261

درزی کی بیوی

درزی کی بیوی

تحریر: خطیب احمد

وہ IBA کالج پنجاب یونیورسٹی لاہور سے MBA کر رہی تھی ہماری دوستی سماجی رابطے کی معروف ویب سائٹ فیس بک پر سنہ 2015 میں ہوئی تھی۔ میں ان دنوں PU ہاسٹل لائف میں اپنی ٹوٹی پھوٹی تحریریں شئیر کیا کرتا تھا اسے میری کوئی تحریر اچھی لگی تھی تو فرینڈ ریکوئسٹ بھیجی میں قبول کر لی۔

ہماری کبھی بھی بات نہیں ہوئی تھی بس وہ میری فرینڈ لسٹ میں تھی۔ ہمارا پہلی بار فیس بک انباکس میں ہی رابطہ دسمبر 2018 میں ہوا۔ اسنے بتایا کہ وہ 2017 میں NAB میں ایک کلیدی عہدے پر سلیکٹ ہو چکی تھی اور شادی بھی ہو چکی ہے۔ میں نے کہا کیا کرتے ہیں دولہے میاں تو پتا چلا وہ درزی کا کام کرتے ہیں۔ اور بس میٹرک پاس ہیں۔

اب مجھے اس بظاہر mis match کے بارے میں جاننے کا تجسس ہوا کہ شادی کے معیارات پر میں کچھ لکھنا چاہ رہا تھا۔ اس سے کہا کہ میں تمہیں ملنا چاہوں گا۔ کہتی موسٹ ویلکم کبھی بھی گھر آجاو یا آفس آجاو۔ گذشتہ ہفتے میرا کسی کام سے لاہور چکر لگنا تھا تو میں اسے بھی ملنے کا پلان کیا اور طے شدہ وقت پر ٹھوکر نیاز بیگ پر واقع نیب کے دفتر پہنچ گیا۔

گیٹ پر میرا موبائل جمع کر لیا گیا اور اسکے آفس کا راستہ سمجھا دیا گیا۔ کوئی 1 بجے میں متعلقہ آفس کے باہر تھا۔ خیر میں دستک دے کر دفتر میں داخل ہوا۔ ایک لڑکی دفتر میں ایک سائیڈ پر نماز پڑھ رہی تھی ایک عبایا ایک کرسی پر پڑا تھا۔ میری طرف اسکی کمر تھی تو چپکے سے ایک طرف بیٹھ گیا۔

خیر اسنے نماز پڑھی میری طرف مڑی تو میں نے دیکھا وہ ایک شدید ترین خوبصورت لڑکی تھی بنا کسی بھی میک اپ کے ایک پرنور چہرہ تھا جیسے رحمت برس رہی ہو اور اسکی ذات میں ایک عجیب سی روشنی و رعب تھا۔ سلام دعا کے بعد کہتی خطیب صاحب آپکو کسی نے باہر روکا نہیں؟ میں نے کہا کوئی باہر تھا ہی نہیں۔ اتنے میں اسنے واش روم جا کر عبایا پہنا اور نقاب کر کے واپس آفس میں آکر اپنی کرسی پر بیٹھ گئی۔ اور Bell دی تو ایک بھائی اندر آئے اور مجھے یوں دیکھا جیسے میں کوئی خلائی مخلوق ہوں۔ میڈم نے اسے کچھ کہنے سے پہلے ہی اشارہ کر دیا کہ خاموش رہو اور چائے کے ساتھ پیزا منگواو۔

وہ باہر گیا تو پتا چلا کہ میڈم مکمل پردہ کرتی ہیں آج تک آفس میں کسی نے چہرہ نہیں دیکھا بلکہ ہر نامحرم سے پردہ ہے۔ وہ شاید واش روم گیا ہوا تھا تو میں اسی لمحے اندر آگیا ورنہ نماز کے وقت تو کسی کو بھی اندر آنے کی اجازت نہیں ہے۔ میں نے کہا معذرت قبول کریں میں باہر رک جاتا یہ صاحب دروازے پر ہوتے تو۔ کہتی اٹس اوکے ایزی رہیں

میں نے بلا تاخیر سوال کیا کہ میڈم آپکی شادی پر حیران ہوں۔ کہتی پوچھیں کیا حیرانی ہے؟ میں نے کہا جاب میں آنے کے بعد شادی ہوئی یا پہلے؟ کہتی جاب کے ایک سال بعد۔ میں نے کہا بچپن کا رشتہ طے تھا تو کہتی سر جس سے طے تھا اسنے ایک وفاقی منسٹر کی بیٹی سے شادی کر لی جب میں BBA کر رہی تھی۔ میں نے کہا یہ بھائی آپکے کزن ہیں؟ کہتی جی نہیں میں یونیورسٹی لائف سے ان سے کپڑے سلائی کرا رہی تھی۔ میں نے کہا آپکے ابو کیا کرتے ہیں تو کہتی وہ پولیس سے ریٹارڈ SP تھے اب اس دنیا میں نہیں ہیں۔

میں نے پوچھا اچھا یہ شادی کیسے ہوئی؟ کہتیں یار میں 2013 سے اسی دکان سے کپڑے سلائی کرا رہی تھی۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب میرے گلے میں برائے نام بھی دوپٹہ نہیں ہوتا تھا۔ میں تقریبا ہر دوسرے دن اپنے منگیتر سے ملتی تھی ہم سینما بھی جایا کرتے تھے۔ نہ کبھی بالوں میں کوئی پراندہ یا کیچر لگایا تھا بال کھلے ہی رکھتی تھی ہر ماہ کٹنگ کراتی تھی۔ ابو جی پولیس آفیسر تھے سرکاری گھر تھا میں والدین کی اکلوتی اولاد ہونے کی بنا پر لاڈلی بہت تھی خاص طور پر ابو جی مجھے شمو کہتے تھے۔ پہلے ساتھ امی جاتی تھیں پھر میں کبھی اکیلی ہی جانے لگی۔ اندرون انار کلی بانو ساڑھی ہاوس کے پاس ہی دکان ہے۔ پھر سلے سلائے کپڑے لینے لگی۔

