حضرت عمربن الخطاب رضی اللہ عنہ 384

حضرت عمربن الخطاب رضی اللہ عنہ – قبولِ اسلام

حضرت عمربن الخطاب رضی اللہ عنہ – قبولِ اسلام
آفتابِ نبوت کومکہ شہرمیں اپنی کرنیں بکھیرتے ہوئے پانچواں سال چل رہاتھا…عمراُس وقت چھبیس برس کے کڑیل جوان تھے…رسول اللہ ﷺ کی طرف سے مکہ کی وادی میں بلندکی جانے والی توحیدکی صداعمرکیلئے بالکل نامانوس اوراجنبی چیزتھی۔ عمرکی طبیعت میں بہت زیادہ سختی اورتیزی تھی،جس کسی کے بارے میں معلوم ہوجاتاکہ وہ مسلمان ہوگیا ہے، عمراس کے درپے آزارہوجاتے…یہی حال ابوجہل کابھی تھا…مسلمانوں کوان دونوں کی طرف سے شدیدپریشانی کاسامناتھا۔یہی وجہ تھی کہ رسول اللہ ﷺ اُن دنوں اکثردعاء فرمایاکرتے:(اَللّھُمَّ أَعِزَّ الاِسلَامَ بِعُمَر بن الخَطَّاب أو بِعَمرو بن ھِشَام) یعنی’’اے اللہ!تودینِ اسلام کوقوت عطاء فرما عمربن خطاب ٗیاعمروبن ہشام کے ذریعے)۔ (۱) (۲) اُس ابتدائی دورمیں مکہ میں مٹھی بھرمسلمانوں کومشرکین کے ہاتھوں جس طرح اذیت کاسامناتھا…اس چیزکودیکھتے ہوئے رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کوملکِ حبشہ کی جانب ہجرت کرجانے کامشورہ دیاتھا،جس پر(نبوت کے پانچویں سال)یکے بعددیگرے مسلمانوں کی دومختلف جماعتیں مکہ سے حبشہ کی جانب ہجرت کرگئی تھیں ۔
ایسے ہی ایک موقع پرعمرنے اپنے قریبی عزیزوں میں سے ایک مسلمان شخص کوجب بے بسی ولاچاری کی کیفیت میں مکہ سے حبشہ کی جانب ہجرت کرتے دیکھاتوبڑی ہی حسرت کے ساتھ اسے ہجرت کایہ ارادہ ملتوی کرکے مکہ میں ہی رک جانے کامشورہ دیا…جس پراس شخص نے بھی بڑی حسرت کے ساتھ یہ جواب دیاکہ ’’اے عمر!کاش تم نے ہمیں ناحق اس قدرنہ ستایاہوتا…توہم یوں بے وطن ہوجانے پرمجبورنہ ہوتے‘‘۔ یہ بات سن کرعمرپہلی باراپنی تمامترترش مزاجی کے باوجوددکھی ہوگئے…اپنی قوم کویوں ٹوٹتے اوربکھرتے ہوئے …اورپھربے وطن ہوتے ہوئے دیکھنا…یہ چیزعمرکیلئے ا نتہائی صدمے کاباعث بنی،جس کی وجہ سے وہ شب وروزاسی پریشانی میں مبتلارہنے لگے کہ آخریہ معاملہ کس طرح حل ہوگا؟اسی کیفیت میں وقت گذرتارہا…اورپھربالآخراس کے اگلے سال،یعنی جب نبوت کاچھٹاسال چل رہاتھا،ایک روزعمرکے صبرکاپیمانہ لبریزہوگیا…سوچاکہ جس شخص کی وجہ سے میری قوم یوں ٹوٹتی اوربکھرتی جارہی ہے…اسی شخص کو(نعوذباللہ) قتل کردیاجائے…اوریوں اس مشکل کاہمیشہ کیلئے خاتمہ کردیاجائے…یہی بات سوچ کروہ ایک روزسخت گرمی کے موسم میں اورتپتی ہوئی دوپہرمیں ننگی تلوارہاتھ میں لئے ہوئے چل دئیے۔ راستے میں نُعیم بن عبداللہ(۱) نامی ایک شخص کی ان پر نظرپڑی تووہ ٹھٹھک کررہ گیا…اس قدرآگ برساتی ہوئی گرمی میں ،اورتپتی ہوئی اس دوپہرمیں عمراپنے ہاتھ میں ننگی تلوارلئے ہوئے چلے جارہے ہیں …وہ شخص خوفزدہ ہوگیا…اورخوب سمجھ گیاکہ معاملہ خطرناک ہے۔ چنانچہ اس نے اسی خوف ودہشت کی کیفیت میں دریافت کیا:’’عمر!خیریت توہے؟اس وقت آپ کہاں چلے جارہے ہیں ؟ عمرنے جواب دیا(نعوذباللہ)آج میں اس شخص (یعنی رسول اللہ ﷺ کاکام تمام کرنے جارہاہوں ‘‘ ۔ اس پروہ شخص بولا’’عمر!پہلے اپنے گھرکی خبرتولے لو…تمہاری اپنی بہن اوربہنوئی مسلمان ہوچکے ہیں ‘‘ اس شخص کی زبانی یہ بات سن کرعمرآگ بگولہ ہوگئے…اوروہاں سے سیدھے اپنی بہن (فاطمہ بنت خطاب)کے گھرپہنچے۔ اس وقت وہ اوران کے شوہر(سعیدبن زید رضی اللہ عنہ)دونوں تلاوتِ قرآن میں مشغول تھے۔ عمرنے وہاں پہنچتے ہی نہایت غصے کی کیفیت میں بہن کوزدوکوب کرناشروع کردیا…یہی سلسلہ جاری تھاکہ اس دوران اچانک بہن نے نہایت پرعزم لہجے میں اورفیصلہ کن اندازمیں بھائی کومخاطب کرتے ہوئے کہا’’عمر!تم جس قدرچاہومجھے مارلو…لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوگا(۱) بہن کی زبانی یہ بات سن کر…اورپہلی بار…بالکل غیرمتوقع طورپراس کی یہ جرأت دیکھ کرعمرچونک اٹھے… اورسوچنے لگے کہ اس دین میں اتنی قوت…اس کلام میں اس قدرتأثیر…کہ اس قدر زدوکوب کے باوجودبہن نے یوں دوٹوک فیصلہ سنادیا…تب عمرکے اندازبدلنے لگے… اورپھرقدرے توقف کے بعدبہن کومخاطب کرتے ہوئے یوں کہنے لگے’’اچھا…جوکچھ تم پڑھ رہے تھے…ذرہ مجھے بھی وہ چیزدکھاؤ…‘‘اس پربہن نے جواب دیا’’عمر!تم مشرک ہو،ناپاک ہو،لہٰذاتم اللہ کے اس پاک کلام کونہیں چھوسکتے‘‘۔ عمرنے مسلسل اصرارکیا… آخرعمرکایہ اصراراب ’’التجاء‘‘میں تبدیل ہونے لگا…بہن نے جب عمرکے رویے میں یہ اتنی بڑی تبدیلی دیکھی توکہاکہ ’’بھائی پہلے تم غسل کرکے پاک صاف ہوجاؤ…‘‘تب عمرغسل کرکے آئے اورپھروہی مطالبہ دہرایا،تب بہن نے انہیں وہ اوراق دکھائے جن میں وہ قرآنی آیات تحریرتھیں …عمرپڑھتے گئے… {طٰہٰ، مَٓا أنزَلنَا عَلَیکَ القُرآنَ لِتَشقَیٰ، اِلّا تَذکِرَۃً لِّمَن یَخشَیٰ، تَنزِیلاً مِّمَن خَلَقَ الأرضَ وَالسَّمٰوَاتِ العُلَیٰ، الرَّحمٰنُ عَلَیٰ العَرشِ استَوَیٰ ، لَہٗ مَا فِي السَّمٰواتِ وَمَا فِي الأرضِ وَ مَا بَینَھُمَا وَمَا تَحتَ الثَّرَیٰ، وَاِن تَجھَر بِالقَولِ فَاِنَّہٗ یَعلَمُ السِّرَّ وَأَخفَیٰ، اَللّہُ لَآ اِلٰہَ اِلّا ھُوَ لَہُ الأَسمَٓائُ الحُسنَیٰ}(۱) ترجمہ:(’’طٰہٰ، ہم نے یہ قرآن اس لئے نازل نہیں کیاکہ تم مشقت میں پڑجاؤ،البتہ یہ اس شخص کی نصیحت کیلئے نازل کیاہے جو[اللہ سے]ڈرتاہو،اس کانازل کرنااس اللہ کی طرف سے ہے جس نے زمین کواور بلند آسمانوں کوپیداکیاہے،جورحمن ہے عرش پرقائم ہے،جس کی ملکیت آسمانوں اورزمین ٗ اوران دونوں کے درمیان ٗاورزمین کی تہوں کے نیچے کی ہرایک چیزپرہے۔ اگرتوبلندآوازسے کوئی بات کہے ٗ تو ٗوہ توہرایک پوشیدہ سے پوشیدہ ترچیزکوبھی بخوبی جانتاہے،وہی اللہ ہے جس کے سواکوئی معبودنہیں ٗاسی کے بہترین نام ہیں )۔
عمریہ آیات پڑھتے گئے ،اورایک ایک لفظ ان کے دل کی گہرائیوں میں اترتاچلاگیا،دیکھتے ہی دیکھتے دل کی دنیابدل گئی…اورپھربے اختیاریوں کہنے لگے:’’کیایہی وہ کلام ہے جس کی وجہ سے قریش نے محمداوران کے مٹھی بھرساتھیوں کواس قدرستارکھاہے…؟‘‘۔
