Seerat-ul-Nabi 293

سیرت خاتم الانبیاء محمد مصطفیٰ ﷺ – نجاشی کے دربار میں

سیرت خاتم الانبیاء محمد مصطفیٰ ﷺ – نجاشی کے دربار میں
اس کے بعد رسول اللہ ﷺ اورتمام مسلمانوں نے کعبہ کا طواف شروع کیا۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ آگے آگے رہے۔مسلمانوں نے کعبہ کے گرد نماز ادا کی۔سب نے بلند آواز سے قرآن کی تلاوت بھی کی۔جبکہ اس سے پہلے مسلمان ایسا نہیں کر سکتے تھے۔
اب تمام قریش نے مل کر نبی کریم ﷺ کو قتل کرنے کا فیصلہ کیا۔انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ سلم کے خاندان والوں سے کہا:
“تم ہم سے دو گنا خون بہا لے لو اور اسکی اجازت دے دو کہ قریش کا کوئی شخص آنحضرت ﷺ کو قتل کر دے تاکہ ہمیں سکون مل جائے اور تمہیں فائدہ پہنچ جائے۔”
آنحضرت ﷺ کے خاندان والوں نے اس تجویز کو ماننے سے انکار کردیا۔اس پر قریش نے غصے میں آکر یہ طے کیا کہ تمام بنو ہاشم اور بنو عبدالمطلب کا معاشرتی بائیکاٹ کیا جائے اور ساتھ ہی انہوں نے طے کیا کہ بنو ہاشم کو بازاروں میں نہ آنے دیا جائے تاکہ وہ کوئی چیز نہ خرید سکیں ۔ان سے شادی بیاہ نہ کیا جائے اور نہ ان کے لیے کوئی صلح قبول کی جائے۔ان کے معاملے میں کوئی نرم دلی نہ اختیار کی جائیں ،یعنی ان پر کچھ بھی گزرے، ان کے لیے دل میں رحم کا جذبہ پیدا نہ ہونے دیا جائے اور یہ بائیکاٹ اس وقت تک جاری رہنا چاہیے جب تک کہ بنی ہاشم کے لوگ آنحضرت ﷺ قتل کرنے کے لیے قریش کے حوالے نہ کردیں –
قریش نے اس معاہدے کی باقاعدہ تحریری لکھی، اس پر پوری طرح عمل کرانے اور اس کا احترام کرانے کے لیے اس کو کعبے میں لٹکادیا –
اس معاہدے کے بعد ابولہب کو چھوڑ کر تمام بنی ہاشم اور بنی عبدالمطلب شعب ابی طالب میں چلے گئے، یہ مکہ سے باہر ایک گھاٹی تھی – ابولہب چونکہ قریش کا پکا طرفدار تھا اور آپ صلی للہ علیہ وسلم کا بدترین دشمن بھی تھا، اس لیے اسے گھاٹی میں جانے پر مجبور نہ کیا گیا – یوں بھی اس نے نبی کریم ﷺ کے قتل کے منصوبے میں قریش کا ساتھ دیا تھا، ان کی مخالفت نہیں کی تھی –
نبی اکرم ﷺ شعب ابی طالب میں محصور ہوگئے، اس وقت آپ کی عمر مبارک 46 سال تھی – بخاری میں ہے کہ اس گھاٹی میں مسلمانوں نے بہت مشکل اور سخت وقت گزارا – قریش کے بائیکاٹ کی وجہ سے انہیں کھانے پینے کی کوئی چیز نہیں ملتی تھی – سب لوگ بھوک سے بےحال رہتے تھے – یہاں تک کہ انہوں نے گھاس پھوس اور درختوں کے پتے کھاکر یہ دن گزارے –
جب بھی مکہ میں باہر سے کوئی قافلہ آتا تو یہ مجبور اور بےکس حضرات وہاں پہنچ جاتے تاکہ ان سے کھانے پینے کی چیزیں خرید لیں لیکن ساتھ ہی ابولہب وہاں پہنچ جاتا اور کہتا:
“لوگو! محمد کے ساتھی اگر تم سے کچھ خریدنا چاہیں تو اس چیز کے دام اس قدر بڑھا دو کہ یہ تم سے کچھ خرید نہ سکیں ، تم لوگ میری حیثیت اور ذمے داری کو اچھی طرح جانتے ہو -”
چنانچہ وہ تاجر اپنے مال کی قیمت بہت زیادہ بڑھا چڑھا کر بتاتے اور حضرات ناکام ہوکر گھاٹی میں لوٹ آتے – وہاں اپنے بچوں کو بھوک اور پیاس سے بلکتا تڑپتا دیکھتے تو آنکھوں میں آنسو آجاتے۔ادھر بچے انہیں خالی ہاتھ دیکھ کر اور زیادہ رونے لگتے ۔ابولہب ان تاجروں سے سارا مال خود خرید لیتا ۔یہاں یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ آنحضرت ﷺ اور ان کے خاندان کے لوگ قریش کے اس معاہدے کے بعد حالات کا رخ دیکھتے ہوئے خود اس گھاٹی میں چلے آئے تھے ۔یہ بات نہیں کہ قریش مکہ نے انہیں گرفتار کرکے وہاں قید کردیاتھا ۔
