راشن دو یا موت 221

راشن دو یا موت

راشن دو یا موت
عبدالحسین آزاد

بعض واقعات و حوادث ایسے رونما ہوتے ہیں جو انسان کو جھنجھوڑ کے رکھ دیتے ہیں،کئی دنوں اورراتوں کا سکھ چین چھین لیتے ہیں۔وہ واقعات،حادثات انسان کو اپنی موت آپ ماردیتے ہیں۔

ایک عام انسان ان واقعات،حوادث یا حالات سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ پاتا تو ایک لکھاری جو فطرت کے قریب اور حساس ہوتا ہے،کس قدر متاثر ہوتا ہوگا۔خاص کر کرب کا یہ عالم اس وقت اپنی آخری حدوں کو چھورہاہوتاہے،جب کہیں سے ان تکالیف ومشکلات کے مداواکا دور دور تک کوئی آسرا نہ ہو۔کہیں سے بھی کوئی نشانی سائباں کی نہ ہو،ایسے میں مستقبل کے حسین خواب،ہزاروں تمنائیاں،خواہشات کے انبھار سک سک کر دم توڑ دیتی ہیں اور آہوں وسسکیوں کے ساتھ آنسووں سے تر دامن لیے ایک لکھاری زندہ لاش کی مانند رہ جاتا ہے،بشرطیکہ فکر عالم رکھتاہو۔یوں تو ہر انسان یہ کرب محسوس کرتا ہے،لیکن لکھاری وہ کرب اپنے آپ میں محسوس کرتا ہے تب کہیں جاکر وہ درد الفاظ میں بدل جاتا ہے اور قارئین اُس تحریر کو پڑھتے ہوئے خود پر بھی وہ کیفیت طاری کیے بغیر نہیں رہ پاتے،ایسا ہی ایک کربناک منظراسلامی جمہوریہ پاکستان کے شہر کراچی جس کو غریبوں کی ماں کہا جاتا ہے میں دیکھنے کو ملا،جہاں ایک ماں اپنے معصوم بچوں کے ہمراہ سٹرک میں نام نہاد ریاست مدینہ کے حکمرانوں اور روٹی،کپڑا، مکان کے جھوٹے نعروں سے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے والی حکومت سندھ سے راشن یا موت کا مطالبہ کررہی تھیں،اس کے چہرے سے اس کا کرب جھلک رہا تھا،اگر وہ نہ بولتی تو بھی وہ اور اس کے بچوں کے چہروں سے سب عیاں تھا،معصوم چہروں میں ایک عجیب آداسی تھی،بھوک سے نڈھال تھے،کمزوری چہروں اور جسم سے عیاں تھی،رنگ پھیکا پڑگیا تھا،نہ جانے کتنے دنوں سے بھوکے رہنے پر مجبور تھے،آخر کب تک گھر میں رہتے،یہ تو خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ ان کے سروں پر چھت بھی تھی کہ نہیں،لیکن فی الوقت انہیں چھت،اور لباس کی کوئی پرواہ نہیں تھی،موسم کی سختیوں سے بھی وہ لاپرواہ تھے،کیونکہ کپڑا اورمکان کی ضرویات بعد کی ہیں،پہلی انسانی ضرورت روٹی ہے۔ایک بھوکے انسان کو بھوک مٹانے کے لیے روکھی سوکھی ہی سہی روٹی چاہیے،جب اس کا پیٹ بھر جائے گا،تب اس کوکپڑا اور مکان کی پرواہ ہوگی۔،تب اس سے موسم کی ناگفتہ حالات کا اندازہ ہوگا،جب بھوک سے قریب المرگ ہیں تو پھرچھت اور جسم میں لباس کی کوئی افادیت نہیں،یہ تو ما ں تھی ناں جو بچوں کے درد کو سہہ نہ سکی اور سڑک پر آکر احتجاج کیا،جانتے ہو کیوں لوگ اپنے بچوں کاگلہ دباتے ہیں،گولی مار کر،خود بھی خودکشی کرلیتے ہیں،کیوں؟؟ ایک انسان اپنی اولاد کو جس کی خاطر وہ دنیا کی تمام مشکلات سہہ لیتا ہے،ہر مصیبت کا سامنا کرتا ہے اولاد کی خوشی کے لیے، آخر کیوں اپنی اولا د کا قتل اپنے ہی ہاتھوں کربیٹھتا ہے،کیا وہ پاگل ہے؟