تعلیم اور معاشیات 310

تعلیم اور معاشیات

گزشتہ آرٹیکل میں میں نے پاکستان میںتعلیم کی حالت زارکاذکر کیاتھا۔لوگ شرح خواندگی کے اعدادوشمار دیکھ کر حیران ہوئے تھے۔یہ حیرانی اس وقت بڑھ جاتی ہے۔جب اردگرد کے ممالک کی شرح خواندگی دیکھی جاتی ہے۔ایسالگتا ہے کہ ہم اس شعبہ میں پیچھے کی طرف جارہے ہیں۔معیارتعلیم کاذکر بالکل مختصر ساتھا۔ترقی یافتہ حتیٰ کہ ایشیائی اقوام سے بھی ہم معیار تعلیم میں پیچھے رہ گئے ہیں۔تعلیم پرخرچ ہونے والی قومی آمدنی کاذکر ہوا۔جوبہت ہی کم تھی۔اس مضمون پر کئی دوستوں نے تبصرے کئے اور مختلف تجاویز دیں۔کہ معیار بڑھانے کاکام نیچے سے اوپر کی طرف ہو یااوپر سے نیچے کی طرف یادونوں کام ہم مالیات کی موجودگی میں بیک وقت شروع کرسکے ہیں۔
ایک صاحب کاتبصرہ تھاکہ ہم تعلیمی پسماندگی کے درست حالات بیان نہیں کرتے یاکرنانہیں چاہتے۔حضرات تعلیم ایک وسیع موضوع ہے۔بہت پھیلاہوا۔اس کے بے شمار پہلو ہیں۔دنیا کے مختلف ملکوں میں تعلیم کی صورت حال بھی مختلف ہے۔میں اس موضوع پر مطالعہ کررہاتھا۔میرے سامنے برطانوی مفکر اورفلسفی برٹرینڈ رسل کی ایک تحریر آگئی۔میں چاہتا ہوں کہ تعلیم اورمعاشیات کے موضوع پربرطانوی فلسفی کے افکار کامطالعہ دوست بھی کریں۔یہ یاد رہے کہ برٹرینڈرسل سیکولر ذہن کا تھا۔اس کی پرورش اگرچہ عیسائی معاشرے میں ہوئی۔لیکن وہ خود ہی کہتاہے کہ وہ خود عیسائی نہ بن سکا۔میں اسکی تحریر کااختصار پیش کرونگا۔رسل نے اپنی تحریر میں تعلیم پرمعاشی عوامل کااثرورسوخ واضح کیا ہے۔ہم پاکستانی بھی اکثر یہ بات کرتے رہتے ہیں کہ حکومتیں تعلیم کے لئے بہت کم مالیات فراہم کرتی ہیں۔اس لئے شرح خواندگی کم اورمعیار تعلیم اونچا نہیں ہوسکا۔اس کی تحریر میں برطانیہ اوریورپ کی مثالیں ہونا تولازمی ہے۔کیتھولک مذہب کابھی ذکر آتا ہے۔تعلیم پرتحریروں کا سلسلہ آئندہ بھی جار ی رہے گا۔ہم آئندہ اسلامی نقطہ نگاہ سے بھی جائزہ لیں گے اورپاکستان کے معروضی حالات کاذکر بھی کریں گے ۔کیاکوتاہی صرف حکومتوں کی ہے۔یامعاشرے کے باقی ماندہ ماثر طبقات بھی ذمہ دار ہیں۔رسل کی تحریر پیش کرنے کا مطلب یہ ہے کہ دوسرے ممالک کے مفکرین تعلیم کوکس نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں۔لیجئے رسل کی تحریر کااختصار پیش خدمت ہے۔
