سب سے اعلی ہمارا نبی 252

سب مخلوقات پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی افضلیت

سب مخلوقات پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی افضلیت
اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

< اللہ کے رسولوں میں سے کسی میں ہم تفریق نہیں کرتے > البقرہ 285

ابن کثیر رحمہ اللہ نے اس کی تفسیر میں کہا ہے :

مومن سب رسولوں اور انبیاء اور ان کتابوں کی جو یہ اللہ کے بندوں رسولوں اور انبیاء پر نازل ہوئی ہیں تصدیق کرتے اور ان میں سے کسی کے درمیان فرق نہیں کرتے کہ کس پر ایمان لائیں اور کس کے ساتھ کفر کریں ۔

بلکہ ان کے نزدیک سب کے سب سچے نیک اور رشد وہدایت پر اور خیر کی راہ دکھانے والے ہیں اگرچہ ان میں سے بعض بعض کی شریعت کو منسوخ کرتے ہیں حتی کہ ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت نے پہلی شریعتوں کو منسوخ کر دیا جو کہ خاتم الانبیاء اور رسل ہیں اور ان کی شریعت پر ہی قیامت قائم ہو گی ۔

تفسیر ابن کثیر (1/ 736)

رہا یہ مسئلہ کہ انبیاء کی ایک دوسرے پر فضیلت تو اس کے متعلق اللہ تعالی نے ہمیں اس کے متعلق بتاتے ہوئے فرمایا ہے :

< یہ رسول ہیں جن میں سے ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے ان میں سے بعض وہ ہیں جن سے اللہ تعالی نے بات چیت کی ہے اور بعض کے درجات کو بلند کیا ہے > البقرہ 253

اللہ تعالی نے ہمیں یہ بتایا ہے کہ وہ درجات میں ایک دوسرے سے اوپر ہیں اسی لۓ رسولوں میں جنہیں چنا گیا وہ اولو العزم رسول ہیں ۔

فرمان باری تعالی ہے :

< جب ہم نے تمام انبیاء سے عہد لیا اور (خاص طور پر) آپ سے اور نوح اور ابراہیم اور موسی اور ابن مریم سے اور ہم نے ان سے پکا اور پختہ عہد لیا > الاحزاب / 7

ان سب میں سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم افضل ہیں اس کی دلیل یہ ہے کہ معراج کی رات آپ نے ان کی امامت کروائی تو امامت میں اسے آگے کیا جاتا ہے جو کہ افضل ہو ۔

اسی طرح ان کے افضل ہونے کی دلیل میں یہ حدیث بھی ہے :

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

< قیامت کے دن میں آدم کی اولاد کا سردار ہوں گا اور سب سے پہلے میری قبر شق ہو گی اور سب سے پہلے میں ہی سفارش کروں گا اور سب سے پہلے میری سفارش ہی قبول ہو گی > صحیح مسلم (الفضائل / حدیث نمبر 4223 )

امام نووی رحمہ اللہ تعالی نے شرح مسلم میں اس کی شرح کرتے ہوئے کہا ہے :

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان :

< قیامت کے دن میں آدم کی اولاد کا سردار ہوں گا اور سب سے پہلے میری قبر شق ہو گی اور سب سے پہلے میں ہی سفارش کروں گا اور سب سے پہلے میری سفارش ہی قبول ہو گی >

ہروی کا قول ہے: سردار وہ ہوتا ہے جو کہ اپنی قوم پر خیر وبھلائی میں ان سے بڑھ کر ہو اور اس کے علاوہ دوسرے کہتے ہیں کہ : سردار وہ ہوتا جو تکالیف اور سختیوں کے وقت جس کے ہاں پناہ لی جائے تو وہ ان کے معاملات کا اہتمام کرتا ہوا ان سے تکلیف کو دور کرے ۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول : (قیامت کے دن ) حالانکہ وہ دنیا وآخرت میں بھی ان کے سردار ہیں تو یہاں پر اسے قیامت کے دن کے ساتھ مقید کرنے کا سبب یہ ہے کہ اس دن ہر ایک کے لۓ افضلیت اور سرداری ظاہر ہو جائے گی اور کوئی منازع اور معاند نہیں ہو گا جو کہ ان سے یہ لے سکے دنیا کے خلاف کیونکہ دنیا میں کفار بادشاہوں نے اور مشرکوں کے سرداروں نے جھگڑا کیا تھا ۔

علماء کا کہنا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ ( میں آدم کی اولاد کا سردار ہوں ) یہ فخر کی بنا پر نہیں بلکہ مسلم کے علاوہ دوسری مشہور حدیث میں اس کی صراحت موجود ہے ( میں آدم کی اولاد کا سردار ہوں اور اس پر فخر نہیں ) اس کے کہنے کی دو وجوہات ہیں :

پہلی : اللہ تعالی کے اس فرمان کے مصداق میں < اور اپنے رب کی نعمت کو بیان کر >

دوسری : یہ اس بیان سے ہے جس کی تبلیغ امت کو کرنی واجب تھی تا کہ وہ اسے جان لیں اور اسے اپنا عقیدہ بنا کر اس کے مطابق عمل کریں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ان کے مقام و مرتبہ کے مطابق عزت کریں جیسا کہ اللہ تعالی نے انہیں حکم دیا ہے ۔

تو یہ حدیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے باقی مخلوق پر افضل ہونے کی دلیل ہے کیونکہ اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ متقی اور مطیع آدمی فرشتوں سے افضل ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم آدمیوں وغیرہ میں سے سب سے افضل ہیں ۔

