سیرت صحابہ کرام رضی اللہ عنہ 333

حضرت مُعاذبن جبل رضی اللہ عنہ – حضرت مُعاذبن جبل رضی اللہ عنہ

حضرت مُعاذبن جبل رضی اللہ عنہ – حضرت مُعاذبن جبل رضی اللہ عنہ
مکہ شہرمیں جب دینِ اسلام کاسورج طلوع ہوا ٗاوراللہ عزوجل کی جانب سے رسول اللہ ﷺ کوتمام دنیائے انسانیت کیلئے رہبرورہنماکی حیثیت سے مبعوث فرمایاگیا…تب مکہ سے بہت دورمدینہ (جسے اُس دورمیں یثرب کہاجاتاتھا)میں مشہورومعروف خاندان ’’بنوسَلَمَہ‘‘سے تعلق رکھنے والا معاذبن جبل نامی یہ شخص بالکل ہی نوجوان تھا،اپنے ہم عمرنوجوانوں میں اسے اپنی فہم وفراست ٗ فصاحت وبلاغت ٗ قوتِ بیان ٗ نیزجرأت وشجاعت کے لحاظ سے منفرداورممتازمقام ومرتبہ حاصل تھا،مزیدیہ کہ اس کے سراپااوررنگ وروپ میں فطری طورپرکچھ ایسی کشش تھی کہ جس کی وجہ سے اس معاشرے میں اس کی شخصیت مزیداہمیت اختیارکرگئی تھی،گویا یہ ہردلعزیزقسم کانوجوان تھا۔
یہ تقریباًاُن دنوں کی بات ہے کہ جب دعوتِ حق کے سلسلے میں رسول اللہ ﷺ کی مسلسل کوششوں کے نتیجے میں نبوت کے گیارہویں سال حج کے موقع پرمنیٰ میں ’’یثرب‘‘یعنی مدینہ سے تعلق رکھنے والے چھ افرادمشرف باسلام ہوئے تھے،اورپھراس کے اگلے سال یعنی نبوت کے بارہویں سال حج کے موقع پرمنیٰ میں ہی آپؐ کی دعوتِ حق پرلبیک کہتے ہوئے مدینہ سے تعلق رکھنے والے بارہ افرادنے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ خفیہ ملاقات کی تھی،نیز اس موقع پرانہوں نے آپؐ کے دستِ مبارک پربیعت بھی کی تھی ،جسے بیعتِ عقبہ اُولیٰ کہاجاتاہے۔
اس موقع پرانہوں نے گذارش کی تھی کہ ’’اے اللہ کے رسول!آپ اپنے ساتھیوں میں سے کسی کوہمارے ساتھ مدینہ روانہ فرمائیے…تاکہ وہ وہاں ہمیں اللہ کے دین کی تعلیم دے سکے‘‘
اس پرآپؐ نے اپنے نوجوان صحابی حضرت مصعب بن عمیررضی اللہ عنہ کوان کے ہمراہ مدینہ روانہ فرمایاتھا،یوں حضرت مصعب ؓ رسول اللہ ﷺ کے اولین سفیراورنمائندے کے طورپر ٗ نیزمعلم ومربی کی حیثیت سے مدینہ پہنچے تھے۔
مدینہ پہنچنے کے بعدان کی محنت وکوشش اوردعوتی سرگرمیوں کے نتیجے میں اب وہاں بڑی سرعت کے ساتھ دینِ اسلام کی نشرواشاعت ہونے لگی تھی،دینِ اسلام ٗاورپیغمبرِ اسلام کے چرچے گھرگھرہونے لگے تھے،اوریوں بہت جلدمدینہ شہر’’لاالٰہ الاللہ‘‘کے نورسے جگمگانے لگاتھا…
چنانچہ انہی دنوں ایک بارمدینہ کے کسی محلے میں نوجوان (مُعاذبن جبل)نے بھی حضرت مصعب بن عمیررضی اللہ عنہ کی گفتگوسنی تھی جوکہ اس کے دل میں اترتی چلی گئی تھی ،اورتب اس نوجوان نے اپنے آبائی دین یعنی کفروشرک سے توبہ کرکے دینِ برحق قبول کرلیاتھا۔
