تفسیر قرآن مجید 566

تفسیر قرآن مجید

تفسیر قرآن مجید
عرق ریزی کا نتیجہ ہے، فقہ و حدیث اور ادب و تاریخ میں تو بے شمار خواتین کے نام ماضی و حال کی تاریخ میں نمایاں طور پر ملتے ہیں، مگر عام طور پر لوگوں کے ذہن میں یہی ہوتا ہے کہ قرآن مجید کا مکمل ترجمہ اور مکمل تفسیر تو مردوں کا ہی کارنامہ رہا ہے، اور عورتیں اس سے قاصر رہی ہیں، لیکن واقعہ یہ ہے کہ اس باب میں بھی خواتین مردوں سے پیچھے نہیں ہیں، ”آسان ترجمہ و تفسیر قرآن” ایک خاتون اسلام کے قلم سے نکلا ہے، جس کی اپنی خصوصیات ہیں، محترمہ محمود النساء بیگم (1898ء۔1965ء) نے اپنے عہد کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے آسان اسلوب میں تفہیم قرآن کے لیے یہ خدمت انجام دی، یہ ترجمہ عرصہ سے ناپید تھا، ہندوستان کے مشہور کتب خانوں میں بھی نہ تھا، البتہ ایک تحقیق کے مطابق اس کا ایک نسخہ کراچی یونیورسٹی کی لائبریری میں تھا، بہرحال اس ترجمہ کو مزید قابل استفادہ بنا کر عصری معیار کے مطابق منظر عام پر لانے کی سعی مشکور جواں سال فاضل مفتی محمد سراج الہدی ندوی ازہری نے کی ہے جو ہر طرح لائق مبارکباد اور اہل علم کے شکریے کے مستحق ہیں۔ محترمہ محمود النساء ان معدود خواتین میں ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے اس خدمت کو ادا کرنے کی توفیق دی بقول محقق: ”ایک علمی و تحقیقی جائزے کے بعد راقم سطور یہ کہنے کی جرأت کر رہا ہے کہ ابھی تک مکمل قرآن کریم کے جتنے بھی ترجمے وتفاسیر کسی بھی زبان میں منظر عام پر آئے ہیں، وہ مرد حضرات کے قلم سے ہیں، ہاں! علمی دنیا میں ابھی تک تین خواتین کے نام آئے ہیں جنہوں نے پورے قرآن مجید کا ترجمہ وتفسیر پیش کیا ہے، جن میں سب سے پہلا نام محمود النساء بیگم کا ہے ، دوسرا نام زینب الغزالی کا ہے، اور تیسرا نام ثریا شحنہ کا ہے” (کتاب ہذا ج۱ص۹) لیکن صحیح بات یہ ہے کہ اس کے علاوہ بھی خواتین ہیں جنھوں نے یہ کارنامہ انجام دیا ہے، تلاش و جستجو اور علم و تحقیق کی حیثیت بحر ناپیدا کنار کی ہے، اس کی کوئی انتہا نہیں، چنانچہ ابھی ایک تازہ تحقیق ہوئی ہے، جو ہنوز منظر عام پر آنے کی منتظر ہے، البتہ ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی صاحب نے اس کا تعارف ضرور کرایا ہے، یہ تحقیق پیش کرنے والی بھی ایک خاتون ڈاکٹر ندیم سحر عنبریں ہیں، جنہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبۂ اسلامیات سے ”تفسیر و علوم قرآنی میں خواتین کی خدمات” پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ہے، ان کی تحقیق کے مطابق مذکورہ بالا تین خواتین کے علاوہ نائلہ ہشام صبری کی تفسیر المبصر لنور القرآن اردو سے16 جلدوں میں شائع ہوئی، ماجدہ فارس الشمری کی تفسیر التوضیح والبیان فی تفسیر أی من