Seerat-ul-Nabi 332

سیرت خاتم الانبیاء محمد مصطفیٰ ﷺ – تین تحریریں

سیرت خاتم الانبیاء محمد مصطفیٰ ﷺ – تین تحریریں
آپ ﷺ کی عمر 35سال ہوئی تو مکہ میں زبردست سیلاب آیا۔ قریش نے سیلاب سے محفوظ رہنے کے لئے ایک بند بنا رکھا تھامگر یہ سیلاب اس قدر زبردست تھا کہ بند توڑکر کعبے میں داخل ہو گیا۔پانی کے زبردست ریلے اور پانی کے اندر جمع ہونے کی وجہ سے کعبے کی دیواروں میں شگاف پڑگئے۔اس سے پہلے ایک مرتبہ یہ دیواریں آگ لگ جانے کی وجہ سے کمزور ہو چکی تھیں اور یہ واقعہ اس طرح ہوا تھا کہ ایک مرتبہ کوئی عورت کعبے کو دھونی دے رہی تھی کہ اس آگ میں سے ایک چنگاری اڑکر کعبے کے پردوں تک پہنچ گئی۔اس سے پردوں کو آگ لگ گئی اور دیواریں تک جل گئیں ۔اس طرح دیواریں بہت کمزور ہو گئی تھیں ،یہی وجہ تھی کہ سیلاب نے ان کو کمزور دیواروں میں شگاف کردیے۔
سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے کعبے کی جو دیواریں اٹھائی تھیں ،وہ نو گز اونچی تھیں ۔ان پر چھت نہیں تھی۔لوگ کعبے کے لئے نذرانے وغیرہ لاتے تھے۔یہ نذرانے کپڑے اور خوشبو ئیں وغیرہ ہوتی تھیں ۔کعبے کے اندر جو کنواں تھا،یہ سب نذرانے اس کنوئیں میں ڈال دیئے جاتے تھے،کنواں اندرونی حصے میں دائیں طرف تھا۔ اس کو کعبے کا خزانہ کہا جاتا تھا۔ کعبے کے خزانے کو ایک مرتبہ ایک چور نے چرانے کی کوشش کی،چور کنوئیں ہی میں مر گیا۔ اس کے بعد اللہ تعالٰی نے اس کی حفاظت کے لیے ایک سانپ کو مقرر کر دیا۔یہ سانپ کنوئیں کی منڈیر پر بیٹھا رہتا تھا۔ کسی کو خزانے کے نزدیک نہیں آنے دیتا تھا۔ قریش بھی اس سے خوف زدہ رہتے تھے۔اب جب کہ کعبے کی دیواروں میں شگاف پڑ گئے اور نئے سرے سے اس کی تعمیر کا مسئلہ پیش آیا تو اللہ تعالیٰ نے ایک پرندے کو بھیجا،وہ اس سانپ کو اٹھا لے گیا۔(البدایہ والنہایہ)
یہ دیکھ کر قریش کے لوگ بہت خوش ہوئے۔اب انہوں نے نئے سرے سے کعبے کی تعمیر کا فیصلہ کر لیا۔اور پروگرام بنایا کہ بنیادیں مضبوط بنا کر دیواروں کو زیادہ اونچا اٹھایا جائے۔اس طرح دروازے کو بھی اونچا کردیا جائے گا تاکہ کعبے میں کوئی داخل نہ ہو۔ صرف وہی شخص داخل ہو جسے وہ اجازت دیں ۔
اب انہوں نے پتھر جمع کیے۔ ہر قبیلہ اپنے حصے کے پتھر الگ جمع کررہا تھا۔چندہ بھی جمع کیا گیا۔چندے میں انہوں نے پاک کمائی دی۔ ناپاک کمائی نہیں دی۔مثلاًطوائفوں کی آمدنی،سود کی کمائی،دوسروں کا مال غصب کرکے حاصل کی گئی دولت چندے میں نہیں دی اور پاک کمائی انہوں نے بلاوجہ نہیں دی تھی۔ایک خاص واقعہ پیش آیا تھا۔جس سے وہ اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ اس کام میں صرف پاک کمائی لگائی جائے گی۔ وہ واقعہ یوں تھا:
ایک قریشی سردار ابو وہب عمرو بن عابد نے جب یہ کام شروع کرنے کے لیے ایک پتھر اٹھایا تو پتھر اس کے ہاتھ سے نکل کر پھر اسی جگہ پہنچ گیا جہاں سے اسے اٹھایا گیا تھا۔اس پر قریشی حیران وپریشان ہوئے۔آخر خود وہب کھڑا ہوا اور بولا:
“اے گروہ ِقریش ! کعبے کی بنیادوں میں سوائے پاک مال کے کوئی دوسرا مال شامل مت کرنا۔ بیت اللہ کی تعمیر میں کسی بدکار عورت کی کمائی،سود کی کمائی یا زبردستی حاصل کی گئی دولت ہرگز شامل نہ کرنا۔”
یہ وہب نبی کریم ﷺ کے والد حضرت عبداللہ کا ماموں تھا اور اپنی قوم میں ایک شریف آدمی تھا۔
جب قریش کے لوگ خانہ کعبہ کی تعمیر کے لیے پتھر ڈھورہے تھے تو ان کے ساتھ نبی کریم ﷺ . بھی پتھر ڈھونے میں شریک تھے۔آپ پتھر اپنی گردن پر رکھ کر لا رہے تھے ۔تعمیر شروع کرنے سے پہلے قریش کےلوگوں نے خوف محسوس کیا کہ دیواریں گرانے سے کہیں ان پر کوئ مصیبت نہ نازل ہو جائے ۔آخر ایک سردار ولید بن مغیرہ نے کہا:”کعبہ کی دیواریں گرانے سے تمہارا ارادہ اصلاح اور مرمت کا ہے یا اس کو خراب کرنے کا„
جواب میں لوگوں نے کہا ظاہر ہے ہم تو مرمت اور اصلاح چاہتے ہیں ; یہ سن کر ولید نےکہا;
“تب پھر سمجھ لو: اللہ تعالی اصلاح کرنے والوں کو برباد نہیں کرتا۔”
پھرولید ہی نے گرانے کے کام کی ابتدا کی لیکن اس نےبھی صرف ایک حصہ ہی ہی گرایاتاکہ معلوم ہو جائے کہ ان پر کوئ تباہی تو نہیں آتی ۔جب وہ رات خیریت سے گزر گئی. تب دوسرے دن سب لوگ اس کے ساتھ شریک ہو گئے اور پوری عمارت گرادی ۔یہاں تک کہ اسکی بنیاد تک پہنچ گئے۔یہ بنیاد ابراہیم علیہ السلام کےہاتھ کی رکھی ہوئ تھی۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نےبنیادوں میں سبز رنگ کے پتھر رکھے تھے ۔یہ پتھر اونٹ کے کوہان کی طرح کے تھے اور ایک دوسرے سے جڑے ہوئے تھے، ان لوگوں کے لئے انکو توڑ نا بہت مشکل کام. ثابت ہوا۔
دائیں کونے کے نیچے سے قریش کو ایک تحریر ملی، وہ تحریر سریانی زبان میں لکھی ہوئی تھی۔انہیں سریانی زبان نہیں آتی تھی، آخر ایک یہودی کو تلاش کرکے لایا گیا، اس نےوہ تحریر پڑھ کر انہیں سنائی تحریر یہ تھی ۔
