سیاسی بحران اوراس کا حل 250

سیاسی بحران اوراس کا حل

سیاسی بحران اوراس کا حل
اے خالق سرگانہ
یہ بڑی بدقسمتی ہے کہ پاکستان مسلسل بحرانوں کا شکار چلا آ رہا ہے۔ بھارت سے جنگیں، ملک ٹوٹنے کا حادثہ،چار دفعہ مارشل لاء کا نفاذ اور پھر سیاسی جنگیں جو ختم ہونے میں نہیں آ رہیں گویا 70 برسوں میں اپنے بنیادی مسائل پر اتفاق رائے پیدا نہیں کر سکے۔ کسی نے خوب کہا ہے کہ 1947ء میں ہم ایک قوم تھے اور ملک کی تلاش میں تھے ملک تو مل گیا لیکن اب ہم ایک قوم کی تلاش میں ہیں۔ اتنے عرصے میں صوبوں کی تقسیم کا مسئلہ اب تک طے نہیں ہو سکا۔ 1973ء کے دستور میں طے کیا گیا تھا کہ پندرہ سال میں اُردو مکمل طور پر سرکار دربار کی زبان ہو گی لیکن یہ بھی ممکن نہیں ہوا۔ شرح خواندگی میں ہم بہت پیچھے ہیں۔ غربت کا خاتمہ نہیں ہو سکا۔ لوکل باڈیز کا نظام ہم پوری طرح نہیں اپنا سکے حالانکہ تمام پارٹیاں اس نظام پر متفق ہیں حتیٰ کہ اب قومی سطح پر ہم نئے سیاسی نظام کی تلاش میں ہیں۔

نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان ترقی کے سارے اشاریوں میں اپنے خطے میں بھی پیچھے رہ گیا ہے یہ کوئی معمولی بات نہیں۔ 1947ء میں ہم آزاد ہوئے تو ہمارے پاس کچھ نہیں تھا لیکن تعمیر کا جذبہ تھا لہٰذا بہت جلد ہم اپنے پاؤں پرکھڑے ہو گئے ہم نے تمام ضروری ادارے بھی قائم کر لئے اور انہیں کامیاب بھی کر لیا۔ لیکن پھر ہمارا سفر نشیب کی طرف شروع ہو گیا اب ہم ایک دوسرے کو اس زوال کا ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں حالانکہ یہ کسی ایک حکومت یا طبقے کا کام نہیں بلکہ ہم سب اس میں شامل ہیں۔ چار دفعہ مارشل لاء لگنے سے قوم سول اور فوجی کی بحث میں تقسیم ہو گئی اب وہ تقسیم کافی گہری ہو گئی ہے اور دونوں طبقے ایک دوسرے کو حالات کی خرابی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں صرف چنددفعہ ہمارے ہاں پرُامن انتقال اقتدار ہوا ورنہ اس عمل میں ہم کافی معاشی نقصان کر لیتے ہیں اور پھر ہر حکومت حالات کی خرابی کا ذمہ دار ماضی کی حکومتوں کو ٹھہراتی ہے اور نئے سرے سے کام شروع کرتی ہے۔

