راؤ محمد شاہد اقبال 310

عقل کے دشمن

عقل کے دشمن
راؤ محمد شاہد اقبال
جدید سائنس نے برسوں کی تحقیق سے ثابت کیا ہے کہ ہماری اختیار کردہ کچھ سرگرمیاں ہماری ذہانت اور علمی قابلیت کو ناقابلِ تلافی نقصان سے دوچار کردیتی ہیں ۔

بظاہر یہ کم معروف عوامل ہیں جن کے منفی اثرات کی جانب ہمارا روزمرہ زندگی میں زیادہ دھیان نہیں جاتا۔ یہ ہی وجہ کے عقل کے یہ دشمن غیرمحسوس انداز میں انسانی دماغ کی طاقت اور اُس کی سیکھنے کی صلاحیت کو مسلسل کم کرتے رہتے ہیں۔

یاد رہے آج کے جدید اور غیرفطری ماحول میں رچ بس جانے والی ان میں سے کچھ انسانی عادات اور سرگرمیاں ایسی ہیں جو صرف عارضی طور پر ذہانت کو خراب کرتی ہیں، جب کہ کچھ عادت و اطوار ہماری دماغی استعداد کار اور علمی قابلیت پر ایسے طویل المدتی مضر اثرات ثبت کردیتی ہیں، جس کی تلافی کرنا بھی ہمارے لیے آسان نہیں ہوتا۔ اس لیے ان سرگرمیوں اور عادات کو انسانی ’’عقل کا دشمن‘‘ بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔
کیا آپ اپنی عقل کے اِن دشمنوں کے شکست دینے کے لیے تیار ہیں؟۔ اگر آپ کا جواب ہاں! میں ہے تو زیرنظر مضمون آپ ہی کے لیے ہے، کیوںکہ عقل کے ایک ایک دشمن کو اچھی طرح شناخت کیے بغیر آپ اُسے شکست سے دوچار نہیں کرسکتے ۔

٭مدھم روشنی

جی ہاں ! سننے میں تو بات عجیب لگتی ہے کہ روشنی کی کمی سے انسان کی ذہانت اور دماغی صلاحیت رو بہ زوال ہوجاتی ہے۔ بہرحال سچ یہی ہے کیوںکہ مشی گن اسٹیٹ یونیورسٹی کے محققین نے حال ہی میں مدھم روشنی اور ذہانت کی کمی کے مابین ایک طاقت ور ربط تلاش کرلیا ہے۔ جس کا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ مدھم روشنی میں معمولاتِ زندگی انجام دینے سے انسان کی یاد رکھنے اور سیکھنے کی صلاحیت خطرناک حد تک کم ہوجاتی ہے۔

یہ اہم ترین انکشاف سائنس دانوں پر نیل گھاس چوہوں کے ایک گروپ کے مطالعاتی تحقیق کے دوران ہوا ہے۔ یاد رہے کہ نیل گھاس چوہے انسانوں کی طرح دن میں سرگرم رہتے ہیں اور رات کو سوجاتے ہیں۔ شاید اسی لیے مدھم روشنی کے دماغ پر اثرات کا مطالعہ کرنے کے لیے نیل گھاس چوہوں کا انتخاب کیا گیا تھا۔ تحقیق کے آغاز میں اِن چوہوں کو بھول بھلیوں کے ذریعے اپنا راستہ تلاش کرنے کی تربیت دی گئی اور بعدازاں انہیں دو مختلف گروہوں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ جس میں سے ایک گروہ کو دن بھر بھرپور روشنی کا سامنا کرنا پڑتا تھا جب کہ دوسرے گروہ کو مدھم روشنی میں رکھا گیا۔