کیا وہ دہشتگرد ہے؟کیا اس سے زندگی عزیز نہیں؟کیا وہ اپنے بچوں کو زندہ وخوش دیکھنا پسند نہیں کرتا؟کیا اس کی یہ خواہش نہیں کہ اس کے بھی بیٹا یا بیٹی کی شادی ہو؟کیا وہ یہ خواب نہیں دیکھتا ہوگا کہ اس کی اولاد اس کا سہارا بنے؟پھر کیوں وہ اپنے سہارے کا اپنے ہی ہاتھوں خاتمہ کربیٹھتاہے؟ کیونکہ زندگی کی آس کا گلہ بھوک دبا دیتی ہے۔ وہ ماں تھی اس کا ایک ہی مطالبہ تھا کہ سندھ حکومت یا راشن دے یا موت،یہ اکیلی اس ایک خاتون یااس ایک گھرانے کا مسئلہ نہیں، بلکہ اس ملک کی نصف آبادی کا مسئلہ ہے۔ایک اور خاتون کا بیان جس سے سن کر زمین کانپ اٹھی ہوگی۔وہ کہہ رہی تھی بچے کئی دنوں سے بھوکے ہیں، بچے جب بھی کھانہ مانگتے ہیں پانی پلاتی ہوں،بچے رات کو تقاضاکرتے ہیں اماں کھانہ دیدو،تو کہاں سے لاؤں کھانہ؟پانی میں چینی ڈال کر بچوں کو پلا تی رہی ہو ں۔حالیہ دنو ں میں کراچی کے ایک نوجوان کی بھوک سے خودکشی کی درد بھری رپورٹ City News میں ہمارے ہر دلعزیزدوست صحافی بلال ظفر سلونگی نے دی تھی،جس سے پڑھ کے انسان سکتے ہیں آجاتا ہے۔بہت سے افراد ایسے ہیں جو کئی دنوں سے بھوکے ہیں۔لیکن ان کی خوداری انہیں کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے نہیں دیتی ہے۔ وہ پیٹ میں پتھر باندھ کر گزارہ کرلیتے ہیں،لیکن کب تک؟؟ حالات ابھی سخت سے سخت تر ہونے کوہیں،حکومت سے ایک ہی اپیل ہے،برائے کرم لاک ڈاؤن کریں جو چاہیں مرضی کریں مگر خدا کے لیے ان گھروں تک راشن پہنچائیں جو داڑی دار مزدور ہیں۔جن کا روزگار بند ہوچکا ہے،چاہئے وہ رکشہ چلانے والا،فیکٹری ملازم،گھروں میں کام کرنے والی خواتین جو اپنے گھروں کا سہارا ہوتی ہیں،ان کا اب مزید گزارہ مشکل ہے،وقت پرا قدامات کیے جائیں قبل اس کے کہ وقت گزر جائے اوربھوک وافلاس سے لوگ مرجائیں گے۔آپ سے بھی گزارش ہے۔خدارا اپنے آس پاس دیکھ لیجے ایسا نہ ہو آپ کے گھر میں کئی اقسام کے کھانے پک رہے ہوں،ہمسائیے میں کوئی بھوک سے بلک رہا ہو،ایسا نہ ہوآپ کے بچے آسائشات سے لطف اندوز ہورہے ہوں ہمسایے میں،آس پاس میں بچے بھوک سے نڈھال رونے کی بھی سکت نہ رکھتے ہوں،یاد رکھو کرونا سے موت ہوگی تو حساب ہم پر نہیں ہوگا ہاں البتہ اگر ہمارے شہر،علاقہ،محلہ میں اگر کوئی بھوک سے مرجائے یا خود کشی کرے تو اس کا حساب ہم سب کو دینا پڑے گا پس گزارش ہے آسائشات کم کر لیجیے،دسترخوان میں پانچ ،چھے قسم کے کھانوں کی جگہ ایک یا دو قسم کے کھانوں پر اکتفا کیجئے اور باقی کا کھانہ غریبوں،مساکین اور ضرورت مندوں کو دیجیے،یقینا آپ کو قلبی سکون میسر ہوگا،اگر ہم سب اپنا اپنا فریضہ آدا کریں گے تو کوئی ماں،کوئی بہن،کوئی باپ،کوئی بھائی،کوئی بیٹا،کوئی مزدور نہ ہی غربت وافلاس سے نادم ہوکر خودکشی کرے گا اور نہ ہی یہ مطالبہ ہمیں سننے کو ملے گاکہ راشن دو یاموت۔۔