2014 میں میرے جس کزن سے شادی ہونی تھی اسنے ایک امیر کبیر گھرانے میں شادی کر لی اسکے مطابق اسکی اماں نے وہ رشتہ پوچھے بنا کیا۔ میں BBA کے چوتھے سمسٹر میں تھی۔ میں نے بات دل پر لے لی پانچویں اور چھٹے سمسٹر میں میرا GPA بہت نیچے آگیا۔ کھانا اور سونا چھ ماہ ڈسٹرب رہا۔
ابو جی ہرٹ اٹیک کی وجہ سے اچانک ہمارا ساتھ چھوڑ کر جنت میں چلے گئے۔

یہ دو حادثے مجھے اندر سے توڑ گئے۔ میری اس دنیا میں دو ہی خوشیاں تھیں ابو اور منگیتر اب دونوں ہی نہیں تھے۔ میں نے BBA کے بعد MBA میں ایڈمشن لے لیا۔ اب میرے کپڑوں میں 2 بدلاو آئے۔
1۔ میری شرٹ تھوڑی لمبی ہوگئی۔
2۔ دوپٹہ بھی سر پر آگیا کبھی گلے میں بھی رہتا۔ میں نے جاب کے حصول کو بھی فالو کرنا شروع کیا۔ یونیورسٹی پیریڈ میں دو ٹیچرز کو ملا کر تقریبا 47 لڑکوں نے مجھے بالواسطہ یا بلا واسطہ یا فیس بک سے رابطہ کر کے پرپوز کیا۔ میں فیس بک پر اپنی ہی تصویر لگاتی تھی۔ musically پر وڈیوز بھی بناتی تھی۔ مگر میں ابھی شادی نہیں کرنا چاہتی تھی۔ سب سے معذرت کرتی رہی کسی کو پیچھے نہیں لگایا۔ کچھ کو بلاک کرنا پڑا۔

میری جاب ہوگئی میں اپریل 2018 میں ایک سال بعد درزی کی دکان پر کچھ کپڑے دینے گئی درمیان میں اکثر برانڈز سے ہی لیتی رہی۔ دکان بند تھی۔ ساتھ والے درزی سے معلوم ہوا کہ بھائی عمرے پر گئے ہوئے ہیں 10 دن بعد آئیں گے۔ میں اسے اپنا نمبر دے آئی کہ جب آجائیں تو انہیں کہنا فلاں SP صاحب کی بیٹی آئی تھی۔ انہیں کال کر لیں۔ مجھے کوئی 15 دن بعد کال آئی کہ میڈم میں آگیا ہوں آپ آجائیں۔

میں ایک ہفتے بعد دو سوٹ بھجوا دیے ناپ پہلے والا ہے ٹھیک ہے یہ کال پر کہہ دیا۔ جب کپڑے بن گئے تو میں لینے خود گئی۔ کپڑوں کے ساتھ مجھے ایک عدد عبایا اور ایک بڑا سا رومال دیا گیا جو عربی خواتین نماز کے وقت پہن لیتی ہیں بس چہرے کا حصہ کھلا ہوتا ہے۔ یہ وہ سپیشل میرے لیے مکہ سے لائے تھے۔ رومال دیتے ہوئے کہا گیا کہ نماز پڑھتے ہوئے یہ پہن لیا کروں (وہ کہاں جانتے تھے میں نماز پڑھتی ہی نہیں)۔ میں زندگی میں کبھی عبایا نہیں پہنا تھا۔ نہ نماز پڑھی تھی نہ کوئی گھر نماز پڑھتا تھا بس کبھی جمعہ کی نماز یا عید پر ابو جاتے تھے عیدگاہ۔ میں چاہ کر بھی انکار نہ کر سکی اور دونوں چیزیں ساتھ لے آئی۔ انکے مطابق وہ میرے لیے یہ دو چیزیں اور اپنے شاگرد کے لیے کچھ تحفے لے کر آئے تھے عمرہ کا ٹکٹ مارکیٹ میں میلاد کے سالانہ جلسے سے نکلا تھا۔

کہتی میں ناجانے کیوں اسی شام اپنی زندگی کی کوئی دوسری یا تیسری نماز پڑھی وہ رومال بھی لیا مجھے نماز کا کچھ حصہ بھول رہا تھا جو نیٹ سے سرچ کیا۔ پھر عشا بھی پڑھی۔ رات کو عبایا بھی پہن کر دیکھا مجھے بلکل پورا تھا۔

شاید میرے ناپ کے مطابق آلٹریشن کی گئی تھی۔ خیر میں نے غیر ارادی طور پر اگلے دن آفس جانے سے پہلے عبایا بھی پہن لیا۔ ایک دوپٹے کا حجاب بنا لیا چہرہ Cover نہیں کیا۔ میں نے آفس میں ظہر کی نماز بھی پڑھی آفس میں بیٹھے کلرک و نائب قاصد کو کہا کہ آپ لوگ بھی نماز پڑھا کریں۔ وہ بھی آرڈر سمجھ کر چلے گئے۔ اور خوش بھی تھے کہ میڈم کو پتا نہیں کیا ہوا تھا۔ عصر کے وقت خود ہی چلے گئے کہ میڈم مسجد جا رہے ہیں۔