“بعض لوگوں کی رائے یہ ہے کہ نہ صرف تعلیم بلکہ دوسرے شعبوں میں بھی جوخرابیاں پائی جاتی ہیں۔ان کامنبع ناقص معاشی نظام ہے۔میں اس رائے کودرست نہیں سمجھتا۔میرااپناخیال یہ ہے کہ ہرقسم کے منصفانہ معاشی نظام میں حماقت اورہوس اقتدار کی کچھ نہ کچھ مقدار رہ ہی جاتی ہے اور وہ ایک کام نظام تعلیم میں رکاوٹ بنتی ہے۔خیر،اس کے باوجود تعلیم پر معاشی عوامل کااثر ورسوخ بہت گہراہوتا ہے۔ضروری نہیں کہ یہ اثرورسوخ سطح پر بھی ہمیشہ واضح ہو۔عہد تاریک کے بعد جب یورپی تعلیم کااحیاء ہوا تو وہ پادریوں کاامتیازی حق تھی۔آج بھی اس میں بعض ایسی خصوصیات پائی جاتی ہیں جو اس کی مذہبی اوریجن کی یادگار ہیں۔نشاۃ ثانیہ سے پہلے عام امراء جاہل ہواکرتے تھے۔لیکن پادری اورخاص طورپر باقاعدہ پادری علم پرعبور رکھتے تھے۔لاطینی زبان کاکسی قدرعلم ان پادریوں کی پیشہ وارانہ ضرورت تھی۔گیارہویں،بارہویں اورتیرہویں صدیوں میں خاص طورپر سسلی اوراسپین کے ہسپانوی عربوں کے ساتھ تعلق علم کا احیا کابڑا سبب بنا۔ان رابطوں کے اسباب زیادہ ترمعاشی تھے۔تاہم علم پر اس کے اثرات چند افراد کی سخت گیر متعصب عقلی جستجو کانتیجہ سمجھنا چاہئے۔مدرسی فلسفہ اورقرون وسطیٰ کے عمومی علوم پادریوں کی ایک چھوٹی جماعت کے جوش وخروش کانتیجہ تھے۔ان پادریوں میں سے اکثر کواپنی محنت کادنیاوی پھل کم ہی ملتا تھا۔جب کہ بہت سے پادری اپنے قیاس وخیال کی جرات کے سبب گھاٹے میں رہتے تھے۔اس تحریک کے لئے راہبوں اوردرویشوں کاوجود ضروری تھا۔تاہم اس کاآغاز محض علم کی پیاس سے ہوا۔کسی قدر بعد میں شروع ہونے والی عام امرا کی تعلیم کے بارے میں بھی یہی کچھ کہا جاسکتا ہے۔ہم کہہ سکتے ہیں کہ سیکولر ثقافت کاآغاز شہنشاہ فریڈرک روم سے ہوا۔
غفوان شبات ہی سے اس کامیل جول مسلمانوں سے رہاتھا۔اس کی علم کی خواہش بے پناہ تھی۔اٹلی میں پندرہویں صدی کے دوران یونانی زبان کااحیاء اوردربارثقافت کے آغاز کوعلم برائے علم کی محبت سے منسوب کیاجاسکتا ہے۔یہ سچ ہے کہ جلد ہی یہ محرک اوجھل ہوگیا۔تاہم لاطینی اورکسی قدر یونی زبان کاعلم شرفا کاامتیازی نشان بن گیا۔تب اسے لڑکوں پر ٹھونسا جانے لگا۔نتیجہ یہ ہوا کہ لوگ اس کے ذوق سے محروم ہوں گے۔اس کے باوجود اس زمانے میں بھی کلاسیکی علم روپیہ پیسہ کمانے کے بجائے شرافت ونجابت کے اظہار کے لئے حاصل کیاجاتاتھا۔راہب کی طرح نواب بھی فرصتوں سے مالامال ہوتے تھے اوراگر وہ چاہتے توکسی افادی مقصد کے بغیر محض خوشی ولطف کے لئے علم حاصل کرسکتے تھے۔یونیورسٹیوں میں اور میرے جیسے چند پرانے طرز کے فلسفیوں کے ہاں علم کو بجائے خود پسندیدہ تصور کرنے کا خیال ابھی تک موجود ہے۔تاہم بہت سے ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں جنہوں نے تعلیم کے مقصد کے بارے میں مروجہ تصور کوپوری طرح بدل کر رکھ دیاہے۔ان واقعات میں سے اہم ترین عالمگیر لازمی تعلیم پر اصرار ہے۔دیکھا یہ گیا کہ اگر لڑکوں اور لڑکیوں کولکھنا پڑھنا سکھادیا جائے تو وہ بہتر شہری اوربہترکارکن بن سکتے ہیں۔یہ بجا ہے کہ مدرسی روایت نے اس مقصد کے حصول میں سیاست دانوں کی راہ روکی۔ابتدائی مدرسوں میں تعلیم ابھی تک کم وبیش مکمل طور پرکتابی ہے۔