اورپھرنبوت کے تیرہویں سال حج کے موقع پرمدینہ سے آئے ہوئے حجاج میں سے بہتّرافرادنے منیٰ میں عقبہ کے مقام پرجب رسول اللہ ﷺ کے ساتھ خفیہ ملاقات ٗنیزآپؐ کے دستِ مبارک پربیعت بھی کی تھی ٗجسے ’’بیعتِ عقبہ ثانیہ‘‘کے نام سے یادکیا جاتا ہے، تب ان بہتّرخوش نصیب افرادمیں یہ نوجوان معاذبن جبل بھی شامل تھا،یہی وہ یادگارموقع تھاکہ جب اس نوجوان کوزندگی میں پہلی باررسول اللہ ﷺ کادیداراورشرفِ ملاقات نصیب ہواتھا…یہ نوجوان اپنی زندگی کے اس یادگارترین لمحے کوتادمِ آخرکبھی بھلانہیں سکا تھا… کہ جب اس نے شدتِ جذبات سے لرزتاہوااپناہاتھ رسول اللہ ﷺ کے دستِ مبارک کی طرف بڑھایاتھا…اورپھربیعت کی تھی…
یہی وہ تاریخی لمحہ تھاکہ جب مدینہ کایہ نوجوان معاذبن جبل اب ہمیشہ کیلئے بدل گیا تھا … اب یہ رسول اللہ ﷺ کے انتہائی جلیل القدرصحابی حضرت معاذبن جبل رضی اللہ عنہ تھے، جواُن عظیم ترین انسانوں میں سے تھے جن کی مخلصانہ دعوت اورپرزوراصرارکے نتیجے میں ہی ’’ہجرتِ مدینہ‘‘کاتاریخی واقعہ پیش آیاتھا،اورپھرمسلمانوں کے حالات ہمیشہ کیلئے بدل گئے تھے،ایک نئی زندگی کاآغازہواتھا…ایسی زندگی …جوہرلحاظ سے مکی زندگی سے یکسر مختلف تھی۔
بیعتِ عقبہ ثانیہ کے بعدحضرت معاذبن جبل رضی اللہ عنہ جب اپنے ساتھیوں کے ہمراہ مکہ سے واپس مدینہ لوٹے ،تب انہوں نے اپنے ہم عمرنوجوان ساتھیوں اوردوستوں کی مددسے مدینہ میں یہ عجیب وغریب مشغلہ اپنایاکہ یہ لوگ رات کے اندھیرے میں خفیہ طورپرلوگوں کے گھروں سے ان کے بتوں کواٹھاکرکہیں غائب کردیاکرتے تھے…لوگوں کے گھروں سے یوں اچانک ان کے خداؤں (بتوں )کاغائب ہوجانا…یہ چیزان لوگوں کیلئے بڑی پریشانی اورغصے کاباعث تھی…لیکن یہ صورتِ حال جہاں ایک طرف ان لوگوں کیلئے بہت زیادہ غصے اورجھنجھلاہٹ کاسبب بنی ہوئی تھی …وہیں اس کاایک بہت بڑافائدہ یہ ظاہرہواکہ رفتہ رفتہ اب بہت سے لوگ اپنے ان خداؤں (بتوں ) کی حقیقت کواوران کی بے بسی وبے چارگی کوسمجھنے لگے…وہ لوگ جوسالہاسال سے نسل درنسل کچھ سوچے سمجھے بغیران بتوں کی عبادت کرتے چلے آرہے تھے…اب ان پریہ حقیقت منکشف ہونے لگی کہ’’ یہ کیسے ہمارے خداہیں …کہ جوخوداپنی ہی حفاظت نہیں کرسکتے …توپھرہمیں یہ کیادے سکتے ہیں …؟‘‘لہٰذایہی چیزاب غصے اوراشتعال کی بجائے ان کے قبولِ اسلام کاسبب بننے لگی… اوریوں وہ لوگ بڑی تعدادمیں دینِ اسلام قبول کرتے چلے گئے۔
اسی طرح کاایک واقعہ جوکہ اُن دنوں بہت مشہورہواتھا،وہ یہ کہ مدینہ میں ’’بنوسَلَمَہ‘‘کے نام سے ایک مشہورومعروف خاندان تھا(مسجدِقبلتین جس جگہ واقع ہے وہیں یہ خاندان آباد تھا) عمروبن الجموح نامی شخص اس معززخاندان کاسربراہ تھا،جوکہ کافی صاحبِ حیثیت انسان تھا،اس نے عبادت کی غرض سے اپناایک خاص بت بنارکھاتھاجوکہ کافی قیمتی اورنفیس قسم کی لکڑی کابناہواتھا(۱)جس کی وہ بہت زیادہ دیکھ بھال کیاکرتاتھا،ریشمی غلاف اسے پہنارکھا تھا، اورصبح وشام اسے خوب عمدہ خوشبؤوں کی دھونی دیاکرتاتھا۔(۲)