میں نے درزی کو کال کی اور دونوں چیزوں کے لیے دوبارہ بہت شکریہ ادا کیا اور بتایا کہ عبایا پہن لیا ہے۔ اب ہر وقت میرے ذہن میں وہی بندہ گردش کرنے لگا ناجانے کیوں میں اسکے بارے میں کچھ جاننا چاہتی تھی۔ میں دو ہفتوں بعد اسے کال کی اور کہا آپ کسی دن میرے دفتر آسکتے ہیں؟ وہ کہتا جی آجاوں گا۔

ایک جمعہ والے دن وہ میرے آفس میں آگیا۔ اسنے عمرے سے آکر داڑھی رکھ لی تھی اور سر پر ٹوپی تھی مولوی والی look تھی۔ عمر کوئی 33 سے 35 کے قریب ہوگی۔ مگر سمارٹ آپکی طرح تھا اور ابھی بھی ہے۔ میں نے پوچھا آپکے ابو کیا کرتے ہیں؟ کہتا وہ امام مسجد ہیں مگر نماز پڑھانے کی تنخواہ نہیں لیتے۔ ہم وادی سون سے ہیں یہاں کرائے پر رہتے ہیں۔ میرا کام اچھا ہے الحمداللہ اچھا گزارہ ہو رہا ہے۔

میں نے ناچاہتے ہوئے پوچھ لیا آپ شادی شدہ ہیں؟ کہتا جی نہیں؟ میں نے پوچھا کوئی منگنی وغیرہ ہوئی؟ کہتا وہ بھی نہیں ہوئی۔ میں نے پوچھا اچھا کیسی لڑکی سے شادی کرنا چاہتے ہیں؟ کہتا کعبہ پر پہلی نظر پڑھی تھی تو کچھ دیگر دعاوں کے ساتھ کہا تھا آپ جیسی کسی لڑکی سے شادی کرا دینا میرے اللہ۔ آپکا نام بھی لیا تھا اور یہ بھی کہا تھا کہ وہ لڑکی بس نمازی ہو اتنی پڑھی نہ بھی ہو خیر ہے۔

اس ساری گفتگو میں اسنے ایک بار بھی میری طرف نہیں دیکھا۔ نظریں جھکا کر بیٹھا رہا۔ میں نے پوچھا اچھا میرے جیسی ہو؟ کہتا آپ سے تھوڑی کم بھی ہو جائے۔ میں نے بنا سوچے سمجھے کہہ دیا اگر میں ہی ہوجاوں تو؟ کہتا مذاق نہ کریں میڈم۔ آپ میرے لیے بہت محترم ہیں۔ میں نے کہا اچھا میں کوئی دیکھوں لڑکی؟ کہتا جی ابا کی مشکل آسان ہو جائے گی ہم دونوں ہی یہاں رہتے ہیں۔ کئی رشتے آئے ہمیں سب پسند تھا وہ کرایہ کے گھر کا اعتراض کرتے ہیں۔۔ یہ پہلے بتا دیجئے گا۔

کہتی ادھر وہ گیا ادھر میں بھی گھر آگئی۔ امی سے بات کی کہ ایک لڑکا ہے میں شادی کرنا چاہتی ہوں۔ جب امی کو پتا چلا انارکلی والا درزی ہے تو غصہ ہوئی کہ تم پاگل ہو۔ ایک درزی سے تمہیں بیاہیں گے اب ہم؟ کیوں عزت کا جنازہ نکالنا ہے سارے خاندان میں۔ عقل کے ناخن لو۔ میں نے کہا کونسا خاندان جس خاندان کے لڑکے نے مجھے چھوڑ کر ایک امیر ذادی سے شادی کر لی؟ مجھے اس خاندان میں بڑی گاڑی دے کر بیاہنے سے بہتر ہے مجھے زہر لا دیں۔ میں نے کہا امی آپ ایک بار اس سے مل لیں مجھے وہ پسند ہے مجھے لالچی لوگوں میں نہیں جانا۔ امی کہتی میں سو بار ملی ہوئی ہوں۔ چپ کر۔

میں نے اپنے ایک ماموں سے بات کی وہ میرے اچھے دوست ہیں آرمی سے ریٹارڈ ہیں۔ انہوں نے استخارہ کیا اور مجھے کہا کہ استخارہ اچھا ہے میں باجی سے بات کرتا ہوں۔ میں نے بھی امی پر کافی پریشر ڈالا کہ آج تک سب کچھ دیا یہ آخری خواہش بھی پوری کر دیں۔

خیر دونوں خاندان ملے امی نے اسے گھر داماد بننے کا کہا اسنے انکار کر دیا اور میں بھی یہاں نہیں رہنا چاہتی تھی مجھے اپنے سسرال جانا تھا 3 مرلے کے مکان میں وہ باپ بیٹا رہتے تھے۔ میں نے امی کو منا ہی لیا۔ ایک ماہ میں سادگی سے ہمارا نکاح ہوگیا۔ اسکے ابا ہماری شادی والے دن ہی مسجد میں امام والے کمرے میں شفٹ ہوگئے کہ ایک ہی تو کمرہ اور ایک واش روم تھا۔ خطیب شادی کی پہلی رات گھر میں بس ہم دونوں ہی تھے۔ اسکے شاگرد نے موتیے اور گلاب سے مسہری لگائی ہوئی تھی۔ اسکے گھر والے اور رشتہ دار کسی عزیز کے ہاں چلے گئے تھے۔ اسکے ابا کا ماننا ہے کہ جوائنٹ فیملی سسٹم اسلام میں نہیں ہے پہلے دن سے ہی بیٹا علاحدہ گھر میں رہے۔