حالانکہ یہ کہاجاسکتا ہے کہ نیم عملی تربیت سیاست دانوں کے مقصد کوبہتر طورپر پورا کرسکتی تھی۔اس کے باوجود ابتدائی مدرسوں نے مجموعی طورپر ان مقاصد کی تکمیل کی ہے جن کی ان سے توقع کی گئی تھی اوراب ہرمہذب ملک میں وہ حکومت کاایک لازمی آلہ کار بن چکے ہیں۔تعلیم کے افادی نقطہ نظرپرزور دینے والا ایک اورعنصر سائنس اورصنعت کی ترقی ہے۔آج کل فنی امور سائنسی علم کاتقاضا کرتے ہیں اورنئی ایجادات دولت اور قومی عظمت دونوں کا وسیلہ بن چکی ہیں۔اگرافادی امور کوتعلیم پرغالب رہنا ہے توپھر سائنس اورصنعتی تکنیک پرموجودہ راج سے زیادہ زور دیناہوگا۔اسی طرح ادبی ثقافت کی اہمیت کم ہوجائے گی۔اب اگرچہ یہ تبدیلی مکمل طورپر رونما نہیں ہوئی ہے،لیکن مرحلہ وار یہ تبدیلی پیدا ہوتی جارہی ہے۔یہ عمل جلد ہی ممکن ہوجائے گا۔تعلیم پرمعاشی اسباب کے اثرات کاذکرچار عنوانات کے تحت ہوسکتاہے۔ہم ان پر ترتیب واربحث کریں گے۔
1۔کسی ریاست کے معاشی حالات کے حوالے سے اس رقم کاتعین ہوتا ہے جووہ تعلیم پرخرچ کرسکتی ہے۔گویا ہرملک میں یہ رقم مختلف ہوتی ہے۔تاہم اگرصنعتی انقلاب کی وجہ سے مغربی اقوام خوشحال نہ ہوچکی ہوتیں تو سب لوگوں کی تعلیم کاخواب پورا نہ ہوتا۔کسی قوم میں علم کی اس سے زیادہ قدرنہ تھی جتنی کہ چین میں اس وقت تھی جب کہ اس نے مغربی معیاروں کو نہ اپنایا تھا۔تاہم چین اس قدرامیر ملک نہ تھا کہ وہ اپنی آبادی کے پانچ فیصد سے زیادہ افراد کو لکھناپڑھنا سکھاسکتا۔1780ء بلکہ1830ء کے انگلستان میں بھی یہ بات بے حد دشوارہوتی کہ تمام لوگوں کی تعلیمی ضروریات پورے کرنے کے لئے نئے ٹیکس لگائے جاتے۔آج کے زمانے میں بھی چند مستشنیات کے سوانرسری سکولوں کااہتمام کرنا محال ہی سمجھا جاتا ہے۔دوسری طرف سکول چھوڑنے کی عمر میں اضافے کومعاشی مشکلات میں اضافے کاسبب نہیں سمجھاجاتا۔بے روزگاری اورمعاشی تحفظ پسندی کے باعث عملی افراد اس امرپر متفق ہیں کہ ہرشخص کاکام باقی تمام لوگوں کوغریب تربناتا ہے۔لہذا معاشرے کے لئے مفید بات یہ ہے کہ اس کے کسی ایک حصے کوپیداواری روزگار سے محروم رکھاجائے۔اس بنیاد پر یہ بھی سمجھا جاتا ہے کہ اگربچوں کوزیادہ مدت تک مدرسوں میں رکھا جائے توہم سب زیادہ خوشحال ہوجائیں گے۔انگلستان میں سکول کی مدت میں اضافے کی راہ میں رکاوٹ معاشی نہیں بلکہ مذہبی ہے۔انگلستان کے مختلف مذہبی فرقے اس معاملے میں متفق نہیں ہوسکے ہیں کہ لڑکوں اورلڑکیوں کوکس قسم کے خیالات کے ساتھ عملی دنیا میں بھیجا جائے۔