ایک روزحضرت معاذبن جبل رضی اللہ عنہ اوران کے ساتھی نوجوانوں نے رات کے وقت موقع پاکراس بت کواس کی جگہ سے اٹھالیا(۳)اورپھراسے لے جاکرایسی جگہ پھینک دیاجہاں اس خاندان کے لوگ کوڑااورگندگی وغیرہ پھینکاکرتے تھے۔
اس سردارنے جب دیکھاکہ میرابت گھرمیں اپنی جگہ سے غائب ہے …تووہ انتہائی پریشان ہوگیا،اوراس کی تلاش میں نکل کھڑاہوا،آخرتلاش کرتے کرتے اسے اپنابت کوڑے کے ڈھیرپراوندھے منہ پڑاہواملا…تب اسے بہت زیادہ افسوس ہوا،اوراس بت کے ساتھ ایساسلوک کرنے والے پراسے بہت زیادہ غصہ بھی آیا،لہٰذاوہ بت کی طرف دیکھتے ہوئے یوں کہنے لگا’’جس کسی نے میرے اس خداکے ساتھ یہ سلوک کیاہے …وہ بربادہوجائے‘‘ اورپھراسے وہاں سے اٹھاکروہ واپس اپنے گھرلایا،نہلادھلاکرصاف ستھرے نئے ریشمی کپڑے پہنائے ،خوب عمدہ خوشبوبھی لگائی …اورنہایت احترام کے ساتھ اسے اس کی مخصوص جگہ پرسجاکررکھدیا،اورپھرخوب گڑگڑاکراس سے معذرت کرتے ہوئے اورمعافی مانگتے ہوئے یوں کہنے لگا’’کاش اگرمجھے معلوم ہوجائے کہ یہ حرکت کس نے کی ہے تومیں اس کابراحال کرڈالوں …‘‘
اس کے بعدجب دوسرادن گذرااوررات کااندھیراپھیل گیا…تب حضرت معاذبن جبل رضی اللہ عنہ کی زیرِقیادت نوعمرلڑکوں کاوہی گروہ پھراُسی طرح چھپتاچھپاتاعمروبن الجموح کے گھرجاپہنچا،جہاں سے انہوں نے اس بت کواٹھایا،اوراس بارکوڑے کیلئے مخصوص ایک دوسری جگہ پرلے جاکراسے پھینک دیا…
صبح جب بوڑھاسردارنیندسے بیدارہواتواسے پھروہی کیفیت نظرآئی ،یعنی اس کاخدا گھر سے غائب تھا…لہٰذاآج پھروہ اس کی تلاش میں نکل کھڑاہوا،پہلے توسیدھااسی جگہ پہنچا جہاں اسے کل یہ بت پڑاہواملاتھا،لیکن آج وہاں اسے مایوسی ہوئی ،لہٰذامسلسل تلاش کے بعدآخردوسرے ایک مقام پراسے وہ غلاظت کے ڈھیرپرپڑاہواملا،کل سے بھی زیادہ بری حالت میں …
تب وہ حسبِ سابق اسے لئے ہوئے واپس اپنے گھرپہنچا،جہاں پہلے تواس نے اسے نہلا دھلاکرصاف ستھراکیا،ریشمی لباس پہنایا،خوب عمدہ خوشبولگائی…لیکن اتناکرنے کے بعدآج اس سے معافی مانگنے کی بجائے اس نے یہ کیاکہ اپنی تلواراس کی گردن میں لٹکادی ، اوراسے مخاطب کرتے ہوئے یوں کہا’’مجھے نہیں معلوم کہ تمہارے ساتھ یہ حرکت کون کرتا ہے؟ لہٰذااگرتم کسی قابل ہو…توآئندہ اپنی حفاظت خودکرلینا…اس لئے میں نے اپنی یہ تلوارتمہارے حوالے کردی ہے‘‘
