سیرت النبیﷺ 273

سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک جھلک

از:مفتی صہیب احمد قاسمی‏، استاذ فقہ جامعہ حسینیہ، جونپور (یوپی)
رسولِ کائنات، فخرِ موجودات محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کو خالق ارض و سما رب العلیٰ نے نسلِ انسانی کے لیے نمونہٴ کاملہ اور اسوہٴ حسنہ بنایاہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ کو فطری طریقہ قرار دیا ہے۔ محسن انسانیت صلوات اللہ علیہ وسلامہ کے معمولات زندگی ہی قیامت تک کے لیے شعار ومعیار ہیں، یہی وجہ ہے کہ سیرة النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر گوشہ تابناک اور ہر پہلو روشن ہے یومِ ولادت سے لے کر روزِ رحلت تک کے ہر ہر لمحہ کو قدرت نے لوگوں سے محفوظ کرادیا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر ادا کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متوالوں نے محفوظ رکھاہے اور سند کے ساتھ تحقیقی طور پر ہم تک پہنچایا ہے، لہٰذا سیرة النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جامعیت و اکملیت ہر قسم کے شک و شبہ سے محفوظ ہے دنیائے انسانیت کسی بھی عظیم المرتب ہستی کے حالات زندگی، معمولات زندگی، انداز و اطوار، مزاج و رجحان، حرکات و سکنات، نشست و برخاست اور عادات وخیالات اتنے کامل ومدلل طریقہ پر نہیں ہیں جس طرح کہ ایک ایک جزئیہ سیرة النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا تحریری شکل میں دنیا کے سامنے ہے یہاں تک کہ آپ سے متعلق افراد اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق اشیاء کی تفاصیل بھی سند کے ساتھ سیرت و تاریخ میں ہر خاص و عام کو مل جائیں گی۔

اس لیے کہ اس دنیائے فانی میں ایک پسندیدہ کامل زندگی گذارنے کے لیے اللہ رب العزت نے اسلام کو نظامِ حیات اور رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو نمونہٴ حیات بنایا ہے وہی طریقہ اسلامی طریقہ ہوگا جو رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے قولاً، فعلاً منقول ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ سنت کہلاتا ہے اور آپ نے فرمایا ہے من رغب عن سنتی فلیس منی جس نے میرے طریقے سے اعراض کیاوہ مجھ سے نہیں ہے۔

عبادات وطاعات سے متعلق آپ کی سیرت طیبہ اور عادات شریفہ پر برابر لکھا اور بیان کیا جاتا رہتا ہے۔ دنیا میں ہر لمحہ ہر آن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکرِ خیر کہیں نہ کہیں ضرور ہوگا آپ کی سیرت سنائی اور بتائی جاتی رہے گی پھر بھی سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عنوان پُرانا نہیں ہوگا یہی معجزہ ہے سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اور یہی تفسیر ہے ”ورفعنالک ذکرک“ کی۔

صحابہٴ کرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین کی دنیا وآخرت میں کامیابی وسرفرازی کا عنوان اتباع سنت ہے یہی اتباع ہر دور ہر زمانہ میں سربلندی اور خوش نصیبی کی کنجی ہے۔ اگر کسی کو عہدِ رسالت نہ مل سکا تو پھر ان کے لیے عہدِ صحابہ معیارِ عمل ہے کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی پاکیزہ جماعت سیرة النبی کا عملی پیکر ہے ہر طرح سے پرکھنے جانچنے کے بعدان کو نسلِ انسانی کے ہر طبقہ کے واسطے ایمان وعمل کا معیار بنایاگیاہے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تربیت فرمائی ہے اور اللہ رب العالمین نے ان کے عمل و کردار، اخلاق واطوار، ایمان واسلام اور توحید وعقیدہ، صلاح وتقویٰ کو بار بار پرکھا پھر اپنی رضا وپسندیدگی سے ان کو سرفراز فرمایا، کہیں فرمایا ”اولئک الذین امتحن اللّٰہ قلوبہم للتقویٰ“ کہ یہی لوگ ہیں جن کے دلوں کے تقویٰ کو اللہ نے جانچا ہے، کہیں فرمایا ”آمنوا کما آمن الناس“ کہ اے لوگو ایسے ایمان لاؤ جیساکہ محمد کے صحابہ ایمان لائے ہیں تو کہیں فرمایا اولئک ہم الراشدون یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔

یہ سب اس لیے کہ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عکس جمیل تھے ان کی عبادات میں ہی نہیں بلکہ چال ڈھال میں بھی سیرة النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نور جھلکتا تھا یہی سبب ہے کہ خود رسولِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اصحابی کالنجوم بایہم اقتدیتم اہتدیتم“ (ترمذی) میرے صحابہ ستاروں کی طرح ہیں جن سے بھی اقتداء ومحبت کا تعلق جمالوگے ہدایت پاجاؤگے۔