2۔تعلیم کاایک مقصد مجموعی پیداوار میں اضافہ کرنا ہے۔پوری آبادی کوتعلیم دینے کاتصور پیش کرنے والوں کے ذہن میں غالباًیہ سب سے بڑا محرک تھا۔اس میںشک نہیں کہ یہ ایک اچھا محرک ہے۔پڑھنے لکھنے کے قابل آبادی جاہل آبادی کے مقابلے میں زیادہ باصلاحیت ہوتی ہے۔تاہم پیداوار میں زیادہ سے زیادہ اضافہ کرنے کامحرک زیادہ براہ راست طورپرفنی تعلیم میں اضافے اورساتھ ہی ساتھ سائنسی تربیت وتحقیق بڑھانے پرزور دیتا ہے۔اگرصحیح مالی تخمینے حکومت برطانیہ کے طرز عمل پر اثرانداز ہوتے تو وہ تحقیقی امور پرموجودہ رقم سے کہیں زیادہ رقم خرچ کرتی۔ایسانہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اکثر اعلیٰ سرکاری حکام نے کلاسیکی اورروایتی طرز کی تعلیم حاصل کررکھی ہے اور وہ ہراس شے سے بے خبر ہیں جو کہ کسی جدید شخص کوجاننا چاہئے۔طبی تحقیق کی مثال لیجئے۔ایک عام شہری زندگی کے ابتدائی اورآخری ایام میں معاشرے پربوجھ ہوتا ہے۔جب کہ کام کرنے کے قابل برسوں میں وہ معاشرے کے لئے مفید ہوتا ہے۔اچھا،اب معاشی حشرات الارض کے علم کوہی لیجئے جوکہ زراعت کے بہت سے شعبوں میں فیصلہ کن اہمیت کاحامل ہوتاہے۔اس موضوع پرحکومت کے قلیل خرچ کوفضول خرچی ہی سمجھا جاتا ہے۔صورت حال یہ ہے کہ جن لوگوں کوتعلیم یافتہ قرار دیاجاتا ہے،ان کی اکثریت کوبھی ابھی تک سائنسی علم کی افادیت کااحساس نہیں۔جب ان لوگوں کویہ احساس ہوجائے گاتو ہم نہ صرف سائنسی تحقیق وتعلیم کے لئے عطیات میںبڑے بڑے اضافوں بلکہ ثانوی تعلیم کے مدرسوں کے نصاب میں سائنس کے لئے زیادہ گنجائش کی توقع بھی کرسکیں گے۔
3۔دولت کی تقسیم کانظام تعلیم پرگہرے طورپر اثر انداز ہوتا ہے۔یوں کہئے کہ اس کے اثرات ان دوعوامل سے بھی زیادہ ہوتے ہیں جن کا ابھی ہم نے ذکر کیا ہے۔دولت کی تقسیم کانظام مختلف طبقوں میں معاشرے کی تقسیم کاتعین کرتا ہے۔اب جہاں مختلف طبقے موجود ہوں،وہاں ہرطبقہ مختلف قسم کی تعلیم حاصل کرتا ہے۔سرمایہ دار سماج میںمزدور سب سے کم تعلیم حاصل کرتے ہیں اورجولوگ تعلیم یافتہ پیشے کواختیار کرناچاہیں انہیں زیادہ سے زیادہ تعلیم حاصل کرناہوتی ہے۔اس طرح جولوگ”شرفا”میں شامل ہونے کے خواہش مند ہوں یا تاجربننا چاہیں ان کے لئے درمیانی قسم کی تعلیم موزوں سمجھی جاتی ہے۔ایک عام اصول یہ ہے کہ بچوں کا سماجی طبقہ وہی ہوگا جو ان کے والدین کاہے۔لیکن جو بچے غیرمعمولی اہلیت کے سبب تعلیمی وظائف حاصل کرلیتے ہیں،وہ محنت کش طبقے سے نکل کرپیشہ ورطبقے میں شامل ہوسکتے ہیں۔انگلستان میں اس طریقے سے محنت کش گھرانوں میں جنم لینے والے ذہین ترین بچوں کوسیاسی اعتبار سے ناکارہ بنادیاجاتا ہے اوروہ اس طبقے کی حمایت کرنے سے دست بردار ہوجاتے ہیں۔