hazrat anas bin Malik 860

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کاتعلق مدینہ میں مشہورومعززترین خاندان’’بنونجار‘‘ سے تھا، نبوت کے بارہویں سال بیعتِ عقبہ اولیٰ کے فوری بعدجب رسول اللہ ﷺ نے حضرت مصعب بن عمیررضی اللہ عنہ کومعلم ومربی کی حیثیت سے مدینہ والوں کی جانب روانہ فرمایاتھا، تب وہاں مدینہ میں ان کی تبلیغی کوششوں اوردعوتی سرگرمیوں کے نتیجے میں بڑی سرعت کے ساتھ دینِ اسلام کی نشرواشاعت ہونے لگی تھی…چنانچہ انہی دنوں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی والدہ ’’اُم سُلیم‘‘(جوکہ اس کنیت سے معروف تھیں ، اصل نام رُمیصاء بنت ملحان النجاریہ تھا) بھی دعوتِ حق پرلبیک کہتے ہوئے مشرف باسلام ہوگئی تھیں …البتہ ان کاشوہربدستوراپنے آبائی دین یعنی کفروشرک پرہی قائم رہا،اور پھر کچھ عرصے بعدکسی قبائلی جنگ کے موقع پرماراگیا…اورتب اُم سُلیمؓ کی شادی انہی کے خاندان’’بنونجار‘‘کے ایک معززترین شخص حضرت ابوطلحہ انصاری ؓ کے ساتھ ہوگئی۔(۱)
اُم سُلیم ؓ کی حضرت ابوطلحہ انصاری رضی اللہ عنہ کے ساتھ شادی کے وقت ان کے بیٹے انس بن مالکؓ کی عمرمحض نوسال تھی، بالکل ہی بچپن کازمانہ تھا، لہٰذااس کے بعدگویاان کی تربیت بڑے پیمانے پرحضرت ابوطلحہ انصاریؓ کی سرپرستی میں ہوئی۔
اس کے بعدمحض اگلے ہی سال …جب نبوت کاتیرہواں سال چل رہاتھا…حجِ بیت اللہ کے موقع پرمدینہ سے آئے ہوئے حجاج میں سے بہتّرافرادایسے تھے جوآپؐ کی ہجرتِ مدینہ سے قبل ہی آپؐ کے سفیراورقاصدحضرت مصعب بن عمیررضی اللہ عنہ کی طرف سے دعوتِ اسلام کے سلسلے میں کی جانے والی کوششوں کے نتیجے میں دینِ اسلام قبول کرچکے تھے اوراب حجِ بیت اللہ کے موقع پرمنیٰ میں انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے خفیہ ملاقات ٗ نیزآپؐ کے دستِ مبارک پربیعت کی تھی جوتاریخ میں ’’بیعتِ عقبہ ثانیہ‘‘کے نام سے معروف ہے،اورپھراسی یادگارموقع پرہی ان بہتّرافرادنے آپ ﷺ کومدینہ تشریف آوری کی دعوت دی تھی،نیزآپؐ کی ہرطرح حفاظت وحمایت کاعہدوپیمان کیاتھا…انہی بہتّرخوش نصیب ترین افرادمیں حضرت ابوطلحہ انصاری ؓ(یعنی حضرت انس بن مالکؓکے سرپرست) بھی شامل تھے۔
اورپھراسی دعوت کے نتیجے میں رسول اللہ ﷺ ودیگرتمام مسلمان رفتہ رفتہ مکہ سے مدینہ ہجرت کرگئے تھے۔
ہجرتِ مدینہ کے موقع پررسول اللہ ﷺ کی جب مدینہ تشریف آوری ہوئی تب حضرت انس بن مالکؓ کی عمرمحض دس سال تھی،اس موقع پران کی والدہ اُم سُلیم انہیں ہمراہ لئے ہوئے رسول اللہ ﷺ کی خدمتِ اقدس میں حاضرہوئی تھیں ، اورعرض کیاتھا کہ ’’اے اللہ کے رسول!میری یہ دلی خواہش ہے کہ میرایہ بیٹاآپ کی خدمت میں رہے،تاکہ روزمرہ کے کام کاج میں یہ آپ کی خدمت بھی انجام دے،نیزآپ ہی کی زیرِسرپرستی اس کی تربیت اورنشو ونما ہو،تاکہ اس طرح یہ اعلیٰ اخلاق وکرداراپناسکے…لہٰذاآپ اسے اجازت مرحمت فرمائیے‘‘