چونکہ صحرا، جنگل میں سفر کرنے کے لیے سمت معلوم کرنے کے لیے ستاروں کی رہنمائی حاصل کی جاتی ہے اسی لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو ستاروں سے تشبیہ دی گئی ہے کہ وہ نفوس قدسیہ شرک وکفر کے صحراء میں مینارہٓ ایمان ہیں۔

زیرِ نظر مضمون میں سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چند خاص گوشوں کو موضوع بنایاگیاہے جو آپ کے تربیت یافتہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بیان کردہ ہیں مختصر طور پر ہر اس پہلو کو ذکر کرنے کی کوشش کی ہے۔ جس کو عادتاً کم بیان کیاجاتا ہے۔

ولادت شریف اور حلیہ مبارکہ صلی اللہ علیہ وسلم : ۹/یا ۱۲/ ربیع الاوّل عام الفیل کو آپ نے شکمِ مادر سے تولد فرمایا۔ شمائلِ ترمذی حلیہ مبارکہ بیان کرنے کا سب سے مستند و جامع ذریعہ ہے جس کو امام ترمذی رحمة اللہ علیہ نے ذکر فرمایا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم میانہ قد، سرخی مائل، سفید گورا رنگ، سرِ اقدس پر سیاہ ہلکے گھنگھریالے ریشم کی طرح ملائم انتہائی خوبصورت بال جو کبھی شانہ مبارک تک دراز ہوتے تو کبھی گردن تک اور کبھی کانوں کی لوتک رہتے تھے۔ رخِ انور اتنا حسین کہ ماہِ کامل کے مانند چمکتا تھا، سینہٴ مبارک چوڑا، چکلا کشادہ، جسم اطہر نہ دبلا نہ موٹا انتہائی سڈول چکنا کہیں داغ دھبہ نہیں، دونوں شانوں کے بیچ پشت پر مہرِ نبوت کبوتر کے انڈے کے برابر سرخی مائل ابھری کہ دیکھنے میں بے حد بھلی لگتی تھی، پیشانی کشادہ بلند اور چمکدار، ابروئے مبارک کمان دار غیر پیوستہ، دہن شریف کشادہ، ہونٹ یاقوتی مسکراتے تو دندانِ مبارک موتی کے مانند چمکتے، دانتوں کے درمیان ہلکی ہلکی درازیں تھیں بولتے تو نور نکلتا تھا سینہ پر بالوں کی ہلکی لکیر ناف تک تھی باقی پیکر بالوں سے پاک تھا صحابہ کا اتفاق ہے کہ آپ جیسا خوبصورت نہیں دیکھا گیا۔ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ شاعرِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں وہ اپنے نعتیہ قصیدے میں نقشہ کھینچتے ہیں:

واحسن منک لم ترقط عینی واجمل منک لم تلد النساء

خلقت مبریًا من کل عیب کانک قد خلقت کما تشاء

آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے حسین مرد میری آنکھوں نے کبھی نہیں دیکھااور آپ سے زیادہ خوبصورت مرد کسی عورت نے نہیں جنا آپ ہر قسم کے ظاہری وباطنی عیب سے پاک پیدا ہوئے گویا آپ اپنی حسب مرضی پیداہوئے ہیں، نہ کبھی آپ چیخ کر بات کرتے تھے نہ قہقہہ لگاتے تھے نہ شور کرتے تھے نہ چلاکر بولتے تھے ہر لفظ واضح بولتے جو مجمع سے مخاطب ہوتے تو تین بار جملہ کو بالکل صاف صاف دہراتے تھے اندازِ کلام باوقار، الفاظ میں حلاوت کہ بس سنتے رہنے کو دل مشتاق، لبوں پر ہمہ دم ہلکا سا تبسم جس سے لب مبارک اور رخِ انور کا حسن بڑھ جاتا تھا راہ چلتے تو رفتار ایسی ہوتی تھی گویا کسی بلند جگہ سے اتررہے ہوں نہ دائیں بائیں مڑمڑکر دیکھتے تھے نہ گردن کو آسمان کی طرف اٹھاکر چلتے تھے تواضع کی باوقار مردانہ خوددارانہ رفتار ہوتی، قدمِ مبارک کو پوری طرح رکھ کر چلتے تھے کہ نعلین شریفین کی آواز نہیں آتی تھی ہاتھ اور قدم ریشم کی طرح ملائم گداز تھے اور قدم پُرگوشت، ذاتی معاملہ میں کبھی غصہ نہیں ہوتے تھے، اپنا کام خود کرنے میں تکلف نہ فرماتے تھے کہ کوئی مصافحہ کرتا تو اس کاہاتھ نہیں چھوڑتے تھے جب تک وہ الگ نہ کرلے جس سے گفتگو فرماتے پوری طرح اس کی طرف متوجہ ہوتے کوئی آپ سے بات کرتا تو پوری توجہ سے سماعت فرماتے تھے، پھر بھی ایسا رعب تھا کہ صحابہ کو گفتگو کی ہمت نہ ہوتی تھی ہر فرد یہی تصور کرتا تھا کہ مجھ کو ہی سب سے زیادہ چاہتے ہیں۔