القرآن ۸جلدوں میں شائع ہوئی، فوقیہ ابراہیم الشرینیی کی تفسیر تیسیر التفسیر 4 جلدوں میں قاہرہ سے چھپی، ترکی زبان میں سمرا کورون نے تفسیر القاری 13 جلدوں میں تحریر کی، اس کے علاوہ اس تحقیق کے مطابق ایسی بھی متعدد خواتین ہیں جنہوں نے پورے قرآن کا ترجمہ کسی زبان سے دوسری زبان میں منتقل کرنے کا کام کیا ہے اور بعض کرایا بھی ہے، ابھی حال ہی میں ۱۱۲ صفحات پر مشتمل خاتون مذکور کی ایک کتاب ”قرآنیات میں خواتین کے تحقیقی مقالات” کے نام سے شائع ہوئی ہے، جو اس موضوع پر معلومات کا خزینہ ہے اور جس کی حیثیت ایک علمی فہرست کی ہے، اس میں خواتین کے 700 تحقیقی مقالات اور قرآن کی جزئی خدمات کا تذکرہ ہے۔ ظاہر ہے کہ قرآن مجید دنیا کی وہ واحد کتاب ہے جو اپنی اصل حالت پر باقی اور محفوظ ہے، اس پر تحقیقات کا نہ ختم ہونے والا ایک سلسلہ ہے، ایک طر ف معاندین اس کو موضوع بناتے نہیں تھکتے، عہد نبوی سے ہی وہ اس کی سحر بیانی اور اعجاز کو چیلنج کرنے لگے تھے، لیکن کل بھی انھوں نے منہ کی کھائی تھی اور آج بھی منہ کی کھاتے ہیں، عہد نبوی کے مشرکین تو اس کی اثر آفرینی اور ناقابل تسخیر اور عقلوں کو مسحور کرنے والے، دلوں پر تسلط جما لینے والے لفظی ومعنوی لسانی و بلاغی اعجاز سے واقف تھے، اسی لیے وہ آخری حربہ کے طور پر یہ کہتے تھے وقال الذین کفروا لا تسمعوا لہذا القرآن والغوا فیہ لعلکم تغلبون(فصلت:۲۶) (ترجمہ:اور کافروں نے (اپنے لوگوں، اپنے چیلوں اور اپنے عوام سے) کہا: اس قرآن کو مت سننا، اور اس کے باب میں غل مچاؤ، (اس کے خلاف مہم چلاؤ) تاکہ تم غالب آسکو)، بالکل ایسے ہی جیسے یہود دین اسلام اور نبی اسلام کی حقانیت سے اپنی کتاب کی بنا پر واقف تھے جس کو قرآن نے بیان کیا ہے الذین آتینٰھم الکتاب یعرفونہ کما یعرفون أبناء ھم، وإن فریقا منھم لیکتمون الحق وھم یعلمون (سورہ بقرہ:۱۴۶) (ترجمہ: جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی تھی، وہ اس کو (قبلہ کو اور رسول کو بھی) اس طرح پہچانتے ہیں جس طرح یہ اپنے بیٹوں کو جانتے پہچانتے ہیں، لیکن ان کا ایک گروہ جاننے بوجھنے کے باوجود حق کو چھپاتا ہے)، مگر بغض و عناد، احساس شکست اور احساس برتری کے پیش نظر وہ تورات کی واضح بشارتوں کی فاسد و لچر توجیہ کرتے تھے اور کہتے تھے کہ خبر تو ہماری کتاب میں دی گئی ہے مگر اس سے اس دین کا اتباع لازم نہیں بلکہ وہ کہتے تھے ”ملحمۃ کتبت علینا’ ہمارے لیے ایک جنگ مقدر کر دی گئی ہے اور یہ خبریں ڈٹ کر مقابلہ کرنے کے لئے دی گئی ہے، عرب کے ایک بڑے فصیح و بلیغ نکتہ داں و نکتہ سنج کی قرآن مجید کے بالمقابل بے بسی و بے کسی کو خود قرآن مجید نے اس طرح بیان کیا ہے کہ جب اس سے کچھ نہ بن پڑا تو اس نے کہا کہ یہ قرآن مجید تو جادو ہے انہ فکر وقدر فقتل