لومڑی کی آخری چالاکی 237

لومڑی کی آخری چالاکی

لومڑی کی آخری چالاکی
کسی کی بھی سمجھ میں اس کا یہ بے تکا جواب نہ آیا لیکن یہ الفاظ ایک ایسے جانور کے منہ سے نکلے تھے جس سے وہ احمقانہ جواب کی توقع نہیں رکھتے تھے
ومڑی ایک اونچے ٹیلے پر اداس بیٹھی تھی،سامنے ہرے بھرے میدان میں جانور اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے۔کچھ گھاس چر رہے تھے تو کچھ ان کی تاک میں لگے تھے۔کچھ شکار مار کر اس کے گوشت سے اپنا پیٹ بھر رہے تھے تو کچھ ندی سے پانی پی رہے تھے۔
پرندے بھی جھنڈ بنائے ادھر سے ادھر اڑ رہے تھے۔وہ جنگل کا ایک خوش گوار دن تھا لیکن اس دن لومڑی پر سنجیدگی طاری تھی۔جنگل کی زندگی میں لومڑی کو اہم مقام حاصل تھا۔وہ شیر کی خاص مشیر تھی۔شیر ہر کام اس کے مشورے سے کرتا تھا،تمام جانور اس کے ساتھ عزت سے پیش آتے تھے اور دل سے اس کی عقل کو سراہتے تھے،لیکن وہ اپنی اس حیثیت سے خوش نہ تھی اور اپنے اس کردار سے تنگ آچکی تھی۔
شروع میں تو وہ اپنی اس عزت افزائی پر پھولے نہیں سماتی تھی اور فخر سے گردن اکڑا کر چلتی تھی لیکن اب حالات بدل چکے تھے۔

دراصل جب وہ دوسرے جانوروں کو ایک دوسرے سے ہنسی مذاق کرتے،بے وقوفانہ باتوں پر قہقہے لگاتے،بے مقصد گھاس پر دوڑتے اورلوٹے لگاتے دیکھتی تو آہ بھر کر رہ جاتی ۔

اس کا بھی دل چاہتا تھا کہ لطیفوں پر دل کھول کر ہنسے،گھاس پر لوٹے لگائے،ریچھ کے لمبے لمبے بال نوچ کر بھاگ جائے،لیکن جب وہ ایسا کچھ کرنا چاہتی تو دوسرے جانور حیرت سے اسے دیکھنے لگتے اور وہ شرمندہ ہو جاتی ۔کچھ واقعات نے اس جانوروں کی نظروں میں ایسا بنا دیا تھا کہ وہ اس سے ایسی چھوٹی باتوں کی توقع نہیں کرتے تھے۔
حالانکہ وہ خود کو دوسرے جانوروں کی طرح ہی سمجھتی تھی۔یہاں تک اپنی عقل و چالاکی کو بھی اہمیت نہ دیتی تھی جو جنگل کے ساتھ ساتھ انسانی آبادیوں تک میں اتنی مشہور ہو چکی تھی کہ ہوشیار آدمی کو”لومڑی کی طرح چالاک“کا خطاب دیا جانے لگا تھا۔

جب وہ ان واقعات پر نظر دوڑاتی جن کی وجہ سے اسے یہ مقام حاصل ہواتھا تو سر پیٹ کر رہ جاتی۔اسے ان میں عقل کا عمل دخل کم،موقعہ سے بروقت فائدہ اٹھانا اور دوسروں کا احمقانہ رویہ زیادہ نظر آتا۔مثلاً وہ واقعہ جس میں اس نے شیر اور بھیڑیئے کے ساتھ مل کر تین شکار کیے اور جب شیر نے پوچھا کہ تقسیم کس طرح کی جائے․․․․؟اور بھیڑیئے نے پہلے جواب دے کر اپنی جان گنوائی تھی تو لومڑی نے فوراً سبق سیکھا اور ”تینوں شکار شیر کے ہیں“ کہہ کر عقل مندی کی سند حاصل کی،حالانکہ اگر یہ سوال شیرپہلے اس سے پوچھ لیتا تو وہ بھی بھیڑئیے والا جواب دیتی ۔