دعوت و تبلیغ کا آغاز: تاجِ رسالت اور خلعت نبوت سے سرفراز ہونے کے بعد رحمة للعالمین خاتم النّبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسے سماج ومعاشرہ کو ایمان و توحید کی دعوت دی جو گلے گلے تک شرک و کفر کی دلدل میں گرفتار تھا، ضلالت وجہالت کی شکار تھی انسانیت، شرافت مفقود تھی، درندگی اور حیوانیت کا راج تھا ہر طاقتور فرعون بنا ہوا تھا۔ قتل وغارت گری کی وبا ہر سُو عام تھی نہ عزت محفوظ، نہ عصمت محفوظ، نہ عورتوں کا کوئی مقام، نہ غریبوں کے لیے کوئی پناہ، شراب پانی کی طرح بہائی جاتی تھی، بے حیائی اپنے عروج پر تھی، روئے زمین پر وحدانیت حق کا کوئی تصور نہ تھا، خود غرضی، مطلب پرستی کا دور دورہ تھا، چوری، بدکاری اپنے عروج پر تھی اور ظلم وستم نا انصافی اپنے شباب پر تھی خدائے واحد کی پرستش کی جگہ معبودانِ باطل کے سامنے پیشانیاں جھکتی تھیں، نفرت وعداوت کی زہریلی فضا انسان کو انسان سے دور کرچکی تھی، انسانیت آخری سانس لے رہی تھی معاشرہ سے شرک کا تعفن اٹھ رہا تھا۔ کفر کی نجاست سے قلوب بدبودار ہوچکے تھے اس دور کا انسان قرآن کریم کے مطابق جہنم کے کنارے کھڑا تھا، ہلاکت سے دوچار ہونے کے قریب کہ رحمت حق کو رحم آیا اور کوہِ صفا سے صدیوں بعد انسانیت کی بقا کا اعلان ہوا کہ ”یآ ایہا الناس قولوا لا الٰہ الا اللّٰہ تفلحوا“ اے لوگو! لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ پر ایمان لاؤ فلاح و صلاح سے ہمکنار رہوگے۔ یہ آواز نہیں تھی بلکہ ایوان باطل میں بجلی کا کڑکا تھا۔

وہ بجلی کڑکا تھا یا صوتِ ہادی

عرب کی زمیں جس نے ساری ہلادی

یہی آوازِ حق ایک عظیم الشان انقلاب کی ابتداء تھی جس نے دنیائے انسانیت کی تاریخ بدل دی یہ اعلان توحیدکی حیات نو کا پیغام تھا جس نے مردہ دل عربوں میں زندگی کی نئی روح پھونک دی اور پھر دنیا نے وہ منظر دیکھا جس کا تصور بھی نہ تھا کہ قاتل عادل بن گئے، بت پرست بن شکن بن گئے، ظلم وغضب کرنے والے حق پرست اور رحم دل بن گئے، سیکڑوں معبودانِ باطل کے سامنے جھکنے والی پیشانیاں خدائے واحد کے سامنے سرنگوں ہوگئیں، عورتوں کو جانور سے بدتر جاننے والے قطع رحمی اور کمزوروں پر ستم ڈھانے والے عورتوں کے محافظ، صلہ رحمی کے خوگر اور کمزوروں کا سہارا بن گئے، نفرت وعدوات کا آتش فشاں سرد ہوگیا محبت و اخوت کی فصلِ بہاراں آگئی، راہزن راہبر اور ظالم عدل وانصاف کے پیامبر بن گئے۔

جو نہ تھے خود راہ پر اوروں کے ہادی بن گئے

کیا نظر تھی جس نے مُردوں کو مسیحا کردیا

پھر دنیا نے دیکھا کہ ایک امی لقب اعلیٰ نسب رسول کے فداکاروں نے ایمان وتوحید کی تاریخ مرتب کرڈالی عدل و نصاف کے لازوال نقوش چھوڑے، وحدت مساوات کی لافانی داستان رقم کردی، فتوحات کی انوکھی تاریخ لکھ دی جہانبانی وحکمرانی کے مثالی اصول مرتب کیے، عفت وپاکدامنی کاریکارڈ چھوڑ گئے، وفاداری، فداکاری کی انمٹ تحریر دیے، عظمت ورفعت کے ان بلندیوں پر پہنچے جہاں سے اونچا مقام صرف انبیاء ومرسلین کو نصیب ہوسکتا ہے ایسا انقلاب دنیا نے کب دیکھا تھا اور کہاں سنا تھا۔