کیف قدر، ثم قتل کیف قدرثم نظر، ثم عبس وبسر، ثم أدبر واستکبر فقال إن ھذا إلا سحر یوثر، إن ھذا إلا قول البشر (مدثر:۱۸ تا ۲۵) (ترجمہ: سوچ میں پڑا اور منصوبے بنائے، اس پر خدا کی مار پڑے، کیسے اندازے لگاتا رہا، پھر غور میں ڈوب گیا، اور منہ بسور لیا، اس کا چہرہ فق ہوگیا، پھر پیچھے پلٹا، اور تکبر کا رویہ اختیار کرتے ہوئے کہنے لگا: یہ ایک جادو ہے، جو کہیں سے نقل کیا جا رہا ہے، یہ تو انسان کا کلام ہے۔ ان ہی معاندین کی وراثت مستشرقین کے حصے میں آئی، ان سے جب کچھ نہ بن پڑا تو انھوں نے معنوی تحریف کی ایک مہم چھیڑی جس کے نتیجے میں خود مسلمانوں میں ایک جماعت وجود میں آئی جس نے قرآن مجید کے معانی و مفاہیم کی خود ساختہ اور بے بنیاد تاویلات و توجیہات کا بیڑا اٹھا لیا، لیکن قرآن مجید کی حفاظت کا ذمہ خود اللہ تعالیٰ نے لیا ہے، اور اس کے بیان کے لئے جو تعبیر اختیار کی ہے، انا نحن نزلنا الذکر وانہ لہ لحافظوں اس میں ”الذکر” کی تعبیر بہت وسیع، مختلف جہتوں پر حاوی ومحیط ہے، چنانچہ قرآن مجید اس طرح لفظی ومعنوی ہر طرح کی تحریفات سے محفوظ کر دیا گیا ہے، اس کے محافظین، شارحین، حفاظ اور اس کی نشر و شاعت کا کام کرنے والے سب اسی ارشاد الہی کا بیان ہیں، بشارت ہے محترمہ مرحومہ اور ان کے ان اقرباء کے لیے جنہوں نے ان کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے اس کی اشاعت کا دوبارہ فیصلہ کیا، بشارت ہے مفتی محمد سراج الہدی کے لئے جنہوں نے اپنی گونا گوں مصروفیات کے باوجود قرآن مجید کی یہ گراں قدر خدمت انجام دی۔ ایک خاتون کے قلم سے یہ تفسیر یا دیگر خواتین کی تفسیریں اور ان کی قرآنی خدمات اسلام میں خواتین کی تعلیمی تحریک اور ان کے علمی و تصنیفی و دعوتی ذوق کی غماز ہی نہیں بلکہ مسلمان عورت کو تعلیم و تصنیف و دعوت اور تعمیرِ سماج سے بہت دور قرار دینے والوں کے لیے ایک طاقتور جواب ہے، جو مدلل بھی ہے، عملی بھی ہے اور مکمل بھی، مجھے نہیں معلوم کہ اس موضوع پر کام ہوا ہے یا نہیں مگر ذہن میں آتا ہے کہ یہ بھی تحقیق کا اہم موضوع ہے، ممکن ہے کہ کوئی محقق ”مذہبی کتابوں کی تفہیم و تعبیر و تشریح میں خواتین کی خدمات۔ ایک تقابلی مطالعہ” پر قلم اٹھائے اور آئینہ دکھائے کہ دیگر مذاہب میں خواتین نے اس ضمن میں کیا خدمات انجام دی ہیں اور خواتین اسلام نے قرآنیات اور احادیث نبویہ کی کس قدر خدمت کی ہے، بالیقین یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ قرآن وسنت کی تعبیر و تفہیم و تشریح میں مسلمان عورت مرد سے پیچھے نہیں ہے اور اس کا بھی قوی امکان ہے کہ دیگر مذاہب میں اس کی حیثیت وہ نہ نظر آئے گی جو خاتون اسلام کی ہے، اس طرح اسلام میں خواتین کی تعلیمی تحریک اور ان کے علمی کام و مقام سے ہر طرح کا غبار صاف ہوجائے گا۔ جہاں تک اس ترجمہ و تفسیر کا تعلق ہے تو اس کا محرک محترمہ مرحومہ کے الفاظ میں یوں تھا: ”عربی نہ سمجھنے والوں کے لیے باترجمہ قرآن شریف بہت ہیں، مگر عربی کے احترام کی وجہ سے ہر کس وناکس کا ان کو چھونا یا پڑھنا، یا بے محل حمل و نقل، بے ادبی سے خالی نہیں، بے تکلفی سے ہر شخص پڑھ نہیں سکتا، دنیوی امور میں سینکڑوں دشوار گزار راستے انسان چلتا ہے، لیکن مذہبی امور میں ذرا سی مشکل مل جائے تو حیلہ جوئی کرتا ہے؛ اس لیے آسان سے آسان تر طریقہ سے مسلمانوں کی سمجھ میں اپنا مذہب آجائے، بس یہی گنہگار کا مقصد ہے، محض ان سہولتوں کا لحاظ کرنے اور نہ پڑھنے کے عذرات کو دور کرنے کی غرض سے یہ ترجمہ لکھا گیا ہے، چنانچہ اس کی اشاعت کے جواز کا فتوی دار القضاء و دار الافتاء دارالعلوم قادریہ عالیہ بدایوں سے حاصل کیا گیا۔ (مقدمہ مؤلفہ، بعنوان ”تمہید”)” یہ ترجمہ جس دور میں کیا گیا اس دور کے اعتبار سے اس کی زبان اور اس کا اسلوب نہایت شاندار ہے، ترجمہ بامحاورہ ہے، محترمہ نے ترجمہ کے دوران بین القوسین میں مفید وضاحتیں بھی کی ہیں، جگہ جگہ پڑھ کر اندازہ ہوا کہ ترجمہ کی زبان ایسی ہے کہ اگر قوسین کو حذف کر دیا جائے تو ان کی مختصر توضیحات کے سبب یہ ترجمہ بہترین ترجمانی قرار پائے گا اور تفہیم کے لیے مزید مفید ہوجائے گا، اس کے مختصر تفسیری حواشی حشو زوائد سے پاک اور عام انسان کی ضرورت کو ملحوظ رکھتے ہوئے تیار کیے گئے ہیں، ترجمہ کی اپنی مسلّم حیثیت ہونے کے باوجود وضاحت کی گئی ہے اور مطالعہ سے بخوبی اندازہ بھی ہوتا ہے کہ اس میں شیخ الہند کے ترجمہ کو اور اس پر موجود حواشی کو پیش نظر رکھا گیا ہے، گویا اس طرح اس کو شیخ الہند کے ترجمہ کی تسہیل قرار دیا جائے تو کوئی حرج نہیں، جبکہ خود شیخ الہند کا ترجمہ شاہ عبدالقادر ؒ کے ترجمہ کی تسہیل قرار دیا گیا ہے، اس طرح یہ ترجمہ شاہ عبدالقادر کے سلسلہ زریں کا تسلسل قرار پاتا ہے، اس ترجمہ کو خواتین کے تراجم و تفسیر میں صاحب تحقیق و تعلیق کے مطابق اولیت کا درجہ حاصل ہے، اس ترجمہ و تفسیر کی اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس کا انداز عام فہم ہے، ترجمہ بہت آسان اور قریب الفہم ہے، تفسیر نہایت مختصر اور ضروری سمجھ کر ہی کی گئی ہے، غیر ضروری باتوں سے عوام کو دور رکھنے کا رویہ اپنایا گیا ہے، ہر جگہ تفہیم کے پہلو کو ملحوظ رکھا گیا ہے، معتبر روایات سے استفادہ کیا گیا ہے، طوالت کا خوف نہ ہوتا تو بعض اقتباسات کے ذریعہ بات کو اور واضح کیا جاتا۔ اس اہم خدمت کو منظر عام پر لانے کے لئے تحقیق و تعلیق میں مفتی محمد سراج الہدی ندوی نے کن پہلوؤں سے کوشش کی ہے، ضروری ہے کہ اختصار کے ساتھ یہاں ان کی کدو کاوش او رجدو جہد کو بشکل نکات پیش کر دیا جائے: ۱۔ تفسیری حواشی میں حوالہ جات کا فقدان تھا، محقق نے حوالہ جات لکھنے کا اہتمام کیا ہے۔ ۲۔ بغرض ضرورت حواشی میں (ابو یحیی) کی صراحت کے ساتھ مفید اضافے کیے گئے ہیں۔ ۳۔ مؤلفہ کے حواشی میں وارد لفظیات کی ضرورت کے مطابق علحدہ وضاحت کی گئی ہے۔ ۴۔ سورتوں کا جامع اور مختصر تعارف پیش کیا ہے۔ ۵۔ اس کے طبع اول میں نہ متن قرآن شامل تھا اور نہ آیات کے نشانات پر نمبرات تھے، محقق نے جمہور کے مطابق متن شامل کیا اور متن و ترجمہ دونوں جگہ نمبرات درج کیے۔ ۶۔ کہیں کہیں عبارت میں کچھ ردو بدل اور اضافے بھی کیے ہیں، جو عبارت میں مزید حسن پیدا کرنے کی غرض سے کیے گئے۔ ۷۔ غیر مانوس الفاظ کو تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی۔ ۸۔ طویل حواشی کو آیات کے اعتبار سے الگ الگ کیا گیا ہے۔ ۹۔ بعض ناقص حواشی کی تکمیل کی گئی۔ ۱۰۔ بعض الفاظ کے قدیم رسم الخط کو اس عہد کے اعتبار سے تبدیل کیا گیا۔ ۱۱۔ طبع اول کے برخلاف رموز کتابت کا اہتمام کیا گیا۔ اس طرح یہ خدمت فاضل گرامی نے انجام دی، البتہ اس میں سب سے اہم کام حواشی و تشریحات میں حوالہ جات رقم کرنے کا کیا ہے، جس سے اس کے استناد و اہمیت میں مزید اضافہ ہوگیا ہے، باقی جن پہلوؤں سے بھی انھوں نے محنت کی ہے وہ سب اہم ہیں، امید ہے کہ یہ ترجمہ عام ہوگا اور اب دوبارہ گمنامی کی دنیا میں نہیں جائے گا بلکہ اس کے دیگر ایڈیشن بھی نکلیں گے، یہ ترجمہ و تفسیر دو جلدوں پر مشتمل ہے، پہلی جلد میں 688صفحات ہیں، سورہ فاتحہ تا سورہ کہف اسی جلد اول میں ہے، جبکہ دوسری جلد 996 صفحات پر مشتمل ہے، اس میں سورہ مریم سے سورۃ الناس تک کا ترجمہ و تفسیر ہے، ابتدا میں تقریبا 60 صفحات ایسے ہیں جن میں محقق کا مقدمہ، مولفہ کا تعارف اور پھر ان کا مقدمہ ہے، اس کے علاوہ اس پر نامور شخصیات کے مقدمات، تاثرات اور تقریظات ہیں، ابتدا میں مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب کا علمی و موضوعی مقدمہ ہے اور پھر ایک طویل سلسلہ ہے، تقریباً دس شخصیات کی تحریریں اور تقریظات و تاثرات ہیں، ممکن ہے کہ یہ طریقہ مفید ومستحسن ہو مگر راقم سطور اس کو علمی ذوق وعلمی منہج کے عین مطابق نہیں سمجھتا، بالخصوص کتاب کی ابتدا میں شامل تحریریں اگر علمی اور موضوعی نہ ہوں تو محض تبریک و تقدیس اور اعتماد و استناد کے لیے اس قدر کثرت و تعدد نہ قدیم کتب میں دیکھا گیاہے اور نہ دور جدید کے علمی منہج ومزاج کے مطابق ہے، ہونا یہ چاہیے کہ ضروری تعارف و تمہید کے علاوہ خود صاحب کتاب وصاحب تعلیق وحواشی کا تفصیلی و علمی مقدمہ ہو، پھر بھی ضرورت ہو تو کسی ایک دو علمی شخصیت کا موضوعی وعلمی مقدمہ مزید شامل کر لیا جائے، بقیہ اگر ضرورت ہو تو تاثرات و تقریظات اور تعارفی مضامین و تبصروں کو علحدہ ایک رسالے میں شائع کر دیا جائے۔