اسی طرح جب ایک دن اس نے ایک کوے کو پنیر کا ٹکڑا منہ میں دبائے دیکھا تو اس کا جی للچایا۔یہاں اس نے محض کوے کی خوشامد ہی کی تھی۔اب وہ کوا ہی اتنا بیوقوف تھا کہ ذراسی تعریف پر پھولے نہیں سمایا اور پنیر کا ٹکڑا لومڑی نے مزے لے لے کر کھایا۔
چند واقعات ایسے بھی تھے جن میں اس نے منہ کی کھائی لیکن وہاں کسی جانور کے موجود نہ ہونے کی وجہ سے اس کی عزت بنی رہی۔جب وہ ایک دن انگور کے باغ میں گئی اور پکے ہوئے انگوروں کو دیکھ کر اس کے منہ میں پانی بھر آیا تو اس نے بہت کوشش کی کہ کسی طرح انگور حاصل کر سکے لیکن ناکام رہی۔
بالآخر اپنی جھینپ مٹانے کے لئے یہ کہتے ہوئے رخصت ہو گئی کہ”انگور کھٹے ہیں“۔حالانکہ وہ انگور ذرا بھی کھٹے نہ تھے بلکہ خوب پکے ہوئے میٹھے انگور تھے۔
اب لومڑی تنگ آچکی تھی۔وہ سارا دن بھوکی ٹیلے پر بیٹھی رہی۔رات ہوئی تو تمام جانور وہاں جمع ہو گئے۔
ایک طرف شیر بھی بیٹھا تھا۔سب خوش گپیاں کر رہے تھے۔چاندنی رات تھی،پورے چاند نے آسمان کو روشن کر رکھا تھا۔بادلوں کی ٹکڑیاں اڑی چلی جا رہی تھیں۔بھیڑیئے کچھ بے چین تھے وہ بار بار گردن اوپر کرکے بھیانک آوازیں نکالتے۔شیر ناراض ہو کر انہیں گھورتا لیکن اس کا پیٹ بھرا ہوا تھا لہٰذا نظر انداز کر دیتا۔

باتوں کے درمیان جانوروں میں بحث چھڑ گئی کہ چاند حرکت کر رہا ہے یا بادل سب آسمان کی طرف نظر اٹھائے اندازہ لگانے کی کوشش کر رہے تھے۔کچھ کا خیال تھا کہ چاند حرکت کر رہا ہے جبکہ کچھ جانور بادل کے حق میں تھے۔ ان کی بحث بڑھتے بڑھتے جھگڑے میں تبدیل ہونے لگی تو شیر کو غصہ آگیا۔
وہ زور سے وہاڑا سب کو سانپ سونگھ گیا۔
”تم لوگ کون ہوتے ہو فیصلہ دینے والے یہ تو دانا کا کام ہے۔“سب کی نظریں لومڑی کی طرف گھوم گئیں۔
ایک بار پھر گیند لومڑی کے کورٹ میں آگری تھی،اس کا غصے سے برا حال تھا۔اسے بالکل پتا نہ تھا کہ کیا چیز حرکت کر رہی ہے۔
پھر اسے خیال آیا یہ اچھا موقع ہے ایسا جواب دیا جائے جو احمقانہ ہو تاکہ آئندہ کے لئے اس کی جان چھوٹ جائے۔
وہ بولی”بھائیو اور بہنوں․․․․!اگر چاند رکا ہوا ہے تو بادل چل رہے ہیں اور اگر بادل رکے ہوئے ہیں تو چاند چل رہا ہے۔

کسی کی بھی سمجھ میں اس کا یہ بے تکا جواب نہ آیا لیکن یہ الفاظ ایک ایسے جانور کے منہ سے نکلے تھے جس سے وہ احمقانہ جواب کی توقع نہیں رکھتے تھے چنانچہ سب نے واہ واہ شروع کر دی ان میں شیر بھی شامل تھا۔لومڑی خاموشی سے اٹھی اور نا معلوم مقام کی طرف روانہ ہو گئی۔