Seerat-ul-Nabi 290

سیرت خاتم الانبیاء محمد مصطفیٰ ﷺ – مشرکین کے مطالبات

سیرت خاتم الانبیاء محمد مصطفیٰ ﷺ – مشرکین کے مطالبات
ایک مشرک کہنے لگا:
“آپ اسی طرح کھانا کھاتے ہیں جس طرح ہم کھاتے ہیں ، اسی طرح بازاروں میں چلتے ہیں جس طرح ہم چلتے ہیں ، ہماری طرح ہی زندگی کی ضروریات پوری کرتے ہیں ، لہٰذا آپ کو کیا حق ہے کہ نبی کہہ کر خود کو نمایاں کریں اور یہ کہ آپ کے ساتھ کوئی فرشتہ کیوں نہیں اترا جو آپ کی تصدیق کرتا۔”
اس پر اللہ تعالٰی نے سورہ فرقان کی آیت 7 نازل فرمائی:
“ترجمہ: اور یہ کافر لوگ رسول اللہ ﷺ کی نسبت یوں کہتے ہیں کہ اس رسول کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ ہماری طرح کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے۔ اس کے ساتھ کوئی فرشتہ کیوں نہیں بھیجا گیا کہ وہ اس کے ساتھ رہ کر ڈرایا کرتا۔ اس کے پاس غیب سے کوئی خزانہ آ پڑتا یا اس کے پاس کوئی (غیبی) باغ ہوتا جس سے یہ کھایا کرتا اور ایمان لانے والوں سے یہ ظالم لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ تم تو ایک بے عقل آدمی کی راہ پر چل رہے ہو۔”
پھر جب انہوں نے یہ کہا کہ اللہ تعالٰی کی ذات اس سے بہت بلند ہے کہ وہ ہم ہی میں سے ایک بندے کو رسول بنا کر بھیجے تو اس پر اللہ تعالٰی نے سورہ یونس کی آیت نازل فرمائی:
“ترجمہ: کیا ان مکہ کے لوگوں کو اس بات سے تعجب ہوا کہ ہم نے ان میں سے ایک شخص کے پاس وحی بھیج دی کہ سب آدمیوں کو اللہ کے احکامات کے خلاف چلنے پر ڈرائیں اور جو ایمان لے آئے، انہیں خوش خبری سنادیں کہ انہیں اپنے رب کے پاس پہنچ کر پورا رتبہ ملے گا۔”
اس کے بعد ان لوگوں نے آپ ﷺ سے کہا:
“ہم پر آسمان کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے گرادو، جیسا کہ تمہارا دعوی ہے کہ تمہارا رب جو چاہے کر سکتا ہے۔ہمیں معلوم ہوا ہے کہ تم جس رحمن کا ذکر کرتے ہو وہ رحمن یمامہ کا ایک شخص ہے، وہ تمہیں یہ باتیں سکھاتا ہے، ہم لوگ اللہ کی قسم! کبھی رحمن پر ایمان نہیں لائیں گے۔”
یہاں رحمن سے ان لوگوں کی مراد یمامہ کے ایک یہودی کاہن سے تھی۔ اس بات کے جواب میں اللہ تعالٰی نے سورة الرعد کی آیت 30 نازل فرمائی:
“ترجمہ: آپ فرمادیجئے کہ وہی میرا مربی اور نگہبان ہے۔ اس کے سوا کوئی عبادت کے قابل نہیں ، میں نے اسی پر بھروسہ کر لیا اور اسی کے پاس مجھے جانا ہے۔”
اس وقت آپ پر رنج اور غم کی کیفیت طاری تھی۔ آپ کی عین خواہش تھی کہ وہ لوگ ایمان قبول کرلیں ، لیکن ایسا نہ ہوسکا، اس لئے غمگین تھے، اسی حالت میں آپ وہاں سے اٹھ گئے۔
مشرکین نے اس قسم کی اور بھی فرمائشیں کیں ۔ کبھی وہ کہتے صفا پہاڑ کو سونے کا بناکر دکھائیں ، کبھی کہتے سیڑھی کے ذریعے آسمان پر چڑھ کر دکھائیں اور فرشتوں کے ساتھ واپس آئیں ۔ ان کی تمام باتوں کے جواب میں اللہ تعالٰی نے حضرت جبرئیل علیہ السلام کو آپ کی خدمت میں بھیجا۔ انہوں نے آکر کہا:
“اے محمد ﷺ! اللہ تعالٰی آپ کو سلام فرماتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ اگر آپ چاہیں تو صفا پہاڑ کو سونے کا بنادیا جائے۔ اسی طرح ان کے جو مطالبات ہیں ، ان کو بھی پورا کر دیا جائے، لیکن اس کے بعد بھی اگر یہ لوگ ایمان نہ لائے تو پھر سابقہ قوموں کی طرح ان پر ہولناک عذاب نازل ہوگا، ایسا عذاب کہ آج تک کسی قوم پر نازل نہیں ہوا ہوگا اور اگر آپ ایسا نہیں چاہتے تو میں ان پر رحمت اور توبہ کا دروازہ کھلا رکھوں گا۔”
یہ سن کر آپ نے عرض کیا:
“باری تعالٰی! آپ اپنی رحمت اور توبہ کا دروازہ کھلا رکھیں ۔”
دراصل آپ جانتے تھے کہ قریش کے یہ مطالبات جہالت کی بنیاد پر ہیں ، کیونکہ یہ لوگ رسولوں کو بھیجنے کی حکمت کو نہیں جانتے تھے…رسولوں کا بھیجا جانا تو در اصل مخلوق کا امتحان ہوتا ہے تاکہ وہ رسولوں کی تصدیق کریں اور رب تعالٰی کی عبادت کریں ۔ اگر اللہ تعالٰی درمیان سے سارے پردے ہٹادے اور سب لوگ آنکھوں سے سب کچھ دیکھ لیں تو پھر تو انبیاء اور رسولوں کو بھیجنے کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی اور غیب پر ایمان لانے کا کوئی معنی ہی نہیں رہتا۔
مکہ کے مشرکین نے دو یہودی عالموں کے پاس اپنے آدمی بھیجے۔ یہ یہودی عالم مدینہ میں رہتے تھے۔ دونوں قاصدوں نے یہودی عالموں سے ملاقات کی اور ان سے کہا:
“ہم آپ کے پاس اپنا ایک معاملہ لے کر آئے ہیں ، ہم لوگوں میں ایک یتیم لڑکا ہے، اس کا دعوی ہے کہ وہ اللہ کا رسول ہے۔”
یہ سن کر یہودی عالم بولے:
“ہمیں اس کا حلیہ بتاؤ۔”
قاصدوں نے نبی اکرم ﷺ کا حلیہ بتادیا۔ تب انہوں نے پوچھا:
“تم لوگوں میں سے کن لوگوں نے ان کی پیروی کی ہے؟”
انہوں نے جواب دیا:
“کم درجے کے لوگوں نے۔”
اب انہوں نے کہا:
“تم جاکر ان سے تین سوال کرو، اگر انہوں نے ان تین سوالات کے جوابات دے دیے تو وہ اللہ کے نبی ہیں اور اگر جواب نہ دے سکے تو پھر سمجھ لینا، وہ کوئی جھوٹا شخص ہے۔”