عبد الرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ 241

حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ

حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ
رسول اللہ ﷺ کے جلیل القدرصحابی حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کاتعلق شہرمکہ میں قبیلۂ قریش کے مشہورخاندان ’’بنوزہرہ‘‘سے تھا(۱)مکہ شہرمیں ان کی ولادت رسول اللہ ﷺ کی ولادت باسعادت کے تقریباً دس سال بعدہوئی۔
٭حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ ’’السابقین الأولین‘‘یعنی بھلائی میں سبھی لوگوں پرسبقت لے جانے والوں میں سے تھے،یعنی وہ عظیم ترین افرادجنہوں نے بالکل ابتدائی دورمیں دینِ اسلام قبول کیا کہ جب مسلمانوں کیلئے بہت ہی مظلومیت اوربے بسی وبے چارگی کازمانہ چل رہاتھا…یہی وجہ ہے کہ ان حضرات کابڑامقام ومرتبہ ہے ،ان کیلئے عظیم خوشخبریاں ہیں ٗ اورانہیں قرآن کریم میں ’’السابقین الأولین‘‘کے نام سے یادکیاگیاہے۔
٭مزیدیہ کہ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ ’ ’’عشرہ مبشرہ‘‘یعنی ان دس خوش نصیب ترین افرادمیں سے تھے جنہیں اس دنیاکی زندگی میں ہی رسول اللہ ﷺ نے جنت کی خوشخبری سے شادکام فرمایاتھا۔
٭مکہ شہرمیں دینِ اسلام کاسورج طلوع ہونے سے قبل ہی حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کی حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ خاص دوستی اورقربت تھی ،دونوں میں بہت گہرے روابط تھے،چنانچہ ظہورِاسلام کے بعدحضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کی دعوت کے نتیجے میں ہی حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ مشرف باسلام ہوئے۔
٭قبولِ اسلام کے بعدتکالیف ٗ مصائب وآلام ٗاورآزمائشوں کادورشروع ہوا…دینِ اسلام کے اسی ابتدائی دورمیں جب مشرکینِ مکہ کی طرف سے ایذاء رسانیوں کاسلسلہ عروج پرتھا…تب نبوت کے پانچویں سال رسول اللہ ﷺ کے مشورے پر بہت سے مسلمان مکہ سے ملکِ حبشہ کی جانب ہجرت کرگئے تھے،انہی مہاجرینِ حبشہ میں حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے۔
٭اورپھرہجرتِ مدینہ کے موقع پردیگرتمام مسلمانوں کی طرح حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ بھی مدینہ منورہ آپہنچے،جہاں رسول اللہ ﷺ نے مہاجرین وانصارکے مابین مؤاخات کے موقع پرانہیں اورسعدبن الربیع الانصاری ؓ کو’’رشتۂ اُخوت ‘‘میں منسلک فرمادیا۔
٭اس رشتۂ اخوت میں بندھ جانے کے بعدحضرت سعدبن الربیع رضی اللہ عنہ نے حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کومخاطب کرتے ہوئے یوں کہا:’’دیکھئے عبدالرحمن ، میرے پاس خوب مال ودولت ہے، وہ ہم آپس میں تقسیم کرلیتے ہیں ، نیزمیرے پاس کھجوروں کے دوباغ بھی ہیں ،ان میں سے جوآپ کوپسندآئے وہ آپ لے لیجئے‘‘۔
حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے اپنے انصاری بھائی کی اس مخلصانہ پیشکش پران کاخوب شکریہ اداکیا…اورپھرانہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا:’’ بَارَکَ اللّہُ لَکَ فِي مَالِک… ولٰکِن دُلَّنِي عَلَیٰ السُوق…یعنی’’اللہ آپ کے مال میں مزیدخیروبرکت عطاء فرمائے…آپ بس مجھے ذرہ بازارکاراستہ دکھادیجئے…‘‘
یوں حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ …نیزدیگرتمام مہاجرین نے اپنے انصاری بھائیوں کی اس مہمان نوازی ٗ حسنِ اخلاق ٗ شرافت ٗ فراخدلی اوربے مثال ایثارسے ناجائزفائدہ اٹھانے کی کوشش نہیں کی…بلکہ ان پربوجھ بننے کی بجائے محنت ومشقت کا راستہ اختیارکیا…اورجلدازجلدخوداپنے پیروں پرکھڑے ہونے کی جدوجہدمیں مشغول ہوگئے۔
