207

مالک کی پکڑ

مالک کی پکڑ
بس یہی سوچ کر میں ڈر گیا کہ اگر مجھ سے زیادہ طاقتور مالک نے میری پکڑ کر لی تو کیا ہو گا
رمشا جاوید
اوہو وہاب!تم کتنے ڈرپوک ہو۔دیکھ تو سہی اس نے تمہاری سائیکل کی چین توڑ دی ہے۔غریب بچوں میں تمیز کہاں ہوتی ہے۔تم اسے کم از کم ڈانٹ ہی دیتے۔“وقار خفگی سے بڑبڑاتا ہوا وہاب کے پیچھے گھر میں داخل ہوا۔
اس کی آواز اتنی اونچی تھی کہ لان میں بیٹھی ردا آپی نے بھی سن لی۔وہ مذاق اُڑاتے ہوئے بولیں:”وہاب ضرور اس بچے کی بددعا سے ڈر گیا ہو گا۔“
وہاب اور وقار دونوں بھائی تھے اور رِدا ان کی بڑی بہن تھی۔
وہاب نے دونوں کی باتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے سائیکل ایک کنارے کھڑی کی اور چپ چاپ کمرے میں چلا گیا۔
وقار،رِدا آپی کو کچھ دیر پہلے کی تمام روداد تفصیل سے سنانے لگا کہ کیسے وہ اسکول سے گھر آنے لگے تو راستے میں ایک کچرا چُننے والے بچے نے بغیر کسی وجہ کے وہاب کی سائیکل پر ڈنڈا مارا اور کس طرح وہاب ڈر کر وہاں سے بھاگ آیا کہ کہیں وہ بچہ اپنا ڈنڈا وہاب کے سر پر ہی نہ دے مارے۔

”مجھے تو وہ بچہ تھوڑا پاگل سا لگا تھا۔“آخر میں وقار نے اپنی بات کو ختم کرتے ہوئے کہا۔وقار بار بار وہاب کی نئی سائیکل اور بستے کی طرف دیکھ رہا تھا۔
”وہاب بیٹا!اگر تم فارغ ہو تو دکان سے مجھے دہی لادو گے؟“وہاب اور وقار ٹیوشن پڑھ کر گھر آرہے تھے جب پڑوس میں رہنے والی ادھیڑ عمر خاتون نے اپنی کھڑکی سے وہاب کو آواز دی۔

”جی آنٹی!میں بستہ رکھ کر آتا ہوں۔“وہاب نے فوراً ہامی بھر لی۔
”کیا تم دو گھنٹے تک مسلسل پڑھائی سے تھکے نہیں؟“
وقار نے منہ بنا کر پوچھا۔
وہاب مسکرا دیا۔وقار جانتا تھا کہ اس سے کچھ کہنا فضول ہے۔
پھر بھی وہ بولا:”تم بہت ڈرپوک ہو۔کیا ہوتا اگر تم انکار کر دیتے،لیکن نہیں تمہیں تو ڈر ہے کہ کہیں آنٹی بابا سے تمہاری شکایت نہ کر دیں۔“وہ بڑبڑاتے ہوئے سر جھٹک کر چابی سے دروازہ کھولنے لگا۔
”اللہ اکبر․․․“بابا نے اچانک گاڑی روکی۔
آگے بیٹھے دادا ابو نے اگر سیٹ بیلٹ نہ باندھی ہوتی تو ضرور ان کاسر بھی پیچھے بیٹھے وہاب کی طرح آگے کو ٹکراتا۔وہ تینوں کسی کام سے گھر سے نکلے تھے اور بڑی سڑک پر آتے ہی ایک رکشے والے نے غلط موڑ کاٹتے ہوئے اپنا رکشا بابا کی گاڑی سے ٹکرا دیا۔
رکشا اُلٹ چکا تھا اور بابا کی گاڑی کا بھی نقصان ہوا تھا۔ان کی جانب کا شیشہ ٹوٹنے سے ہاتھوں اور پیروں پر چوٹ آئی تھی۔
”ذوہیب!نیچے اُتر کر پکڑو اس رکشے والے کو۔یہ کوئی طریقہ ہے جب اور جہاں دل چاہا اپنا رکشا گھسا دیا۔
دیکھو تو سہی تمہیں کتنی چوٹ آئی ہے۔“دادا ابو ایک دم غصے میں بابا سے بولے۔
”جانے دیں ابو!اس بے چارے کا بھی تو نقصان ہوا ہے۔“بابا نرمی سے بولے۔
”جی دادا ابو!کیا پتا وہ کسی پریشانی میں یا جلدی میں ہو۔ابو اس سے سختی سے پیش آئیں گے تو اللہ تعالیٰ ناراض ہو سکتے ہیں․․․․․اور بابا!پلیز پہلے اسپتال چلیں اور اپنی پٹی کروائیں،دیکھیں آپ کے ہاتھوں سے کتنا خون بہہ رہا ہے۔
“وہاب نے پریشان ہو کر کہا۔
”ارے تم دونوں باپ بیٹا ایک نمبر کے ڈرپوک ہو۔“دادا ابو تلملا کر گاڑی سے باہر نکلے۔لوگوں کا ایک ہجوم جمع ہو چکا تھا۔
”اللہ جانے،ابا اس غریب کے ساتھ کیا سلوک کریں گے۔“بابا پریشانی سے بولے۔
اسی وقت ایک آدمی دوڑتا ہوا آیا اور گاڑی کا دروازہ کھول کر ذوہیب صاحب کو سہارا دے کر باہر نکالا۔اس کے ہاتھ میں کپڑے کی پٹی سی تھی۔لوگوں نے مل کر رکشا سیدھا کر دیا تھا۔اب وہ دونوں منتظر تھے کہ آگے کیا ہوتا ہے۔وہاب نے دیکھا کہ دادا ابو نے رکشے والے کے کندھے کو شفقت سے تھپتھپایا۔
وہاب مسکرا دیا۔اس نے سوچا،اب شاید دادا ابو رکشے والے کی مالی مدد کریں۔
پٹی بندھواتے ہوئے ذوہیب صاحب نے پلٹ کر دیکھا۔دادا ابو اپنی جیب سے چند بڑے نوٹ نکال کر اس غریب رکشے والے کو تھما رہے تھے اور وہ عاجزی سے جھکا جا رہا تھا۔
لوگ مطمئن لگ رہے تھے۔
”میں نے خون بند کرنے کے لئے فوری طور پر پٹی باندھ دی ہے۔آپ قریبی اسپتال جا کر زخم صاف کروا کر پٹی کروا لیں۔“آدمی نے کہا۔
اتنی دیر میں وہاب نے کچھ لوگوں کے ساتھ مل کر شیشے کے ٹکڑے گاڑی سے نکال دیے تھے۔
دادا واپس آگئے۔ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھتے ہوئے بولے:”شکر ہے،مجھے وقت پر یاد آگیا تھا کہ سب سے سخت پکڑ زبان کی ہوتی ہے۔بس یہی سوچ کر میں ڈر گیا کہ اگر مجھ سے زیادہ طاقتور مالک نے میری پکڑ کر لی تو کیا ہو گا۔“
تینوں نے ایک ساتھ جھرجھری لی اور دادا ابو نے گاڑی کا رُخ قریبی اسپتال کی طرف کر دیا۔