صبرواستقامت : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت حق اوراعلانِ توحید کی راہ میں اپنے ہی لوگوں کے ایسے ایسے مصائب وآلام دیکھے کہ کوئی اور ہوتا تو ہمت ہار جاتا مگر آپ صبر واستقامت کے کوہِ گراں تھے، دشمنانِ اسلام نے قدم قدم پر آپ کو ستایا، جھٹلایا، بہتان لگایا، مجنون ودیوانہ کہا، ساحرو کاہن کا لقب دیا راستوں میں کانٹے بچھائے جسم اطہر پر غلاظت ڈالی، لالچ دیا، دھمکیاں دیں، اقتصادی ناکہ بندی اور سماجی مقاطعہ کیا، آپ کے شیدائیوں پر ظلم وستم اور جبر واستبداد کے پہاڑ توڑے، نئے نئے لرزہ خیز عذاب کا جہنم کھول دیا کہ کسی طرح حق کا قافلہ رک جائے، حق کی آواز دب جائے، مگر دورِ انقلاب شروع ہوگیا تھا توحید کا نعرہ بلند ہوچکا تھا، اس کو غالب آنا تھا۔

یریدون لیطفوٴا نور اللّٰہ بافواہہم واللّٰہ متم نورہ ولو کرہ الکافرون․ (القرآن)

کفار چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور (ایمان واسلام) کو اپنی پھنکوں سے بجھادیں اور اللہ پورا کرنے والا ہے اپنے نور کو اگرچہ کفار اس کا ناپسند کریں۔ خودرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے: ابتلاء وآزمائش میں جتنا مجھ کو ڈالاگیا کسی اور کو نہیں ڈالاگیا۔ اسی طرح آپ کے صحابہ پر جتنے مظالم ڈھائے گئے کسی اورامت میں نہیں ڈھائے گئے۔

ہجرتِ مبارکہ: جب مکہ کی سرزمین آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام پر بالکل تنگ کردی گئی تب بحکم الٰہی آپ نے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی اور صحابہ کرام نے اللہ کے لیے اپنے گھر بار، آل و اولاد، زمین وجائداد سب کو چھوڑ چھاڑ کر حبشہ و مدینہ کا رخ کیا پہلی ہجرت صحابہ کے ایک گروہ نے حبشہ کی طرف کی تھی، پھر جب آپ مدینہ تشریف لے گئے تو مدینہ اسلام کا مرکز بن گیا، ہجرت رسول کے بارے میں مفکر اسلام علی میاں ندوی کا یہ جامع اقتباس بہت ہی معنویت رکھتا ہے کہ ہجرت کس جذبہ کانام ہے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کتنی زبردست قربانی دی تھی۔

”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس ہجرت سے سب سے پہلی بات یہ ثابت ہوتی ہے کہ دعوت اور عقیدہ کی خاطر ہر عزیز اورہر مانوس و مرغوب شئے اور ہر اس چیز کو جس سے محبت کرنے، جس کو ترجیح دینے اور جس سے بہرصورت وابستہ رہنے کا جذبہ انسان کی فطرت سلیم میں داخل ہے۔ بے دریغ قربان کیا جاسکتا ہے، لیکن ان دونوں اوّل الذکر چیزوں (دعوت وعقیدہ) کو ان میں سے کسی چیز کے لیے ترک نہیں کیا جاسکتا (نبی رحمت) اور ہجرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی پیغام آج بھی مسلمانوں کے سامنے ہے کہ ایمان وعقیدہ اور دعوت و تبلیغ کسی بھی صورت میں ترک کرنا گوارہ نہ کریں یہی دونوں تمام دنیوی و اخروی عزت وکامیابی کاسرچشمہ ہے۔

غزوات و سرایا : ہجرتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ایک طرف آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دعوت اسلام کی تحریک میں کشادہ میدان اور مخلص معاون افراد ملے جس کے باعث قبائل عرب میں تیزی سے اسلام پھیلنے لگا تو دوسری جانب مشرکین مکہ اور یہومدینہ کی برپا کردہ لڑائیوں کا سامنا بھی تھا مکہ میں مسلمان کمزور اور بے قوت و طاقت تھے اس لیے ان کو صبر و استقامت کی تاکید وتلقین تھی مدینہ میں مسلمانوں کو وسعت و قوت حاصل ہوئی اور اجتماعیت و مرکزیت نصیب ہوئی اللہ تعالیٰ نے دشمنوں سے لڑنے اور ان کو منھ توڑ جواب دینے کی اجازت عطا فرمائی اور غزوات وسرایا کا سلسلہ شروع ہوا جو اہم غزوات پیش آئے یہ ہیں۔

(۱) غزوہٴ بدر ۲ھ میں مومنین ومشرکین مکہ کے درمیان میدانِ بدر میں سب سے پہلا غزوہ پیش آیا جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سپہ سالاری میں تین سو تیرہ مجاہدین نے مشرکین کے ایک ہزار ہتھیار بند لشکر کو ہزیمت سے دوچار کیا اور ابوجہل، شیبہ، عتبہ سمیت ستر (۷۰) سردارانِ قریش مارے گئے اور ستر گرفتار ہوئے اسی سے مسلمانوں کی دھاک قبائل عرب پر نقش ہوگئی۔

