شاعر کا کمال 552

شاعر کا کمال

بغاوت کا الزام نہ لگتا تو شاید وہ بہت بڑے شاعر نہ بنتے۔ وہ صرف شاعر ہی نہیں بلکہ صحافی بھی تھے اور بغاوت کے الزام میں گرفتاری کی اصل وجہ اُن کی شاعری نہیں بلکہ صحافت تھی۔ اُن پر الزام لگانے والوں کو بدنامی اور ندامت کے سوا کچھ نہ ملا اور شاعر کا نام آج بھی زندہ ہے۔ آج بھی اُس شاعر کی ایک نظم کے مختلف زبانوں میں ترجمے ہو رہے ہیں کیونکہ یہ نظم ظالم حکمرانوں کے سر پر بجلی بن کر کڑکڑاتی ہے۔ اِس نظم کے کمالات سمجھنے کے لیے اُن حالات سے آگاہی ضروری ہے جن کی کوکھ سے نظم نے جنم لیا۔ آپ سمجھ گئے ہوں گے یہ شاعر فیض احمد فیضؔ ہیں جن کی ایک نظم کو بھارت کے انتہا پسند ہندوئوں نے ہندو مخالف قرار دے ڈالا ہے۔ فیض صاحب ترقی پسند نظریات رکھتے تھے لیکن ہٹلر کی نسل پرستی اور ہوسِ ملک گیری کے خلاف فوج میں بھرتی ہو گئے۔ قیامِ پاکستان کے بعد وہ صحافت سے منسلک ہو گئے اور پاکستان ٹائمز نامی انگریزی اخبار کے ایڈیٹر بن گئے۔ اُنہوں نے اپنے اخبار میں کشمیر کی تحریکِ آزادی کی بھرپور حمایت کی اور 3؍جنوری 1948کو حفیظ جالندھری، عبدالرحمٰن چغتائی، ڈاکٹر ایم ڈی تاثیر اور دیگر ادیبوں کے ہمراہ ایک مشترکہ بیان اپنے اخبار میں شائع کیا جس میں بھارتی فوج کی جارحیت کے ساتھ ساتھ برطانوی حکومت پر بھی تنقید کی گئی تھی جس نے کشمیر کو ڈوگرہ حکمرانوں کے ہاتھوں فروخت کر دیا تھا۔ پاکستان کی فوج اور پولیس میں موجود انگریز افسران فیض احمد فیضؔ کو ناپسند کرتے تھے حالانکہ اُن کی اہلیہ ایلس بھی انگریز تھیں جنہوں نے اسلام قبول کر کے سرینگر میں فیض احمد فیضؔ سے شادی کی تھی۔ ایلس اور فیض کا نکاح شیخ عبداللہ نے پڑھایا تھا۔ فیض صاحب نے پاکستان ٹائمز میں متعدد ایسی خبریں اور اداریے شائع کیے جو پاکستان کی حکومت کے مختلف اداروں میں موجود انگریز افسران پر تنقید سے لبریز تھے۔ اُن کی فوج کے ایسے افسران سے بھی دوستی تھی جنہوں نے کشمیر کے محاذ پر 1948میں بہادری سے فرائض سرانجام دیے اور جو یہ سمجھتے تھے کہ پاکستانی فوج میں موجود انگریز افسران نے سازش کے تحت وزیراعظم لیاقت علی خان کو سیز فائر پر آمادہ کیا ورنہ سرینگر کو آزاد کرانا مشکل نہ تھا۔ اُن افسران میں میجر جنرل اکبر خان بھی شامل تھے جن پر 1951میں یہ الزام لگایا گیا کہ وہ فوجی بغاوت کے ذریعے اقتدار پر قبضہ اور مقبوضہ جموں و کشمیر پر حملہ کرنا چاہتے تھے۔ اُنہیں راولپنڈی سازش کیس میں گرفتار کر لیا گیا اور اُن کے ہمراہ گرفتار ہونے والوں میں فیض احمد فیضؔ بھی شامل تھے۔ راولپنڈی سازش کیس کی سماعت کے لیے ایک خصوصی عدالت بنائی گئی اور اُس عدالت میں فیض صاحب نے اپنے بیان میں کہا کہ اُنہوں نے پنجاب کے انگریز ڈی آئی جی (سی آئی ڈی) جین کنز کی پُراسرار سرگرمیوں کے بارے میں ایک سخت اداریہ لکھا تھا، ایک اور ڈی آئی جی قربان علی خان نے مزدور لیڈر مرزا ابراہیم کو ہتھکڑی لگوائی تو اُس کے خلاف بھی اداریہ لکھا لہٰذا پولیس نے مجھے راولپنڈی سازش کیس میں ملوث کر دیا ہے۔ فیض احمد فیضؔ کو میجر جنرل اکبر خان، میجر جنرل نظیر خان، بریگیڈیئر صادق خان، بریگیڈیئر لطیف خان، کرنل نیاز محمد ارباب، کرنل ضیاء الدین، ایئر کموڈور محمد خان جنجوعہ، میجر محمد اسحاق، کیپٹن ظفر اللہ پوشنی، محمد حسین عطا، سجاد ظہیر، کیپٹن خضر حیات اور کرنل مرزا حسن خان کے ہمراہ حیدر آباد جیل میں رکھا گیا۔ اسی جیل میں فیض صاحب نے راولپنڈی سازش کیس کو اغیار کی سازش قرار دیتے ہوئے کہا؎

