نسیم شاہد 240

جوبائیڈن کی جیت: امریکی پالیسی تو وہی رہے گی

جوبائیڈن کی جیت: امریکی پالیسی تو وہی رہے گی
نسیم شاہد
جوبائیڈن امریکہ کے چھیالیسویں صدر منتخب ہو گئے اور ہمارے ہاں اُن کی جیت کو پاکستان کی جیت سمجھا جا رہا ہے۔ہم بھولے بادشاہ ہر بات سے امید باندھ لیتے ہیں۔ مسلم لیگ(ن) والے تو ڈونلڈ ٹرمپ کی شکست کو گویا وزیراعظم عمران خان کے بُرے دِنوں سے تعبیر کر رہے ہیں۔ احسن اقبال نے تو یہ تک کہہ دیا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے بعد اب عمران خان کے جانے کا وقت بھی آ گیا ہے۔اُدھر دور کی کوڑی لانے والے امریکہ کی پہلی خاتون نائب صدر کمیلا ہیرس کو اُس کی بھارتی ماں کے باعث جیت قرار دے رہے ہیں،حالانکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ امریکیوں کی اکثریت کسی نہ کسی دوسرے ملک سے نسلاً ور اثتاً تعلق رکھتی ہے، مگر اب وہ سب امریکی ہیں اور سب سے پہلے امریکہ کے بارے میں سوچتے اور اُس کا مفاد عزیز رکھتے ہیں۔جوبائیڈن کی فتح یقینا ایک بڑا واقعہ ہے اور کئی دہائیوں بعد امریکہ میں بڑی تبدیلی آئی ہے، لیکن اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اس سے امریکہ کی دُنیا کے بارے میں مجموعی پالیسی تبدیل ہو جائے گی تو وہ احمقوں کی جنت میں رہتا ہے۔یہ سوچنا بھی حماقت ہے کہ اکیلا صدر پوری امریکی خارجہ پالیسی اور ورلڈ آرڈر کو بدل سکتا ہے۔امریکی صدر اتنا آزاد نہیں ہوتا جتنا ہم سمجھتے ہیں،اُسے کانگریس، سینیٹ اور پینٹاگان کی تثلیث کے ذریعے باندھ کر رکھا جاتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی شکست کا ایک بڑا سبب یہ بھی ہے کہ انہوں نے طے شدہ امریکی پاور سٹرکچر کو توڑنے کی کوشش کی اور کئی مواقع پر پینٹاگان اور عوامی نمائندگی کے ایوانوں کو بائی پاس کیا، جو اُن کا مینڈیٹ نہیں تھا۔
حیرت اس بات پر ہے کہ حکومت کے سیاسی مخالفین ڈونلڈ ٹرمپ کی شکست کو عمران خان کے لئے دھچکا قرار دے رہے ہیں۔آخر کس بات سے یہ نتیجہ اُخذ کیا جا سکتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ پاکستان اور عمران نواز تھا۔ ایسا کون سا غیر معمولی قدم تھا جو ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان کے لئے اٹھایا؟ حقیقت اس کے برعکس یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو بار بار متوجہ کرنے کے باوجود انہیں اِس بات پر آمادہ نہیں کیا جا سکا کہ وہ کشمیریوں کے خلاف پابندیاں ختم کرانے کے لئے نریندر مودی پر دباؤ ڈالیں، اُلٹا وہ نریندر مودی سے پینگیں بڑھاتے رہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں بھی پاکستان پر پابندیاں لگیں اور ڈو مور کہا گیا۔افغانستان کے معاملے میں پاکستان کے کردار کو امریکی مفادات کے لئے استعمال کرنے کی وہی کوششیں جاری رکھی گئیں، جو ہمیشہ سے رہی ہیں۔