اس بائیکاٹ کے دوران بہت سے مسلمان ہجرت کرکے حبشہ چلےگئے ۔یہ حبشہ کی طرف دوسری ہجرت تھی ۔اس ہجرت میں اڑتیس مردوں اور بارہ عورتوں نے حصہ لیا ۔ان لوگوں میں حضرت جعفر بن ابوطالب رضی الله عنہ اور ان کی بیوی اسماء بنت عمیس رضی اللّٰہ عنہا بھي تھیں ان میں مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ، عبیداللہ بن جحش اور اس کی بیوی ام حبیبہ بنت ابو سفیان رضی الله عنہا بھی تھے ۔یہ عبیداللہ بن جحش حبشہ جاکر اسلام سے پھرگیاتھا اور اس نے عیسائی مذہب اختیار کرلیاتھا ۔اسی حالت میں اس کی موت واقع ہوئی ۔اس کی بیوی ام حبیبہ رضی الله عنہا اسلام پر رہیں ۔ان سے بعد میں آنحضرت ﷺ نے نکاح فرمایا ۔
ان مسلمانوں کو حبشہ میں بہترین پناہ مل گئی، اس بات سے قریش کو اور زیادہ تکلیف ہوئی ۔انہوں نے ان کے پیچھے حضرت عمروبن عاص رضی الله عنہ اور عمارہ بن ولید کو بھیجا تاکہ یہ وہاں جاکر حبشہ کے بادشاہ کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکائیں (حضرت عمروبن عاص رضی الله عنہ بعد میں مسلمان ہوئے) یہ دونوں حبشہ کے بادشاہ نجاشی کے لئے بہت سے تحائف لے کر گئے ۔بادشاہ کو تحائف پیش کیے ۔تحائف میں قیمتی گھوڑے اور ریشمی جبے شامل تھے ۔بادشاہ کے علاوه انہوں نے پادریوں اور دوسرے بڑے لوگوں کو بھی تحفے دیے…تاکہ وہ سب ان کا ساتھ دیں ۔بادشاہ کے سامنے دونوں نے اسے سجدہ کیا، بادشاہ نے انہیں اپنے دائیں بائیں بٹھالیا ۔اب انہوں نے بادشاہ سے کہا:
ہمارے خاندان کے کچھ لوگ آپ کی سرزمین پر آئے ہیں ۔یہ لوگ ہم سے اور ہمارے معبودوں سے بیزار ہوگئے ہیں ۔ انہوں نے آپکا دین بھی اختیار نہیں کیا۔یہ ایک ایسے دین میں داخل ہوگئے ہیں ، جس کو نہ ہم جانتے ہیں نہ آپ اب ہمیں قریش کے بڑے سرداروں نے آپ کے پاس بھیجا ہے تاکہ آپ ان لوگوں کو ہمارے حوالے کردیں ۔”
یہ سن کر نجاشی نے کہا:
” وہ لوگ کہاں ہیں ۔”
انہوں نے کہا:
” آپ ہی کے ہاں ہیں ۔”
نجاشی نے انہیں بلانے کے لیے فوراً آدمی بھیج دیے۔ایسے میں ان پادریوں اور دوسرے سرداروں نے کہا:
” آپ ان لوگوں کو ان دونوں کے حوالے کردیں ۔ اس لیے کہ ان کے بارے میں یہ زیادہ جانتے ہیں ۔”
نجاشی نے ایسا کرنے سے انکار کردیا۔ اس نے کہا:
” پہلے میں ان سے بات کروں گا کہ وہ کس دین پر ہیں ۔”
اب مسلمان دربار میں حاضر ہوئے۔ حضرت جعفر رضی اللہ عنہ نے اپنے ساتھیوں سے کہا:
” نجاشی سے میں بات کروں گا۔”
ادھر نجاشی نے تمام عیسائی عالموں کو دربار میں طلب کرلیا تھا تاکہ مسلمانوں کی بات سن سکیں ۔ وہ اپنی کتابیں بھی اٹھالائے تھے۔
مسلمانوں نے دربار میں داخل ہوتے وقت اسلامی طریقے کے مطابق سلام کیا، بادشاہ کو سجدہ نہ کیا، اس پر نجاشی بولا:
” کیا بات ہے،تم نے مجھے سجدہ کیوں نہیں کیا؟ ”
حضرت جعفر رضی اللہ عنہ فوراً بولے:
” ہم اللہ کے سوا کسی کو سجدہ نہیں کرتے، الله تعالٰی نے ہمارے درمیان ایک رسول بھیجے ہیں … اور ہمیں حکم دیا کہ الله کے سوا کسی کو سجدہ نہ کرو، اللہ کے رسول کی تعلیم کے مطابق ہم نے آپ کو وہی سلام کیا ہے جو جنت والوں کا سلام ہے۔”
نجاشی اس بات کو جانتا تھا، اس لیے کہ یہ بات انجیل میں تھی۔