364

فلسطینی مزاحمت کی نئی جہتیں

فلسطینی مزاحمت کی نئی جہتیں
تحریر: مفتی گلزار احمد نعیمی
آج جس عظیم شہر کو مسلمان القدس اور دیگر اقوام یروشلم کہتی ہیں یہ ازمنہ قدیم میں ارض کنعان کے نام سے مشہور تھا۔کیونکہ کنعانی جزیرۃ العرب سے سے ہجرت کر کے یہاں آباد ہوئے تھے۔یہ واقعہ 2500 ق م کا ہے۔پھر تقریبا ایک ہزار سال بعد کریتی قبائل نے کنعانیوں پر حملہ کیا۔ وہ غزہ اور یافا کے درمیان ساحلی علاقہ میں آباد ہوگئے۔پھر کسی موقع پر کنعانی اور کریتی قبائل آپس میں متحد ہوگئے اور اس کے بعد اس پورے علاقے کو فلسطین کہا جانے لگا۔
اس فلسطین کا شہر القدس پورے فلسطین کی جان ہے کیونکہ اس شہر میں مسجد اقصی ہے جو تمام الہامی مذاہب کے لیے بہت ہی اعلی تقدس کا درجہ رکھتی ہے۔مسلمانوں کے نزدیک اس کے تقدس کی دو اہم وجوہات ہیں۔ایک یہ کہ وہ مسلمانوں کا قبلہ رہا ہے مسلمان کافی عرصہ تک اس کی جانب اپنے چہرے کر کے اپنی نمازیں ادا کرتے رہے تاآنکہ مکہ میں واقع کعبۃ اللہ کی طرف منہ کرکے نماز ادا کرنے کا حکم نازل ہوا۔دوسری وجہ یہ ہے ہمارے پیارے پیغمبر خاتم النبیین جناب محمد الرسول اللہ صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے معراج کے سفر میں جلیل القدر انبیاء ورسل کے امام بنے تھے اور انہوں نے آںحضرت کی اقتداء میں نماز پڑھی تھی اس لیے یہ شہر مسلمانوں کے لیے بہت مقدس اور یہ مسجد لائق احترام ہے۔یہودی سمجھتے ہیں کہ یروشلم وہ شہر ہے جہاں سے کائنات کی تخلیق کا آغاز ہوا تھااور حضرت ابراہیم خلیل اللہ نے یہیں پر اپنے بیٹے کی قربانی کی تیاری کی تھی۔جبکہ عیسائیوں کے نزدیک اس کے تقدس کہ وجہ یہ ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہاں پیغمبر عیسیٰ علیہ السلام کو سولی پر لٹکایا گیا تھااور اسی شہر میں انکا سب سے مقدس کلیسا موجود ہے۔اس وجہ سے مسلمان اور عیسائی کم و بیش ایک ہزار سال تک اس شہر کو اپنے قبضہ میں رکھنے کے لیے برسرپیکار رہے۔رسول اللہ نے اپنی حیات طیبہ میں ہی حضرت اسامہ بن زید کی قیادت میں رومیوں کے ساتھ جنگ کے لیے لشکر روانہ کیا تھا تاکہ یہ علاقہ فتح ہوکر اسلامی قیادت میں آسکے۔خلیفہ ثانی سیدنا عمر کے زمانے میں یہ علاقہ فتح ہوا اور پھر 450 سال تک یہ فلسطینی علاقہ مسلمانوں کے پاس رہا۔خلیفہ نے اہل فلسطین کے ساتھ معاہدہ کیا۔عیسائیوں نے جزیہ دینا قبول کیا۔اہل فلسطین نے مطالبہ کیا کہ کوئی یہودی یہاں آباد نہ رہے ۔خلیفہ نے اسے بھی قبول کرلیا۔یہودی بھی چونکہ اس شہر پر اپنا حق جتاتے ہیں اس لیے وہ بھی اس شہر پر قبضے کے لیےعیسائیوں اور مسلمانوں کے ساتھ حالت جنگ میں رہے۔
14 مئی 1948 کو اسرائیل کی ناجائز ریاست معرض وجود میں آئی۔ اس کے بعد سے ابھی تک یہودی صییونیوں کی صورت میں مسلمانوں کے ساتھ حالت جنگ میں ہیں۔
یہ تازہ جنگ جو رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں شروع ہوئی اس نے مسئلہ فلسطین کو کئی اہم اور نئی جہتوں سے روشناس کرایا۔اس جنگ میں دوسو سے زیادہ فلسطینی شھید ہوئے انکی بڑی بڑی بلڈنگز تباہ ہوئیں۔انہوں نے تقریبا 1400 سے زائد میزائیلوں کا سامنا کیا، سینکڑوں کی تعداد میں مظلوم زخمی ہوئے۔وہ مسلسل ظالم کے میزائیلوں اور اس کے بارود کا عزم و ہمت کے ساتھ مقابلہ کررہے تھے کہ ظالم کی قوت جواب دے گئی اور اس نے یک طرفہ جنگ بندی کا اعلان کردیا۔جدید ترین اسلحہ سے لیس صہیونی ریاست مظلوموں کی جواں ہمت کے سامنے ٹھر نہ سکی اور شکست کھا گئی۔فلسطین کی جانفشاں قوم اور اس دھرتی کے عظیم سپوتوں نے اس حقیقت پر مہر تصدیق ثبت کردی کہ جنگیں اسلحہ کی بہتات سے نہیں بلکہ جذبئہ دل کی تونائی سے لڑی جاتی ہیں۔