صرف چار ہفتوں کے تجربے کے بعد معلوم ہوا کہ دھیمی روشنی میں رہنے والے چوہوں کے گروہ کی دماغ میں Hippocampus کی مقدار میں 30 فی صد تک کمی واقع ہوچکی تھی۔ واضح رہے کہ یہ ہی وہ خلیہ ہے، جو دماغ کے سیکھنے اور یاد رکھنے کی فعل کے انجام دینے میں کلیدی کردار اداکرتا ہے۔

علاوہ ازیں مدھم روشنی میں رہنے والے چوہوں میں سے کچھ کو مزید دو ہفتہ کے لیے مدھم روشنی کے ماحول میں رکھا گیا، جس کے باعث اِن چوہوں کی یاد رکھنے اور سیکھنے کی صلاحیت پہلے سے بھی کہیں زیادہ خراب ہوگئی۔ دوسری جانب چوہوں کے اُس گروہ نے دماغی صلاحیتوں میں نمایاں بہتری اور کارکردگی دکھائی جسے روشنی سے بھرپور ماحول فراہم کیا گیا تھا۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ اِس طبی مطالعے میں استعمال ہونے والی مدھم روشنی کا معیار وہی رکھا گیا تو جو عام طور پر ہم انسان اپنے گھروں اور دفاتر میں رکھتے ہیں۔

اگر آپ کے بچوں کو بھی ذہانت میں کمی جیسے مسائل درپیش ہیں تو ایک بار انہیں مدھم روشنی کے بجائے روشنی سے بھرپور جگمگاتا ماحول فراہم کرکے دیکھیں۔ اُمید ہے کہ اُن کی علمی سرگرمیوں میں نمایاں بہتری آجائے گی۔

٭زیادہ ڈرائیونگ

ایک دن میں اوسط دو گھنٹے سے زیادہ ڈرائیونگ کرنے سے انسان کی عقل میں کمی واقع ہوتی ہے یعنی زیادہ ڈرائیورنگ کرتے رہنے سے ہم سب کا آئی کیو لیول بڑی تیزی کے ساتھ انحطاط کا شکار ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ یہاں یہ بات اچھی طرح سے ذہن نشین رہے کہ ڈرائیونگ سے مراد صرف کار چلانا ہی نہیں ہے بلکہ ہر طرح کی سواری کو چلانا ڈرائیونگ کے زمرے میں آتا ہے ۔

لہٰذا دن رات موٹر سائیکل سڑکوں پر دوڑانے والے بھی اس تحقیق کی زد میں آتے ہیں۔ یہ نتائج حاصل کرنے کے لیے لیسٹر یونیورسٹی کے محققین نے پانچ سال کے دوران کم و بیش پانچ لاکھ سے زیادہ افراد کے طرز زندگی کا بڑی باریک بینی سے سائنسی بنیادوں پر مطالعہ کیا۔ اس مطالعاتی تحقیق میں لیسٹر یونیورسٹی نے ڈرائیونگ کے انسانی عقل پر اثرات کو اپنا خصوصی ہدف بنایا۔ اس تحقیق میں شریک ہونے والے 93000 افراد یعنی رضاکاروں نے روزانہ، دو گھنٹے یا اس سے زیادہ سفر کیا جس کی بنیاد پر انہیں مخصوص ’’سائنسی اسکور ‘‘ دیا جاتا تھا جب کہ ایک گروپ کو ہدف دیا گیا کہ وہ روزانہ بہرصورت دو گھنٹے سے کم ہی ڈرائیونگ کرنے کو یقینی بنائے گا۔

اس کے علاوہ اس مطالعاتی تحقیق میں شریک ایک اور گروپ کو روزانہ آدھا گھنٹہ یا اس سے کم ڈرائیونگ کرنے کا کہا گیا ۔ کئی سالوں کے مسلسل مطالعے کے بعد منکشف ہوا کہ جن رضاکاروں نے جتنی کم ڈرائیونگ کی، اُن کا آئی کیو لیول اُتنا ہی متوازن اور بہتر رہا جب کہ جنہوں نے روزانہ دو گھنٹے یا اس سے زیادہ مسلسل ڈرائیونگ کی اُن کی دماغی صلاحیت اور ذہانت کا آئی کیو لیول زبردست شکست و ریخت کا شکار ہوگیا۔

