Seerat-ul-Nabi 278

سیرت خاتم الانبیاء محمد مصطفیٰ ﷺ – قربانیاں ہی قربانیاں

سیرت خاتم الانبیاء محمد مصطفیٰ ﷺ – قربانیاں ہی قربانیاں
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
ابو جہل نے ایک دم آگے بڑھ کر آپ ﷺ کے کپڑے پکڑنے کی کوشش کی۔ میں نے آگے بڑھ کر ایک گھونسہ اس کے سینے پر مارا۔ اس سے وہ زمین پر گر پڑا۔ دوسری طرف سے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے امیہ بن خلف کو دھکیلا،تیسری طرف خود حضور نبی کریم ﷺ نے عتبہ بن ابی معیط کو دھکیلا۔ آخر یہ لوگ آپ کے پاس سے ہٹ گئے۔ اس وقت آپ نے ارشاد فرمایا:
“اللہ کی قسم! تم لوگ اس وقت تک نہیں مرو گے، جب تک اللہ کی طرف سے اس کی سزا نہیں بھگت لوگے۔”
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
“یہ الفاظ سن کر ان تینوں میں سے ایک بھی ایسا نہیں تھا جو خوف کی وجہ سے کانپنے نہ لگا ہو۔”
پھر آپ نے ارشاد فرمایا:
“تم لوگ اپنے نبی کے لئے بہت بُرے ثابت ہوئے۔”
یہ فرمانے کے بعد آپ اپنے گھر کی طرف لوٹ گئے۔ ہم آپ کے پیچھے پیچھے چلے۔
جب آپ اپنے دروازے پر پہنچے تو اچانک ہماری طرف مڑے اور فرمایا:
“تم لوگ غم نہ کرو، اللہ تعالٰی خود اپنے دین کو پھیلانے والا، اپنے کلمے کو پورا کرنے والا اور اپنے نبی کی مدد کرنے والا ہے۔ ان لوگوں کو اللہ بہت جلد تمہارے ہاتھوں ذبح کروائے گا۔”
اس کے بعد ہم بھی اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے۔ اور پھر اللہ کی قسم غزوۂ بدر کے دن اللہ تعالٰی نے ان لوگوں کو ہمارے ہاتھوں ذبح کرایا۔
ایک روز ایسا ہوا کہ آپ خانہ کعبہ کا طواف کررہے تھے، ایسے میں عقبہ بن ابی معیط وہاں آگیا، اس نے اپنی چادر اتار کر آپ کی گردن میں ڈالی اور اس کو بل دینے لگا۔ اس طرح آپ کا گلا گھٹنے لگا۔ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ دوڑ کر آئے اور اسے کندھوں سے پکڑ کر دھکیلا۔ ساتھ ہی انہوں نے فرمایا:
“کیا تم اس شخص کو قتل کرنا چاہتے ہو، جو یہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے…اور جو تمہارے رب کی طرف سے کھلی نشانیاں لے کر آیا ہے۔”
بخاری کی ایک حدیث کے مطابق حضرت عروہ ابن زبیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے ایک مرتبہ حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے پوچھا:
“مجھے بتائیے! مشرکین کی طرف سے حضور نبی کریم ﷺ کے ساتھ سب سے زیادہ بدترین اور سخت ترین سلوک کس نے کیا تھا؟”
جواب میں حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
“ایک مرتبہ حضور نبی کریم ﷺ کعبہ میں نماز ادا فرمارہے تھے کہ عقبہ بن ابی معیط آیا، اس نے آپ کی گردن میں کپڑا ڈال کر اس سے پوری قوت سے آپ کا گلا گھونٹا۔ اس وقت حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اسے دھکیل کر ہٹایا۔”
یہ قول حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کا ہے، انہوں نے یہی سب سے سخت برتاؤ دیکھا ہوگا، ورنہ آپ ﷺ کے ساتھ اس سے کہیں زیادہ سخت برتاؤ کیا گیا۔
پھر جب مسلمانوں کی تعداد 38 ہوگئی تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے آپ سے عرض کیا:
“اے اللہ کے رسول! مسجد الحرام میں تشریف لے چلئے تاکہ ہم وہاں نماز ادا کر سکیں ۔”
اس پر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
“ابو بکر! ابھی ہماری تعداد تھوڑی ہے۔”
ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے پھر اسی خواہش کا اظہار کیا۔ آخر حضور نبی کریم ﷺ اپنے تمام صحابہ کے ساتھ مسجد الحرام میں پہنچ گئے۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہوکر خطبہ دیا۔ لوگوں کو کلمہ پڑھ لینے کی دعوت دی۔ اس طرح حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سب سے پہلے شخص ہیں ، جنہوں نے مجمعے میں کھڑے ہوکر اس طرح تبلیغ فرمائی۔
اس خطبے کے جواب میں مشرکین مکہ حضرت ابو بکر رضی اللہ اور دوسرے مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے اور انہیں مارنے لگے۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو تو انہوں نے سب سے زیادہ مارا پیٹا، مارپیٹ کی انتہا کردی گئی۔ عقبہ نے تو انہیں اپنے جوتوں سے ماررہا تھا۔ اس میں دوہرا تلا لگا ہوا تھا۔ اس نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے چہرے پر ان جوتوں سے اتنی ضربیں لگائیں کہ چہرہ لہو لہان ہوگیا۔ ایسے میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے قبیلے بنو تمیم کے لوگ وہاں پہنچ گئے۔ انہیں دیکھتے ہی مشرکین نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو چھوڑ دیا۔ ان لوگوں نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو ایک کپڑے پر لٹایا اور بے ہوشی کی حالت میں گھر لے آئے۔ ان سب کو یقین ہوچکا تھا کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ آج زندہ نہیں بچیں گے۔ اس کے بعد بنو تمیم کے لوگ واپس حرم آئے۔ انہوں نے کہا :