فکر دلداریٔ گلزار کروں یا نہ کروں

ذکرِ مرغانِ گرفتار کروں یا نہ کروں

قصۂ سازشِ اغیار کہوں یا نہ کہوں

شکوۂ یارِ طرحدار کروں یا نہ کروں

اسی قید میں اُنہوں نے یہ بھی لکھا؎

چشمِ نم، جانِ شوریدہ کافی نہیں

تہمتِ عشق پوشیدہ کافی نہیں

آج بازار میں پا بجولاں چلو

دستِ افشاں چلو، مست و رقصاں چلو

فیض صاحب کے جیل کے ساتھی کرنل مرزا حسن خان نے فیض کی شاعری اور ذات پر بہت تنقید کی ہے اور ایسے الفاظ استعمال کیے ہیں جو فیض کے بدترین مخالفوں کی زبان سے نہ نکلے۔ کرنل صاحب اپنے آپ کو فاتح گلگت بلتستان سمجھتے تھے اور فیض کی پذیرائی کو اپنے ساتھ ناانصافی، حالانکہ فیض کا مقام الگ اور اُن کا الگ تھا لیکن اُنہوں نے اپنی آپ بیتی میں فیض کے بارے میں جو قلمی گستاخیاں کی ہیں اُن سے پتا چلتا ہے کہ فیض صاحب کو غیروں کے ساتھ ساتھ اپنوں کے تیر بھی کھانا پڑتے تھے لیکن وہ ایسے دوستوں کی تنقید کا کبھی جواب نہیں دیتے تھے جو اُن کو بُرا کہہ کر اپنا قد بڑھانے کی کوشش کرتے تھے۔ فیض صاحب ہماری تاریخ کا وہ منفرد کردار ہیں جو تحریکِ آزادیٔ کشمیر کی حمایت پر سازشِ اغیار کا نشانہ بنے اور پھر فلسطین کی تحریکِ آزادی میں عملی حصہ لینے کے لیے بیروت جا پہنچے اور یاسر عرفات کی خواہش پر ’’لوٹس‘‘ کے ایڈیٹر بن گئے۔ جس زمانے میں فیض ’’لوٹس‘‘ سے وابستہ تھے اُسی زمانے میں جنرل ضیاء الحق پاکستان کے اقتدار پر قبضہ کیے بیٹھے تھے۔ جنرل ضیا نے پاکستان میں اسلامائزیشن کے نام پر انسانی حقوق کی پامالیاں شروع کر رکھی تھیں اور یہی وہ زمانہ تھا جب فیض صاحب نے آزادیٔ اظہار پر پابندیوں کے خلاف کہا ؎

ہم دیکھیں گے

لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے

وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے

جو لوحِ ازل میں لکھا ہے

جب ظلم و ستم کے کوہِ گراں

روئی کی طرح اُڑ جائیں گے

ہم محکوموں کے پائوں تلے

جب دھرتی دھڑ دھڑ دھڑکے گی

اور اہلِ حَکم کے سر اوپر

جب بجلی کڑ کڑ کڑکے گی

جب ارضِ خدا کے کعبے سے

سب بت اُٹھوائے جائیں گے

جب اہلِ صفا مردودِ حرم

مسند پر بٹھائے جائیں گے

سب تاج اچھالے جائیں گے

سب تخت گرائے جائیں گے

بس نام رہے گا اللہ کا

جو غائب بھی ہے حاضر بھی

جو منظر بھی ہے ناظر بھی

اور اِس نظم کے اختتام میں خلقِ خدا کے راج کی نوید سنا کر فیض امر ہو گئے۔ 1986میں اقبال بانو نے یہ نظم گائی تو یہ پاکستان میں احتجاج و انقلاب کا استعارہ بن گئی۔ آج بھارت میں یہ نظم گانے والے غدار کہلاتے ہیں حالانکہ وہاں جنرل ضیا کی نہیں مودی کی حکومت ہے۔ ضیا ایک فوجی آمر تھا، مودی منتخب وزیراعظم ہے لیکن فیض کی ایک نظم نے دونوں کا فرق مٹا دیا اور یہی شاعر کا کمال ہے۔