اورپھراگلے ہی لمحے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضری کی غرض سے بے تابانہ وہاں سے روانہ ہوگئے۔
اُ ن دنوں رسول اللہ ﷺ بیت اللہ سے متصل ’’صفا‘‘پہاڑی کے قریب ’’دارالارقم‘‘نامی گھر میں رہائش پذیرتھے ،جہاں مٹھی بھرمسلمان آپؐ کی خدمت میں حاضرہوکراللہ کے دین کاعلم حاصل کیاکرتے تھے۔چنانچہ عمراسی ’’دارالارقم‘‘کی جانب روانہ ہوگئے۔
اُس وقت وہاں دارالارقم میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ چندمسلمان موجودتھے،انہوں نے جب عمرکواس طرف آتے دیکھا تووہ پریشان ہوگئے…اتفاق سے اُس وقت ان کے ہمراہ حضرت حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ بھی موجودتھے،جن کااس معاشرے میں بڑامقام ومرتبہ اورخاص شان وشوکت تھی،جن کی بہادری کے بڑے چرچے تھے ، خاندانِ بنوہاشم کے چشم وچراغ ٗ نیزرسول اللہ ﷺ کے چچا تھے…اورمحض تین دن قبل ہی مسلمان ہوئے تھے…انہوں نے جب یہ منظردیکھا…اوروہاں موجودکمزوروبے بس مسلمانوں کی پریشانی دیکھی…توانہیں تسلی دیتے ہوئے کہنے لگے: ’’فکرکی کوئی بات نہیں ،عمراگرکسی اچھے ارادے سے آرہے ہیں توٹھیک ہے، اوراگرکسی برے ارادے سے آرہے ہیں تو آج میں ان سے خوب اچھی طرح نمٹ لوں گا‘‘ اورپھرعمروہاں پہنچے،آمدکامقصدبیان کیا…حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ انہیں ہمراہ لئے ہوئے اندررسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پہنچے، عمرنے وہاں آپؐ کی خدمت میں حاضرہوکر أَشھَدُ أن لا اِلٰہ الّا اللّہ وَ أَشھَدُ أَنّکَ عَبدُ اللّہِ وَرَسُولُہ (میں گواہی دیتاہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودبرحق نہیں ٗ اورمیں گواہی دیتاہوں کہ آپؐ اللہ کے بندے اوراس کے رسول ہیں ‘‘کہتے ہوئے دینِ اسلام قبول کیا،اورآپ ﷺ کے دستِ مبارک پربیعت کی۔
اس موقع پروہاں موجودمسلمانوں کی مسرت اورجوش وخروش کایہ عالم تھاکہ ان سب نے یک زبان ہوکراس قدرپرجوش طریقے سے ’’نعرۂ تکبیر‘‘بلندکیاکہ مکے کی وادی گونج اٹھی…مشرکینِ مکہ کے نامورسرداروں کے کانوں تک جب اس نعرے کی گونج پہنچی… تووہ کھوج میں لگ گئے کہ آج مسلمانوں کے اس قدرجوش وخروش کی وجہ کیاہے؟ اورآخرجب انہیں یہ بات معلوم ہوئی کہ آج عمرمسلمان ہوگئے ہیں …تووہ نہایت رنجیدہ وافسردہ ہوگئے…اوربے اختیاریوں کہنے لگے کہ’’آج مسلمانوں نے ہم سے بدلہ لے لیا‘‘۔
حضرت عمررضی اللہ عنہ کے قبولِ اسلام سے قبل تک مسلمان کمزوروبے بس تھے،چھپ چھپ کراللہ کی عبادت کیاکرتے تھے…جس روزحضرت عمرؓ نے دینِ اسلام قبول کیا، تورسول اللہ ﷺ کی خدمت میں عرض کیاکہ : ألَسْنَا عَلَیٰ الحَقِّ یَا رَسُولَ اللّہ؟ یعنی’’اے اللہ کے رسول! کیاہم حق پرنہیں ہیں ؟‘‘ آپؐ نے جواب دیا : بَلَیٰ یا عُمَر یعنی’’ہاں اے عمر‘‘۔ تب عمرکہنے لگے : فَفِیمَ الاِخفَائُ؟ یعنی’’توپھرہمیں چھپانے کی کیاضرورت ہے؟