اس پرآپؐ نے اس نوعمریعنی انس بن مالکؓ کواپنی صحبت ومعیت میں رہنے کی اجازت مرحمت فرمائی…چنانچہ اب انس بن مالکؓ کے شب وروزآپؐ کی خدمت اورصحبت ومعیت میں بسرہونے لگے…گویااب ان کیلئے آپؐ ہی والد ٗ معلم ومربی ٗسرپرست ٗاور سبھی کچھ تھے،آپؐ کی خدمت میں رہتے ہوئے انس بن مالکؓ آپؐ کے ہرقول وفعل ٗ ہرادا ٗ ہرانداز ٗاورہرنقل وحرکت کوبغیردیکھتے ، اس سے بہت کچھ سیکھتے ،اورپھراسے اپنالیتے، اوراپنی روزمرہ کی زندگی میں اسے اپنامعمول بنالیتے…
ہجرتِ مدینہ کے بعداب رسول اللہ ﷺ کی حیاتِ طیبہ کایہ مدنی دورجوکہ دس سال کے عرصے پرمحیط تھا…اس تمام عرصے میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ مسلسل آپؐ کی خدمت کامبارک فریضہ سرانجام دیتے رہے،آپؐ کی مبارک شخصیت ٗنیزآپؐ کے پاکیزہ اخلاق وکردارسے یہ بہت زیادہ متأثرتھے،ان کے قلب وجگرمیں ٗ اوررگ وپے میں آپؐ کی محبت ٗ نیزآپؐ کیلئے احترام اورعقیدت کے جذبات رچ بس گئے تھے…جس کااظہاران کے ان الفاظ سے ہوتاہے: (کَان رَسُولُ اللّہِ ﷺ أحسَنَ النّاسِ خُلُقاً) (۱)
یعنی’’رسول اللہ ﷺ توتمام لوگوں میں سب سے زیادہ اچھے اخلاق کے حامل تھے‘‘
نیز: (مَا مَسِسْتُ دِیبَاجاً وَلَا حَرِیراً ألیَنَ مِن کَفِّ رَسُولِ اللّہِ ﷺ ، وَلَا شَمَمْتُ رَائِحَۃً قَطُّ أطیَبَ مِن رَائِحَۃِ رَسُولِ اللّہِ ﷺ ، وَلَقَد خَدَمتُ رَسُولَ اللّہِ ﷺ عَشرَ سِنِینَ ، فَمَا قَالَ لِي أُف قَطُّ ، وَمَا قَالَ لِي لِشَیٍٔ فَعَلتُہٗ لِمَ فَعلتَہٗ؟ وَلَا لِشَیٍٔ لَم أفعَلْہُ: ألَا فَعَلْتَ کَذا؟) (۲)
یعنی ’’میں نے رسول اللہ ﷺ کی ہتھیلی سے زیادہ نرم کوئی ریشم نہیں چھوا،اوررسول اللہ ﷺ کے جسم اطہرسے پھوٹنے والی خوشبوسے زیادہ پاکیزہ خوشبوکبھی نہیں سونگھی، اورمیں نے رسول للہ ﷺ کی دس سال خدمت کی،آپ نے مجھے کبھی اُف تک نہیں کہا،اورجوکام میں نے کیا ٗ اس کی بابت یہ نہیں کہاکہ تم نے یہ کیوں کیا؟ اورجوکام میں نے نہیں کیا ٗ اس کی بابت یہ نہیں کہاکہ تم نے اس طرح کام کیوں نہیں کیا؟‘‘
٭…رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کاتعلق محض خدمت تک محدودنہیں تھا،بلکہ طلبِ علم اورکسبِ فیض کاسلسلہ بھی نہایت اہتمام والتزام کے ساتھ جاری تھا،اس سے بھی بڑھ کریہ کہ آپؐ انسؓ کیلئے معلم ومربی بھی تھے،بلکہ آپؐ نے انہیں ہمیشہ اپنے بچوں ہی کی طرح سمجھا،مزیدیہ کہ آپؐ نے انہیں اپنا’’امین السر‘‘یعنی ’’خاص رازدان‘‘بھی مقررفرمایا۔(۱)
جیساکہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : خَدَمتُ رَسُولَ اللّہِ ﷺ عَشْرَ سِنِینَ ، فَلَم یِضْرِبْنِي ضَربَۃً قَطُّ ، وَلَم یَسُبَّنِي ، وَلَم یَعْبِسْ فِي وَجْھِي ، وَکَانَ أوّلُ مَا وَصَّانِي بِہٖ أن قَالَ: یَا بُنَيّ! اُکتُم سِرِّي تَکُن مُؤمِناً فَمَا أخبَرتُ بِسِرِّہٖ أحَداً وَاِن کَانَت أُمِّي ، وَأزوَاجُ النَّبِيّ ﷺ یَسألنَنِي أن أُخبِرَھُنَّ فَلَاأُخبِرُھُنّ ، وَلَا أُخبِرُ بِسِرِّہٖ أحَداً أبَداً (۲)(۳)
ترجمہ’’میں نے دس سال مسلسل رسول اللہ ﷺ کی خدمت انجام دی،اس دوران آپؐ نے کبھی مجھے زدوکوب نہیں کیا،کبھی میرے ساتھ بدکلامی نہیں کی، کبھی میرے سامنے ترش روئی کامظاہرہ نہیں کیا،آپؐ نے سب سے پہلے مجھے جس بات کی تاکیدفرمائی وہ یہ تھی کہ’’اے بچے!میرے رازکوہمیشہ چھپائے رکھنا ٗتم مؤمن بن جاؤگے‘‘چنانچہ میں نے کبھی کسی کے سامنے آپؐ کاکوئی رازظاہرنہیں کیا…حتیٰ کہ اپنی والدہ کے سامنے بھی نہیں …بعض اوقات آپؐ کی ازواج مطہرات مجھ سے آپؐ کاکوئی رازپوچھاکرتی تھیں ،لیکن میں نے انہیں بھی کبھی کچھ نہیں بتایا،بلکہ میں نے توکبھی کسی کے سامنے بھی آپؐ کاکوئی رازفاش نہیں کیا‘‘
اسی طرح رسول اللہ ﷺ کے حسنِ اخلاق کاتذکرہ کرتے ہوئے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : کَانَ رَسُولُ اللّہ ﷺ مِن أحْسَنِ النّاسِ خُلُقاً ، فَأرسَلَنِي یَوماً لِحَاجَۃٍ ، فَخَرَجتُ ، حَتّیٰ أمُرَّ عَلَیٰ صِبیَانٍ وھُم یَلعَبُونَ فِي السُّوقِ ، فَاِذَا بِرَسُولِ اللّہِ ﷺ بَقَفَايَ مِن وَرَائِي ، فَنَظَرتُ اِلَیہِ وَھُوَ یَضْحَکُ ، فَقَالَ: یَا أُنَیس! أذَھَبْتَ حَیثُ أمَرتُکَ؟ قَال: فَقُلتُ: نَعَم ، أنَا ذَاھِبٌ یَا رَسُولَ اللّہ (۱)
ترجمہ’’رسول اللہ ﷺ تمام لوگوں میں سب سے بڑھ کرخوش اخلاق تھے،ایک روزآپؐ نے مجھے کسی کام سے کہیں بھیجا،میں روانہ ہوگیا،راستے میں بازارمیں کچھ بچے کھیل رہے تھے،میں بھی ان کے ساتھ کھیل کودمیں لگ گیا،کچھ دیربعداچانک آپؐ نے آکرمجھے گُدی سے دبوچ لیا،میں نے جب پلٹ کرآپ ؐکی جانب دیکھاتوآپ ﷺ مسکرادئیے،پھرآپؐ نے مجھ سے دریافت فرمایا’’اے اُنیس!کیاتم وہاں گئے جہاں میں نے تمہیں بھیجاتھا؟‘‘ میں نے عرض کیا’’جی!اے اللہ کے رسول!میں ابھی جاتاہوں ‘‘(۱)
(مقصدیہ کہ اس موقع پربھی آپؐ نے انہیں کسی ملامت یاسرزنش کی بجائے محبت وشفقت کامعاملہ ہی فرمایا)۔
٭…رسول اللہ ﷺ کی طرف سے اپنے خادمِ خاص حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کیلئے شفقتوں اورعنایتوں کایہ سلسلہ محض عارضی وفانی دنیاکی زندگی تک ہی محدودنہیں تھا…بلکہ آپؐ نے انہیں آخرت میں بھی اپنی شفاعت سے شادکام کرنے کی خوشخبری سنائی تھی۔جیساکہ یہ فرماتے ہیں : سَألتُ النّبِيَّ ﷺ أن یَشفَعَ لِي یَومَ القِیَامَۃِ ، فَقَالَ : أنَا فَاعِلٌ ، قُلتُ: یَا رَسُولَ اللّہ! أینَ أطلُبُکَ؟ قَالَ: أُطلُبْنِي أوّلَ مَا تَطلُبُنِي عَلَیٰ الصِّرَاط، قُلتُ: فَاِن لَم ألقَکَ عَلَیٰ الصِّرَاط؟ قَال: فَاطلُبْنِي عِندَ المِیزَان ، قُلتُ: فَاِن لَم ألقَکَ عِندَ المِیزَان؟ قَالَ: فَاطلُبْنِي عَندَ الحَوْض، فَاِنِّي لَا أُخطِیُٔ ھٰذِہٖ الثّلَاثَ المَوَاضِع ۔ (۲)