(۲) غزوہٴ اُحد ۳ھ شوال میں یہ غزوہ ہوا مسلمان سات سو اور کفار تین ہزار تھے۔

(۳) غزوات ذات الرقاع ۴ھ میں پیش آیا اسی میں آپ نے صلوٰة الخوف ادا فرمائی۔

(۴) غزوہٴ احزاب (خندق) ۵ھ میں ہوا مشرکین مکہ نے قبائل عرب کا متحد محاذ بناکر حملہ کیا تھا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سلمان فارسی کے مشورہ سے مدینہ کے اردگرد چھ کلو میٹر لمبی خندق کھدوائی تھی اسی لیے اس کو غزوہٴ خندق بھی کہتے ہیں۔

(۵) غزوہٴ بنی المصطلق ۶ھ میں ہوا اسی میں منافقین نے حضرت عائشہ پر تہمت لگائی تھی۔

(۶) صلحِ حدیبیہ ۶ھ میں ہوئی جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرہ کا ارادہ فرمایاتھا اور چودہ سو صحابہ کرام کے ساتھ روانہ ہوئے تھے کہ مشرکین مکہ نے حدیبیہ کے مقام پر روک دیا اور وہیں صلح ہوئی کہ آئندہ سال عمرہ کرسکتے ہیں (پوری تفصیل کتابوں میں دیکھی جائے)

(۷) غزوہٴ خیبر ۷ھ میں پیش آیا یہ یہودیوں سے آخری غزوہ تھا اس سے قبل غزوہٴ بنو نضیر اور غزوہٴ بنوقریظہ میں یہودیوں کو جلاوطن اور قتل کیاگیا تھا۔

(۹) غزوہٴ تبوک ۹ھ میں پیش آیا ہرقل سے مقابلہ تھا دور کا سفر تھا شام جانا تھا گرمی کا زمانہ تھااس لیے خلاف عادت آپ نے اس غزوہ کا اعلان فرمایا چندہ کی اپیل کی صحابہ نے دل کھول کر چندہ دیا اور تیس ہزار کا عظیم الشان لشکر لے کر آپ تبوک روانہ ہوئے، مگر ہرقل بھاگ گیا اور آپ مع صحابہ واپس بخیریت مدینہ تشریف لائے اس غزوہ میں بھی بہت سے اہم واقعات پیش آئے جن کی ایک ایک تفصیل سیر کی کتابوں میں درج ہے۔ ان غزوات کے علاوہ بہت سے سرایا صحابہ کرام کی سرکردگی میں مختلف مواقع پر روانہ فرمائے۔

کچھ اہم واقعات: ۲ھ میں ہجرت کے بعد سترہ مہینہ بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنے کے بعد تحویل قبلہ ہوا۔ ۲ھ میں روزہ فرض کیاگیا، ۴ھ میں شراب حرام ہوئی۔

فتح مکہ وغزوہٴ حنین : ۸ھ میں اسلامی تاریخ کا وہ واقعہ عینی فتحِ مکہ پیش آیا جس سے کلی طور پر اسلام کو عرب میں غلبہ حاصل ہوگیا اور مشرکین کا سارا زور ٹوٹ گیا فتح مکہ کے بعد واپسی میں غزوہٴ حنین پیش آیا جس میں پہلی بار مسلمان تعداد میں بارہ ہزار اور کفارِ طائف چارہزار تھے ورنہ ہر غزوہ میں مسلمان کم اور دشمن کی تعداد دوگنا، تین گنا ہوتی تھی۔

اشیاء الرسول اور ان کے اسماء: رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی عادتِ شریفہ تھی کہ آپ اپنی چیزوں کا نام رکھ دیا کرتے تھے زاد المعاد میں علامہ ابن قیم رحمة اللہ علیہ نے ان میں سے بہت سی چیزوں کے نام شمار کرائے ہیں امام اہلِ سنت حضرت مولانا عبدالشکور صاحب فاروقی رحمة اللہ علیہ نے بھی ”سیرة نبویہ“ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اشیاء مبارکہ کے اسماء بیان کیے ہیں، نیز دوسرے سیرت نگار علماء نے بھی اس ضمن میں کام کیا ہے، انھیں کتب سیرت ومضامین سیرت سے مندرجہ ذیل اشیاء کے اسماء کا ذکر پیش کیا جارہا ہے۔

(۱) عمامہ شریف کا نام سحاب تھا۔

(۲) دوپیالے لکڑی اور پتھر کے تھے ایک کا نام ریان اور دوسرے کا نام مضیّب تھا۔

(۳) آبخورہ تھا جس کا نام صادِر تھا۔

(۴) خیمہ تھا جس کا نام رِکی تھا۔

(۵) آئینہ تھا جس کا نام مُدِلہ تھا۔

(۶) قینچی تھی جس کا نام جامع تھا۔

(۷) جوتی مبارکہ تھی جس کا نام ممشوق تھا۔

(۸) ایک زمانہ میں آپ کے پاس دس گھوڑے تھے ”سکب“ نامی گھوڑے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ اُحد میں سوار تھے ایک گھوڑے کا نام لزاز تھا، جس کو شاہ اسکندریہ مقوقش نے ہدیةً بھیجا تھا، باقی گھوڑوں کے نام یہ ہیں: ظرب، ورد، ضریس، ملاوح، سبحہ، بجر۔