اس کے بعدجب رات ہوئی تویہی نوعمرلڑکے پھروہاں پہنچ گئے،بوڑھے سردارکودیکھاکہ خوب گہری نیندسورہاہے،تب وہ سیدھے اس بت کے قریب پہنچے ،اس کے گلے میں لٹکی ہوئی تلواراتاری ، اورپھراسے ہمراہ لئے ہوئے روانہ ہوگئے…حسبِ سابق کوڑے کے ایک ڈھیرکے قریب جب پہنچے تواتفاقاًانہیں وہاں ایک مراہواکتانظرآیا،تب انہوں نے رسی کے ذریعے اس بت کواُس مردہ کتے کے ساتھ باندھ دیا،یعنی اب یہ بت اورمردہ کتا دونوں ساتھی ہوگئے…ایک ہی رسی میں بندھے ہوئے…
جب صبح کاسورج طلوع ہوا،بوڑھاسرداراپنے بت کی تلاش میں نکلا…حسبِ سابق اس باربھی اسے اپنابت کوڑے کے ڈھیرپرہی ملا،البتہ اس بارمزیدافسوسناک منظراس نے یہ دیکھاکہ اس کابت اورکتادونوں ایک ساتھ رسی میں بندھے ہوئے اوندھے منہ پڑے ہیں اورکیفیت یہ ہے کہ بت کامنہ مردہ کتے کے جسم کوچھورہاہے…
بوڑھے سردارنے جب یہ حال دیکھاتواپنے بت کومخاطب کرتے ہوئے بڑی ہی حسرت کے ساتھ یوں کہنے لگا’’آہ…اگرتُوواقعی خداہوتاتوآج تُواوریہ مردارکتادونوں گندگی کے اس ڈھیرپریوں ایک ساتھ نہ پڑے ہوتے‘‘
چنانچہ اپنے بت کی اس قدربے چارگی وبے بسی دیکھنے کے بعداب اسے شدت کے ساتھ یہ احساس ہونے لگاکہ ’’جوخوداپنے لئے خیراورشرکامالک نہیں … وہ کسی اورکے کس کام آئیگا؟‘‘
اورپھربالآخرعمروبن الجموح نامی اس سردارنے دینِ اسلام کے بارے میں معلومات حاصل کیں …جن سے متأثرہونے کے بعداب دینِ برحق قبول کرلیا،یوں مدینہ میں جہاں مسجدِقبلتین موجودہے ،اس مقام پرآبادمشہورخاندان بنوسَلَمَہ کے یہ سرداراب رسول اللہ ﷺ کے صحابی ’’حضرت عمروبن الجموح رضی اللہ عنہ‘‘بن گئے۔اوران کے اس قبولِ اسلام کے پیچھے …توفیقِ الٰہی کے بعد…حضرت معاذبن جبل رضی اللہ عنہ اوران کے نوعمرساتھیوں کی گذشتہ سطور میں بیان کی گئی کوشش ہی کاعمل دخل تھا۔
٭…شب وروزکایہ سفرجاری رہا…آخررسول اللہ ﷺ جب ہجرت فرماکرمکہ سے مدینہ تشریف لائے ،تب نوجوان معاذبن جبل رضی اللہ عنہ کی کیفیت یہ رہنے لگی کہ ہمہ وقت سائے کی مانند آپؐ کی صحبت ومعیت میں رہتے،بالخصوص یہ کہ فطری طورپرہی چونکہ استعداد وصلاحیت اورذہانت وفطانت میں ان کی ممتازحیثیت تھی …لہٰذاآپؐ کی خدمت میں رہتے ہوئے اب یہ ہمہ وقت تحصیلِ علمِ دین اورکسبِ فیض میں مشغول ومنہمک رہنے لگے…
رسول اللہ ﷺ بھی نوجوان معاذبن جبلؓ کی علمی استعداد ٗ ذہنی صلاحیت ٗ نیزشوق وجستجو کو دیکھتے ہوئے ہمیشہ ان کے ساتھ نہایت ہی شفقت وعنایت کامعاملہ فرماتے تھے،بالخصوص یہ کہ آپؐ نے متعددمواقع پرانہیں انتہائی کارآمداورمفیدونافع قسم کی وصیتیں اورنصیحتیں بھی فرمائیں ۔