میں نے کہا آپ کی شادی کو ایک سال ہوگیا ہے آپ خوش ہیں؟ یہ ایک ناقابل یقین شادی ہے میں ایسا کبھی نہیں سنا۔ MBA پاس لڑکی 17 سکیل کی ملازمت اور ایک میٹرک پاس درزی سے جذباتی سی شادی آپکو بعد میں نہیں لگا یہ کہ فیصلہ غلط تھا؟ کہتی خطیب میں تمہیں کہوں کہ میں جنت میں رہتی ہوں تو یہ لفظ “جنت” میرے جذبات کی عکاسی میں کم پڑ جائے گا۔

اتنی دیر میں آرڈر کیا ہوا پیزا آگیا۔ میں پیزا کھانے لگا اور ان سے کہا میڈم اب جلدی سے بتائیں آپ بظاہر اس ابنارمل شادی سے واقعی خوش و مطمئن ہیں؟ کہتیں خطیب چیزیں خوشی نہیں دیتیں کہ فائز سیال کہتے ہیں اللہ سے خوشی مانگو اللہ کو یہ نہ بتاو کہ مجھے جاب دو بڑا گھر دو گاڑی دو فلاں شخص دو تو میں خوش ہونگا وہ بہتر جانتا ہے اسنے ہمارے لئے ہماری کہاں کس چیز میں خوشی رکھی ہے۔

خطیب صاحب مجھے امی نے 20 لاکھ کا چیک دیا کہ اتنی عجلت میں تمہارا جہیز کہاں بنائیں خود ہی لے لینا جو لینا ہوا۔ خاندان والے لوگوں نے طوفان برپا کر دیا کہ درزی سے کوئی چکر چل رہا تھا جو اس سے یوں سب کی مرضی کے خلاف شادی ہو رہی میں نے انہیں کہیں کا نہیں چھوڑا وہ کبھی مجھ سے نہیں ملیں وغیرہ مگر میری امی اور ماموں میرے ساتھ تھے کوئی چاچو یا پھوپھا لوگ نکاح میں نہ آئے۔ امی سے کہا کہ آپ پچھتائیں گی ایک دن۔

میرے اپنے پاس بھی کچھ سیونگ تھی وہ بھی کیش نکلوا لیا۔ تین لاکھ کے قریب کیش اور 20 لاکھ کا چیک میں نے اپنے خاوند کو منہ دکھائی کے وقت پیش کر دیا کہ میں اور میرا سب کچھ آپکا ہے۔ میں نے سنا تھا کہ حضرت خدیجہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو شادی والے دن سسرال آکر 42 ہزار درہم دیے تھے کہ میں اور میرا مال آپکا ہے۔ اور وہ رونے والا کیوٹ سا منہ بنا کر کہنے لگے کہ جو انگوٹھی میرے لیے منہ دکھائی کی بنوائی تھی وہ جیب سے کہیں گر گئی ابھی ابھی دیکھا ہے اب کہیں سے لا بھی نہیں سکتا۔ میں نے کہا چھوڑیں انگوٹھی کو عام سی بات ہے مجھے نہیں لینی منہ دکھائی آپ پریشان نہ ہوں۔
انہوں نے پیسے اور چیک لینے سے انکار کر دیا کہ گھر کی کوئی چیز خریدنے کی ضرورت نہیں ہے اور نہ جگہ ہے آپ اپنے پاس رکھیں یا اپنے لیے ایک گاڑی لے لیں۔ میں تو بائیک پر ہی ٹھیک ہوں۔ اور مجھے حق مہر کا 50 ہزار کیش دے دیا۔ یہ حق مہر انہوں نے خود لکھوایا تھا۔

میں نے زندگی میں پہلی بار اپنی شادی سے اگلی صبح سسرال میں فجر کی نماز پڑھی۔ اس سے پہلے دوسری نمازیں شروع کر چکی تھی مگر فجر کے وقت اٹھا نہیں جاتا تھا۔ میں نے فجر پڑھنے کے بعد پارہ بھی پڑھا۔ میرے میاں بھی مسجد سے واپس آگئے۔ اور کہنے لگے آپ آفس کس ٹائم جائیں گی؟ میں نے کہا میں تو ایک ہفتے کی چھٹی پر ہوں۔ کہتے اچھا پھر تو آپ اکیلی بور ہوجائیں گی جب میں 12 بجے دکان پر چلا جاوں گا۔

میں کہتے کہتے چپ کر گئی کہ آپ نہ جائیں ہاں آج۔ خیر مجھے کہتے کہ نئی دلہن سے کام نہیں کروایا جاتا ابا جائنٹ فیملی کے حق میں نہیں ہیں ورنہ چھوٹی بہن کو رکھ لیتے تو اب چند ماہ تک آپ کوئی کام نہیں کریں گی۔ کھانا پہلے میں بناتا تھا اب بھی بناوں گا۔ میرا شاگرد پہلے بھی گھر کی صفائی کرتا تھا اب بھی کرے گا آپ اسے اپنا بیٹا سمجھنا یتیم بچہ ہے ہمارے گاوں سے ہے۔ وہی ابا جی کو مسجد کھانا دے کر آیا کرے گا گھر میں آتا جاتا رہے گا۔ (15 سال کا بچہ تھا) کپڑے لانڈری سے پہلے بھی دھلتے تھے اب بھی دھلیں گے لانڈری والی آنٹی ہفتے کی شام سب کپڑے لے جائیں گی اور اتوار شام کو گھر ہی دے جائیں گی۔