اس جنگ میں فلسطینیوں نے اقوام عالم کو گہری نیند سے بیدار کیا۔وہ ظالم کی طرف سے اپنے اوپر ڈھائے جانے والے مظالم کی طرف انسانیت کی توجہ مبذول کرانے میں کامیاب ہوگئے۔کون سوچ سکتا تھا کہ لاکھوں کی تعداد میں عیسائی اور یہودی غزہ میں محصور فلسطینیوں کے حق میں آواز اٹھانے کے لیے لندن اور نیویارک کی سڑکوں پر نکل آئیں گے۔انسانیت کے اس عظیم الشان احتجاج اور فلسطینیوں کی ثابت قدمی نے ظالم کے دانت کھٹے کردیے اور اس کو پسپا ہونا پڑا۔اس ردعمل کی وجہ سے مغرب کی حکومتیں اسرائیل کے دفاع میں سامنے نہ آسکیں۔
مسلم دنیا میں بھی یہ احتجاج ہوئے۔ایران تو ہر وقت فلسطینیوں کے ساتھ کھڑا نظر آتا ہے۔بلکہ اس دفعہ تو نیتن یاہو نے بڑے کھلے اور دوٹوک انداز میں کہا کہ ایران حماس اور اسلامی جہاد کی مدد کررہا ہے۔خوشی کی بات یہ ہے اس دفعہ قطر نے بھی بہت کھل کر فلسطینیوں کا ساتھ دیا۔ایران کے بعد اسلامی جمہوریہ پاکستان اسلامی دنیا کا وہ واحد ملک ہے جس کے عوام اور سرکار دونوں نے ظالم کی اس جارحیت کی بھرپور مذمت کی اور مظلوموں کا کھل کر ساتھ دیا۔وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان کا اس پورے قضیے میں تاریخی کردار رہا ہے اور انکی ھدایت پر وزیر خاجہ جناب شاہ محمود قریشی نے سلامتی کونسل اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بہت شاندار خطابات کیے اور عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑی۔پاکستان کی سیکورٹی کے ادارے اور حکومت پاکستان مبارک باد کی مستحق ہے۔پاکستان نے عالمی فورم پر یہ آواز اٹھائی کہ اب محض اجلاسوں اور کانفرنسز پر اکتفاء نہ کیا جائے بلکہ مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے عملی اقدامات اٹھائے جائیں۔پاکستان کے اس دلیرانہ کردار کی پوری دنیا اور بطور خاص فلسطینی قیادت اور عوام نے بہت تحسین کی۔
پاکستان میں ہر سطح پر فلسطینیوں کے حق میں احتجاج ہوا پارلیمنٹ نے متفقہ قرارداد مذمت پاس کی، تمام سیاسی اور غیر سیاسی جماعتوں نے احتجاج میں حصہ لیا۔ریلیاں نکالی گئیں سیمینارز منعقد ہوئے۔دیگر جماعتوں کی طرح جماعت اہل حرم کے قائدین اور جوانوں نے بھی ہر جگہہ فلسطینیوں کے حق میں آواز بلند کی سیمینارز منعقد کیے اور ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے۔ہم فلسطین کی آزادی تک فلسطینیوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ہماری ریاست ان مظلوموں کے ساتھ کھڑے ہونے کو اپنا مقدس فریضہ سمجھتی ہے۔ہماری فوج یہ سمجھتی ہے کہ بھارت کے بعد اسرائیل پاکستان کا اور اس کے ایٹمی پروگرام کا سب سے بڑا دشمن ہے۔پاکستانی قوم دشمن شناسی میں ید طولی رکھتی ہے۔ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہماری گولیاں دشمنوں کے سینوں کو چیرتی رہیں گی۔پاکستان اسلام کا محافظ ہے۔اسلام کا قلعہ ہے اور مسلمان قوم کی آخری امید ہے۔وقت آنے پر ہمارے میزائل اسلام اور پاکستان کے دشمن کی زمینوں کو تباہ برباد کردیں گے۔۔۔ ان شاء الله

اپنا تبصرہ بھیجیں