تفسیر القرآن الکریم 276

تفسیر القرآن – سورۃ البقرۃ ، آیۃ:40

تفسیر القرآن – سورۃ البقرۃ ، آیۃ:40
بنی اسرائیل سے خطاب
ان آیتوں میں بنی اسرائیل کو اسلام قبول کرنے اورحضور ﷺ کی تابعداری کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور انتہائی لطیف پیرایہ میں انہیں سمجھایا گیا ہے کہ تم ایک پیغمبر کی اولاد میں سے ہو تمہارے ہاتھوں میں کتاب اللہ موجود ہے اور قرآن اس کی تصدیق کر رہا ہے پھر تمہیں نہیں چاہئے کہ سب سے پہلے انکار تمہیں سے شروع ہو۔ اسرائیل حضرت یعقوب ؑ کا نام تھا تو گویا ان سے کہا جاتا ہے کہ تم میرے صالح اور فرمانبردار بندے کی اولاد ہو۔ تمہیں چاہیے کہ اپنے جدِامجد کی طرح حق کی تابعداری میں لگ جاؤ۔ جیسے کہا جاتا ہے کہ تم سخی کے لڑکے ہو سخاوت میں آگے بڑھو تم پہلوان کی اولاد ہو داد شجاعت دو۔ تم عالم کے بچے ہو علم میں کمال پیدا کرو۔ دوسری جگہ اسی طرز کلام کو اسی طرح ادا کیا گیا ہے۔ آیت (ذُرِّيَّــةَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍ ۭ اِنَّهٗ كَانَ عَبْدًا شَكُوْرًا) 17۔ الاسرآء :3) یعنی ہمارے شکر گزار بندے حضرت نوح کے ساتھ جنہیں ہم نے ایک عالمگیر طوفان سے بچایا تھا یہ ان کی اولاد ہے ایک حدیث میں ہے کہ یہودیوں کی ایک جماعت سے حضور ﷺ نے دریافت کیا کہ کیا تم نہیں جانتے کہ اسرائیل حضرت یعقوب کا نام تھا کا وہ سب قسم کھا کر کہتے ہیں کہ واللہ یہ سچ ہے حضور ﷺ نے کہا اے اللہ تو گواہ رہ۔ اسرائیل کے لفظی معنی عبداللہ کے ہیں ان نعمتوں کو یاد دلایا جاتا ہے جو قدرت کاملہ کی بڑی بڑی نشانیاں تھیں۔ مثلاً پتھر سے نہروں کو جاری کرنا۔ من وسلوی اتارنا۔ فرعونیوں سے آزاد کرنا۔ انہیں میں سے انبیاء اور رسولوں کو مبعوث کرنا۔ ان میں سلطنت اور بادشاہی عطا فرمانا وغیرہ ان کو ہدایت دی جاتی ہے میرے وعدوں کو پورا کرو یعنی میں نے جو عہد تم سے لیا تھا کہ جب محمد ﷺ تمہارے پاس آئیں اور ان پر میری کتاب قرآن کریم نازل ہو تو تم اس پر اور آپ کی ذات پر ایمان لانا۔ وہ تمہارے بوجھ ہلکے کریں گے اور تمہاری زنجیریں توڑ دیں گے اور تمہارے طوق اتار دیں گے اور میرا وعدہ بھی پورا ہوجائے گا کہ میں تمہیں اس دین کے سخت احکام کے متبادل آسان دین دوں گا۔ دوسری جگہ اس کا بیان اس طرح ہوتا ہے آیت (ۭوَقَال اللّٰهُ اِنِّىْ مَعَكُمْ ۭلَىِٕنْ اَقَمْــتُمُ الصَّلٰوةَ وَاٰتَيْتُمُ الزَّكٰوةَ وَاٰمَنْتُمْ بِرُسُلِيْ وَعَزَّرْتُمُوْهُمْ وَاَقْرَضْتُمُ اللّٰهَ قَرْضًا حَسَـنًا) 5۔ المائدہ :12) یعنی اگر تم نمازوں کو قائم کرو گے زکوٰۃ رہو گے میرے رسولوں کی ہدایت مانتے رہو گے مجھے اچھا قرضہ دیتے رہو گے تو میں تمہاری برائیاں دور کر دونگا اور تمہیں بہتی ہوئی نہروں والی جنت میں داخل کروں گا۔ یہ مطلب بھی بیان کیا گیا ہے کہ توراۃ میں وعدہ کیا گیا تھا کہ میں حضرت اسماعیل ؑ کی اولاد میں سے ایک اتنا بڑا عظیم الشان پیغمبر پیدا کر دونگا جس کی تابعداری تمام مخلوق پر فرض ہوگی ان کے تابعداروں کو بخشوں گا انہیں جنت میں داخل کروں گا اور دوہرا اجر دوں گا۔ حضرت امام رازی نے اپنی تفسیر میں بڑے بڑے انبیاء (علیہم السلام) سے آپ کی بابت پیشنگوئی نقل کی ہے یہ بھی مروی ہے کہ اللہ کا عہد اسلام کو ماننا اور اس پر عمل کرنا تھا۔ اللہ کا اپنے عہد کو پورا کرنا ان سے خوش ہونا اور جنت عطا فرمانا ہے مزید فرمایا مجھ سے ڈرو ایسا نہ ہو جو عذاب تم سے پہلے لوگوں پر نازل ہوئے کہیں تم پر بھی نہ آجائیں۔ اس لطیف پیرایہ کو بھی ملاحظہ فرمائیے کہ ترغیب کے بیان کے ساتھ ہی کس طرح ترہیب کے بیان کو ملحق کردیا گیا ہے۔ رغبت و رہبت دونوں جمع کر کے اتباع حق اور نبوت محمد ﷺ کی دعوت دی گئی۔ قرآن کے ساتھ نصیحت حاصل کرنے اس کے بتلائے ہوئے احکام کو ماننے اور اس کے روکے ہوئے کاموں سے رک جانے کی ہدایت کی گئی۔ اسی لئے اس کے بعد ہی فرمایا کہ تم اس قرآن حکیم پر ایمان لاؤ جو تمہاری کتاب کی بھی تصدیق اور تائید کرتا ہے جسے لے کر وہ نبی آئے ہیں جو امی ہیں عربی ہیں، جو بشیر ہیں، جو نذیر ہیں، جو سراج منیر ہیں جن کا اسم شریف محمد ہے ﷺ۔ جو توراۃ کی سچائی کی دلیل تھی اس لئے کہا گیا کہ وہ تمہارے ہاتھوں میں موجود کتابوں کی تصدیق کرتے ہیں۔ علم ہونے کے باوجود تم ہی سب سے پہلے انکار نہ کرو بعض کہتے ہیں ” بہ ” کی ضمیر کا مرجع قرآن ہے اور پہلے آ بھی چکا ہے بما انزلت اور دونوں قول درحقیقت سچے اور ایک ہی ہیں۔ قرآن کو ماننا رسول کو ماننا ہے اور رسول ﷺ کی تصدیق قرآن کی تصدیق ہے۔ اول کافر سے مراد بنی اسرائیل کے اولین منکر ہیں کیونکہ کفار قریش بھی انکار اور کفر کرچکے تھے۔ لہذا بنی اسرائیل کا انکار اہل کتاب میں سے پہلی جماعت کا انکار تھا اس لئے انہیں اول کافر کہا گیا ان کے پاس وہ علم تھا جو دوسروں کے پاس نہ تھا۔ میری آیتوں کے بدلے تھوڑا مول نہ لو یعنی دنیا کے بدلے جو قلیل اور فانی ہے میری آیات پر ایمان لانا اور میرے رسول ﷺ کی تصدیق کرنا نہ چھوڑو اگرچہ دنیا ساری کی ساری بھی مل جائے جب بھی وہ آخرت کے مقابلہ میں تھوڑی بہت تھوڑی ہے اور یہ خود ان کی کتابوں میں بھی موجود ہے۔ سنن ابو داؤد میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں جو شخص اس علم کو جس سے اللہ کی رضامندی حاصل ہوئی ہے اس لئے سیکھے کہ اس سے دنیا کمائے وہ قیامت کے روز جنت کی خوشبو تک نہ پائے گا علم سکھانے کی اجرت بغیر مقرر کئے ہوئے لینا جائز ہے اسی طرح علم سکھانے والے علماء کو بیت المال سے لینا بھی جائز ہے تاکہ وہ خوش حال رہ سکیں اور اپنی ضروریات پوری کرسکیں۔ اگر بیت المال سے کچھ مال نہ ملتا ہو اور علم سکھانے کی وجہ سے کوئی کام دھندا بھی نہ کرسکتے ہوں تو پھر اجرت مقرر کر کے لینا بھی جائز ہے اور امام مالک امام شافعی، امام احمد اور جمہور علماء کا یہی مذہب ہے اس کی دلیل وہ حدیث بھی ہے جو صحیح بخاری شریف میں حضرت ابو سعید خدری کی روایت سے ہے کہ انہوں نے اجرت مقرر کرلی اور ایک سانپ کے کاٹے ہوئے شخص پر قرآن پڑھ کر دم کیا جب حضور ﷺ کے سامنے یہ قصہ پیش ہوا تو آپ نے فرمایا حدیث (ان احق ما اخذتم علیہ اجرا کتاب اللہ) یعنی جن چیزوں پر تم اجرت لے سکتے ہو ان سب میں زیادہ حقدار کتاب اللہ ہے دوسری مطول حدیث میں ہے کہ ایک شخص کا نکاح ایک عورت سے آپ کردیتے ہیں اور فرماتے ہیں حدیث (زوجتکھا بما معک من القران) میں نے اس کو تیری زوجیت میں دیا اور تو اسے قرآن حکیم جو تجھے یاد ہے اسے بطور حق مر یاد کرا دے ابو داؤد کی ایک حدیث میں ہے ایک شخص نے اہل صفہ میں سے کسی کو کچھ قرآن سکھایا اس نے اسے ایک کمان بطور ہدیہ دی اس نے رسول اللہ ﷺ سے مسئلہ پوچھا۔ آپ نے فرمایا اگر تجھے آگ کی کمان لینی ہے تو اسے لے چناچہ اس نے اسے چھوڑ دیا۔ حضرت ابی بن کعب ﷺ سے بھی ایسی ہی ایک مرفوع حدیث مروی ہے۔ ان دونوں احادیث کا مطلب یہ ہے کہ جب اس نے خالص اللہ کے واسطے کی نیت سے سکھایا پھر اس پر تحفہ اور ہدیہ لے کر اپنے ثواب کو کھونے کی کیا ضرورت ہے ؟ اور جبکہ شروع ہی سے اجرت پر تعلیم دی ہے تو پھر بلاشک و شبہ جائز ہے جیسے اوپر کی دونوں احادیث میں بیان ہوچکا ہے۔ واللہ اعلم۔ صرف اللہ ہی ہے ڈرنے کے یہ معنی ہیں کہ اللہ کی رحمت کی امید پر اس کی عبادت و اطاعت میں لگا ہے اور اس کے عذابوں سے ڈر کر اس کی نافرمانیوں کو چھوڑ دے اور دونوں حالتوں میں اپنے رب کی طرف سے دئیے گئے نور پر گامزن رہے۔ غرض اس جملہ سے انہیں خوف دلایا گیا کہ وہ دنیاوی لالچ میں آ کر حضور ﷺ کی نبوت کی تصدیق کو جو اس کی کتابوں میں ہے نہ چھپائیں اور دنیوی ریاست کی طمع پر آپ کی مخالفت پر آمادہ نہ ہوں بلکہ رب سے ڈر کر اظہار حق کرتے رہیں۔