میں نے کہا کہ نہیں اچھا نہیں لگتا آپ کھانا بنائیں مجھے کچھ کچھ آتا ہے باقی آپ سکھا دیں۔ کہتے کھائیں گی تو اچھا لگے گا بنانے کی بات نہ کریں یہ رسم پوری کرنے دیں۔ ابھی ناشتہ بناتا ہوں بتائیں کیا کھاتی ہیں؟ میں نے کہا ناشتہ تو کم ہی کرتی ہوں۔ میں آپکے ساتھ آتی ہوں مل کر بناتے ہیں تو وہ مان گئے مگر مجھے کچن میں برتن پکڑانے سے سوا کچھ کرنے نہیں دیا۔ تین ماہ تک میں کھانا بنانے میں ماہر ہوگئی۔ اب کبھی وہ کبھی میں بناتی ہوں اکثر وہی بناتے ہیں۔ روٹی تو وہ ہی بناتے ہیں یا انکا شاگرد ہو تو وہ بھی بنا لیتا۔ مجھ سے ابھی کچی رہ جاتی ہیں کہیں کہیں سے۔ جلد ہی سیکھ لوں گی۔

خیر وہ اس دن دکان پر خود ہی نہیں گئے اور اگلے دن لیٹ گئے جلدی واپس آگئے۔ میں شادی کے بعد پہلی بار ایک ہفتے بعد اپنی امی سے ملنے انکے ساتھ انکی بائیک پر آئی میرا ناشتہ کوئی نہیں لے کر آیا نا مکلاوا گیا ان سب رسموں سے انہوں نے منع کر دیا تھا کہ فضول ہے یہ سب مجھے بھی فضول ہی لگتا تھا تو امی کو منع کر دیا تھا۔ ہم 2 گھنٹے امی پاس رہے امی مجھے خوش دیکھ کر خوش تھیں میں نے تسلی دی کہ آپ میری طرف سے بے فکر رہیں ۔ امی نے انہیں بھی واپس آنے پر گلے لگایا اور ماتھا بھی چوما۔ ہم واپس آگئے۔

وہ بھری ہوئی آنکھوں سے گویا ہوئیں یار جس دن مجھے آفس جانا تھا اس دن انہوں نے میرے کہنے سے پہلے ہی رکشہ لگوا دیا ہوا تھا کہ وہ لے بھی جائے گا لے بھی آئے گا۔ مجھے ناشتہ کرتے ہوئے 10 ہزار روپے دیے کہ یہ آپکو ماہانہ ملا کریں گے آپ کی ذاتی ضروریات کے لیے اگر ختم ہوگئے تو اور مانگ لوں۔ رکشہ کا کرایہ میں دونگا آپ نہیں دیں گی۔ گھر کا سب خرچ بھی انکے ذمے ہے۔ جاب کرنا آپکی مرضی ہے جب تک چاہیں کریں جب چاہیں چھوڑ دیں کہ میں الحمداللہ 70 ہزار سے 1 لاکھ تک ماہانہ کما لیتا ہوں عیدوں پر اسے تین گنا کر لیں۔ 20 ہزار گاوں بھیجتا ہوں باقی ہمارے لیے کافی ہیں میں ایک اور کاریگر بٹھانے والا ہوں آمدن بڑھ جائے گی مزید 10 سے 20 ہزار۔

خطیب وہ 10 ہزار میرے لیے 10 کروڑ سے قیمتی تھا کہ ان میں 1000 اور کچھ 500 اور کچھ 100 کے نوٹ بھی تھے میں اتنی خوش تھی کہ بتا نہیں سکتی۔ اور مجھے میری ایک کولیگ یاد آگئی جو مجھ سے پوچھ رہی تھی میرا ATM کارڈ میرے خاوند کے پاس ہے میں واپس کیسے لوں ان سے کوئی بہانا بتاو۔ اور خاوند 16 سکیل میں اسسٹنٹ تھا۔ مجھے میرے انتخاب پر اس دن اور فخر ہوا۔

کہتی لڑکی اور والدین کو شادی کرنے میں جو چیزیں دیکھنی چاہئیں وہ کم ہی لوگ دیکھتے ہیں. ان میں سب سے بڑی غلطی شادی کو 25 سال عمر سے لیٹ کرنا ہے۔ کہ اسکے بعد معیار کی باتیں کرنے لگتی لڑکی اور لڑکا بھی۔ مجھے ترس آتا ہے ان لڑکیوں پر جو لڑکوں کی منتیں کرتی ہیں ہم سے شادی کر لو اپنے گھر بات کرو یا انکی جاب یا مزید اچھی جاب کے انتظار میں کئی سال تباہ کر لیتی ہیں۔ لڑکی چاہے خود بات کر لے مگر نکاح کی بات کرے ڈائیریکٹلی۔ اسی اثنا میں عصر ہو گئی اور میں نے کہا باقی بات نماز کے بعد کرتے ہیں میں مسجد چلا گیا۔

میں عصر پڑھ کر آیا تو وہ بھی نماز پڑھ چکی تھیں۔ میں نے کہا میری تین باتیں ایک ہی بار سن لیں پھر کہانی ختم کریں۔ کہتیں جی سر کہیں
میں نے کہا مجھے تو آپکے پاس ہی EME میں جانا ہے آپکو گھر جانا ہے تو بات کو Conclude کر دیں۔
دوسری بات مجھے اجازت دیں کہ اس کہانی کو پبلک کر سکوں۔ کہ ہم اپنے تجربات سے کسی کو گائیڈ کر سکیں تو یہ کئی من کی نیکی ہوگی انشاءاللہ بڑے فرشتے اسے نیکیوں میں اٹھا کر رکھیں گے میرے جیسے سمارٹ فرشتے بھائی جان سے نہیں اٹھائی جانی آپ دیکھ لینا۔
تیسرا آپکے خاوند سے ملنے کا شوق ہے کوئی وقت ان سے بھی لے دیں۔