(۹) تین خچر تھے ایک کا نام دُلدل تھا حبشہ کے بادشاہ نے بھیجا تھا آپ نبوت کے بعد اسی پر پہلے پہل سوار ہوئے آپ کے بعد حضرت علی اور حضرت حسن و حضرت حسین رضی اللہ عنہما اس پر سوار ہوتے تھے ان کے بعد محمد بن حنفیہ کے پاس رہا، دوسرے خچر کا نام فِضّہ تھا جس کو صدیقِ اکبر نے ہدیہ کیا تھا۔ تیسرے کا نام اِیلیہ تھا شاہِ ایلہ نے ہدیہ بھیجا تھا۔

(۱۰) ایک گدھا تھا جس کا نام یعفور تھا۔

(۱۱) سواری کی دو اونٹنیاں تھیں ایک کا نام قصواء اور دوسری کا نام عضباء تھا، ہجرت کے وقت آپ قصواء پر سوا رتھے اورحجة الوداع کا خطبہ بھی اسی پر سوار ہوکے دیا تھا۔

(۱۲) دوبکریاں خاص دودھ کے لیے تھیں ایک کا نام غوثہ اور دوسری کا نام یمن تھا۔

(۱۳) ایک سفید رنگ کا مرغ بھی تھا جس کا نام ”منقول“ تھا۔

(۱۴) کل نو تلواریں تھیں۔ ذوالفقار نام کی تلوار غزوہٴ بدر کے مال غنیمت میں ملی تھی باقی تلواروں کے نام یہ تھے: قلعی، تبار، قسف، مجذم، رسوب، عضب، قضیب۔

(۱۵) چار نیزے تھے ایک کا نام ان میں سے ”شوے“ تھا اور بیضاء نام کا ایک بڑا حربہ تھا (جو نیزے سے چھوٹا ہوتاہے)۔

(۱۶) عرجون نام کی خمدار لاٹھی تھی، چار کمانیں تھیں ایک کا نام ”کتوم“ تھا۔

(۱۷) ترکش کا نام ”کافور“ اور ڈھال کا نام ”زلوق“ تھا۔

(۱۸) ایک خود تھا اس کا نام ”ذوالسبوع“ تھا۔

آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ان اشیاء مبارکہ کے اسماء سے معلوم ہوا کہ چیزوں کا نام رکھنا سنت ہے۔ یوں تو متمول افراد شوق سے اپنے کتوں کے نام رکھتے ہیں اور یہ سنت کی پیروی میں نہیں بلکہ یورپ کی تقلید میں، ورنہ دوسری اشیاء کے نام بھی رکھتے بعض گھروں میں بکرا وغیرہ پالنے کا شوق ہوتا ہے اور ان کے نام بھی رکھ دئیے جاتے ہیں عموماً یہ بھی اتباع سنت کے بجائے شوقیہ ہوتے ہیں۔

آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام اور ان کے نام: آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مختلف زمانوں میں کل ملاکر ستائیس غلام تھے آپ نے ان سب کو آزاد کردیا تھا بلکہ غلاموں کی آزادی کی تحریک بھی آپ کے مشنِ نبوت کا ایک حصہ تھی آخری وقت میں جب کہ مرض الوفات میں تھے غشی طاری ہوجاتی تھی جب افاقہ ہوتا تو زبانِ مبارک پر صرف دو جملہ ہوتا تھا ”الصلاة الصلاة، العبید العبید“۔

آپ کے غلاموں کے نام یہ تھے۔ زید بن حارثہ ان کو آپ نے اپنا منھ بولا بیٹا بنالیا تھا اور زید بن محمد کہلاتے تھے پھر جب متبنّیٰ سے متعلق آیت نازل ہوئی، تو اپنے والد حارثہ کی طرف منسوب ہونے لگے۔

اسامہ بن زید، ثوبان، ابوکبشہ، انیسہ، شقران، رباح، یسار، ابورافع، ابومویہہ، فضالہ، رافع، مدعم، کرکرہ، زید جدہلال، عبید، طہمان، نابورقطبی، واقد، ہشام، ابوضمیر، ابوعسیب، ابوعبید، سقیہ، ابوہند، الحبشہ، ابوامامہ (رضی اللہ عنہم)

باندیاں: باندیوں کی تعداد دس تھی ان سب کو بھی آپ نے آزاد فرمادیا تھا ان کے نام درج ذیل ہیں:

سلمہ، ام رافع، رضویٰ، اُسیمہ، ام ضمیر، ماریہ، سیرین، ام ایمن میمونہ، خضرہ، خویلہ رضی اللہ عنہن۔ سیرین کو آپ نے حضرت حسان بن ثابت کو تحفہ میں دے دیا تھا (یا کسی اور صحابی کو عطا فرمادیا تھا)۔