چنانچہ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے بھی مدینہ میں ’’تجارت‘‘کواپناذریعۂ معاش بنایا…شب وروزکی محنت وکوشش کے نتیجے میں ان کے مالی حالات کافی بہترہوتے چلے گئے۔
٭خوشحالی وفراوانی جب نصیب ہوئی توانہوں نے ایک انصاری خاتون کے ساتھ شادی بھی کرلی…تب ایک روزیہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضرہوئے توکیفیت یہ تھی کہ ان کے لباس پرخوشبوکے کچھ اثرات تھے…رسول اللہ ﷺ نے یہ خوشگوارتبدیلی دیکھی توتعجب کی کیفیت میں …اورنہایت شفقت بھرے اندازمیں …انہیں مخاطب کرتے ہوئے دریافت فرمایا:’’اے عبدالرحمن،کیاتم نے شادی کرلی ہے…؟‘‘اس پر عبدالرحمن ؓ نے عرض کیا’’جی ہاں …اے اللہ کے رسول…‘‘ تب آپؐ نے دریافت فرمایا’’اپنی دلہن کوتم نے مہرمیں کیاچیزدی ہے؟‘ ‘ عرض کیا : وَزنَ نَوَاۃٍ مِن ذَھَب یعنی’’کھجورکی گٹھلی کے وزن کے برابرسونا‘‘ تب آپؐ نے تاکیدی اندازمیں فرمایا: أَولِم وَلَو بِشَاۃٍ یعنی’’ولیمہ ضرورکرنا…اگرچہ محض ایک بکری ہی کیوں نہو‘‘اورپھراسی موقع پرآپؐ نے انہیں دعائے خیردیتے ہوئے یہ ارشادبھی فرمایا: بَارَکَ اللّہُ لَکَ ۔ یعنی’’اللہ تمہیں خیروبرکت عطاء فرمائے‘‘(۱) (۲)
اس موقع پررسول اللہ ﷺ نے اپنے صحابی عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کواس دعائے خیروبرکت سے جونوازا…اورپھراس مبارک دعاء کاجواثرظاہرہوا…اس بارے میں حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : فَأقبَلَتِ الدُّنیَا عَلَيَّ ، حَتَّیٰ رَأَیتُنِي لَو رَفَعتُ حَجَراً لَتَوَقَّعتُ أن أجِدَ تَحتَہٗ ذَھَباً أو فِضَّۃً ۔ یعنی’’ اس دعائے خیرکے بعددنیاوی نعمتیں خودبخودمیرے پاس آتی ہی چلی گئیں ،یہاں تک کہ مجھے یہ گمان ہونے لگاکہ اگرمیں کوئی پتھربھی اٹھاؤں گا تواس کے نیچے سے میرے لئے سونا یا چاندی برآمدہوگا‘‘۔
٭ہجرتِ مدینہ کے بعدجلدہی جب غزوات کی نوبت آئی توحق وباطل کے درمیاں پہلی یادگارجنگ یعنی ’’غزوۂ بدر‘‘کے موقع پر، اورپھردوسری جنگ ’’اُحد‘‘کے موقع پرحضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کی زیرِقیادت شریک ٗبلکہ پیش پیش رہے، اورشجاعت وبہادری کے خوب جوہردکھاتے رہے،بالخصوص ’’غزوۂ اُحد‘‘کے موقع پرجب مسلمان اپنی ہی ایک غلطی کی وجہ سے جیتی ہوئی جنگ ہارگئے،ہرطرف افراتفری پھیل گئی، تب اس نازک ترین صورتِ حال میں مٹھی بھرچندافرادجورسول اللہ ﷺ کے ہمراہ موجود تھے ،انہی میں حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے، اس موقع پرانہوں نے بڑی تکلیفیں اٹھائیں ،بہت چوٹیں کھائیں ،تلواروں اورتیروں کے بہت سے زخم لگے،لیکن ان کی بہادری اورثابت قدمی میں کوئی فرق نہ آیا، پائے استقامت میں ذرہ برابرلغزش نہیں آئی…اورپھرجنگ کے اختتام پرجب میدانِ جنگ سے نکلے توکیفیت یہ تھی کہ جسم کے مختلف مقامات پربیس سے زیادہ کاری زخم لگے ہوئے تھے۔
’’بدر‘‘اورپھر’’اُحد‘‘کے بعدبھی رسول اللہ ﷺ کی حیاتِ طیبہ کے دوران جتنے بھی غزوات پیش آئے ٗ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ ہمیشہ ہرغزوے کے موقع پررسول اللہ ﷺ کی زیرِقیادت شریک رہے ،بلکہ پیش پیش رہے ،اورشجاعت وجرأت کے خوب جوہردکھاتے رہے۔
٭سن چھ ہجری میں رسول اللہ ﷺ نے ’’دُومۃ الجندل‘‘کی جانب لشکرکی روانگی کے وقت حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کواس لشکرکا سپہ سالارمقررفرمایا،اس موقع پرآپؐ نے نہایت شفقت ومحبت کے ساتھ خوداپنے دستِ مبارک سے ان کے سرپرعمامہ باندھا، اورپھردعائے خیروبرکت کے ساتھ انہیں روانہ فرمایا۔ (۱)