کہتیں آپکو اجازت ہے پبلک کر لیں میرا نام نہ لکھیے گا۔ باقی آپ پہچان چھپا لیں گے وہ میں جانتی ہوں۔
دوسری بات آپ 5 اکتوبر کی شام ہمارے گھر آ جائیں ان سے مل لیں آپکا تعارف کرا دیا تھا ایک بار آپکا سٹیٹس پڑھ کر انہیں بھی سنایا تھا۔
انکی دکان پر وہ آپکو وقت نہیں دے سکیں گے نا وہاں اتنی جگہ ہے۔ میں نے کہا اوکے 5 اکتوبر شام 7 بجے Done.

میں نے کہا اب آپ اپنے تجربے سے بتائیں کہ ایک لڑکی کو شادی سے پہلا کیا دیکھنا چاہئیے۔
وہ بولیں خطیب صاحب لڑکی کی کون سنتا ہے والدین ہی رشتے طے کرتے ہیں۔ میں نے کہا آپ نے کیا دیکھا تھا اس فیصلے سے پہلے؟
کہتیں سر میں کوئی جذباتی فیصلہ نہیں کیا تھا مجھے ان سے محبت ہو گئی تھی یہ سچ ہے مگر میں ان کی آمدن کا تھرڈ پرسن سے پتا کرایا تھا۔ مجھے ایک لاکھ تک بتائی گئی تھی۔ مجھے جائیٹ فیملی ساس سسر نندوں و جٹھانیوں دیوانیوں کے جنجال پورے میں نہیں رہنا تھا۔ یہاں آئیڈیل Situation تھی۔ لڑکے کے ابا ساتھ رہتے تھے انکے بارے میں معلوم ہوا کہ فی سبیل اللہ نماز پڑھاتے ہیں تو Typical مولوی نہیں ہیں۔

تیسرے نمبر پر میں نے انکا استخارہ کرایا کہ استخارہ اللہ سے ڈائیریکٹ مشورہ ہے آپکو ان باتوں کا علم ہوجاتا ہے جو کوئی بھی آپکو نہیں بتا سکتا۔ اللہ تعالی آپکو وہ باتیں بھی بتا دیتے ہیں جو آپکو اگلی پارٹی کا قریبی دوست بھی نہ بتا سکے یا اسے بھی پتا نہ ہو۔ میرے استخارے میں آیا کہ صاف پانی ہے اسمیں ایک بلکل سفید مچھلی ہے اسکے جسم پر کوئی داغ نہیں ہے۔ میں نے اپنے سرکل میں ایک عالم دین سے پوچھا تو کہتے اسکا کردار پاک ہے صاف پانی ہی کافی تھا صاف پانی سفید مچھلی کردار کی پاکیزگی ہے اور اسکی صحبت بھی اچھی ہے۔

کہتیں سر استخارہ ضرور کریں۔ رشتہ طے کرنے میں کوئی جلدی نہ کریں آس پاس سے اس لڑکے کے معاملات کا پتہ کر لیں۔ اسکا لین دین یا برتاو رکھ رکھاو کیسا ہے۔ خاندان میں تو پتا ہوتا مگر خاندان سے باہر کسی کا کچھ پتا نہیں ہوتا تو اسکا بہتر حل ہے کچھ وقت پراپر ہاں کرنے سے پہلے دونوں خاندان ایک دوسرے کو دیں۔

خاندان میں ان رشتہ داروں سے نیا رشتہ نہ جوڑیں جن سے آپکے والدین کی کبھی بن نہ آئی ہو کہ اولاد ساری عمر طعنے سنتی رہتی ہے۔ لڑکا بہت ذیادہ نہ سہی آجکل کے دور میں 50 ہزار کم۔سے کم کماتا ہو اسکے لڑکی کے لیے جو تھوڑا پڑھی لکھی ہے گھریلو لڑکی اس سے ہاف پر بھی خوش ہوگی۔

سر ایک بات پکی دیکھیں لڑکا ہڈ حرام نہ ہو عام طور پر امیر لڑکا دیکھ کر رشتہ کر دیا جاتا ہے اور بعد میں ساس سسر سے پیسے لینے پڑتے ساری عمر اس بے غیرت کو شرم نہیں آتی اگر بیوی کمانے والی مل جائے تو اسکی ساری مردانہ غیرت مر جاتی بیوی کا ATM اپنے پاس رکھتا ہے وہ بھی اس سے مانگ رہی ہوتی اور بچوں کو دیکھ کر زندگی گزار دیتی۔ ساری عمر وہ خاوند کی کمائی کی خوشی فیل کر ہی نہیں پاتی۔

ایک انتہائی اہم بات آجکل شادی سے پہلے بھی ہمیں کوئی پسند آجاتا یا ہم ہی کسی کو پسند آجاتے ہیں۔ مگر وہ تعلق اگر نکاح میں نہیں آسکا تو اسے مکمل ختم کر دینا چاہئیے نہ کہ شادی کے بعد بھی چاہے لڑکی ہے یا لڑکا وہ اپنی محبوبہ یا لڑکی اپنے عاشق سے رابطے میں رہے۔۔ بے شمار گھر اجڑنے میں ایک وجہ یہ خیانت ہے۔ 99 فیصد لڑکیاں شادی کے بعد اسی مرد کو اپنی دنیا و جہان سمجھ لیتی ہیں جس سے جیسے بھی بیاہ دی جائیں۔ وہ بندہ چاہے تو ایک پودے کی طرح اپنی بیوی کو محبت سے جیسے جس چاہے شکل میں تراش لے وہ اسی روپ و شکل میں ڈھل جائے گی۔ وہ اسے چھوٹے بڑے جیسے کپڑے کہے پہن لے گی بس اس سے خیانت نہ کرے بس اسکا ہو کر رہے۔