ہاں یہ ضرور ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اور عمران خان میں ٹیلی فونک رابطہ اکثر ہو جاتا تھا۔یہ بھی درست ہے کہ امریکہ کے سرکاری دورے پر عمران خان کو ڈونلڈ ٹرمپ نے گرم جوشی سے وائٹ ہاؤس کی سیر کرائی،لیکن عملاً ایسا کیا غیر معمولی کام ہوا، جس کی بنیاد پر یہ کہا جا سکے کہ ڈونلڈ ٹرمپ پرو پاکستانی یا پرو عمران خان تھے، کچھ بھی تو نیا نہیں تھا۔
امریکہ اگر ایک سپر پاور ہے تو اُس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس کی بنیادی پالیسی میں ایک تسلسل اور پائیداری ہے،اُس نے دُنیا پر حکمرانی کرنی ہے، یہ اُس کی خارجہ پالیسی کا بنیادی نکتہ ہے،اس کے لئے جو کچھ بھی کرنا پڑتا ہے، امریکی صدر کرتا ہے۔ ظاہر ہے جب ہدف ایک ہے تو بنیادی پالیسی بھی ایک ہی رہتی ہے۔ستر برسوں سے امریکہ کے ساتھ ہمارے گہرے تعلقات رہے ہیں،لیکن آج بھی کوئی شخص یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ امریکہ کی دوستی پر انحصار کیا جا سکتا ہے؟اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ امریکیوں نے دُنیا کو اپنی عینک کے ساتھ دیکھنا ہوتا ہے، ہماری عینک کے ساتھ نہیں۔ہمارا روزِ اول سے مسئلہ بھارت کے ساتھ ہے اور امریکہ کے لئے یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ ہماری خوشی کے لئے بھارت کو ناراض کر دے۔ہر امریکی صدر اپنے دورِ صدارت میں ایک یا دو بار بھارت کا دورہ ضرور کرتا ہے، جبکہ ہمارے ملک میں آتے آتے کئی دہائیاں لگ جاتی ہیں۔ پھر اس حقیقت سے بھی نظر نہیں چرائی جا سکتی کہ امریکہ ہمیشہ بھارت کے پاکستان کی مخالفت پر مبنی پروپیگنڈے کو تسلیم کر لیتا ہے،ہم پر دباؤ ڈالتا ہے، کشمیر میں بھارت کی جارحیت اور ظلم سامنے کی حقیقت ہے،مگر امریکہ ہمیں کہتا ہے کہ در اندازی بند کی جائے، کیونکہ وہ سوا ارب انسانوں کی مارکیٹ کھونا نہیں چاہتا۔
ہاں یہ بات ضرور ہے ہے کہ جوبائیڈن ایک سنجیدہ اور مدبرانسان ہیں،انہوں نے اپنی انتخابی مہم کے دوران بار بار یہ کہا ہے کہ اسلام کو بھی اتنی ہی اہمیت دیں گے، جتنی دیگر مذاہب کو حاصل ہے۔ مسلمانوں پر سے پابندیاں ہٹانے کا اعلان بھی کر رکھا ہے۔ پھر یہ بات بھی اچھی ہے کہ جوبائیڈن پاکستانی قیادت کو اچھی طرح جانتے ہیں اور اُن کی نواز شریف، آصف علی زرداری اور عمران خان سے گہری شناسائی بھی ہے، وہ کانگریس، سینیٹ اور پینٹاگان میں اگر چاہیں تو پاکستان کا مقدمہ بھی لڑ سکتے ہیں،لیکن بہتر یہی ہے کہ ماضی کے امریکی صدور کی طرح جوبائیڈن سے بھی زیادہ امیدیں نہ باندھی جائیں۔ہمیں اپنے مفادات پر توجہ رکھنی چاہئے۔ سی پیک ہمارے لئے گیم چینجر ہے اور جوبائیڈن کے دور میں بھی امریکہ اس کے خلاف سازشیں جاری رکھے گا۔ کوئی بھی امریکی صدر آ جائے،وہ ہمارا چین جیسا دوست ثابت نہیں ہو سکتا۔ یہ بات ہمیں پلے باندھ لینی چاہئے۔