ترجمہ’’میں نے رسول اللہ ﷺ سے اپنے لئے روزِقیامت شفاعت کی گذارش کی،اس پرآپؐ نے ارشادفرمایا’’ہاں ،میں ایساکروں گا‘‘میں نے عرض کیا’’اے اللہ کے رسول! (میدانِ حشرمیں )میں آپ کوکہاں تلاش کروں ؟ آپ ؐ نے فرمایا’’سب سے پہلے تم مجھے ’’صراط‘‘(یعنی پل صراط)کے قریب تلاش کرنا،میں نے عرض کیا’’اگرصراط پرآپؐ سے ملاقات نہوسکی تو؟‘‘آپؐ نے فرمایا’’تب مجھے تم ’’میزان‘‘(یعنی انسانوں کے اعمال تولنے کیلئے ترازو)کے قریب تلاش کرنا‘‘میں نے عرض کیا’’اے اللہ کے رسول!اگرمیزان کے قریب بھی آپ ؐ سے ملاقات نہوسکی تو؟‘‘آپؐ نے فرمایا’’تب مجھے تم ’’حوض‘‘(یعنی حوضِ کوثر)کے قریب تلاش کرنا، کیونکہ ان تینوں مقامات میں سے کسی ایک مقام پرمیں ضرورموجودہوں گا‘‘۔
٭… عن أنس بنِ مَالکٍ رضِيَ اللّہُ عَنہُ قَال: جَائَ رَجُلٌ اِلَیٰ رَسُولِ اللّہِ ﷺ ، فَقَال: یَا رَسُولَ اللّہ! مَتَیٰ السّاعَہ؟ قَال: وَمَا أعْدَدْتَ لِلسّاعَۃ؟ قَال: حُبُّ اللّہِ وَ رَسُولِہٖ ، قَال: فَاِنّکَ مَعَ مَن أحْبَبْتَ ، قَال: أنَس: فَمَا فَرِحْنَا بِشَیٍٔ بَعدَ الاِسلَامِ فَرَحاً أشَدَّ مِن قَولِ النّبِيّ ﷺ : ((فَاِنّکَ مَعَ مَن أحْبَبْتَ)) قَال أنَس : فَأنَا أُحِبُّ اللّہَ وَ رَسُولَہٗ ، وَأبَابَکر ، وَعُمَر ، فَأرجُو أن أکُونَ مَعَھُم ، لِحُبِّي اِیّاھُم ، وَاِن لَم أعمَل بِأعمَالِھِم (۱)
ترجمہ:’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضرہوا،اوردریافت کیاکہ’’اے اللہ کے رسول!قیامت کب آئے گی؟‘‘ اس پرآپؐ نے فرمایا’’تم نے قیامت کیلئے کیاتیاری کی ہے؟‘‘ اس نے عرض کیا’’اللہ اوراس کے رسول کی محبت‘‘تب آپؐ نے فرمایا’’تم اسی کے ساتھ ہوگے جس سے تم محبت کرتے ہو‘‘(اس کے بعدحضرت انس ؓنے مزیدفرمایا)’’ہم (یعنی تمام صحابۂ کرام) اپنے قبولِ اسلام کے بعدکبھی کسی بات پراس قدرخوش نہیں ہوئے تھے کہ جس قدرہم اُس روزآپ ﷺ کایہ ارشادسن کرخوش ہوئے کہ’’تم اسی کے ساتھ ہوگے جس سے تم محبت کرتے ہو‘‘(اس کے بعدحضرت انسؓ نے مزیدفرمایا)’’یہی وجہ ہے کہ میں اللہ اوراس کے رسول ﷺ سے محبت کرتاہوں ،نیزابوبکرؓ اورعمرؓ سے محبت کرتاہوں ،لہٰذامجھے یہ امیدہے کہ میں (قیامت کے روز)انہی کے ساتھ ہوں گا،ان سے محبت کی وجہ سے ،اگرچہ میرے اعمال اس قدراچھے نہیں ہیں جس قدراُن کے تھے‘‘۔(۱)(۲)