جس میں انہوں نے جنم لیاتھا۔طبقوں کے درمیان اس لچک کی بناپر دولت پرست معاشرہ اشرافی معاشرے سے مختلف ہے اوریہی وجہ ہے کہ اشرافی معاشرے کے مقابلے میں دولت پرست معاشرے میں انقلاب برپا ہونے کاامکان کم ہوتاہے۔جس منصفانہ معاشی نظام کو اس کے مخالف سرمایہ دارانہ قرار دیتے ہیں،وہ ایک پیچیدہ نظام ہے۔ہمارے مقاصد کے حوالے سے ضروری ہے کہ اس کاکسی قدر تجزیہ کیاجائے۔میری رائے میں جدید دنیا ودولت کے تین بڑے وسائل ہیں۔
اول زمین کی ملکیت اورفطری اجارہ داری،دوم پدری خاندانی نظام میں وراثت اورسوم کاروبار۔یہ تینوں باہم اس طرح مربوط ہیں کہ انہیں ایک دوسرے سے جدانہیں کیاجاسکے۔ہنری جارج ان میں سے پہلے وسیلے کوختم کرنے کاخواہش مند تھا،جب کہ باقی دو کوجوں کاتوں چھوڑ دینا چاہتاتھا۔عیسائیوں کے کیتھولک دنیاوی مذہبی نظام میں پہلا وسیلہ موجود ہے اورتیسرے کاامکان بھی ہوسکتا ہے۔لیکن دوسرے کے لئے اس میں کوئی جگہ نہیں ہے۔سامی نسل کے بہت سے مخالفین،جیساکہ ان کی مخالفانہ تنقید سے ظاہر ہوتا ہے،پہلے اوردوسرے وسیلے کوبرقرار رکھنے اور تیسرے کوختم کرنے کے درپے ہیں۔میراخیال یہ ہے کہ زمین کی ملکیت اوروراثت کے رواج چونکہ اشرافی زمانے کی باقیات ہیں اس لئے کاروبار کے مقابلے میں ان پراشتراکی نکتہ چینی زیادہ ہوسکتی ہے۔جہاں صرف تیسرا وسیلہ کامیابی کاواحد ذریعہ،جیسا کہ مثلاًہنری فورڈ کامعاملہ ہے۔تو یہ بات مشکوک ہی رہتی ہے کہ آیا اس سے مجموعی طورپر معاشرے کوفائدے کے مساوی نقصان بھی پہنچتا ہے۔اس بارے میں کوئی شبہ نہیں کہ عام مفہوم میں طبقے کاتصور وراثت کے بغیر پیدانہیں ہوسکتا۔خاص طورپر تعلیم کے معاملے میں اہم بات یہ ہے کہ خوشحالی گھرانوں کے بچوں کو جوتعلیم دی جاتی ہے وہ مزدوروں کے بچوں کو ملنے والی تعلیم سے مختلف ہوتی ہے۔امریکہ میں مالدار لوگوں کاطبقہ یورپ کے امیروں کے مقابلے میں اشرافی باقیات سے کم متاثر ہے۔امریکہ کایہ طبقہ کاروبار کوعموماًدولت کابڑا وسیلہ خیال کرتا ہے۔نوجوانوں پر اس ذہنیت کاجواثر پڑتا ہے وہ اس معاشرے میں پڑنے والے اثرسے مختلف ہوتا ہے جس میں زمین کی ملکیت اوروراثت دولت کے سماجی طورپر نمایاں وسائل ہوں۔یہ انفرادی جدوجہد پرزوردیتا ہے اور اس حد تک قابل تعریف بھی ہے۔
