حضرت سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ 318

حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ – سخاوت وفیاضی

حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ – سخاوت وفیاضی
حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے زمانۂ قبل ازاسلام سے ہی تجارت کواپنامشغلہ اورذریعۂ معاش بنایاتھااورانتہائی امانت ودیانت کے ساتھ تجارت کیاکرتے تھے، لہٰذا کاروبارمیں خوب خیروبرکت اوربہت زیادہ خوشحالی وفراوانی تھی،مکہ کے نامورتاجروں اور مالداروں میں ان کاشمارہوتاتھا،قبولِ اسلام کے بعدہمیشہ دینِ اسلام کی سربلندی اور مسلمانوں کی فلاح وبہبودکی خاطرنہایت سخاوت وفیاضی اوردریادلی کے ساتھ اپنامال خرچ کرتے رہے،مسلمان جب ہجرت کرکے مکہ سے مدینہ پہنچے تووہاں پینے کے پانی کی سخت قلت اوردشواری کاسامناکرناپڑا،میٹھے پانی کاایک کنواں تھاجوکسی یہودی کی ملکیت تھا، اوروہ پیسے لئے بغیرکسی کوپانی نہیں دیتاتھا،اس وقت عام طورپرمسلمانوں کی اتنی حیثیت نہیں تھی کہ وہ قیمت اداکرکے پانی حاصل کرسکیں …اس پرحضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے اپنی جیبِ خاص سے بیس ہزاردرہم نقداداکرکے وہ کنواں اس یہودی سے خریدلیا اور ہمیشہ کیلئے مسلمانوں کیلئے وقف کردیا۔
ہجرتِ مدینہ کے فوری بعدمسجدِنبوی کی تعمیرکاکام انجام دیاگیاتھا،رفتہ رفتہ مسلمانوں کیتعدادمیں اضافے کی وجہ سے یہ مسجدنمازیوں کیلئے ناکافی ہونے لگی،جس پررسول اللہ ﷺ نے ایک روزخطبۂ جمعہ کے موقع پراعلان فرمایا: مَن بَنَیٰ لِلّہِ مَسجِداً بَنَیٰ اللّہُ لَہٗ بَیتاً فِي الجَنَّۃ (۱) یعنی’’جوکوئی اللہ کیلئے مسجد تعمیرکرے گا، اللہ اس کیلئے جنت میں گھرتعمیرفرمائے گا‘‘۔
یہ ارشادِنبوی سنتے ہی حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے اپنی جیبِ خاص سے ادائیگی کرکے مسجدسے متصل بہت سے مکانات ان کے مالکوں سے خریدکراس جگہ کومسجدمیں شامل کردیا۔
غزوۂ تبوک کے موقع پرملکِ عرب خشک سالی کی لپیٹ میں تھا،قحط اورافلاس کے سائے ہرطرف پھیلے ہوئے تھے،اسلامی لشکرکواشیائے خوردونوش کی اتنے بڑے پیمانے پرقلت کا سامنااس سے قبل کبھی نہیں کرناپڑاتھا،اس نازک صورتِ حال میں حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے غلہ واناج سے لدے ہوئے ساڑھے نوسواونٹ ٗ سترگھوڑے ٗ نیزایک ہزار دینارنقدپیش کئے…رسول اللہ ﷺ نے جب یہ منظردیکھاکہ اتنی بڑی تعدادمیں خوراک سے لدے ہوئے اونٹ چلے آرہے ہیں ، توآپؐ نے اپنے صحابۂ کرام سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا:’’لو…تمہارے پاس بھلائی آپہنچی‘‘۔ اورپھرآپؐ نے یوں دعاء فرمائی : ’’اے اللہ! میں عثمان سے خوش ہوگیا…توبھی خوش ہوجا‘‘۔
قبولِ اسلام کے بعدہرجمعہ کے دن اللہ کی رضامندی وخوشنودی کی خاطرایک غلام آزاد کیاکرتے تھے،چونتیس سال کی عمرمیں جب مشرف باسلام ہوئے تھے،اس کے بعدسے بیاسی سال کی عمرمیں انتقال تک ،یعنی اڑتالیس سال مسلسل یہی معمول جاری رہا… مزیدیہ کہ بہت سی بیواؤں اوریتیموں کی کفالت ونگہبانی مستقل طورپراپنے ذمے لے رکھی تھی،غرضیکہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ دینِ اسلام کی نشرواشاعت نیزضرورتمند مسلمانوں کی فلاح وبہبودکیلئے ہمیشہ دل کھول کراوربڑے پیمانے پرمالی تعاون کرتے رہے۔