“اللہ کی قسم! اگر ابو بکر مرگئے تو ہم عقبہ کو قتل کر دیں گے۔”
یہ لوگ پھر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے۔ انہوں نے اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے والد نے ان سے بار بار بات کرنے کی کوشش کی، لیکن آپ بالکل بے ہوش تھے۔ آخر شام کے وقت کہیں جاکر آپ کو ہوش آیا اور بولنے کے قابل ہوئے۔ انہوں نے سب سے پہلے یہ پوچھا:
“آنحضرت ﷺ کا کیا حال ہے؟”
گھر میں موجود افراد نے ان کی اس بات کا کوئی جواب نہ دیا۔ ادھر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بار بار اپنا سوال دہرا رہے تھے۔ آخر ان کی والدہ نے کہا:
“اللہ کی قسم! ہمیں تمہارے دوست کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ۔”
یہ سن کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
“اچھا تو پھر ام جمیل بنت خطاب کے پاس جائیں ، ان سے آنحضرت ﷺ کا حال دریافت کرکے مجھے بتائیں ۔”
ام جمیل رضی اللہ عنہا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بہن تھیں ، اسلام قبول کرچکی تھیں ،لیکن ابھی تک اپنے اسلام کو چھپائے ہوئے تھیں ۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی والدہ ان کے پاس پہنچیں ، انہوں نے ام جمیل رضی اللہ عنہا سے کہا:
“ابو بکر محمد بن عبد اللہ کی خیریت پوچھتے ہیں ۔”
ام جمیل رضی اللہ عنہا چونکہ اپنے بھائی حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ڈرتی تھی، وہ ابھی تک ایمان نہیں لائے تھے، اس لئے انہوں نے کہا:
“میں نہیں جانتی۔”
ساتھ ہی وہ بولیں :
“کیا آپ مجھے اپنے ساتھ لے جانا چاہتی ہیں ؟”
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی والدہ نے فوراً کہا:
“ہاں !”
اب یہ دونوں وہاں سے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس آئیں ۔ ام جمیل رضی اللہ عنہا نے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو زخموں سے چور دیکھا تو چیخ پڑیں :
جن لوگوں نے تمہارے ساتھ یہ سلوک کیا ہے، وہ یقیناً فاسق اور بد ترین لوگ ہیں ، مجھے یقین ہے، اللہ تعالٰی ان سے آپ کا بدلہ لے گا۔”
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا:
“رسول اللہ ﷺ کا کیا حال ہے؟”
ام جمیل رضی اللہ عنہا ایسے لوگوں کے سامنے بات کرتے ہوئے ڈرتی تھیں جو ابھی ایمان نہیں لائے تھے، چنانچہ بولیں :
یہاں آپ کی والدہ موجود ہیں ۔”
حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ فوراً بولے:
“ان کی طرف سے بے فکر رہیں ،یہ آپ کا راز ظاہر نہیں کریں گی۔”
اب ام جمیل رضی اللہ عنہا نے کہا:
“رسول اللہ ﷺ خیریت سے ہیں ۔”
ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے پوچھا:
حضور ﷺ اس وقت کہاں ہیں ۔”
“ام جمیل نے فرمایا:
“دار ارقم میں ہیں ۔”
یہ سن کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بولے:
“اللہ کی قسم ! میں اس وقت تک نہ کچھ کھاؤں گا، نہ پیوں گا جب تک کہ میں رسول اللہ ﷺ سے مل نہ لوں ۔”
ان دونوں نے کچھ دیر انتظار کیا…تاکہ باہر سکون ہو جائیں …آخر یہ دونوں انہیں سہارا دے کر لے چلیں اور دار ارقم پہنچ ہوگئیں ، جونہی نبی اکرم ﷺ نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی یہ حالت دیکھی تو آپ کو بےحد صدمہ ہوا۔ آپ نے آگے بڑھ کر ابوبکر رضی اللہ عنہ کو گلے سے لگا لیا۔ انہیں بوسہ دیا۔ باقی مسلمانوں نے بھی انہیں گلے سے لگایا اور بوسہ دیا۔ پھر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے آپ ﷺ سے عرض کیا:
“آپ پر میرے ماں باپ قربان ہوں ، اے اللہ کے رسول! مجھے کچھ تو نہیں ہوا، سوائے اس کے کہ میرے چہرے پر چوٹیں آئی ہیں ۔ یہ میری والدہ میرے ساتھ آئی ہیں ، ممکن ہے اللہ تعالٰی آپ کے طفیل انہیں جہنم کی آگ سے بچالے۔”
نبی کریم ﷺ نے ان کی والدہ کے لیے دعا فرمائی۔ پھر انہیں اسلام کی دعوت دی۔ وہ اسی وقت ایمان لے آئیں ، جس سے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور تمام صحابہ کو بےحد خوشی ہوئی۔
ایک روز صحابہ کرام نبی کریم ﷺ کے گرد جمع تھے۔ ایسے میں کسی نے کہا:
“اللہ کی قسم! قریش نے آج تک نبی کریم ﷺ کے علاوہ کسی اور کی زبان سے بلند آواز میں قرآن نہیں سنا۔ اس لئے تم میں سے کون ہے جو ان کے سامنے بلند آواز میں قرآن پڑھے۔”
یہ سن کر حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بول اٹھے:
“میں ان کے سامنے بلند آواز سے قرآن پڑھوں گا۔”