لیکن جدوجہد پریہ زور مسابقت کی ایک صورت کے طورپر دیاجاتا ہے۔اس لحاظ سے یہ سماجی دشمن ہے۔زیادہ منصفانہ معاشی نظام میں موجودہ قسم کی مسابقت کے لئے جگہ نہ ہوگی۔نہ ہی اس میں موجود ہ قسم کے طبقات ہوںگے۔یہ درست ہے کہ اس نظام میں کسی نہ کسی قسم کا مقابلہ باقی رہے گا اورکسی نہ کسی طرح کے طبقات بھی موجود رہیں گے۔لیکن ان دونوں کی صورت اس سے بہت زیادہ مختلف ہوگی جس سے ہم شناسا ہیں۔منصفانہ معاشرے میں قوت واقتدار کے بعض عہدے ہوں گے اورایسے عہدے بھی ہوں گے جن پرکام کرناغیر معمولی طورپرخوش گوار ہوگا۔ظاہر ہے کہ جولوگ اس قسم کے عہدوں کے مالک ہوں گے وہ کمتر قوت اور ناگوار کام کے عہدوں پرکام کرنے والوں کے مقابلے میں ایک اعلیٰ ترطبقہ کی تشکیل کریں گے۔ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ان بہترعہدوں کے حصول کے لئے مسابقت اورمقابلہ بھی ہوگا۔ہاں،یہ ہے کہ وراثت اوروالدین کے اثرورسوخ کے خاتمے سے ہرشخص محض اپنی شخصی صلاحیتوں کی اساس پرمقابلہ کرے گااور اسے بہتر تعلیمی مواقع کی سخت گیر منصفانہ سہولت بھی حاصل ہوگی۔اگروہ اپنے ہمسایہ کے مقابلے میں بہتر تعلیم حاصل کرے گاتو اس لئے نہیں کہ اس کاباپ زیادہ امیر ہے۔بلکہ اس لئے کہ وہ تعلیم حاصل کرنے زیادہ اہمیت کاحامل ہوگا۔اس قسم کے معاشرے میں طبقات کے وجود کاجوبھی جوازہواس کی بنیاد ہرایک صورت میں ہرشخص کی شخصی اہلیت ہوگی۔مثال کے طورپر وہاں وائلن کاایک عظیم فن کار معمولی قسم کے فنکار سے ہمیشہ ہی برتر ہوگا۔
اسے زیادہ معاوضہ ملے نہ ملے،لیکن زیادہ احترام ضرور حاصل ہوگا۔عدم مساوات اورمسابقت کا یہ درجہ ناگزیر ہے۔اس عدم مساوات کی جڑیں اشیاء کی فطرت میں پیوست ہیں اور یہ مسابقت اس لئے ضروری ہے کہ مشکل کام وہی لوگ کریں جو اس کی سب سے زیادہ اہلیت رکھتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ضرورت سے زیادہ تعلیم کا مسٔلہ،جس پرہم نے پہلے بحث کی تھی،بہت مشکل ہے۔البتہ تعلیمی مسابقت آج کل کی صورت حال کے مقابلے میں کم شدید ہوگی۔جب کہ سب لوگوں کو نہ صرف اپنے لئے بلکہ اپنے بچوں کے لئے بھی معاشی تحفظ حاصل ہوگا۔عدم مساوات اورعدم تحفظ ہی نے مقابلے کوآج کل تلخ بنارکھاہے۔چنانچہ جب ان دونوں عناصر کوخارج کردیاجائے گا،تومقابلے کی تلخی بھی جاتی رہے گی۔وطن کی محبت کے جذبے کے محرک کئی ہیں۔تاہم نجی ملکیت کے ساتھ اس کا ایسا تعلق ہے جو فوری طورپر عیاں نہیں ہوتااور اکثرلوگ اس سے باخبری بھی ہیں۔اصل میں یہ ایک پیچیدہ تعلق ہے جسے سرمایہ داری کی زیادہ ظالمانہ صورتوں نے جنم دیاتھا۔سرمایہ کار کے نقطہ نظر سے پسماندہ ملکوں کے دوفائدے ہیں۔اول یہ کہ منڈی ہیں اوردوسرے وہ خام مواد مہیاکرتے ہیں۔ان دونوں حوالوں سے پسماندہ ملک اس وقت زیادہ مفید ہوتے جب وہ اس ملک کے ماتحت ہوں جس سے سرمایہ کار کاتعلق ہوتا ہے۔اس لئے ہم دیکھتے ہیں کہ شمالی افریقہ میں فرانسیسی سرمائے کے لئے ،ہندوستان میں برطانوی سرمائے کے لئے اوروسط امریکہ میں امریکی سرمائے کے لئے بہترین حالات موجود تھے۔اس طریقے سے ہوتا یہ ہے کہ جوسرمایہ کاراپنے ملک سے باہر سرمایہ کاری کامنصوبہ بناتا ہے وہ دوسرے ملکوں پرقبضہ کرنے کے خیال سے نہ سہی لیکن معاشی حوالے سے سامراج پرست ضروربن جاتا ہے۔
