مریمے اور ایندیے 258

مریمے اور ایندیے: چند دنوں کی مہمان سمجھی جانے والی جڑواں بہنوں نے سکول جانا شروع کر دیا ہے

مریمے اور ایندیے: چند دنوں کی مہمان سمجھی جانے والی جڑواں بہنوں نے سکول جانا شروع کر دیا ہے
جسمانی طور پر آپس میں جڑی جڑواں بہنوں کی پیدائش پر یہ خیال ظاہر کیا گيا تھا کہ وہ چند ہی دنوں کی مہمان ہیں لیکن تقریباً چار سال بعد اب وہ کارڈف میں سکول جانے لگی ہیں۔

مریمے اور ایندیے کو ان کے والد ابراہیم سنہ 2017 میں علاج کی غرض سے سینگال سے برطانیہ کے گریٹ اورمنڈ سٹریٹ ہسپتال لائے تھے۔

لڑکیاں اب چار سال کی ہیں اور وہ کھڑا ہونا سیکھ رہی ہیں۔ ان کے والد کا کہنا ہے کہ ان کی نشونما بڑی کامیابی ہے۔

ان کی ہیڈ ٹیچر نے کہا کہ لڑکیوں نے دوست بنا لیے ہیں اور وہ ‘بہت ہنس رہی ہیں۔’

یہ بھی پڑھیے

سر سے جڑے دو بھائی آپریشن سے علیحدہ علیحدہ

فلسطینی جڑواں بچیاں کو الگ کرنے کا آپریشن کامیاب

ان بچیوں کے دل اور ریڑھ کی ہڈیاں علیحدہ علیحدہ ہیں لیکن ان کا جگر اور نظام ہضم ایک ہے اور کووڈ کے سبب ان کو خطرات زیادہ ہیں۔

ابراہیمہ ایندیائے نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ یہ بچیاں اپنی ترقی کے لیے سکول جائيں۔

انھوں نے کہا ‘جب آپ ماضی کے آئینے میں دیکھتے ہیں تو یہ ایک ناقابل حصول خواب نظر آتا ہے۔

‘اب سے آگے کی ہر چیز میرے لیے ایک بونس ہوگی۔ میرے دل و جان سے یہ آواز نکلتی ہے آؤ! لڑکیوں چلو! مجھے مزید حیرت زدہ کرو!’

ایندیائے برطانیہ میں پناہ کی درخواست دینے سے قبل سینیگال کی خاتون اول مریم فائی کے ذریعے چلائے جانے والے ایک رفاہی فاؤنڈیشن کی مالی اعانت کے تحت لڑکیوں کو برطانیہ لانے میں کامیاب ہوئے تھے۔

مارچ 2018 میں ان کے خاندان کو وزارت داخلہ نے پناہ کے درخواست گزاروں کے طور پر کارڈف منتقل کر دیا کیونکہ حکومت ایسے افراد کو ملک کے اندر کہیں بھی منتقل کر سکتی ہے۔

سنہ 2019 میں گریٹ اورمنڈ سٹریٹ کے سرجنوں نے دونوں بہنوں کے جسم کو علیحدہ کرنے کی کوشش پر غور کیا لیکن ان کے والد ان کی زندگی کو لاحق خطرات کی وجہ سے ایسا نہیں چاہتے۔

جڑواں بہنیں
اس کے بعد ڈاکٹروں نے دونوں لڑکیوں کے خون کے نظام کو پہلے سے کہیں زیادہ جڑا ہوا پایا ہے اور یہ پایا کہ دونوں ایک دوسرے کے بغیر نہیں جی سکتیں اس لیے اب ان کی علیحدگی ناممکن ہو گئی ہے۔

لڑکیوں کی ہیڈ ٹیچر ہیلن بورلی نے کہا کہ وہ ستمبر میں داخلے کے بعد سے خوب نئی چیزیں سیکھ رہی ہیں اور انھوں نے نئے دوست بنائے ہیں۔

مختلف کردار
انھوں نے کہا کہ ‘بچے یا تو کہتے ہیں کہ ‘میں مریمے کا دوست ہوں’ یا ‘میں ایندیے کا دوست ہوں’۔ وہ یہ نہیں کہتے ہیں کہ ‘میں جڑواں بچوں کا دوست ہوں’۔ بچے کسی ایک سے دوستی یا وابستگی کا اظہار کرتے ہیں کیونکہ یہ دونوں لڑکیاں اپنے کردار میں بہت مختلف ہیں۔

‘وہ بہت ہنس رہی ہیں – جو ہمیشہ ایک اچھی علامت ہوتی ہے، ہے نا؟ کیا کوئی بھی بچہ جو بہت ہنس رہا ہے وہ خوش و خرم بچہ نہیں ہے۔’