خدام النبی صلی اللہ علیہ وسلم: یوں تو فداکارانِ رسول میں سے ہر پروانہ شمع رسالت پر قربان ہونے کو ہردم تیار رہتا تھا اورکسی بھی ادنیٰ سی خدمت کی سعادت ملنے کو دنیا ومافیہا سے بڑی نعمت سمجھتا تھا، لیکن آپ دوسروں سے کام لینا پسند نہیں فرماتے تھے آپ کے اخلاق حسنہ میں سے تھا کہ اپنا کام خود کرتے تھے پھر بھی آپ کے ذاتی اور گھریلوں کاموں کو انجام دینے کے لیے کچھ خاص خدام تھے جن کی تعداد گیارہ تھی جن کے اسماء حسب ذیل ہیں:

حضرت انس بن مالک (دس برس تک خادم خاص تھے) ہند بنت حارثہ، اسماء بنت حارثہ، ربیعہ بن کعب، عبداللہ بن مسعود، عقبہ بن عامر، بلال بن رباح، سعد، ذومخمر (شاہ حبشہ کے بھتیجے) بکسر بن شداخ، ابوذر غفاری رضی اللہ عنہم۔

شاہانِ ممالک کے لیے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سفراء: آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عرب وعجم کے شاہانِ ممالک اور سربراہان حکومت کے پیس دعوتی خطوط بھیجے تھے ان کو ایمان و توحید اختیار کرکے فلاح یاب ہونے کی دعوت دی تھی جن حضرات صحابہ کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ سفیرِ رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت سے شہرت پائیں ان کے نام یہ ہیں:

(۱) عمروبن امیہ کو شاہ حبشہ نجاشی کے پاس بھیجا۔

(۲) دحیہ کلبی کو قیصر روم ہرقل کے پاس بھیجا۔

(۳) عبداللہ بن حذافہ کو کسرائے فارس کے پاس بھیجا

(۴) حاطب بن ابوبلتعہ کو شاہ اسکندریہ مقوقس کے پاس بھیجا

(۵) عمرو بن العاص کو شاہ عمان کے پاس بھیجا

(۶) سلیط بن عمر کو یمامہ کے رئیس ہودہ بن علی کے پاس بھیجا

(۷) شجاع بن وہب کو شاہ بلقا کے پاس بھیجا

(۸) مہاجربن امیہ کو حارث حمیری شاہِ حمیر کے پاس بھیجا

(۹) علاء بن حضرمی کو شاہ بحرین منذر بن ساوی کے پاس بھیجا

(۱۰) ابوموسیٰ اشعری اور معاذ بن جبل کو اہل ایمن کی طرف اپنا نمائندہ بناکر روانہ فرمایا۔

کاتبین وحی رسالت: آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم امی تھے پڑھنا لکھنا نہیں جانتے تھے، امی ہونا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خصوصی امتیاز ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت و نبوت کی ایک واضح دلیل ہے کہ ایک امی لقب رسول نے دنیائے انسانیت کو ایسا کلام دیا جس کی فصاحت و بلاغت اور لذت وحلاوت کے سامنے فصحائے عرب سرنگوں نظر آتے ہیں اور قیامت تک دنیا اس کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے۔ لہٰذا جب قرآن مجید کی آیات کریمہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب اطہر پر نازل ہوتی تھیں تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم مختلف صحابہ کرام سے ان کی کتابت کرواتے تھے کاتبین وحی کے اسماء حسب ذیل ہیں، نیز انھیں میں سے خطوط وفرامین لکھنے والے ہیں:

حضرت ابوبکر صدیق، عمر بن خطاب، عثمان بن عفان، علی بن ابی طالب، عامر بن فہیرہ، عبداللہ بن ارقم، اُبی بن کعب، ثابت بن قیس بن شماس، خالد بن سعید، حنظلہ بن ربیع، زید بن ثابت، معاویہ بن ابی سفیان، شرجیل بن خسنہ۔ رضی اللہ عنہم۔

جن کو خصوصیت حاصل تھی: حضرت زید بن حارثہ اور ان کے صاحبزادے حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما سے حددرجہ پیار فرماتے تھے، جب زید بن حارثہ کہیں سفر سے واپس آتے تو فرطِ شوق سے لپک کر گلے لگاتے تھے حضرت اسامہ بن زید کی کسی بات کو رد نہیں کرتے تھے یہ حب الرسول سے مشہور تھے صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین ان سے سفارش کراتے تھے، حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بہت عزیز رکھتے تھے۔ فرمایا، سلمان منا اہل بیت کہ سلمان ہم اہلِ بیت میں سے ہیں۔ حضرت بلال اور حضرت عمار بن یاسر، حضرت ابوذرغفاری، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم محبوبین مخصوصین میں شمارہوتے تھے۔

ازواج مطہرات: وفات کے وقت آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں کل نو ازواج مطہرات تھیں، یہ بیویاں تھیں جن کے فضائل قرآن کریم میں آئے ہیں کہ تم عام عورتوں کی مانند نہیں ہو، یٰنسآء النبی لستن کأحدٍ من النساء (سورہ احزاب) یہ حرم نبی ہیں ان کو دنیا کی تمام عورتوں میں خصوصی امتیاز و فضیلت حاصل ہے۔