٭…حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی طرف سے رسول اللہ ﷺ کی خدمت ٗصحبت ومعیت ٗاورکسبِ فیض کایہ سلسلہ بدستورجاری رہا…مکمل پابندی اوربڑے ہی شوق اورانہماک کے ساتھ یہ ہمیشہ آپؐ کی خدمت میں حاضررہتے،خواہ وہ کوئی ذاتی خدمت ہو،علمی محفل ہو، یامیدانِ جنگ ہو۔
چنانچہ حضرت انسؓ ہمیشہ ہرغزوے کے موقع پرآپؐ کی زیرِقیادت شریک رہے اورپیش پیش رہے…حتیٰ کہ ظہورِاسلام کے بعدحق وباطل کے درمیان اولین معرکہ’’غزوۂ بدر‘‘کے موقع پربھی یہ حاضرتھے(اُس وقت ان کی عمرمحض بارہ سال تھی،لہٰذایہ باقاعدہ جنگ میں شریک تونہیں ہوئے تھے،البتہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت کی غرض سے مسلسل وہاں موجود رہے تھے)
اسی طرح ۵ھ؁میں ’’بیعتِ رضوان‘‘کے یادگاراورمبارک ترین موقع پربھی یہ شریک تھے(۱)
٭…رسول اللہ ﷺ کی طرف سے اپنے خادمِ خاص حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کیلئے محبتوں ٗ شفقتوں ٗ اورعنایتوں کاجوسلسلہ تھااُس کااظہاراس بات سے بھی ہوتاہے کہ آپؐ انہیں مختلف مواقع پرصلاح وفلاح اورخیروبرکت کی دعاؤں سے نوازتے رہے۔ چنانچہ یہ فرماتے ہیں :
دَخَلَ النّبِيُّ ﷺ عَلَینَا ، وَمَا ھُوَ اِلّا أنَا ، وَأُمِّي ، وَأُمُّ حَرَام خَالَتِي ، فَقَالَت أُمِّي: یَا رَسُولَ اللّہ! خُوَیدِمُکَ ، اُدعُ اللّہَ لَہٗ ، قَال أنَس: فَدَعَا لِي بِکُلِّ خَیر، وَکَانَ فِي آخِرِ مَا دَعَا لِي بِہٖ أن قَالَ: ((اللّھُمّ أکثِر مَالَہٗ وَ وَلَدَہٗ وَبَارِک لَہٗ فِیہ ۔ (۲)
رسول اللہ ﷺ ایک روزہمارے گھرتشریف لائے ،اُس وقت گھرمیں صرف میں ٗ میری والدہ ٗ اورمیری خالہ اُم حرام موجودتھیں ، تب میری والدہ نے عرض کیا’’اے اللہ کے رسول! یہ آپ کاچھوٹاساخادم ہے(یعنی انس ؓ) آپ اس کیلئے اللہ سے دعاء فرمائیے،اس پرآپؐ نے میرے لئے ہرخیروخوبی کی دعاء فرمائی،اور آخرمیں آپؐ نے یہ الفاظ کہے’’اے اللہ!تواسے مال اوراولادکی فراوانی اوراس میں خیروبرکت عطاء فرما‘‘۔
اسی طرح حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
دَعَا لِي رَسولُ اللّہ ﷺ ثَلَاثَ دَعَوَاتٍ ، قَد رَأیتُ مِنھُمَا اثنَتَینِ فِي الدُّنیَا ، وَأنَا أرجُو الثّالِثَۃَ فِي الآخِرَۃ ۔ (۱)
یعنی’’رسول اللہ ﷺ نے میرے لئے تین دعائیں فرمائیں ،جن میں سے دوکی قبولیت میں اس دنیامیں ہی دیکھ چکاہوں ، جبکہ تیسری کی قبولیت کی میں آخرت میں امیدرکھتاہوں (۲)
رسول اللہ ﷺ کی طرف سے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کیلئے خیروبرکت کی ان دعاؤں کاہی یہ نتیجہ تھاکہ انہیں اللہ کی طرف سے خوب آل واولاداورخوشحالی وفراوانی نصیب ہوئی،چنانچہ ان کاایک باغ تھاجس کے قرب وجوارمیں اسی جیسے تمام باغ سال میں ایک بار ٗجبکہ ان کاوہ باغ سال میں دوبارپھل دیاکرتاتھا،نیزیہ کہ اس باغ میں نہایت خوشگوارخوشبومہکاکرتی تھی جس کااثردوردورتک پہنچاکرتاتھا…(۲)
