حفیظ جالندھری 337

حفیظ جالندھری کا شاہنامہ اسلام

حفیظ جالندھری کا شاہنامہ اسلام
ابْوالاثر حفیظ جالندھری مرحوم کی شخصیت اور شاعری کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ شاہنامہ اسلام کے مصنف اور پاکستان کے قومی ترانہ کے خالق، ایک سچے مسلمان اور درویش صفت پاکستانی تھے۔ بچپن میں، اکثر والد مرحوم کو ترنم کے ساتھ ”سلام اے آمنہ کے لال اے محبوبِ سْبحانی“ گنگناتے ہوئے سْنا کرتے تھے اور کبھی کبھار تحت اللفظ بھی۔اُنہیں سے حضرت حفیظ جالندھری کا اسم ِ گرامی بھی سننے کو ملا اور سلام بھی ازبر ہوا: اس کا کچھ حصہ نظر نواز ہے۔
ندا ہاتف کی گونج اْٹھی زمینوں آسمانوں میں

خاموشی دب گئی اللّہْ اکبر کی اذانوں میں

حریمِ قْدس سے میٹھے ترانوں کی صدا گونجی

مبارکباد بن کر شادیانوں کی صدا گونجی

بہر سو نغمہ صلِ علیٰ گونجا فضاؤں میں

خْوشی نے زندگی کی روح دوڑادی ہواؤں میں

فرشتوں کی سلامی دینے والی فوج گاتی تھی

جنابِ آمنہ سْنتی تھیں یہ آواز آتی تھی

سلام اے آمنہ کے لال اے محبوبِ سْبحانی

سلام اے فخرِ موجودات فخرِ نوعِ انسانی

سلام اے ظلِّ رحمانی، سلام اے نْورِ یزدانی

ترا نقشِ قدم ہے زندگی کی لوحِ پیشانی!

سلام اے سرِّ وحدت اے سراجِ بزمِ ایمانی

زہے یہ عزت افزائی، زہے تشریف ارزانی

ترے آنے سے رونق آگئی گْلزارِ ہستی میں

شریکِ حالِ قسمت ہوگیا پھر فضلِ ربّانی

سلام اے صاحبِ خْلقِ عظیم انساں کو سِکھلادے

یہی اعمالِ پاکیزہ یہی اشغالِ رْوحانی

تری صورت، تری سیرت، ترا نقشا، ترا جلوہ

تبسّم، گفتگو، بندہ نوازی، خندہ پیشانی!

سلام،اے آتشیں زنجیرِ باطل توڑنے والے

سلام، اے خاک کے ٹوٹے ہوئے دل جوڑنے والے

حفیظ جالندھری مرحوم کے شاہنامہ اسلام کا انتساب، ایک اچھوتی پیشکش ہے: ہر اْس فرزندِ توحید کی خدمت میں جو کلمہ طیبہ پر ایمان رکھتا ہے۔

شاہنامہ اسلام کا دیباچہ شیخ عبدالقادر مرحوم کے زورِ قلم کا نتیجہ ہے۔ اْنہوں نے شاہنامہ اسلام کو“اسلام کی منظوم تاریخ قرار دیتے ہوئے، اسے اخلاقِ اسلامی کی تعلیم کے لئے ایک درسی کتاب کا درجہ دیا ہے۔ شاہنامہ مصنف کے جذباتِ مذہبی کی ایک دلکش تصویر ہے جو لفظوں سے کھینچی گئی ہے۔ لفظ سادہ ہیں۔ اس پر رنگین ترْنم جو حفیظ کی شاعری کی خصوصیت ہے، تصویر کی تاثیر کو دوبالا کر رہا ہے۔

“ یہ مجموعہ شاہنامہ اسلام کہلانے کا مستحق ہے۔ رہا فردوسی کی ہمسری کا دعویٰ سو مصنف نے اپنے عجز و انکسار کا کافی اعتراف اپنے تمہیدی اشعار میں کر دیا ہے۔

”کیا فردوسی مرحوم نے ایران کو زندہ

خدا توفیق دے تو میں کروں ایمان کو زندہ

تقابل کا کروں دعویٰ یہ طاقت ہے کہاں میری

تخیّل میرا ناقص نامکمل ہے زباں میری

زبانِ پہلوی کی ہمزبانی ہو نہیں سکتی

ابھی اْردو میں پیدا وہ روانی ہو نہیں سکتی

کہاں ہے اب وہ دورِ غزنوی کی فارغ البالی

غلامی نے دبا رکھی ہے میری ہمتِ عالی

آخری مصرعے میں جو درد ہے اْس سے آج کل کے اکثر نوجوان آگاہ ہیں۔ اور فی الحقیقت ہمتیں اس زمانے میں بہت پست ہورہی ہیں مگر جس بلند ہمتی کا ثبوت ہمارے شاعر نے دیا ہے وہ قابلِ تعریف ہے کہ ناداری کے سنگِ گراں کے باوجود ایسے اہم کام کا بیڑہ اْٹھایا ہے جس سے بڑے بڑے سرمایہ دار گھبرائیں۔ اور باوجودیکہ آغازِ کار کے وقت یہ معلوم نہ تھا کہ کئی ہزار اشعار اگر لکھے بھی گئے تو چھپ سکیں گے کہ نہیں؟ بے دھڑک لکھتا چلا گیا اور لکھتا جا رہا ہے۔

اگر سوءِ ادب کا مرتکب ہوئے بغیر مصنف نے یہ ہمت کی کہ رزم و بزم کے اس وسیع میدان میں تگ و دو کرے جس میں فردوسی جیسا بڑا شہسوار اپنی شہسواری کے جوہر دکھا چکا ہے تو کم از کم یہ بلندئی ہمت کی دلیل ہے۔ باقی حسنِ قبول خْدا کے ہاتھ میں ہے۔

”فردوسی نے فارسی میں حقِ شاعری ادا کیا اور حفیظ اردو میں طبع آزمائی کر رہا ہے۔ اگر اردو دانوں کو اپنی زبان میں ایسی کتاب ملے جو بہادران و رہبرانِ اسلام کی یاد کو اس طرح تازہ کردے جس طرح فردوسی نے غیر معروف پہلوانوں اور آتش پرست بادشاہوں کی بھولی ہوئی کہانیوں کو تازہ کردیا تھا تو اْردو ادب یقینا عرصہئ دراز تک حفیظ کا شرمندہ احسان رہے گا۔“

ابْوالاثر حفیظ جالندھری کے یومِ ولادت (14 جنوری 1900ء) کے حوالہ سے ”شاہنامہ اسلام“ سے سلام بحضور سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم اور چنداقتباسات پر مبنی اس تحریر کا مقصد اْن کی یاد کو تازہ کرنا اور نذرانہ عقیدت پیش کرنا ہے۔