مثلاًایک باررسول اللہ ﷺ نے نہایت ہی شفقت کے ساتھ ان کاہاتھ تھامتے ہوئے ارشادفرمایا: یَا مُعَاذ! وَاللّہِ اِنِّي لَأُحِبُّکَ ۔ یعنی’’اے معاذ!اللہ کی قسم میں تم سے محبت کرتاہوں ‘‘ اس کے بعدفرمایا : أُوصِیکَ یَا مُعَاذ! لَاتَدَعَنَّ فِي دُبُرِ کُلِّ صَلَاۃٍ تَقُول: ((اَللّھُمَّ أعِنِّي عَلَیٰ ذِکرِکَ وَشُکرِکَ وَحُسنِ عِبَادَتِکَ))(۱)
یعنی’’اے معاذ!میں تمہیں یہ وصیت کرتاہوں کہ تم ہرنمازکے بعدیہ کلمات کہناکبھی ترک نہ کرنا(اَللّھُمَّ أعِنِّي عَلَیٰ ذِکرِکَ وَشُکرِکَ وَحُسنِ عِبَادَتِکَ)
(اے اللہ!تومیری مددفرمااپنے ذکر ٗ اپنے شکر ٗ اوراچھے طریقے سے اپنی عبادت کرنے پر) یعنی: ’’اے اللہ تومیری مددفرماتاکہ میں تیراذکرکرتارہوں ٗ تیراشکرگذاربنارہوں ٗ اورخوب اچھی طرح تیری عبادت کیاکروں ‘‘۔
رسول اللہ ﷺ کااس طرح معاذبن جبل رضی اللہ عنہ کاہاتھ تھامنا،اوریوں شفقت ومودّت کااظہار…حالانکہ آپ ﷺ کو تواللہ عزوجل کی جانب سے انتہائی اعلیٰ وارفع مقام ومرتبے سے نوازاگیا،آپؐ توخیرالبشر ٗسیدالأولین والآخرین ٗ اورافضل الأنبیاء والمرسلین تھے…اس کے باوجودآپؐ کااپنے ایک امتی کے ساتھ یہ اندازِگفتگو…یقینایہ آپؐ کے بلنداخلاق کا ٗ نیزآپؐ کے قلبِ مبارک میں اپنی امت کیلئے خیرخواہی اور شفقت ورحمت کے جذبات کا ایک مظہرتھا(۱)مزیدیہ کہ اس سے اس قدرومنزلت کااظہارہوتاہے جو آپؐ کے قلبِ مبارک میں حضرت معاذبن جبلؓکیلئے تھی۔
حضرت معاذبن جبل رضی اللہ عنہ کواللہ سبحانہ وتعالیٰ کی طرف سے جوبے مثال علمی استعداداورصلاحیت وقابلیت عطاء کی گئی تھی ٗنیز رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ان کا جووالہانہ تعلقِ خاطرتھااورآپؐ کی مجلس میں مسلسل حاضری اورکسبِ فیض کاجوسلسلہ تھا…اسی کایہ نتیجہ تھاکہ علم ومعرفت کے میدان میں انہیں نہایت بلندترین مقام ومرتبہ نصیب ہوا،حتیٰ کہ ایک بارخودرسول اللہ ﷺ نے یہ ارشادفرمایا: أعلَمُھُم بِالحَلَالِ وَالحَرَامِ مُعَاذُ بن جَبَل ۔(۲) یعنی ’’میری امت میں حلال وحرام کے بارے میں سب سے زیادہ علم رکھنے والے معاذبن جبل ہیں ‘‘
حضرت معاذبن جبل رضی اللہ عنہ کویہ شرف بھی حاصل تھاکہ یہ اُن چندگنے چنے افرادمیں سے تھے جن سے رسول اللہ ﷺ وحی لکھوایاکرتے تھے،یعنی ’’کاتبینِ وحی‘‘میں سے تھے، جس سے یقینایہ بات واضح وثابت ہوتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے نزدیک یہ انتہائی قابلِ اعتمادتھے،لہٰذایہی وجہ تھی کہ آپؐ کے صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی برگزیدہ جماعت میں اور اس تمام معاشرے میں حضرت معاذبن جبل ؓ کی خاص حیثیت تھی اورانہیں بڑی ہی قدر ومنزلت کی نگاہ سے دیکھاجاتاتھا۔