اور یہ حدیث (انبیاء کو ایک دوسرے پر افضیلت نہ دو ) تو اس کا جواب پانچ وجوہات پر مشتمل ہے ۔

پہلی : نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اس وقت فرمایا جب انہیں اس کا علم نہیں تھا کہ وہ اولاد آدم کے سردار ہیں تو اس کا علم ہوا تو انہوں نے بتا دیا ۔

دوسری : یہ ادب اور بطور تواضع کہا ہے ۔

تیسری :اس میں اس فضیلت سے منع کیا گیا ہے جو کہ دوسرے کی تحقیر کرے ۔

چوتھی : اس میں فضیلت سے روکا گیا ہے جو کہ جھگڑے اور فتنہ کا باعث بنے جیسا کہ حدیث کا سبب مشہور ہے ۔

پانچویں : کہ یہ فضیلت نبوت کے ساتھ خاص ہے تو نبوت کے اندر کوئی فضیلت نہیں بلکہ فضیلت تو خصائص اور دوسرے فضائل میں ہے تو فضیلت کا اعتقاد ضروری ہے :

ارشاد باری تعالی ہے :

< یہ رسول ہیں جن میں سے ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے > واللہ اعلم اھـ

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل جن کی بنا پر انہیں دوسرے رسولوں پر فضیلت حاصل ہے وہ بہب ہیں ہم ان میں بعض کا ذکر کریں گے جو کہ قرآن وسنت میں آۓ ہیں :

اللہ تعالی نے ان پر نازل کردہ قرآن کی حفاظت کو خصوصیت سے نوازا ہے جو دوسری کتابوں کو نہیں ملی – فرمان باری تعالی ہے :

< ہم نے ہی اس قرآن کو نازل فرمایا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کے ذمہ دار ہیں > الحجر /9

لیکن دوسری کتابوں کی حفاظت کی ذمہ داری جن کی طرف نازل کی گئی تھیں لگائی ۔

ارشاد باری تعالی ہے :

< ہم نے تورات نازل فرمائی جس میں ہدایت ونور ہے یہودیوں میں اسی تورات کے ساتھ اللہ تعالی کے ماننے والے انبیاء (علیہم السلام ) اور اہل اللہ اور علماء فیصلے کرتے تھے کیونکہ انہیں اللہ کی اس کتاب کی حفاظت کا حکم دیا گیا تھا اور وہ اس پر اقراری گواہ تھے > المائدہ / 44

یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء والمرسلین ہیں: فرمان باری تعالی ہے :

< محمد صلی اللہ علیہ وسلم تم میں سے کسی کے باپ نہیں لیکن آپ اللہ تعالی کے رسول ہیں اور خاتم النبیین ہیں > الاحزاب ۔ 40

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ وہ سب لوگوں کی طرف عام ہیں :

ارشاد باری تعالی ہے :

< بہت بابرکت ہے وہ اللہ تعالی جس نے اپنے بندے پر فرقان نازل کیا تا کہ وہ تمام جہانوں کے لۓ ڈرانے والا بن جائے > الفرقان / 1

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آخرت میں خصوصیات :

وہ قیامت کے دن مقام محمود پر فائز ہوں گے، فرمان باری تعالی ہے :

< رات کے کچھ حصے میں تہجد کی نماز میں قرآن کی تلاوت کریں یہ آپ کے لۓ عطیہ ہے عنقریب آپ کو آپ کا رب مقام محمود پر کھڑا کرے گا> الاسراء / 79

ابن جریر کا قول ہے اکثر اہل تاویل کا قول ہے یہی وہ مقام ہے جس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم فائز ہو کر قیامت کے دن لوگوں کے لۓ سفارش کريں گے تا کہ انہیں ان کا رب اس دن کی شدت اور تکلیف سے راحت دلاۓ جس میں ہوں گے > تفسیر ابن کثیر 5/ 103

قیامت کے دن مخلوق کے سردار ہوں گے ۔ اس کے متعلق حدیث کا ذکر کیا جا چکا ہے ۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کے ساتھ سب سے پہلے پل صراط عبور کریں گے ۔

امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں اس کے متعلق ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک لمبی حدیث روایت کی ہے جس میں یہ مذکور ہے کہ :

رسولوں میں سب سے پہلے میں اپنی امت کے ساتھ پل صراط عبور کروں گا ۔کتاب الاذان حدیث نمبر 764

اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی افضلیت پر واضح اور صریح دلیل یہ ہے کہ باقی سب نبی سفارش نہیں کریں گے اور ہر ایک لوگوں کو دوسرے کے پاس بھیج دے گا حتی کہ عیسی علیہ السلام انہیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیج دیں گے تو نبی فرمائیں گے میں تو آپ آگے بڑھ کر سب لوگوں کی سفارش کریں گے تو اس پر سب پہلے اور آخری انبیاء اور ساری مخلوق ان کی تعریف کرے گی ۔

اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خصائص میں بہت سی آیات اور صحیح احادیث آئی اور اس میں بہت سی کتابیں لکھیں گئیں ہیں اس مختصر سی جگہ میں ان کا ذکر نہیں کیا جا سکتا ۔

دیکھیں کتاب خصائص المصطفی صلی اللہ علیہ وسلم بین الغلو والجفاء ص 33 – 79 تالیف محمد بن صادق

خلاصہ یہ ہے کہ ہم اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو سب انبیاء اور لوگوں سے ان دلائل کی روشنی میں افضل قرار دیتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ سب انبیاء اور رسولوں کے حقوق کی حفاظت اور ان پر ایمان بھی رکھتے اور ان کی عزت وتکریم میں فرق نہیں کرتے ۔