سکون 167

سکون

سکون
شوکت یہ نیکی کرکے بہت سکون محسوس کر رہا تھا اور دل ہی دل میں اللہ تعالیٰ کی دی گئی توفیق کا شکر بھی ادا کر رہا تھا
دانیال حسن
شوکت اپنے دوست ناصر کے گھر گیا تو اس کے چھوٹے بھائی نے بتایا کہ وہ گھر پر نہیں ہے۔شوکت اور ناصر ایک ہی محلے میں رہتے تھے اور ایک ہی کالج میں زیر تعلیم تھے۔ان دونوں کا ایک اور دوست تنویر بھی تھا جو دوسرے محلے میں رہتا تھا۔
شوکت،تنویر سے ناراض تھا۔ناصر نے دونوں کی صلح کرانے کی کوشش کی،لیکن کامیاب نہیں ہو پایا۔واپس جاتے ہوئے شوکت ابھی دوسری گلی میں مڑا ہی تھا کہ اسے سامنے سے ناصر آتا ہوا دکھائی دیا۔ناصر نے بھی اسے دیکھ لیا تھا۔سلام دعا اور حال احوال کے بعد شوکت نے ناصر سے پوچھا:”میں تمہارے پاس آیا تھا،مگر تم گھر پر نہیں تھے،کہاں چلے گئے تھے؟“
”تنویر کے پاس گیا تھا۔
“ناصر نے بتایا تو شوکت کا منہ بن گیا،لیکن ناصر نے اپنی بات جاری رکھی:”وہ آج کل بہت پریشان ہے۔


”کیوں کیا ہوا؟“شوکت نے پوچھا۔
”اس کے والد بیمار ہیں اور ڈاکٹر نے آپریشن کا کہا ہے،مگر․․․․․”اتنا کہہ کر ناصر خاموش ہو گیا۔

”مگر کیا؟“
”ان کے پاس رقم نہیں ہے۔“یہ کہہ کر اس نے اپنی بات مکمل کی۔
”کتنا خرچ ہے؟“شوکت نے پوچھا۔
ناصر نے اسے خرچ بتایا تو شوکت نے کہا:”اوہ اچھا اللہ بہتر کرے گا انشاء اللہ۔“
”تم دعا بھی کرنا کہ اللہ ان کے حالات بہتر کرے۔
“ناصر نے کہا۔
”اچھا میں چلتا ہوں۔“شوکت اپنے گھر کی طرف مڑ گیا۔تنویر کے حالات سن کر شوکت پریشان ہو گیا۔اب اس نے ارادہ کر لیا تھا کہ نہ صرف وہ تنویر سے صلح کرے گا،بلکہ اس کی پریشانی کم کرنے میں اس کی مدد بھی کرے گا۔
شوکت کا تعلق ایک کھاتے پیتے گھرانے سے تھا۔اس کے والد کی شوگر مل تھی اور گھر میں دولت کی فراوانی تھی۔اس کے والد بھی رحم دل اور نیک انسان تھے۔گھر پہنچتے ہی وہ سیدھا اپنے والد کے پاس پہنچ کر ان کے قریب جا کر بیٹھ گیا۔
”کیا بات ہے بیٹا!پریشان نظر آرہے ہو۔
خیریت تو ہے؟“
شوکت نے ساری بات ان کو بتانے کے بعد اپنا مقصد بھی بیان کیا۔یہ سب سن کر اس کے والد مطمئن نظر آنے لگے۔
”یہ تو تم بہت اچھا کام کرنے جا رہے ہو۔تم یہیں روکو،میں آتا ہوں۔“وہ اپنے کمرے کی طرف گئے اور تھوڑی دیر بعد آئے تو ان کے ہاتھ میں ایک لفافہ تھا۔
انھوں نے لفافہ شوکت کو تھمایا اور کہا:”بیٹا!یہ لو اللہ تمہاری نیکی قبول فرمائے۔“
شوکت نے لفافہ لیا اور اپنے والد کا شکریہ ادا کرنے کے بعد ناصر کے گھر چلا گیا اور اس سے تنویر کے گھر چلنے کو کہا۔
ناصر کے چہرے پر حیرت تھی:”کیا تم صلح کرنا چاہتے ہو؟“
”ہاں صلح بھی اور نیکی بھی۔

”کیا مطلب!میں سمجھا نہیں۔“
ناصر چونکا تو شوکت نے اسے بتایا:”میں اس سے ناراض ضرور تھا،لیکن مجھ سے اس کی پریشانی نہیں دیکھی گئی۔میں اس کی مدد کرنا چاہتا ہوں۔ میں اللہ کا شکر گزار ہوں کہ اس نے مجھے نیکی کی توفیق دی۔
”آؤ چلیں۔“
وہ تنویر کے گھر کی طرف چل دیے۔ تنویر غریب ضرور تھا،لیکن وضع دار تھا۔وہ دونوں سے پُرتپاک انداز سے ملا اور اپنی حیثیت کے مطابق ان کی خاطر تواضع کی۔شوکت نے محسوس کیا کہ تنویر کے چہرے پر پریشانی واضح تھی،لیکن وہ اسے چھپا رہا تھا۔

”تنویر!میں اپنی ناراضگی ختم کرکے تم سے صلح کرنے آیا ہوں۔“تنویر کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔تنویر گوکہ متوسط گھرانے سے تعلق رکھتا تھا،لیکن فراخ دل تھا۔اس نے فوراً ہی شوکت سے صلح کر لی۔تھوڑی دیر بعد شوکت نے اپنی جیب سے لفافہ نکالا اور تنویر کی طرف بڑھا دیا۔

”یہ کیا ہے؟“تنویر نے حیرت سے پوچھا۔
تمہارے ابو کے علاج کے لئے کچھ رقم ہے۔“شوکت نے بتایا۔
”مگر․․․․․یہ میں کیسے․․․․․“وہ ہچکچایا۔اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا۔
”رکھ لو تنویر!“ناصر نے کہا:”اللہ نے شوکت کو نیکی کی توفیق دی ہے۔
تم بھی یہ قبول کر لو اور اس کی نیکی ضائع مت کرو۔“
تنویر ایک بار پھر ہچکچایا،لیکن اس نے نم آنکھوں سے لفافہ لے لیا۔
”شوکت!میں اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہوں کہ اس نے مجھے تم جیسے دوستوں سے نوازا ہے۔“یہ کہتے ہوئے آنسو تنویر کے رخسار سے لڑھک کر اس کے لباس میں جذب ہو گئے۔

”میں بھی اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے مجھے نیکی کی توفیق عطا فرمائی ہے۔“شوکت نے سنجیدگی سے کہا:”یہ میری خوش بختی ہے اور اس دنیا میں بہت کم خوش نصیب ہوتے ہیں،جنھیں اللہ تعالیٰ نیکی کے لئے منتخب فرماتے ہیں۔

”تم ٹھیک کہہ رہے ہو۔“ناصر نے کہا اور پھر وہ دونوں تنویر سے مل کر اپنے گھروں کی طرف روانہ ہو گئے۔شوکت یہ نیکی کرکے بہت سکون محسوس کر رہا تھا اور دل ہی دل میں اللہ تعالیٰ کی دی گئی توفیق کا شکر بھی ادا کر رہا تھا۔