع فرمان درست لفظ ہے پھر “اردو میڈیم “مریم نواز کیوں غلط بول رہی ہیں…..اس پر لکھنے کا سوچ ہی رہے تھے کہ “اپنےالیکٹرانک میڈیا” پر نظر پڑ گئی کہ وہاں بھی بے چاری اردو کے ساتھ یہی سلوک ہو رہا ہے…..ایک دو روز پہلے پاکستان کے بڑے چینل کی نیوز اینکر اپنے” پرائم ٹائم خبرنامے” کی ہیڈلائینز میں مشعل بردار کو مشعل برادر ریلی پڑھ گئیں……ہو سکتا ہے یہ “سلپ آف ٹنگ” ہو مگر بہت پہلے ان کے اینکر نے کتابچہ کو “کتا—بچہ” بول دیا تھا جس کی ویڈیو بہت وائرل ہوئی….اسی طرح باقی چینلز پر بھی گاہے گاہے” گلابی اردو “چلتی رہتی ہے …یہ “شہری بچے” بھی کیا کریں ماس کمیونیکیشن کا نصاب ہی ایسے مرتب کیا گیا ہے کہ وہ بے چارے پڑھتے انگریزی میں ہیں اور لکھنی پڑھنی اردو پڑتی ہیں…عجب اتفاق ہے کہ اب دیہات کے پنجابی اور شہر کے انگلش میڈیا بچے اردو کا حشر نشر کرنے میں ایک پیج پر ہیں ….ویسے تو ہمارے بعض پڑھے لکھے بھائی بھی اردو ایسے بولتے ہیں جھوٹ بول رہے ہوں…….میرے ایسے پینڈو جیسے دل چاہا ویسے ہی اردو بول دیتے ہیں،نجی سکول میں ہماری ایک کولیگ خاتون استاد اکثر فرماتیں کہ بچو!لاگے لاگے آجاؤ….شکرگڑھ میں “لاگے “کا مطلب قریب ہوتاہے…ایسی اردو کو ہی گلابی اردو کہتے ہیں…..
گذشتہ شب بھی ایک بڑے چینل کے “بڑے ٹاک شو” کے بڑے اینکر فرما رہے تھے کہ کے پی میں ایک رکن اسمبلی نقل مارتے ہوئے پکڑے گئے ہیں….وہ سو شل میڈیا ایکٹیوسٹس کو فرما رہے تھے کہ ٹرینڈ چلانا ہے تو یہ چلاؤ کہ ہمیں نقل نہیں مارنی چاہئیے…….. نقل مارنے سے ہمیں خبریں کے زمانے کی ایک “کلاس “یاد آگئی…یہ اس اخبار کے عروج کے زمانہ تھا…. ایک شام جناب ضیا شاہد اپنے” لاؤ لشکر “کے ساتھ ہمارے کراچی نیوز ڈیسک پر “جلوہ افروز “ہوگئے…..وہ “جلال “میں “صحافت کے” جنرل “ہی لگ رہے تھے……جناب عدنان شاہد مرحوم ….جناب عظیم نذیر اور جناب عبدالجبار شاکر ہاتھ باندھے کھڑے تھے…..ہنگامہ یہ تھا کہ اس وقت کے وزیر اعلی سندھ علی محمد مہر کی سکھر جانے کی سنگل کالم خبر ایک ہی صفحے پر دو مرتبہ چھپ گئی تھی…..ہمارے ایک دلچسپ ساتھی ، جنہوں نے ایک بار افغان وزیر خارجہ عبد اللہ عبداللہ کے نام پر تھرتھلی مچادی کہ عبداللہ دو دفعہ لکھا گیا مگر اب ایک خبر دو مرتبہ لگا کر پورے ڈیسک کو کٹہرے میں لا کھڑا کر دیا…..جناب اطہر عارف مرحوم …..احسن ظہیر ….میں اور ایک اور دوست سامنے بیٹھے چیف ایڈیٹر کے “غیظ و غصب “کو بھگت رہے تھے کہ انہوں نے ایک ساتھی سے پوچھا کہ آپ نے کاپی کیوں نہیں دیکھی؟وہ بولے کہ سر میں نے بھی ” نظر ماری” تھی مگر پتہ نہیں چلا …….پہلے ہی “آگ بگولہ” ضیا شاہد کا پارہ چڑھ گیا کہ تمہیں تو اردو ہی نہیں آتی…. نظر مارنا کیا ہوتا ہے؟……..وہ “ملزم” کی تلاش میں تھے کہ غلطی ہے کس کی اورہم پردہ پوشی کر رہے تھے کہ کہیں بندہ نوکری سے نہ جائے کہ اچانک وہی دوست بولے: sir…its mine…..سب کی ہنسی نکل گئی…..ضیا شاہد نے اس کی طرف دیکھا اور سر پکڑ لیا؟؟ “اٹس مائن “نے ان کا غصہ ٹھنڈا کردیا اوروہ اٹھ کر چلے گئے…..یہ لطیفہ نہیں تاریخ ہے کہ کبھی اخبار ایسے تیار ہوتے تھے اور ضیا شاہد کے اسی کڑے معیار نے خبریں کو صحافت کی عملی درسگاہ بنادیا…..