“میں اللہ ہوں ، مکّہ کا مالک جسکو میں نے اس دن پیدا. کیا جس دن میں نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، جس دن میں نے سورج اور چاند بنائے ۔میں نے اس کو یعنی. مکہ کو سات فرشتوں کے ذریعہ گھیر دیاہے۔اسکی عظمت اس وقت تک ختم نہیں ہو گی”
جب تک کہ اس کے دونوں طرف پہاڑ موجود ہیں ، ان پہاڑوں سے مراد ایک تو ابو قیس پہاڑ ہے جو کہ صفا پہاڑی کے سامنے ہے اور دوسرا قعیقعان پہاڑ ہے جو مکہ کے قریب ہے اور جس کا رخ ابو قیس پہاڑ کی طرف ہے۔ اور یہ شہر اپنے باشندوں کے لیے پانی اور دودھ کے لحاظ سے بہت بابرکت اور نفع والا ہے”۔
یہ پہلی تحریر تھی۔ دوسری مقام ابراھیم سے ملی۔ اس میں لکھا تھا:
“مکہ اللہ تعالیٰ کا محترم اور معظم شہر ہے۔ اس کا رزق تین راستوں سے اس میں آتا ہے”۔
یہاں تین راستوں سے مراد قریش کے تین تجارتی راستے ہیں ۔ ان راستوں سے قافلے آتے جاتے تھے۔
تیسری تحریر اس سے کچھ فاصلے سے ملی۔ اس میں لکھا تھا:
“جو بھلائی بوئے گا لوگ اس پر رشک کریں گے یعنی اس جیسا بننے کی کوشش کریں گے اور جو شخص رسوائی بوئے گا وہ رسوائی اور ندامت پائے گا۔ تم برائیاں کرکے بھلائی کی آس لگاتے ہو، ہاں ! یہ ایسا ہی ہے جیسے کیکر یعنی کانٹے دار درخت میں کوئی انگور تلاش کرے”۔
یہ تحریر کعبے کے اندر پتھر پر کھدی ہوئی ملی۔ کعبے کی تعمیر کے سلسلے میں قریش کو پتھروں کے علاوہ لکڑی کی بھی ضرورت تھی۔ چھت اور دیواروں میں لکڑی کی ضرورت تھی۔ لکڑی کا مسئلہ اس طرح حل ہوا کہ ایک جہاز عرب کے ساحل سے آکر ٹکراگیا، آج اس مقام کو جدہ کا ساحل کہا جاتا ہے، پہ پہلے یہ مکہ کا ساحل کہلاتا تھا اس لیے کہ مکہ کا قریب ترین ساحل یہی تھا۔ ساحل سے ٹکرا کر جہاز ٹوٹ گیا۔ وہ جہاز کسی رومی تاجر کا تھا۔ اس جہاز میں شاہ روم کے لیے سنگ مرمر، لکڑی اور لوہے کا سامان لے جایا جارہا تھا۔ قریش کو اس جہاز کے بارے میں پتا چلا تو یہ لوگ وہاں پہنچے اور ان لوگوں سے لکڑی خرید لی۔ اس طرح چھت کی تعمیر میں اس لکڑی کو استعمال کیا گیا۔ آخر خانہ کعبہ کی تعمیر کا کام حجر اسود تک پہنچ گیا۔ اب یہاں ایک نیا مسئلہ پیدا ہوگیا۔ سوال یہ پیدا ہوا کہ حجر اسود کون اٹھاکر اس کی جگہ پر رکھے گا۔
ہر قبیلہ یہ فضیلت خود حاصل کرنا چاہتا تھا۔
یہ جھگڑا اس حد تک بڑھا کہ مرنے مارنے تک نوبت آگئی۔ لوگ ایک دوسرے کو قتل کرنے پر تل گئے۔
قبیلہ عبد الدار نے تو قبیلہ عدی کے ساتھ مل کر ایک برتن میں خون بھرا اور اس میں اپنے ہاتھ ڈبو کر کہا:
“حجر اسود ہم رکھیں گے”۔
اسی طرح دوسرے قبیلے بھی اڑگئے۔ تلواریں نیاموں سے نکل آئیں ۔