جیسے اپنی محبوبہ کی تعریفوں کے قلابے ملاتے ہیں نا مرد اسے کسی مافوق العقل مخلوق سے ملا۔دیتے پریاں بھی حیران ہوتی ہونگی کہ یہ چولیں کہاں سے سیکھی ہیں پاکستانی عاشقوں نے۔
اس سے 50 فیصد کم اپنی بیوی کی تعریف و تحسین کر دیں تو یقین مانو وہ اسکے سانس میں سانس لے۔ میں اپنے خاوند سے عشق کرتی ہوں خطیب اسکی وجوہات اور بھی ہیں مگر سب سے بڑی کہ وہ بس میرے ہیں شادی سے پہلے بھی انکا کوئی سین نہیں تھا اب تو وہ مجھے کہتے ہیں کہ اللہ کو آپکی مثال دی تھی شاید کوئی آپ جیسی تھی نہیں تو آپکو ہی دے دیا میں اس قابل نہیں تھا۔ وہ اپنی نفی کرتے ہیں اور میں اپنی کہ میرا دامن بہت چھوٹا تھا جتنی خوشیاں اللہ نے دی ہیں۔

کہتی سر آپ نے “رب نے بنا دی جوڑی” فلم دیکھی ہے ؟ میں نے کہا کوئی 8 سے بار۔ کہتی اس میں دو کردار ہیں ایک “ماچو” ٹائپ بندہ ہے جو لڑکی کو ڈانسنگ کلب میں ملتا ہے اور دوسرا “جنٹل مین” ہے جس سے اسکی حادثاتی شادی ہوتی ہے۔ سر شادی جنٹل مین سے ہی کرنی چاہئیے نہ کہ ماچو سے۔ ماچو ٹائپ لڑکے رئیل لائف میں بہت بھیانک چہرہ دکھاتے ہیں انکا ماچو پن کبھی نہیں جاتا۔ اور جنٹل مین بیوی کے ڈانسنگ کلب کی فیس ناشتے کی میز پر رکھ کر چلے جاتے ہیں۔

وہ رکی اور بولی سر آخری دو باتیں۔ جو میں آپکو کہنا چاہوں گی کہ شادیاں خاندان سے باہر کا رواج عام ہونا چاہیے کہ دوسرے خاندان کے Manners آپکو پتا لگتا ہے۔ جیسے ہم جنجال پورے میں بڑے ہوئے امی اور دادی کی کبھی نہیں بنی یہ انہیں وہ انہیں گالیاں دیتی رہیں۔ مجھے آج بھی یاد ہے جب امی زرا پیاری تیار ہوتی تھیں تو دادی انکا جی جلانے والی باتیں کرنے لگ جاتی تھیں اور ایسا ہی اکثر ساس کرتی ہیں بہو کو بیٹی نہیں سمجھتیں۔

لڑکی کو شادی کے بعد بس چند دن سسرال میں رہنا چاہئیے پھر اسے علاحدہ چایے ایک ہی کمرے کے فلیٹ یا کواٹر میں شفٹ کر دیا جائے جہاں اسے کچھ وقت مل سکے اپنے خاوند سے جڑنے کا۔ اسمیں کچھ خامیاں بھی ہیں تو وہ خاوند برداشت کر لے گا مگر سسرال والے انکا تماشا لگائیں گے اسکا جی جلائیں گے کہ اسے روٹی پکانی کھانا بنانا بھی ماں نے نہیں سکھایا جیسی ماں ویسی بیٹی وغیرہ کا سین آن ہوجاتا ہے۔ میں یہ کہانیاں اپنی بہت اچھی دوستوں کی سن چکی تھی کہ جو ساس شادی سے پہلے بڑے دعوے کرتی تھی اسنے ہی بیٹے کو ایسا بھڑکایا کہ اسکی طلاق کرا دی بس انا کا مسئلہ بنا کر۔ ہاں لڑکی ہر وقت ڈرتی رہے ہر جائز ناجائز بات پر جی جی کرتی رہے میکے سے کچھ نہ کچھ لیجاتی رہے تو ساس بڑی ہیپی رہے گی۔

ساس کا یہ گھٹیا روپ ہماری سوسائٹی کے 50 فیصد سے ذیادہ گھروں میں موجود ہے۔ اور للو ٹائپ نام نہاد مرد باہر بڑی باتیں کرنے والے گھر اپنی امی کو اتنا بھی نہیں کہہ سکتے کہ آپ ذیادتی نہ کیا کریں کہتے میں امی کو جھوٹا کیسے کروں تم ہی برداشت کرو یہ تمہاری ماں جیسی ہے۔ خطیب کونسی ماں اپنی اولاد کی خامیاں تلاش کرتی ہے؟ کونسی ماں اولاد کا دل دکھاتی ہے؟ کونسی ماں ہے جو اولاد سے جنگی محاذ قائم کر لیتی؟ کسی جانور کی ماں بھی ایسا نہیں کرتی جیسا ہمارے معاشرے کی ساس کرتی ہے اور لڑکیاں یا خود کشی کر لیتی یا ڈپریشن میں چلی جاتیں۔ اسی لعن طعن میں ابنارمل بچے پیدا کرتی ہیں اور ساری عمر ایک قید میں گزار دیتی ہیں۔