جڑواں بچوں کے لیے سکول کو ہسپتال کے دوروں کی اجازت دینے کی ضرورت ہے۔

جڑواں بہنیں
،تصویر کا کیپشن
ایک کے مضبوط قلب سے دوسرے کے قلب کو مدد ملتی ہے

اکتوبر میں لڑکیوں کو گریٹ اورمنڈ سٹریٹ ہسپتال میں سرجری کی ضرورت تھی۔

کارڈف میں بچوں کے ہسپتال میں بچوں کی ڈاکٹر گیلین باڈی نے بتایا کہ خطرات کے باوجود یہ سرجری ضروری تھی۔

انھوں نے کہا ‘لڑکیوں کی جسمانی پیچیدگی کی وجہ سے ان میں انفیکشن اور ممکنہ طور پر سیپسس یعنی سڑنے گلنے کا خطرہ زیادہ ہے۔

‘ہمارے لیے ان میں اینٹی بائیوٹیکٹس جلدی سے داخل کرنا ایک چیلنج تھا اس لیے اس ٹیوب یا کیونولا کو فٹ کرنا ضروری تھا جس کا مطلب یہ تھا کہ لڑکیوں کو کم پریشانی کے ساتھ تیزی کے ساتھ دوا دی جاسکتی ہے۔

انھوں نے بتایا کہ مریمے کا دل بہت سی غیر معمولی چیزوں کی وجہ سے پیچیدہ ہے جو ورزش کرنے میں اس کے لیے پریشانیوں کا سبب بنتا ہے اور سانس لینے میں دقت کا سبب بن سکتا ہے۔

جڑواں بہنیں
‘توازن ڈھونڈنا’

یہ بچیاں کھڑا ہونا سیکھ رہی ہیں۔

ایک خصوصی فریم انھیں سیدھا کھڑا ہونے کا تجربہ فراہم کرتا ہے اور ان کی ٹانگوں میں طاقت پیدا کرنے میں مدد کرتا ہے۔

فزیوتھیراپسٹ سارہ ویڈ ویسٹ نے کہا کہ ان کے لیے یہ مشکل کام ہے۔

انھوں نے کہا ‘جب آپ بیٹھے رہنے کے عادی ہو جاتے ہیں تو کھڑا ہونا واقعی مختلف اور سنسنی خیز ہوتا ہے۔ یہ ڈراؤنا بھی ہوسکتا ہے۔

‘شروعات میں خاص طور پر اینڈیے اس کی زیادہ خواہش مند نہیں تھیں۔ ہم کوشش کرتے ہیں اور کھیل میں اس تھیراپی کو شامل کرتے ہیں تاکہ ان کی حوصلہ افزائی ہو اور وہ کھلونے تک پہنچنے کے لیے زیادہ کوشش کریں۔ لیکن اگر وہ یہ جان لیں کہ یہ ان کا علاج ہے تو پھر اس میں ان کے لیے اتنی دلچسپی نہیں رہ جاتی۔

والد ابراہیم
،تصویر کا کیپشن
وہ یہ ظاہر کر رہی ہیں کہ وہ صرف زندہ رہنا نہیں چاہتیں بلکہ فعال رہنا چاہتی ہیں اور معاشرے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہتی ہیں: بچیوں کے والد ابراہیم

‘ان کے دلی کی صورتحال کی وجہ سے ہم ان پر زیادہ دباؤ نہیں ڈال سکتے۔ اس لیے اس میں توازن قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کو مضبوط بنانے کا چیلنج ہے لیکن انھیں تھکانا نہیں ہے۔

اپنی بیٹیوں کو کھڑا دیکھنا ان کے والد کے لیے صرف ایک پیشرفت ہے۔

انھوں نے کہا ‘وہ یہ ظاہر کر رہی ہیں کہ وہ صرف زندہ رہنا نہیں چاہتیں بلکہ فعال رہنا چاہتی ہیں اور معاشرے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہتی ہیں۔

‘یہ سارے کارنامے مستقبل کے لیے امیدیں جگاتے ہیں۔ لیکن میں جانتا ہوں کہ ان کی زندگی کتنی نازک، پیچیدہ اور غیر متوقع ہوسکتی ہے۔’

مسٹر ابراہیم نے کہا کہ ان کی امید اور خوف برابر ہیں کیونکہ لڑکیاں ‘کئی بار بدترین حد تک جا چکی ہیں۔’

انھوں نے کہا ‘لیکن میں لڑکیوں کے لیے کم از کم اتنا تو کرسکتا ہوں کہ ان سے اپنی امیدیں وابستہ رکھوں۔

‘اور زیادہ سے زیادہ یہ کر سکتا ہوں کہ ان کے ساتھ رہوں اور اس حال میں رہوں کہ امید کا دامن کبھی نہ چھوٹنے پائے۔

‘وہ میری جنگجو ہیں۔ انھوں نے ثابت کیا ہے کہ وہ لڑے بغیر کبھی ہتھیار نہیں ڈالیں گی۔ ابھی بات ختم نہیں ہوئی ہے۔’

کیٹاگری میں : صحت