اس تحقیق سے طبی ماہرین کو پہلی بار یہ سائنسی حقیقت بھی معلوم ہوئی کہ سڑک پر ڈرائیونگ کرنے والے کے مقابلے میں پیدل چلنے والے شخص کا دماغ زیادہ محرک ہوتا ہے اور انسانی دماغ کے مسلسل کم محرک ہونے کی وجہ سے اُس کا آئی کیو لیول تیزی کے ساتھ گرنا شروع ہوجاتا ہے۔ یعنی انسانی دماغ میں تحریک کی مسلسل کمی عقل میں کمی باعث بنی ہے۔ اس کا سادہ سا مطلب یہ ہوا کہ زیادہ ڈرائیونگ عقل کی ایک خاموش دشمن ہے۔

٭بازاری کھانے اور فاسٹ فوڈز

بچوں کی تعلیم و تربیت کے حوالہ سے ہمارے معاشرے میں ایک مقولہ بڑا مشہور ہے کہ ’’بچوں کو کھلاؤ سونے کا نوالہ اور دیکھو شیر کی آنکھ سے۔ ‘‘ ماضی میں اس محاورے سے یہ مطلب مراد لیا جاتا تھا کہ بچوں کو ہمیشہ خالص اور معیاری غذائیں کھلائیں جائیں تاکہ اُن کی نشوونما میں کسی طرح کی کمی نہ آسکے۔ لیکن دورِجدید میں اس محاورے کا معنی یکسر تبدیل ہوکر رہ گیا ہے اور اَب اِس محاورہ سے مراد زیادہ تر والدین کے نزدیک اپنے بچوںکو مہنگی سے مہنگی چیزیں فراہم کرنا ہی رہ گیا ہے۔

خاص طور پر مہنگی بازاری غذائیں بچوں کو کھلا کر وہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے اپنی دانست بچوں کو سونے کا نوالہ کھلا کر اپنی ذمے داری کماحقہ پوری کردی۔ حالاںکہ وہ یہ نہیں جانتے کہ بازاری کھانے خاص طور پر فاسٹ فوڈز وغیرہ بچوں کی دماغی ذہانت کے لیے زہرہلاہل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ واضح رہے کہ بچوں کی ابتدائی عمر میں ناقص غذا کا استعمال اُن کی علمی کارکردگی پر انتہائی منفی اثرات مرتب کرتی ہے۔ اس حوالے سے سائنسی محققین نے تقریباً 14000 کم عمر بچوں کی کھانے کی عادات اور ذہانت کی سطح و صلاحیت جانچنے کے لیے ایک تحقیقاتی مطالعہ کیا۔

اس سائنسی تحقیقی کے اخذ کردہ نتائج انتہائی حیران کن رہے اور معلوم ہوا کہ تین سال کی عمر کے جن بچوں کو بنیادی طور پر بازاری، پروسس شدہ کھانے یعنی فاسٹ فوڈز کھانے کے لیے دیے گئے، اُن بچوں میں پانچ سال بعد وٹامنز اور غذائی اجزاء سے بھرپور گھر کی بنائی گئی غذا کھانے والے بچوں کے مقابلے میں اوسط عقل یعنی آئی کیو لیول انتہائی کم رہا۔
اس تحقیقاتی مطالعہ کے بعد محقیقین بھی یہ بات ماننے پر مجبور ہوگئے کہ وٹامنز اور غذائی اجزاء پر مشتمل گھر پر تیار کیے گئے کھانے انسانی دماغ کی نشوو نما میں زبردست مدد فراہم کرتے ہیں جب کہ اس کے مقابلے میں بازاری، پروسس شدہ کھانے یعنی فاسٹ فوڈز وغیرہ جیسی اشیاء دماغ کو آہستہ آہستہ گُھن کی طرح کھا جاتے ہیں۔ چوںکہ انسانی دماغ زندگی کے ابتدائی تین سالوں کے دوران اپنی بہترین شرح سے بڑھوتری دکھاتا ہے، لہٰذا بچوں کو ابتدائی عمر میں غذائیت سے بھرپور کھانے کی اشد ضرورت ہوتی ہے تاکہ دماغ کی مجموعی صلاحیت اور کارکردگی بہتر ہوسکے۔