حضرت معاذبن جبل رضی اللہ عنہ کے اسی علمی مقام ومرتبے کومدِنظررکھتے ہوئے خودرسول اللہ ﷺ ٗاورپھرآپؐ کے بعدخلفائے راشدین بھی علمی معاملات میں ہمیشہ ان کی خدمات حاصل کرتے رہے۔
چنانچہ ماہِ رمضان ۸ھ؁میں فتحِ مکہ کے یادگارواقعے کے نتیجے میں جب قریش مکہ بہت بڑی تعدادمیں فوج درفوج دینِ اسلام قبول کرنے لگے،تب اس صورتِ حال کے پیشِ نظر آپؐ نے بڑی شدت کے ساتھ اس بات کومحسوس فرمایاکہ اتنی بڑی تعدادمیں ان نومسلموں کی دینی واخلاقی تعلیم وتربیت کیلئے کوئی انتظام بہت ضروری ہے۔
چنانچہ اس مقصدکیلئے آپؐ نے حضرت معاذبن جبل رضی اللہ عنہ کوفتحِ مکہ کے بعدوہاں اولین معلم ومربی کی حیثیت سے مقررفرمایا،چنانچہ رسول اللہ ﷺ کی اپنے لشکرسمیت مکہ سے مدینہ کی جانب واپسی کے بعدبھی کافی عرصے تک یہ وہاں مکہ میں تعلیم وتربیت کے میدان میں گراں قدرخدمات انجام دیتے رہے۔
اسی طرح جب ملکِ یمن کے بہت سے علاقے فتح ہوچکے جس کے نتیجے میں نہایت سرعت کے ساتھ وہاں دینِ اسلام کی نشرواشاعت ہونے لگی …تب وہاں بڑی تعدادمیں ان نومسلموں کی طرف سے بکثرت اس قسم کے پیغام موصول ہونے لگے جن میں ان کی طرف سے رسول اللہ ﷺ کی خدمتِ اقدس میں یہ گذارش کی گئی تھی کہ’’ ہماری دینی واخلاقی تعلیم وتربیت کی غرض سے چندمناسب افراد کوہماری طرف روانہ کیاجائے…‘‘
اس موقع پربھی آپؐ نے اپنے جلیل القدرصحابۂ کرام میں سے چندحضرات کواس کام کیلئے منتخب فرمایا،اوران سب کاسربراہ حضرت معاذبن جبل رضی اللہ عنہ کومقررفرمایا۔
اورجب ان حضرات کی روانگی کاوقت آیا،تب رسول اللہ ﷺ بذاتِ خودانہیں رخصت کرنے کی غرض سے کچھ دورتک ان کے ہمراہ چلتے رہے،اس موقع پرآپؐ کی کیفیت یہ تھی کہ آپؐ حضرت معاذبن جبل رضی اللہ عنہ کی سواری کے ہمراہ پیدل چل رہے تھے،جبکہ حضرت معاذؓ سوارتھے…یہانتک کہ اسی کیفیت میں چلتے چلتے کافی دورنکل آئے… اور پھرایک جگہ پہنچ کرآپؐ رک گئے،اورحضرت معاذؓ کی جانب متوجہ ہوتے ہوئے استفسار فرمایا : بِمَ تَقْضِي بَینَھُم یَا مُعَاذ؟ یعنی’’اے معاذ!تم اُن(یمن والوں )کے درمیان کس چیزکے مطابق فیصلے کیاکروگے؟‘‘عرض کیا’’اللہ کی کتاب کے مطابق‘‘آپؐ نے دریافت فرمایا’’اگرتمہیں وہ مسئلہ اللہ کی کتاب میں نہیں ملا، تب کیاکروگے؟‘‘عرض کیا’’تب اللہ کے رسولؐ کی سنت کے مطابق …‘‘آپؐ نے دریافت فرمایا’’اگراللہ کے رسولؐ کی سنت میں بھی نہیں ملا،تب کیاکروگے؟‘‘عرض کیا’’تب میں اجتہادکروں گا‘‘ اس پرآپؐ نے نہایت مسرت کااظہارکرتے ہوئے یہ ارشادفرمایا:
اَلحَمدُلِلّہِ الّذِي وَفَّقَ رَسُولَ رَسُولِ اللّہِ ۔ (۱) یعنی’’اللہ کاشکرہے کہ اس نے اپنے رسول کے قاصدکوتوفیق عطاء فرمائی‘‘(یعنی اسے درست بات سُجھائی…)