(۱) حضرت سودہ بن زمعہ رضی اللہ عنہا ان سے قبلِ ہجرت نکاح فرمایا۔

(۲) حضرت عائشہ بن ابی بکر رضی اللہ عنہا ان سے بھی ہجرت سے قبل نکاح ہوا اور رخصتی مدینہ میں ایک ہجری میں ہوئی۔

(۳) حضرت حفصہ بن عمر رضی اللہ عنہا ان سے شعبان ۳ھ میں نکاح فرمایا۔

(۴) حضرت ام سلمہ بن ابی امیہ رضی اللہ عنہا ان سے شعبان ۴ھ میں نکاح فرمایا۔

(۵) حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا ان سے ۵ھ میں نکاح فرمایا یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی زاد بہن ہیں۔

(۶) حضرت ام حبیبہ بنت ابی سفیان رضی اللہ عنہا ان سے ۶ھ میں نکاح فرمایا اور خلوت ۷ھ میں ہوئی۔

(۷) حضرت جویریہ بنت حارث رضی اللہ عنہا ان سے ۶ھ میں نکاح فرمایا۔

(۸) حضرت میمونہ بنت حارث ہلالیہ رضی اللہ عنہا ان سے ۷ ھ میں نکاح فرمایا۔

(۹) حضرت صفیہ بنت حی بنت اخطب رضی اللہ عنہا ان سے ۷ھ میں نکاح فرمایا یہ یہودی سردار کی صاحبزادی تھیں۔

(۱۰) حضرت خدیجة الکبریٰ بنت خویلد رضی اللہ عنہا آپ نے سب سے پہلے انھیں کی خواہش و پیغام پر نکاح کیا تھا جب کہ آپ کی عمر شریف ۲۵سال تھی اور وہ بیوہ چالیس سال کی باعزت مالدار خاتون تھیں آپ کی تمام اولاد سوائے حضرت ابراہیم کے انھیں کے بطن سے ہیں یہ ہجرت سے قبل وفات پاگئیں تھیں، آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کی بہت قدر فرماتے تھے ہمیشہ یاد کرتے رہے۔

(۱۱) حضرت زینب بن خزیمہ رضی اللہ عنہا ان سے ۳ھ میں نکاح فرمایا مگر دو یا تین ماہ کے بعد یہ وفات پاگئیں۔

اولاد الرسول صلی اللہ علیہ وسلم: آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام اولاد سوائے حضرت ابراہیم بن محمد علیہ السلام کے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے ہیں۔ حضرت زینب رضی اللہ عنہا جن کا نکاح ابوالعاص سے ہوا تھا حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا، حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا ان دونوں صاحبزادیوں کا نکاح حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے ہوا پہلے رقیہ سے، ان کی وفات کے بعد ام کلثوم سے، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا یہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے چھوٹی اور سب سے محبوب صاحبزادی تھیں، ان کا نکاح حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے ہوا تھا۔

انھیں صاحبزادی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سلسلہ نسب چلا ہے حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما انھیں کے بطن سے ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سلسلہ کو جاری رکھنے والے ہیں۔

حضرت عبداللہ جن کا لقب طاہر اور طیب ہے اور حضرت قاسم یہ دونوں صاحبزادے بھی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے تھے، ہجرت سے قبل مکہ میں وفات پائے حضرت قاسم حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے تھے یہ دو تین سال کے بعد وفات پائے۔

سیرة النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ ایک جھلک ہے سیرة مبارکہ کا مطالعہ اس لیے ضروری ہے کہ اس کے بغیر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک مسلمان نمونہ کامل بنانے پر قادر نہیں ہوگا آپ جہاں داعی برحق ہیں تو وہیں انسانِ کامل بھی ہیں۔ آپ شوہر بھی ہیں آپ باپ بھی ہیں، آپ خسر بھی ہیںآ پ داماد بھی ہیں، آپ تاجر بھی ہیں آپ قائد بھی ہیں۔ آپ سپہ سالار بھی ہیں آپ مظلوم بھی ہیں، آپ مہاجر بھی ہیں آپ نے زخم بھی کھائے آپ نے مشقت بھی جھیلی آپ نے بھوک بھی برداشت کی آپ نے بکریاں بھی چرائیں آپ نے سیادت بھی فرمائی۔ آپ نے معاملات بھی کیے، آپ نے لین دین بھی فرمایا، آپ نے قرض بھی لیا، آپ نے ایک انسان کی حیثیت سے معاشرہ کا ہر وہ کام کیا جو ایک انسان فطری طور پر کرتا ہے۔ اس لیے آپ کو نمونہ بنائے بغیر نہ کوئی کامیاب باپ، شوہر، خسر، داماد، تاجر وسپہ سالار بن سکتا ہے اور نہ ہی حق تعالیٰ کی کماحقہ اپنی طاقت بھر اطاعت و عبادت کرسکتا ہے آپ کی سیرت طیبہ حیات انسانی کے ہر گوشہ کا کامل احاطہ کرتی ہے۔