حسن نثار 240

لاہور کی چار سڑکیں اور ایل ڈی اے حسن نثار

لاہور کی چار سڑکیں اور ایل ڈی اے حسن نثار
ہمارے ہاں عموماً اس قسم کی خبروں پر کالم لکھنے کا رواج نہیں کیونکہ سستی سیاست اور سیاپا نشے کی طرح طاری ہے اور سچ پوچھیں تو میں بھی ان نشوں کا عادی ہوں لیکن کبھی کبھی ٹریک سے اتر جاتا ہوں اور ایسے موضوعات کی طرف بھی نکل جاتا ہوں جن میں اکثریت کو کچھ خاص دلچسپی نہیں ہوتی۔

وائس چیئرمین ایل ڈی اے کے نام سے بھی میں واقف نہیں لیکن اس شخص نے بہت ہی خوبصورت، مثبت اور تعمیری قسم کی پہل کاری کی ہے جس کا کم از کم ہمارے ہاں کوئی رواج نہیں

۔ہم بڑی بڑی باتیں کرنے اور بڑھکیں مارنے کے عادی کچھ اس قسم کے لوگ ہیں جو اس حقیقت سے آشنا ہی نہیں کہ زندگی صرف میگاپراجیکٹس، کروڑوں نوکریوں اور لاکھوں گھروں کا نام ہی نہیں۔بہت سے چھوٹے چھوٹے، تخلیقی، پیارے پیارے اقدامات بھی شہروں کی خوبصورتی ، پاکیزگی اور لوگوں کیلئے آسانیوں کا سبب بن سکتے ہیں اور اس’’گلوبل ویلیج‘‘ کہلاتی دنیا میں اس کی بے شمار مثالیں موجود ہیں لیکن سیانے سچ کہتے ہیں کہ نقل کیلئے بھی عقل وشعور کی ضرورت ہوتی ہے۔

ایل ڈی اے نے شہر کی چار سڑکوں پر شہریوں کیلئے ایک نیا منصوبہ بنا کر ’’واک اینڈ شاپ‘‘ کی سہولت دینے کا عمدہ فیصلہ کیا ہے جس پر عملدرآمد کے دوررس نتائج سو فیصد یقینی ہیں، اس پر ایل ڈی اے مبارکباد اور داد کا مستحق ہے ۔

لاہور میں پہلی بار چار اہم سڑکوں پر ٹریفک بند کرنے کا پلان بنایا گیا ہے۔ ’’پیڈیسٹرین زونز‘‘ بنائے جائیں گے جن میں ایم ایم عالم روڈ، ملکہ ترنم نور جہاں روڈ، فردوس مارکیٹ چوک اور حسین چوک شامل ہیں ۔ان پیڈیسٹرین زونز کو مختلف طریقوں سے ملکی ثقافتوں کا عکاس بنایا جائے گا۔

ایم ایم عالم روڈ پر ہر سو میٹر بعد بیٹھنے کیلئے بینچز نصب کئے جائیں گے ۔میں نے کئی ملکوں میں یہ کام ہوا دیکھا ہے جسے کرتا تو متعلقہ ادارہ ہی ہے تاکہ ہارمنی موجود رہے لیکن شہری براہ راست کچھ اس طرح شریک ہوتے ہیں کہ جی خوش ہو جاتا ہے مثلاً کوئی اپنے مرحوم والدین، شریک حیات، مرحوم دوستوں، اپنے اساتذہ کے نام سے مختلف بینچز منسوب کر دیتا ہے

یہی حال درختوں کا ہے سو کیا ہی اچھا ہو اگر ایل ڈی اے بھی ان خطوط پر سوچے کہ کسی بینچ اور درخت کیلئے رقم مخصوص کر دے تاکہ شہری براہ راست اس خوبصورت مہم میں شریک ہو سکیں کہ یہ بھی اک طرح کی تربیت ہے ۔

میں اکثر اس بظاہر معمولی سی بات پر بہت کڑھتا ہوں کہ ہم کیسے گئے گزرے لوگ ہیں جو 73سالوں میں اپنی ٹریفک تک میں نظم وضبط پیدا نہیں کر سکے ۔یہ کیسی ناکام و نامراد ٹریفک پولیس ہے جو 73سالوں میں اپنے لوگوں کے اندر’’لائن اور لین‘‘ تک کا شعور، تمیز بھی پیدا نہ کر سکی ۔

آج ٹریفک میں ڈسپلن پیدا کرلو تو ہفتوں کے اندر اندر شہر کا چہرہ بدل جائے گا۔بے تکی اور آوارہ ٹریفک، مادر پدر آزاد انسانی ریوڑوں کی وجہ سے ہر ماہ کروڑوں روپے کا جو فیول ضائع ہوتا ہے اس کی بچت علیحدہ۔

خدا جانے ان ’’انتظامی جنات‘‘ کو یہ سادہ سی بات بھی سمجھ کیوں نہیں آتی کہ جس معاشرہ میں لوگوں کے اندر سڑکوں پر ’’ڈسپلن‘‘ پیدا ہو جاتا ہے اس کا گھنا سایہ ان کے دیگر رویوں میں بھی نشوونما پانے لگتا ہے لیکن افسوس یہاں لمبی لمبی ہانکنے کا کلچر ہے۔بڑے کام یہ کر نہیں سکتے، چھوٹے چھوٹے خوبصورت کاموں کی طرف توجہ کا رواج نہیں تو معاشرہ کے نام پر ’’موت کا کنواں‘‘ نہ ہو گا تو کیا ہوگا؟

وائس چیئرمین ایل ڈی اے ویل ڈن …ممکن ہوتو بوڑھوں معذوروں کیلئے بھی سائیکل رکشہ ٹائپ علامتی سواری کی گنجائش رکھیں جو بے شک محدود اوقات کیلئے ہی کیوں نہ ہو کہ اگر لندن میں ایسا ہو سکتا ہے تو لاہور کی چار سڑکوں پر کیوں نہیں؟ ممکن ہو تو محنت پر فخر کرنے کا کلچر متعارف کرانے کیلئے نوجوان طلبا کی حوصلہ افزائی کریں اور انہیں دو، دو، چار چار گھنٹوں کیلئے یہ چھوٹی موٹی سواریاں چلانے اور ’’پاکٹ منی ‘‘ بنانے کی طرف متوجہ کریں کہ یہ بھی انسان سازی اور تربیت کا ایک طریقہ ہے۔