اورپھررسول اللہ ﷺ کی طرف سے اس مسرت واطمینان کے اظہار کے فوری بعدہی ان الوداعی لمحات میں کچھ ایسی گفتگوہوئی جس کی وجہ سے اب مسرت کی بجائے کچھ صدمے اور رنج وغم کاماحول بن گیا…ہوایہ کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت معاذبن جبل رضی اللہ عنہ کو رخصت کرتے ہوئے بالکل ہی آخری لمحات میں یوں ارشادفرمایا: یَا مُعَاذ! اِنَّکَ عَسَیٰ أن لَاتَلْقَانِي بَعدَ عَامِي ھٰذَا … یعنی’’اے معاذ!شایدآج کے بعدتمہاری مجھ سے کبھی ملاقات نہیں ہوسکے گی…‘‘
اورپھرپیچھے مدینہ کی جانب مڑکربغوردیکھتے ہوئے ارشادفرمایا: وَلَعَلَّکَ تَمُرُّ بِمَسجِدِي وَقَبْرِي …(۱) یعنی’’شایدتم میری مسجداورمیری قبرکے قریب سے گذروگے‘‘
(مقصدیہ کہ آج تک توہمیشہ کیفیت یہ رہی تھی کہ تم جب بھی میری اس مسجدمیں آیاکرتے تھے تووہاں مجھ سے ملاقات ہواکرتی تھی،لیکن اب اس سفرسے واپسی پرجب تم میری مسجدمیں پہنچوگے تووہاں مجھ سے ملاقات کی بجائے تم فقط میری قبرہی دیکھ سکوگے)
رسول اللہ ﷺ کی زبانِ مبارک سے یہ گفتگوسننے کے بعدحضرت معاذؓ پھوٹ پھوٹ کر رو دئیے …تب ان کے سبھی ساتھی بھی رونے لگے…(۲)
رسول اللہ ﷺ نے جب ان حضرات کویوں رنجیدہ وافسردہ دیکھاتواب ان کی دلجوئی کی خاطرآپؐ نے ارشادفرمایا: اِنّ أولَیٰ النّاسِ بِي المُتَّقُونَ ، مَن کَانُوا وَحَیثُ کَانُوا (۱) یعنی’’میرے ساتھ سب سے زیادہ تعلق والے توبس ’’متقین‘‘ہی ہیں ، وہ جوکوئی بھی ہوں اورجہاں کہیں بھی ہوں ‘‘(۲)
اورپھرحضرت معاذبن جبل رضی اللہ عنہ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ وہاں سے اس طویل ترین سفرپرروانہ ہوگئے…مدینہ سے یمن…محض اللہ کے دین کی خدمت اوراس کی نشر واشاعت کی خاطر…
حضرت معاذبن جبل رضی اللہ عنہ اوران کے ساتھیوں کی اس سفرپرروانگی کے بعدرسول اللہ ﷺ کی طرف سے انہیں دی گئی اطلاع درست ثابت ہوئی،چنانچہ حضرت معاذؓ کی یمن سے واپسی سے قبل ہی آپؐ اپنے اللہ سے جاملے،حضرت معاذؓ کی رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جوالوداعی ملاقات ہوئی تھی…واقعی وہ ہمیشہ کیلئے ’’الوداعی‘‘ثابت ہوئی،حضرت معاذؓکو اس کے بعدکبھی رسول اللہ ﷺ کادیدارنصیب نہیں ہوسکا،یمن سے واپس مدینہ آمدکے بعداب ان کی اداس اوربے رونق نگاہیں رسول اللہ ﷺ کوتلاش کرتی رہیں ،مسجدِنبوی میں ٗ مدینہ کے گلی کوچوں میں ٗ ہرجگہ ٗ نگری نگری اوربستی بستی ٗ اب معاذؓ کی آنکھیں اس عظیم شخصیت کے دیدارکیلئے تاحیات بس ترستی ہی رہیں کہ جس کادیداراب ممکن نہیں تھا،وہاں اب رسول اللہ ﷺ نہیں تھے،اب فقط آپؐ کی یادیں ٗ آپؐ کی باتیں ٗ اورآپؐ کی نشانیاں باقی تھیں ۔