لڑکی کی ماں دیکھتے ہیں لوگ خطیب مگر اس سے ذیادہ ضروری ہے لڑکے کی ماں کے لچھن بھی دیکھے جائیں جو جتنی مٹھی ہوگی وہ اتنا ہی تیز چھرا پھیرے گی۔ میرا خون کھولنے لگتا ہے کہ معصوم لڑکیاں ہسنا تو کیا رونا بھی بھول جاتی ہیں ایسے ایسے ظلم ساس کرتی ہے کہ وہ نہ سہہ سکتی ہیں نا بتا سکتی ہیں۔ کہ اب ماں باپ کی عزت کو دن پورے کئے جائیں۔ اور خبردار آپ نے میری بات میں کوئی بھی کمی بیشی کی تو میں نے کمنٹ بھی کر دینا کہ جناب خیانت کر گئے ہیں۔ میں نے کہا فکر نہ کریں لفظ بلفظ سچ لکھوں گا۔

میں نے کہا میڈم ساری ساس ایک جیسی نہیں ہوتیں کچھ اچھی بھی ہوتی ہیں۔ وہ بولیں جی جتنے اچھے پولیس ملازمین یا اکاونٹ آفس والے یا سنیارے ہوتے ناں اسی ریشو کو ساس میں بھی لاگو کر لیں۔ بے شک اچھی ہونگی مگر گھر کے دو پورشن کر لیے جائیں اوپر آپ رہیں نیچے سسرال مگر ایک ہی گھر میں رہنا خطرے سے خالی نہیں وہ دور گئے اب عدم برداشت ہے لڑکیوں میں اور ساسوں نے منہ بھی ذیادہ کھول لیے ہیں جہیز لینے کے لیے تو طلاق خطرناک حد تک بڑھ چکی۔ مگر وہی بات کہ کچھ اچھے جیسے پولیس والے ویسے ہی اچھی ساس بھی پائی جا سکتی ہیں۔

خطیب صاحب یہ باتیں کسی ڈسکشن میں نہیں آتیں آپ ویسے ہی بڑے مشہور ہیں ابنارمل ٹاپک ڈسکس کرنے میں یہ بھی کریے گا اسکی بہت ضرورت ہے۔
جسکے ساتھ بیتے یا جسکی بہن بیٹی پر ظلم ہو پتا اسے ہی ہوتا ہے۔ میں تو اپنے سرکل میں لوگوں کو گائیڈ کرتی ہوں کہ درزی سے شادی کوئی جذباتی فیصلہ نہ خدا ترسی تھی۔ اپنے چاچو کے گھر کرولا GLI لے کر جانا تھا تو بھی چچی کا منہ سیدھا نہیں ہونا تھا کہ مجھے سونے کے کڑے نہیں ڈلے میری بیٹیوں کو کیا ڈالا ہے مکلواوے کے کپڑے کس برانڈ کے ہیں۔ اور چچا کا بیٹا نکھٹو دو دکانوں کے کرایہ پر بڑا رئیس بنا ہوا۔ کوئی کام نہیں کرتا۔ نہ کبھی کرے گا غصہ اتنا ہے جیسے سانپ اس سے زہر لیتے ہوں۔

بڑے شہروں میں اپنے گھر کی شرط ہوتی یہ بکواس ترین شرط ہے لاہور میں اپنا گھر بنانا اتنا آسان نہیں ہے۔ لڑکا اچھا ہے لوگ اچھے ہیں تو کر دیں رشتہ اللہ پر توکل کریں بن جائے گا گھر۔ میں اب گھر کے لیے ہی پیسے جمع کر رہی ہوں 29 لاکھ ہوگیا ہے۔ دو سے 4 سال میں میری تنخواہ جمع ہوتی گئی تو انشاء اللہ گھر لے لیں گے۔ میں نے کہا آپ تنخواہ لگاتی نہیں ہیں ؟ کہتیں قسم کرا لو جس دن سے شادی ہوئی ایک بار بھی ATM پر گئی ہوں جاز سوپر ڈوپر پلس پیکج کا لوڈ بھی وہ ماہانہ 10 ہزار کے علاوہ کرواتے ہیں۔ 83 ہزار تنخواہ ہے ایک سال سے بنک میں ہی پڑے سب پیسے۔ اس درویش آدمی نے آج تک پوچھا ہی نہیں تنخواہ کتنی ہے مجھے ہی پوچھتا رہتا کہ پیسے تو نہیں چاہئیں اور؟ اور میں بھی اسے گھر کا سرپرائز ہی دوں گی۔

خطیب ایک بات بس سنو اور چلتے ہیں۔ کہ شادی کے بعد ایک سال تک بچہ پلان نہیں کرنا چاہیئے۔ کہ ایک سال میں کافی حد تک کلئیر ہوجاتا کہ کیسے لوگ ہیں کیسا بندہ ہے۔ بے شمار طلاقیں شادی کے چند ماہ بعد ہو جاتیں یا تو بچہ والدین میں سے ایک کی تا حیات محرومی میں زندگی گزارتا۔ کبھی بھی ایک سال تک بچے کی طرف نہ آئیں۔ چلو میں کسی سے کہتی ہوں آپکو EME چھوڑ آتے ہیں میں نے کہا اٹس اوکے میں کریم منگوا لیتا ہوں کہتیں نہیں آو تو سہی باہر اور پھر انکا ایک کولیگ مجھے EME کے گیٹ پر اتار گیا۔