اس لیے اگر آپ بھی چاہتے ہیں کہ آپ کے بچے مستقبل میں مختلف طرح کے دماغی عوارض سے محفوظ رہ کر اپنی نمایاں ذہانت سے ایک عالم کو متاثر کریں تو اپنے بچوں کو غذائیت سے بھرپور گھر میں پکائے گئے کھانے کھلانے کو ترجیح دیں۔ علاوہ ازیں آپ بھی اگر بازاری کھانوں یعنی فاسٹ فوڈز وغیرہ کھانے سے اجتناب برتیں گے تو یہ عادت آپ کی دماغی کارکردگی میں بھی زبردست اضافہ کا باعث ثابت ہوگی۔

٭مٹاپا

طبی ماہرین کے نزیک اکثر و بیشتر مٹاپے کو اُم الامراض کہا جاتا ہے کیوںکہ موٹاپے اور فربہی کے باعث بے شمار جسمانی بیماریاں اور نقائص پیدا ہوجاتے ہیں لیکن حال ہی میں سائنس دانوں نے یہ انکشاف کیا ہے کہ مٹاپا سے انسانی ذہانت بھی شدید انداز میں متاثر ہوتی ہے اور دماغ کا آئی کیو لیول مٹاپے کی وجہ سے خطرناک حد تک کم ہوسکتا ہے۔ یہ سائنسی تحقیق معروف عالمی جریدے نیورو امیج جرنل میں شائع ہوئی ہے، اس تحقیق میں 8 سال سے 11سال کی عمر کے ایک سو سے زائد ایسے بچوں پر کلینکل تجربات کیے گئے، جو زائد وزن اور مٹاپے کا شکار تھے۔ تحقیق میں پتا چلا کہ بچوں کی موٹر اِسکلز ان کے دماغ کے دو حصوں کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں، جن کا تعلق زبان سیکھنے اور روانی کے ساتھ پڑھنے سے ہوتا ہے۔

یہ دماغی خلیے مٹاپے کا شکار بچوں میں درست انداز میں کام نہیں کرتے، جب کہ مطالعاتی تحقیق میں شامل وہ بچے جو جسمانی طور پر چست اور متناسب وزن کے حامل تھے، ان کے دماغ کے فرنٹل، ٹیمپورل اور کالکیرائن کارٹیکس حصوں کا حجم زیادہ تھا۔ واضح رہے کہ یہ دماغ کے وہ حصے ہیں، جو سارے ’ایگزیکٹو فنکشنز‘ انجام دینے کے ذمے دار ہوتے ہیں۔ مزید برآں، بچوں میں سیکھنے، موٹر اِسکلز پروان چڑھانے اور بصری ادراک بڑھانے میں بھی دماغ کے ان حصوں کا کردار اہم ہوتا ہے۔ موٹر اسکلز سے مراد بچوں کی وہ صلاحیتیں ہیں، جن کے باعث دماغ، اعصابی نظام اور پٹھوں کی اکٹھے کام کرنے کی صلاحیت بہتر ہوتی ہے۔