‘‘اورتب پہلی بارمسلمان وہاں سے بیت للہ کی جانب اس کیفیت میں روانہ ہوئے کہ انہوں نے دوصفیں بنارکھی تھیں ، ایک صف کی قیادت حضرت عمررضی اللہ عنہ ٗ جبکہ دوسری صف کی قیادت حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کررہے تھے…حتیٰ کہ اسی کیفیت میں یہ تمام مسلمان بیت اللہ کے قریب پہنچے جہاں حسبِ معمول بڑی تعدادمیں رؤسائے قریش موجودتھے،ان سب کی نگاہوں کے سامنے مسلمانوں نے پہلی بارعلیٰ الاعلان بیت اللہ کا طواف کیااورنمازبھی اداکی…یہی وہ منظرتھاجسے دیکھ کررسول اللہ ﷺ نے حضرت عمرکو ’’الفاروق‘‘یعنی’’ حق وباطل کے درمیان فرق اورتمیزکردینے والا‘‘کے یادگارلقب سے نوازاتھا۔
حضرت عمررضی اللہ عنہ کے مزاج میں طبعی اورفطری طورپرہی تندی اورشدت تھی…قبولِ اسلام کے بعداب ان کی یہ شدت اسلام اورمسلمانوں کی حمایت ونصرت میں صرف ہونے لگی،جس سے کمزوروبے بس مسلمانوں کوبڑی تقویت نصیب ہوئی …جیساکہ مشہورصحابی حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ’’مَا زِلنَا أَعِزَّۃً مَنذُ أَسلَمَ عُمَر‘‘ یعنی’’جب سے عمرمسلمان ہوئے ہیں …تب سے ہم طاقت ورہوئے ہیں ‘‘(۱)
اسی طرح حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : (اِن کَانَ اِسلَامُ عُمَر لَفَتْحاً ، وَھِجرَتُہٗ لَنَصْراً ، وَاِمَارَتُہٗ رَحْمَۃً ، وَاللّہِ مَا استَطَعْنَا أن نُصَلِّيَ بَالبَیْتِ حَتّیٰ أسْلَمَ عُمَر‘‘ (۲) یعنی’’ عمرکاقبولِ اسلام ہمارے لئے بڑی فتح تھی،ان کی ہجرت ہمارے لئے نُصرت تھی، اوران کی خلافت ہمارے لئے رحمت تھی،اللہ کی قسم ! عمرکے قبولِ اسلام سے قبل ہم کبھی بیت اللہ کے قریب نمازتک نہیں پڑھ سکتے تھے ‘‘ ۔
حضرت عمررضی اللہ عنہ کے قبولِ اسلام سے قبل کیفیت یہ تھی کہ مکہ میں جوکوئی مسلمان ہوجاتا وہ اپنے قبولِ اسلام کوحتیٰ الامکان چھپانے کی کوشش کیاکرتاتھا…جبکہ اس بارے میں حضرت عمررضی اللہ عنہ کاحال یہ تھاکہ تمام سردارانِ قریش کے پاس جاجاکرانہیں اپنے قبولِ اسلام کے بارے میں خودآگاہ کیاکرتے تھے۔
حضرت صہیب بن سنان الرومی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :(لَمَّا أسْلَمَ عُمَرُ ظَھَرَ الاِسلَامُ، وَدُعِيَ اِلَیہِ عَلَانِیَۃً، وَجَلَسنَا حَولَ البَیتِ حِلَقاً، وَطُفنَا بِالبَیْت وَانتَصَفْنَا مِمَّن غَلَظَ عَلَینا ، وَ رَدَدنَا عَلَیہِ بَعْضَ مَا یَأتِي بِہٖ)۔
یعنی’’جب عمر(رضی اللہ عنہ) مسلمان ہوئے تودینِ اسلام کوغلبہ نصیب ہوا، اوردینِ اسلام کی طرف علیٰ الاعلان دعوت دی جانے لگی،بیت اللہ کے قریب ہم اپنے حلقے بناکر (بے خوف وخطر)بیٹھنے لگے،بیت اللہ کاطواف کرنے لگے،اورماضی میں جولوگ (ہمارے قبولِ اسلام کی وجہ سے )ہمارے ساتھ ظلم وزیادتی اورناانصافی کرتے چلے آرہے تھے…اب ہم کسی حدتک ان سے اپناحق بھی وصول کرنے لگے تھے‘‘۔ (۱)
یوں حضرت عمررضی اللہ عنہ کاقبولِ اسلام مسلمانوں کیلئے فتح ونصرت …جبکہ کفارومشرکین کیلئے شکست وہزیمت کاپیش خیمہ ثابت ہوا۔