آج قوم شاید پہلے سے کہیں زیادہ تقسیم ہے مکمل محاذ آرائی ہے سیاست کا موضوع ہماری روزمردہ کی زندگی پر چھایا ہوا ہے جہاں چار آدمی اکٹھے ہوتے ہیں سیاست کی بات شروع ہو جاتی ہے ہر آدمی اپنے اپنے مفادات اور تعصبات کے حوالے سے یکطرفہ دلائل دینا شروع کر دیتا ہے کچھ دیر کے بعد یہ سوال اُبھر کے سامنے آ جاتا ہے کہ موجودہ حالات کا نتیجہ کیا نکلے گا لیکن کسی کے پاس اس کا حتمی جواب نہیں ہوتا نتیجہ مایوسی کے سوا کچھ نہیں نکلتا۔ کیا اس ذہنی کیفیت کے ساتھ بحیثیت قوم ہم ترقی کر سکتے ہیں؟ ظاہر ہے ایسا ممکن نہیں۔ ہمارا میڈیا بھی تقسیم ہو چکا ہے بائیس کروڑ کے ملک میں صرف پندرہ بیس آدمی دستیاب ہیں جو ہر ٹی وی چینل پر بحث کر رہے ہوتے ہیں۔ حکومت کے وزراء اور ترجمانوں کی ایک فوج کے علاوہ اکثر مبصرین اور اینکرز کا سب کو پتہ ہے کہ وہ کس کے ساتھ ہیں۔ صرف چند آدمی ایسے ہیں جو میرٹ پر بات کرتے ہیں ہر وقت سیاست زیربحث ہوتی ہے اس کے علاوہ عملی زندگی میں درپیش مسائل پر شاہد ہی کوئی پروگرام نظر آتا ہو۔

عملی طور پر ہم ہر شعبے میں مار کھا گئے ہیں۔ اندرونی حالات کے ساتھ ساتھ خارجہ پالیسی میں ہمارے لئے بہت بڑے چیلنج پیدا ہو گئے ہیں۔ خلیجی ممالک کی حمایت ہر لحاظ سے ہمارے لئے بہت حوصلہ افزا تھی لاکھوں اہل وطن کو وہاں روزگار حاصل تھا اور ابھی تک ہے لیکن اب وہاں سے بھی بڑی مایوس کن خبریں آ رہی ہیں پہلی دفعہ بھارت کے آرمی چیف سعودی عرب کے دورے پر گئے ہیں اس سے پہلے بھارتی وزیراعظم مودی کو اِن ملکوں سے اعلیٰ ایوارڈ مل چکے ہیں۔ اگرچہ ہمارے وزیر خارجہ بھی حال ہی میں چند دوست ملکوں کے وزرائے خارجہ سے بات چیت کر چکے ہیں لیکن یہاں اب پانسہ پلٹنے کیلئے ہمیں بہت کچھ کرنا پڑے گا ایسا لگتا ہے کہ وزیر خارجہ کا فوکس خارجہ پالیسی سے زیادہ کہیں اور ہے میں تو اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ وزارت خارجہ کسی ٹیکنو کریٹ کے پاس ہونی چاہئے تاکہ اپنے شعبے پر مکمل توجہ دے سکے۔ہمارے وزیراعظم نے ترکی، ایران اور ملائشیا کے ساتھ ایک بلاک بنانے کی بات کی تھی اس سلسلے میں ایک نیوز ایجنسی شروع کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا تھا لیکن ایسا لگتا ہے کہ یہ منصوبہ لانچ ہونے سے پہلے ہی ناکام ہو گیا ہے اس کے روح رواں ملائشیا کے مہاتیر محمد منظر سے ہٹ چکے ہیں نئی حکومت کی پالیسی مختلف ہے۔

اس سارے پس منظر اور بدلتے ہوئے عالمی حالات کے تناظر میں حکومت کو بہت سنگین اندرونی اور بیرونی چیلنجوں کا سامنا ہے اور ان سے نمٹنے کیلئے ملک میں سیاسی ہم آہنگی اور پُرسکون ماحول کی ضرورت تھی لیکن بدقسمتی سے ملک شدید سیاسی بحران کا شکار ہے۔ اس صورتحال میں ہر آدمی پریشان ہے کہ آخر حکومت کتنے محاذوں پر لڑ سکے گی۔سیاسی محاذآرائی کا مسئلہ آخرکار بات چیت سے ہی حل ہو گا لہٰذا حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو اپوزیشن کی طرف سے انتہائی قدم اُٹھانے سے پہلے ہی بات چیت کے ذریعے صورتحال پر قابو پانے کیلئے پیشرفت کر لینی چاہئے۔ دیر کرنے میں کسی کا فائدہ نہیں بلکہ ملک کا نقصان ہے۔