اس تحقیق کا بنیادی مقصد یہ جاننا تھا کہ مٹاپا بچوں کی ذہانت اور دماغی صلاحیتوں کس حد تک متاثر کرتا ہے اور جسمانی طور پر زیادہ فٹ اور پھرتیلے بچوں کی دماغی صلاحیتیں، موٹاپے کا شکار یا جسمانی طور پر کم پھرتیلے بچوں کے مقابلے میں کس طرح مختلف انداز سے کام کرتی ہیں اور موٹاپے سے متاثر ہونی دماغی نقائص کا ان کی تعلیمی کارکردگی پر کیا اثر پڑتا ہے؟ تحقیقی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’’جسمانی فٹنس ایک ایسی خصوصیت ہے، جس میں ورزش کے ذریعے اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ اگر جسمانی ورزش کے ساتھ ساتھ بچوں کی ایروبک استعداد اور وزن کم کرنے والی ورزشیں بھی شامل کی جائیں تو اس سے نہ صرف بچوں کی دماغی صلاحیتیں بہتر کرنے کی رفتار کو تیز کیا جاسکتا ہے بلکہ ان کی تعلیمی کارکردگی کو بھی بہتر بنایا جاسکتا ہے۔‘‘

یاد رہے کہ زائد وزن اور موٹاپے کے شکار بچوں کی تعداد میں دنیا بھر میں بڑی تیزی کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے۔ 1990 میں مٹاپے کا شکار بچوں کی تعداد 3 کروڑ 20 لاکھ تھی، جو 2016 تک بڑھ کر 4کروڑ 10لاکھ تک جا پہنچی ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں کے مقابلے میں ترقی پذیر ملکوں میں بچوں میں مٹاپے کا مسئلہ زیادہ سنگین بن کر سامنے آرہا ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ ترقی پذیر ملکوں میں جس رفتار سے لوگوں کی آمدنی میں اضافہ ہورہا ہے، اُس کی وجہ سے وہاں رہائش پذیر خاندانوں کے طرز زندگی اور کھانے پینے کے رجحانات تیزی سے بدل رہے ہیں۔ طبی ماہرین کا خیال ہے کہ پہلے ایک سال کے دوران بچے کے وزن کے بارے میں فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں لیکن اگر چار سال کی عمر تک بچے میں مٹاپے کے اثرات ظاہر ہوں اور بچے کا وزن اس کے قد کی مناسبت سے زیادہ محسوس ہوتو بہتر ہو گا کہ معالج سے ضرور رجوع کیا جائے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ مٹاپا مستقبل میں بچہ کو ذہنی طور پر کند بنادے۔

٭ایک ساتھ کئی کام

ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ بیک وقت کئی کام ایک ساتھ کرلے تاکہ زیادہ سے زیادہ وقت کی بچت ہوسکے بلکہ کئی بار تو نادانستہ طور پر یہ ہم ایسا بلاوجہ ہی کرنا شروع ہوجاتے ہیں جیسے فیس بک پر سرفنگ کے دوران ٹی وی دیکھنا اور کھانے کے دوران موبائل فون پر مسلسل ایس ایم ایس کرنا وغیرہ۔ اس انسانی عادت کو آج کی دنیا میں ملٹی ٹاسکنگ کے منفرد نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ ملٹی ٹاسکنگ سے مراد ایک وقت میں کئی کام سرانجام دینا ہے۔ یہ دورِجدید کی ایک ایسی عادت بد ہے، جسے اکثر افراد اپنی دانست میں بہت بڑی خوبی خیال کرتے ہیں اور ملٹی ٹاسکنگ کے عمل کو اپنے دوست، احباب کے سامنے فخریہ انداز میں پیش کرتے ہیں۔ حالاںکہ ملٹی ٹاسکنگ انسانی ذہانت کے بڑے دشمنوں میں سے ایک ہے۔

سائنسی تحقیق کے مطابق ملٹی ٹاسکنگ یعنی ایک وقت میں کئی کام کرنا انسان کی ذہنی صلاحیتوں کو سخت نقصان پہنچاتا ہے، جب کہ ملٹی ٹاسکنگ کو اپنی پختہ عادت بنالینا دماغ کے مختلف حصوں کو سکیڑ دیتا ہے، دماغ کے جو حصے اس کی وجہ سے متاثر ہوتے ہیں ان میں جذباتی کنٹرول، فیصلہ سازی اور ردعمل وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

