حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ 257

حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ – بے مثال علمی استعداد

حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ – بے مثال علمی استعداد
حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اللہ سبحانہ ٗ وتعالیٰ کی طرف سے عطاء فرمودہ بے مثال علمی استعداداورقابلیت وصلاحیت کی وجہ سے مرجعِ عام وخاص تھے،فقہائے صحابہ میں انہیں ممتازومنفردمقام ومرتبہ حاصل تھا،بڑے بڑے جلیل القدرصحابۂ کرام (رضوان اللہ علیہم اجمعین)مختلف دینی مسائل کے حل کیلئے ا ن کی طرف رجوع کیاکرتے تھے،بالخصوص خلیفۂ دوم حضرت عمربن الخطاب رضی اللہ عنہ اپنے زمانۂ خلافت کے دوران مختلف دینی معاملات ٗفقہی مسائل ٗاورشرعی احکام کے بارے میں بکثرت ان سے مشاورت کیاکرتے تھے،اسی بارے میں ان کایہ مقولہ مشہورہے: لَولَا عَلِيٌّ لَھَلَکَ عُمَرُ یعنی’’اگرعلی نہ ہوتے توعمر(یعنی میں خود) توبس ماراہی گیاتھا…‘‘
مزیدیہ کہ حضرت علیؓ کی یہ بے مثال علمی استعدادکسی خاص علم تک محدودنہیں تھی…بلکہ وہ خالص دینی وشرعی علوم ہوں …یاعلم کاکوئی بھی شعبہ اورکوئی بھی صنف ہو…ہرشعبے میں یہی کیفیت نظرآتی تھی،بالخصوص علم القضاء ، علم الفرائض (۱)نیزعربی ادب ٗ لغت ٗ اورصرف ونحو کے میدان میں آپؓ کوحجت تسلیم کیاجاتاتھا،عربی لغت اورصرف ونحوکے بڑے بڑے پہنچے ہوئے ماہرین آپؓ ہی کے تلامذہ میں سے تھے۔(۲)
ان تمامتراوصاف وکمالات کی وجہ (توفیقِ الٰہی کے بعد) یقینایہی تھی کہ حضرت علیؓ نے اپنے زمانۂ بچپن سے رسول اللہ ﷺ کی وفات تک تقریباًتیس سال کاطویل عرصہ آپؐ کی صحبت ومعیت میں گذارا،اسی طویل اورمسلسل صحبت ومعیت کاہی یہ نتیجہ تھاکہ حضرت علیؓ انتہائی بلندپایہ عالمِ دین تسلیم کئے جاتے تھے،فقہ واجتہادمیں انہیں کامل دسترس ٗ غیرمعمولی مہارت ٗاورمکمل بصیرت حاصل تھی۔
اس علمی مقام ومرتبے کے ساتھ ساتھ مزیدیہ کہ رسول اللہ ﷺ کی صحبت وتربیت کی بدولت آپؓ اخلاق وکرداراوراعلیٰ انسانی اقدارکے لحاظ سے بھی نہایت عمدہ واعلیٰ شخصیت کے مالک تھے۔رسول اللہ ﷺ کے ساتھ آپؓ کی رفاقت اورصحبت ومعیت کایہ مبارک سلسلہ جس کی ابتداء زمانۂ طفولیت سے ہوئی تھی …آپ ﷺ کی وفات ،اورپھرتجہیزوتکفین،حتیٰ کہ آپ ﷺ کے جسدِاطہرکوقبرمبارک میں اتارنے کے مراحل تک یہ سلسلہ جاری وساری رہاتھا۔