٭… رسول اللہ ﷺ کی طرف سے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کیلئے شفقتوں اور دعاؤں کے یہ جوسلسلے تھے ٗ نیزآپؐ کی تربیت اورسرپرستی کے جومبارک ثمرات تھے…انہی کاایک اثریہ تھاکہ حضرت انسؓ کے ہرعمل ٗ ہر ادا ٗ ہرانداز ٗ اورہرعبادت میں آپ ﷺ کے ساتھ بہت زیادہ مشابہت پائی جاتی تھی…جیساکہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ : مَا رأیتُ أحَداً أشبَہَ صَلَاۃً بِرَسُولِ اللّہِ ﷺ مِن ابنِ أُمّ سُلَیم ۔ (۱)
یعنی’’میں نے کوئی ایساشخص نہیں دیکھاجس کی نمازرسول اللہ ﷺ کی نمازسے اس قدر مشابہ ہوکہ جس قدراُمِ سُلیم کے بیٹے (یعنی انس بن مالکؓ) کی نمازآپؐ کی نمازسے مشابہ ہے‘‘۔
٭…مزیدیہ کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو چندقیمتی ترین اوربہت ہی اہم اورمفیدنصیحتیں فرمائی تھیں ،جنہیں یہ بڑے ہی اہتمام اورجذبے کے ساتھ زندگی بھرخودبھی یادکرتے رہے ، اپنے ذہن میں تازہ کرتے رہے،نیزدوسروں کوبھی یہی نصیحتیں فرماتے رہے…مثلاً:
٭ اِذا دَخَلْتَ عَلیٰ أھلِکَ فَسَلِّم ، یَکُونُ بَرَکَۃً عَلَیکَ وَعَلَیٰ أھلِ بَیتِکَ ۔
ترجمہ’’تم جب اپنے گھرداخل ہوتواہلِ خانہ کوسلام کیاکرو،یہ چیزتمہارے لئے ٗنیزتمہارے اہلِ خانہ کیلئے باعثِ خیروبرکت ہوگی۔
٭ یَا بُنَيّ! اِن قَدَرْتَ أن تَجْعَلَ مِن صَلَاتِکَ فِي بَیتِکَ شَیئاً فَافعَل ، فَاِنّہٗ یُکثِرُ خَیرَ بَیتِکَ ۔
ترجمہ’’اے میرے بچے! اگرہوسکے توکچھ نمازگھرمیں بھی پڑھ لیاکرو،اس سے تمہارے گھر میں خیروبرکت میں اضافہ ہوگا‘‘(۱)
٭ یَا بُنَيّ! اِن استَطَعتَ أن لَا تَزَالَ تُصَلِّي، فَافعَل،فَاِنّ المَلَائِکَۃَ لَا تَزَالُ تُصَلِّي عَلَیکَ ، مَا دُمتَ تُصَلِّي ۔
ترجمہ’’اے میرے بچے !تم سے جس قدربن پڑے نمازپڑھتے رہو،کیونکہ جب تک تم نمازمیں مشغول رہوگے ٗ فرشتے تمہارے لئے دعائے خیر کرتے رہیں گے‘‘(۲)
٭ یَا بُنَيّ! اِن قَدَرْتَ أن تُمْسِيَ وَ تُصْبِحَ وَلَیسَ فِي قَلبِکَ غِشٌّ لِأحَدٍ ، فَافْعَل ۔
ترجمہ’’اے میرے بچے! اگرتم سے بن پڑے تواپنی ہرصبح اور ہرشام اس کیفیت میں بسرکرناکہ تمہارے دل میں کسی کے خلاف کوئی کینہ نہ ہو‘‘
٭ یَا بُنَيّ! اِرحَمِ الصَّغِیرَ ، وَ وَقِّرِ الکَبِیرَ ، تَکُن مِن رُفَقَائِي یَومَ القِیَامَۃ ۔
ترجمہ’’اے میرے بچے! چھوٹے پررحم کرو،بڑے کی عزت کرو، نتیجہ یہ ہوگاکہ تم جنت میں میرے ساتھیوں میں سے ہوگے‘‘۔(۳)
٭…نبوت کے چودہویں سال ہجرتِ مدینہ کے موقع پررسول اللہ ﷺ کی جب مکہ سے مدینہ تشریف آوری ہوئی تھی ٗ تب حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ دس سال کے تھے،اس کے بعدآپؐ کامدینہ میں دس سال قیام رہا،اس دوران حضرت انسؓ مسلسل آپؐ کی خدمت میں رہے…حتیٰ کہ آپؐ اس جہانِ فانی سے رحلت فرماتے ہوئے اپنے اللہ سے جاملے…تب حضرت انسؓ کی عمربیس سال تھی۔