ایک تحقیق کے مطابق اگرچہ لوگوں کو لگتا ہے کہ بیک وقت کئی کرنے سے وہ زیادہ بہتر ورکر بن جاتے ہیں، مگر حقیقت میں ایسا ہوتا نہیں ہے بلکہ ملٹی ٹاسکنگ ہمارے دماغ کو سخت تناؤ کا شکار بنا دیتی ہے، کیوںکہ انسانی دماغ ایک ہی وقت میں بے شمار کاموں کو سرانجام دینے کے لیے تخلیق نہیں کیا گیا ہے۔

حیران کن بات یہ ہے کہ ملٹی ٹاسکنگ ہمیشہ آپ کا وقت نہیں بچاتی ہے۔ ایک ہی وقت میں باری باری دو کام کرنا آپ کو جلدی سے اسے ختم کرنے پر مجبور کرتا ہے، جس سے آپ کا دماغ خود ہی کو الجھا لیتا ہے اور کام کرنے میں زیادہ وقت لینے لگتا ہے۔ یونیورسٹی آف یوٹا کی ہیلتھ ویب سائیٹ پر جاری کردہ اعداد وشمار کے مطابق فون پر چیٹنگ کے دوران گاڑی چلانے والے ڈرائیور گاڑی چلاتے وقت اپنی منزل تک پہنچنے میں زیادہ وقت لیتے ہیں۔ نیز ماہرین اس بات پر بھی پوری طرح متفق ہیں کہ ملٹی ٹاسکنگ کی وجہ سرانجام دیے جانے والے اُمور میں 40 فی صد تک اضافی غلطیاں ہوسکتی ہیں۔

پیرس میں نیشنل ڈی لا سانٹا ایٹ ڈی لا ریچری میڈیکیال انسٹی ٹیوٹ (INSERM) کے سائنس دانوں نے ایک ایسے گروپ کا معائنہ کیا جس بیک وقت ایک ساتھ دو کام انجام دینے کے لیے کہا گیا تھا اور انہیں اپنا کام درست انداز میں مکمل کرنے پر ایوارڈ اور انعام کی بھی پیشکش کی گئی تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ اچھے نتائج کا مظاہرہ کرسکیں۔ لیکن ملٹی ٹاسکنگ کے نتیجے میں شرکاء کے کام بھی بہت زیادہ غلطیاں ہوئیں جب کہ وہ افراد جو ایک وقت میں صرف ایک کام ہی انجام دے رہے تھے۔ اُن کے سرانجام دیے گئے کاموں میں غلطیاں نہ ہونے کی برابر تھیں، جس کے بعد سائنس داں اِس نتیجے پر پہنچے کہ دماغ انعام کا لالچ ملنے کے بعد بھی بیک وقت دو کاموں پر اپنی توجہ مرکوز کرنے سے قاصر رہتا ہے۔ اس کے علاوہ ملٹی ٹاسکنگ یادداشت کے ضیاع کا سبب بھی بنتی ہے۔

اس لیے ماہرین سمجھتے ہیں کہ ٹیلیویژن دیکھتے وقت کتابیں پڑھنا کوئی اچھی عادت نہیں ہے، کیوںکہ یہ دونوں کام بیک وقت انجام دیں تو آپ کا دماغ کتاب یا ٹیلی ویژن شو کی کچھ اہم تفصیلات کو یقیناً بھول جائے گا۔ مزید یہ کہ ملٹی ٹاسکنگ آپ کی قلیل مدتی میموری میں مداخلت کا سبب بھی بن سکتی ہے اور ملٹی ٹاسکنگ کی وجہ سے عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ آپ کی یاد رکھنے کی صلاحیت مکمل طور پر بھی ختم ہوسکتی ہے۔ لہٰذا اگر اپنی ذہانت کو بچانا چاہتے ہیں تو حتی المقدور ملٹی ٹاسکنگ یعنی ایک وقت میں بے شمار کام کرنے سے گریز کریں۔