ہمارے پسندیدہ اینکر صاحب اسی شو میں “گوگل ٹرانسلیشن” کی ایسی تیسی پھیرتے ہوئے مذاق فرمارہے تھے کہ ادھر ” پین دی سری” کا ترجمہ ” Head of sister “بنتا ہے….یہ علامہ خادم رضوی مرحوم کا وہ مشہور جملہ تھا جو زبان زد عام ہوا…..ہمیں لگتا ہے اینکر صاحب مثبت اور خوش آمدید کو بھی عجیب طریقے سے بولتے ہیں…ہمارا مشورہ ہے انہیں ارود لغت دیکھتے رہنا چاہئیے کہ انہیں بڑی تعداد میں ناظرین ” فالو” کرتے ہیں…….
یہ تو تھی” اپنے گھر” کی حال اور ماضی کی اردو کہانی ….اب آتے ہیں لفظ تابعدار کی طرف……”فرہنگ آصفیہ” کے آئینے میں پوری تحقیق تو اردو دان اینکر جناب آفتاب اقبال ہی فرما سکتے ہیں کہ کون سا لفظ کہاں سے آیا اور کیسے بولا اور لکھا جاتا ہے؟؟؟….ہمارے پاس تو کوئی بیس سال پہلے خریدی” قائد اللغات” نامی سادہ سی ڈکشنری کا ایڈیشن دستیاب ہے جس کے مولف جناب ابو نعیم عبدالحکیم خان نشتر جالندھری ہیں…..اس لغت کے مطابق تابع دار کا لغوی معنی تابع رکھنے والا ہے جبکہ اصطلاحی مطلب فرماں بردار اور مطیع ہے لیکن یہ غلط العوام ہے….. غلط العوام کے بارے لکھا ہے کہ وہ غلطی جو ناواقف لوگ جہالت اور بے علمی کے باعث کرتے ہیں اور ان کی وہ بات قابل سند خیال نہیں کی جاتی جبکہ غلط العام بھی وہ عام غلطی جسے تمام لوگ دہرائیں….یہاں ایک مثل ” غلط العام فصیح” بھی درج ہے جس کا مفہوم ہے جو غلطی عام لوگوں سے شروع ہو کر خاص لوگوں تک جا پہنچی ہو وہ درست تسلیم کر لی جاتی ہے……سچی بات یہ ہے کہ مجموعی طور پر مریم نواز کا “تقریری لب و لہجہ “شاندار ہے…..ہو سکتا ہے وہ مذکورہ مثل کی روشنی میں ہی لفظ تابع دار استعال کرکے عوامی انداز اپنا رہی ہوں جیسے وہ کبھی کبھار”جیوندے رہو” کہتی ہیں….. لیکن ہمارے خیال میں انہیں غلط العام نہیں درست الفاظ کا چناؤ کرنا چاہئیے کہ وہ ایک بڑی جماعت کے قائد،تھرڈ ٹائم پرائم منسٹر کی دختر نیک اختر اور مستقبل کی خاتون لیڈر کے طور پر سامنے آرہی ہیں……شنید ہے شروع شروع میں جناب نجم سیٹھی کی اہلیہ محترمہ جگنو محسن ان کی “انسٹرکٹر” تھیں….صاف ظاہر ہے وہ تو انگریزی ہی سکھا سکتی ہیں….جناب عرفان صدیقی مریم نواز کے” اردو سپیچ رائٹر “نہیں لگتے ورنہ ایسی غلطی سننے کو ہرگز نہ ملتی کہ وہ تو اردو میں سند ہیں……لگتا ہے محترمہ مریم اورنگزیب یا عظمی بخاری ہی ان کی” عوامی تقریریں ” مرتب کرتی ہیں یا پھر جناب پرویز رشید ان کے” تقریری اتالیق” ہوسکتے ہیں..اسی لئے کہیں نہ کہیں غلط العام یا غلط العوام کے” جھٹکے” لگتے رہیں گے کہ میڈم بخاری نے تو “مردار “ہندو فوجیوں کو “شہید” قرار دے دیا تھا یہ تو پھر اردو سے چھوٹی موٹی”چھیڑ چھاڑ” ہے….!!!