رسول اللہ ﷺ کے انتقال کے بعدحضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیاسی سال مزیداس دنیامیں رہے…چونکہ انہیں کم عمری (دس سال کی عمر)سے ہی رسول اللہ ﷺ کی خدمت ٗ صحبت ومعیت ٗ علمی استفادہ ٗ اورکسبِ فیض کابہت زیادہ موقع ملاتھا،لہٰذاانہیں بہت بڑے علمی خزانے کاامین تصورکیاجاتاتھا،آپؐ کی رحلت کے بعدہرطرف سے تشنگانِ علم بہت بڑی تعدادمیں ان کے پاس تحصیلِ علم کی غرض سے آتے رہے،اوریہ (حضرت انسؓ)بیاسی سالہ اس طویل دورمیں علومِ نبویہ کی ترویج اورنشرواشاعت میں ہمہ تن مصروف ومنہمک رہے…
٭…رسول اللہ ﷺ کی اس جہانِ فانی سے رحلت کے بعدخلیفۂ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو’’بحرین‘‘کا’’والی‘‘ (گورنر) مقرر کیاتھا،چنانچہ یہ مدینہ سے بحرین منتقل ہوگئے تھے ،جہاں یہ والی کی حیثیت سے فرائض انجام دیتے رہے۔اورپھرحضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے انتقال کے بعدخلیفۂ دوم حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کے دورمیں اپنے اس عہدے سے مستعفی ہوکرواپس مدینہ چلے آئے تھے۔
حضرات خلفائے راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دورمیں اللہ کے دین کی سربلندی ٗ اوردشمنانِ دین کی سرکوبی کی غرض سے مدینہ سے مختلف محاذوں کی جانب وقتاًفوقتاًلشکروں کی روانگی کاسلسلہ جاری رہتاتھا…حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بھی اکثرکسی نہ کسی لشکرکے ہمراہ روانہ ہواکرتے تھے۔اورپھرآخرمستقل طورپر’’بصرہ‘‘میں مقیم ہوگئے تھے،جہاں تادمِ آخرعلمِ دین کی نشرواشاعت کے سلسلے میں بڑے وسیع پیمانے خدمات سرانجام دیتے رہے…
اُن دنوں حضرات صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم أجمعین کی بڑی تعدادمستقل طورپربصرہ میں آبادہوگئی تھی،اورپھررفتہ رفتہ یکے بعدیگرے وہ اس جہانِ فانی سے کوچ کرتے گئے … ان پاکیزہ وبرگزیدہ ترین شخصیات میں سے (یعنی بصرہ میں مقیم حضرات صحابۂ کرام میں سے)حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ آخری تھے۔
چنانچہ رسول اللہ ﷺ کے یہ خادمِ خاص اورجلیل القدرصحابی حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ ٗ بصرہ میں ۹۳ھ؁میں ایک سودوسال کی عمرمیں اس دنیائے فانی سے کوچ کرتے ہوئے اپنے اللہ سے جاملے۔
اللہ تعالیٰ جنت الفردوس میں ان کے درجات بلندفرمائیں ، نیزہمیں وہاں اپنے حبیب ﷺ اورتمام صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی صحبت ومعیت کے شرف سے سرفرازفرمائیں ۔