٭یوں دینِ اسلام کی سربلندی کی خاطرحضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ روزِاول سے ہی قدم قدم پرمصائب وآلام کاخندہ پیشانی کے ساتھ مقابلہ کرتے رہے…ہجرتِ حبشہ ہو…یاہجرتِ مدینہ…مشرکین ومخالفین کے خلاف غزوات ہوں …یاکوئی بھی موقع ہو…ہرموقع پر…اورہرآزمائش میں … حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ ہمیشہ بے مثال استقامت اورجرأت وشجاعت کامظاہرہ کرتے رہے،آزمائش کی ہرگھڑی میں بڑی سے بڑی سے قربانی پیش کرنے کیلئے ہمہ وقت آمادہ وتیاررہے۔
٭جس طرح مختلف غزوات کے موقع پرحضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ ہمیشہ پیش پیش رہے اورجسمانی طورپرتکالیف اورہرقسم کی صعوبتیں ومشقتیں برداشت کرتے رہے…اس سے بھی بڑھ کرقابلِ ذکر ٗاِن کی وہ قربانیاں …اور…وہ خدمات ہیں جوہمیشہ ہرموقع پریہ اپنے ’’مال ودولت‘‘کے ذریعے انجام دیتے رہے،رسول اللہ ﷺ نے ان کیلئے جودعائے خیروبرکت فرمائی تھی…اس کے نتیجے میں دیکھتے ہی دیکھتے بڑی سرعت کے ساتھ ان کے مال میں خیروبرکت کے آثارخوب نظرآنے لگے تھے، خوب فراوانی اورخوشحالی تھی، اللہ کے دئیے ہوئے اس مال میں سے عبدالرحمن بن عوفؓ ہمیشہ اللہ کے بندوں کی فلاح وبہبودکی خاطر…نیزاللہ کے دین کی سربلندی کی خاطر…خصوصاًمختلف غزوات کے موقع پرخوب دل کھول کر،اوربڑی ہی سخاوت وفیاضی کے ساتھ مال ودولت خرچ کرتے رہے…اوریوں راہِ حق میں جسمانی قربانیوں کے ساتھ ساتھ مالی قربانیوں کی بھی ایک طویل داستان رقم کرگئے۔
خصوصاًسن ۹ہجری میں پیش آنے والے تاریخی غزوۂ تبوک کے موقع پرجب قحط کازمانہ چل رہاتھا،مال واسباب ٗ اسلحہ ٗ خوارک ٗ غرضیکہ ہرلحاظ سے بڑی تنگی وعسرت کاسامناتھا(۱) اس موقع پرحضرت عبدالرحمن بن عوف ؓنے دوسواُوقیہ خالص سونابطورِتعاون پیش کیاتھا(۲)
٭اورپھریہ لشکر رسول اللہ ﷺ کی زیرِقیادت مدینہ سے اپنی منزلِ مقصودیعنی ’’تبوک‘‘ کی جانب رواں دواں ہوگیا،یہ طویل ترین مسافت طے کرنے بعدجب یہ لشکرتبوک پہنچا تو وہاں ایک اوربہت بڑی فضیلت وسعادت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کی منتظرتھی۔
ہوایہ کہ ایک روزجب فجرکی نمازکاوقت ہوچکاتھا،رسول اللہ ﷺ قضائے حاجت کی غرض سے کچھ دورتشریف لے گئے تھے،جبکہ اسلامی لشکرمیں موجودسب ہی افرادوہاں نماز باجماعت کی غرض سے موجودتھے…ایسے میں یہ اندیشہ پیداہونے لگاکہ کہیں نمازِفجرکاوقت نہ نکل جائے،اب سب ہی لوگ تشویش میں مبتلاہوگئے، کچھ لوگوں نے اصرارکیاکہ ہمیں نمازقضاء نہیں کرنی چاہئے، رسول اللہ ﷺ کوشایدکسی وجہ سے تاخیرہوگئی ہے،اگرآپؐ کواس بات کاعلم ہوگاکہ ہم سب نے محض آپؐ کے انتظارمیں نمازقضاء کردی ہے ،تویقیناآپؐ ناراض ہوں گے، لہٰذاہمیں اب نمازپڑھ لینی چاہئے۔
جبکہ دیگرکچھ لوگوں کااصراریہ تھا کہ ہمیں بہرصورت رسول اللہ ﷺ کاانتظارکرناچاہئے…
یہی صورتِ حال جاری تھی کہ اس دوران کچھ لوگوں نے حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے امامت کیلئے خوب اصرار کیا…اورپھرتقریباًزبردستی انہیں امامت کیلئے آگے بڑھادیا، جس پرحضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کی امامت میں نمازباجماعت کا آغازہوا۔
اسی دوران رسول اللہ ﷺ بھی تشریف لے آئے…اورتب آپؐ نے دیگرتمام افرادکی طرح عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کی اقتداء میں ہی اُس روزنمازِفجراداکی…اوریوں اس تاریخی ’’غزوۂ تبوک‘‘کے موقع پریہ اتنی بڑی سعات بھی ان کے حصے میں آئی۔(۱)
رسول اللہ ﷺ کے مبارک دورمیں یوں ہمیشہ ہی آپؐ کے ساتھ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ کایہ تعلقِ خاطر ٗیہ محبتیں اورقربتیں اسی طرح برقراررہیں اوراسی کیفیت میں شب وروزکایہ سفرجاری رہا۔