٭فضائی آلودگی

انسانی عقل کے دشمنوں کی فہرست میں ایک خاموش دشمن بھی ہے، جو دکھائی تو نہیں دیتا لیکن اس کے باوجود انسانی ذہانت کو غیرمحسوس انداز میں کسی ماہر شکاری کی طرح وقتاًفوقتاً اپنا شکار بناتا رہتاہے۔ جی ہاں! اُس خاموش اور نہ دکھائی دینے والے موذی دشمن کا نام ’’فضائی آلودگی ‘‘ ہے۔ واضح رہے کہ آج کی دنیا میں شاید ہی کوئی چھوٹا، بڑا شہر ایسا ہو جہاں فضائی آلودگی نہ پائی جاتی ہے۔ بدقسمتی سے اَب تو شہر وں سے متصل ہمارے گاؤں بھی فضائی آلودگی سے بری طرح سے متاثر ہوتے جارہے ہیں۔ ایک نئی سائنسی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ طویل عرصے تک فضائی آلودگی سے متاثر ہونے کی صورت میں لوگوں کی ذہنی صلاحیتیں تباہ و برباد ہوجاتی ہیں۔

محققین کے خیال میں فضائی آلودگی کے منفی اثرات ہر عمر کے لوگوں پر یکساں ہوتے ہیں اور فضائی آلودگی کے مضر اثرات انسانی عمر کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ شدید تر ہوتے جاتے ہیں۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ فضائی آلودگی سے متاثر ہونے والی انسانی ذہانت کا بروقت علاج بھی نہیں کیا جاسکتا کیوںکہ اکثر لوگ تو ساری زندگی یہ جان ہی نہیں پاتے کہ اُن کے اردگرد موجود فضائی آلودگی کس طرح سے اُن کے آئی کیو لیول کو نقصان پہنچارہی ہے۔

فضائی آلودگی کے انسانی عقل پر پڑنے والے مضر اثرات کے لیے امریکا اور چین میں چار سال سے زائد عرصے تک تقریباً 20 ہزار افراد کی تفصیلی جانچ کی گئی، جس سے حاصل ہونے والے نتائج کے بعد ماہرین یہ جاننے میں کام یاب ہوئے کہ دنیا بھر کی 80 فی صد آبادی کی دماغی صلاحیتیں کسی نہ کسی طور پر فضائی آلودگی کے مضر اثرات سے براہ راست متاثر ہورہی ہیں۔ یہ تحقیق ابتدائی طور پر صرف ان علاقوں میں کی گئی ہے کہ جہاں کی فضا میں سلفر ڈائی آکسائیڈ، نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ اور ہوا میں پائے جانے والے 10 مائیکرو میٹر سے چھوٹے مضر صحت مادے پائے جاتے تھے، جب کہ سائنس دانوں نے کاربن مونو آکسائیڈ، اوزون اور ہوا میں پائے جانے والے دیگر مضر صحت بڑے مادے اس تحقیق میں شامل نہیں کیے تھے۔

نیز عالمی ادارۂ صحت کے مطابق نہ دکھائی دینے والے یہ قاتل ذرات یعنی فضائی آلودگی کے باعث ایک اندازے کے مطابق سالانہ 70 لاکھ قبل از وقت دماغی شکستگی کا شکار ہورہے ہیں۔ نیشنل اکیڈمی آف سائنس کے مطابق فضائی آلودگی سے یادداشت میں کمی لانے امراض مثلاً الزائمر اور ڈیمینیشیا کے ساتھ ساتھ برین ہیمرج جیسے امراض لاحق ہونے کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔

٭اسمارٹ فونز

اسمارٹ فون ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ صرف مستقل رابطے میں ہی نہیں رکھتے بلکہ اسمارٹ فون ہمارے دماغ کے لیے ایک مستقل خطرہ بھی ہیں۔ عالمی ادارۂ صحت کی ایک رپورٹ کے مطابق اسمارٹ فون کے زیادہ استعمال سے ہمیں جو دماغی پریشانیاں لاحق ہو سکتی ہیں ان میں سردرد، سر میں جھنجھناہٹ، مسلسل تھکن محسوس کرنا، چکر آنا، ڈپریشن، نیند اُچاٹ ہوجانا، کام میں توجہ کا فقدان، کانوں کا بجنا، سماعت میں کمی اور یادداشت کا دیوالیہ پن جیسے سنگین عوارض شامل ہیں، جب کہ انٹرفون اسٹڈی میں کہا گیا ہے کہ روزانہ چار گھنٹے یا اس سے زیادہ وقت کے لیے موبائل فون کا استعمال کرنے پر 8 تا10 سال کے دوران برین ٹیومر کا خدشہ 200 تا 400 فی صد بڑھ جاتا ہے۔

دراصل انسانی جسم میں 70 فی صد پانی ہے جب کہ دماغ میں بھی 90 فی صد تک پانی ہوتا ہے۔ اسمارٹ فون سے نکلنے والی ریڈی ایشن یہ پانی بتدریج جذب کرتی رہتی ہے۔ حتی کہ اسمارٹ فون مستقبل میں دماغی صحت کے لیے سنگین نقصان کا سبب بھی بن سکتا ہے۔

اسی حوالے سے ٹیکساس یونیورسٹی کے محققین نے اسمارٹ فون کے تقریباً 800 صارفین کے ایک گروپ کا خصوصی مطالعہ کیا۔ شرکاء سے کمپیوٹر ٹیسٹ کی ایک سیریز لینے کو کہا گیا جس میں ان کی اپنی پوری توجہ مرکوز کرنے کی اشد ضرورت تھی۔ گروپ میں شامل کچھ لوگوں سے کہا گیا تھا کہ وہ اپنے فون دوسرے کمرے میں چھوڑ دیں، جب کہ دوسروں سے صرف ان کے پاس موجود اسمارٹ فونز کو خاموش کرنے اور اپنے ڈیسک پر رکنے کے لیے کہا گیا تھا۔

دوسرے کمرے میں اپنے فون چھوڑنے والوں نے لیے گئے تحریری امتحان میں ان لوگوں کے مقابلے میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کیا جن کے پاس ہی ان کے اسمارٹ فون موجود تھے۔ اس تحقیقی مطالعے سے محققین نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اسمارٹ فون کو مسلسل دیکھتے رہنے سے بھی کسی شخص کی توجہ اور کام انجام دینے کی صلاحیت خطرناک حد تک کم ہوجاتی ہے، کیوںکہ اکثر لوگ اپنے اسمارٹ فون باربار چیک کرنے کے اتنے عادی ہوتے ہیں کہ جب وہ کسی اور چیز پر اپنی توجہ مرکوز کرنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں تو ان کے لاشعور کو اس کے خلاف کام کرنا پڑتا ہے۔ یوں اسمارٹ فون پر بار بار توجہ مرکوز کرنے سے ان کے کام کرنے کی صلاحیت متاثر ہوتی اور ان کا ذہن غیرضروری تھکن کا شکار ہوجاتا ہے، جس کی وجہ سے انسان بدترین ذہنی افلاس کا شکار ہوسکتا ہے۔

اس تحقیق کے پیش نظر اپنے دماغی صلاحیتوں اور ذہانت کو پروان چڑھانے کے لیے ضروری ہے کہ اسمارٹ فون کا استعمال کم سے کم کیا جائے۔ خاص طور پر تعلیمی سرگرمیوں کی انجام دہی کے دوران اسمارٹ فون کو خود سے حتی المقدور دور رکھا جائے۔