اسے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حب الوطنی کے موزوں پراپیگنڈے کے ذریعے وہ اپنے کاروبار کے اخراجات کا خاصا حصہ ٹیکس اداکرنے والوں کے کھاتے میں ڈال سکتا ہے۔طاقتور قوموں کے جذبہ حب الوطنی کابڑاسبب یہی واقعہ ہے۔البتہ قومی جھنڈے اٹھاکرنعرے لگانے والے عوام سرمایہ کاروں کے ان ناپاک عزائم سے بے خبر ہی رہتے ہیں۔کمزور اقوام کی قوم پرستی سفاک قوموں کی قوم پرستی سے محفوظ رہنے کی ایک کوشش ہے۔جب تک چھوٹی قومیں دوسروں کااستحصال کرنے کی بجائے دوسروں کے استحصال کی مزاحمت کرتی ہیں تب تک وہ طاقتور قوموں سے بہتر اخلاقی مقام کی حامل ہوتی ہیں۔لیکن آزادی کے لئے جدوجہد کرنے والی کمزور قوم میں ایسے احساسات پیداہوجاتے ہیں کہ جونہی وہ آزادی حاصل کرنے میں کامیاب ہوتی ہے اس میں وہ تمام برائیاں آجاتی ہیں جن کے سبب وہ طاقتور اقوام پر نکتہ چینی کرتی تھی۔پولینڈ نے کم وبیش دوصدیوں کی غلامی کے بعد آزادی کی نعمت حاصل کی۔لیکن اسے اہل یوکرائن کوغلام بنانے میں کوئی عارمحسوس نہ ہوا۔قوم پرستی اصول کے طورپر خباثت ہے اورآزادی کے لئے کوشاں اقوام میں بھی اس کی موجودگی قابل تعریف نہیں ہے۔اس کایہ مطلب نہیں کہ قوموں کوجارحیت کی مزاحمت بھی نہیں کرنی چاہئے۔مطلب اس کایہ ہے کہ اس قسم کی مزاحمت قومی کے بجائے بین الاقوامی نقطہ نظر سے ہونی چاہئے۔قوم پرستی کی برائیاں،چاہے وہ طاقتور قوم میں ہویاکمزور قوم میں،نجی ملکیت سے منسلک ہیں۔ان کاتعلق استحصال سے یاپھراستحصال کی مزاحمت سے ہے۔لہذا یہ فرض کرنامعقول بات ہے کہ اگر نجی سرمایہ داری کاخاتمہ ہوجائے توپھرتعلیم کے شعبے میں قوم پرستی جوقابل نفرت کرداراداکررہی ہے وہ اگر پوری طرح ختم نہ ہوتو بھی بڑی حد تک ختم ہوجائے گی۔
4۔تعلیم پرمعاشی اثرات کے ضمن میں ہمارے غوروفکر کاچوتھا عنوان روایت ہے۔اس سے میری مرادعمومی روایت نہیں جوکہ ایک وسیع وبسیط مسٔلہ ہے۔میری مراد کسی معاشی عامل سے اخذ شدہ روایت ہے،یعنی ایسا عامل جودورگزشتہ میں افعال تھا لیکن اب نہیں۔اخلاق،جوکہ عام طورپر بہت قدامت پسند ہوتے ہیں،اس عامل کی بہترین مثال پیش کرتے ہیں۔دورگزشتہ میں جب کہ دنیا اس قدر گنجان آباد نہ تھی اوربچوں کی شرح اموات زیادہ تھی تووالدین زیادہ بچے پیداکرکے انسانیت کی خدمت سرانجام دیتے تھے۔جب تک تعلیم نے اوربچوں کی محنت کی ممانعت نے بچوں کووالدین کے لئے مال بوجھ نہ بنایاتھا،اس وقت تک بچے اکثر صورتوں میں اپنے والدین کے لئے مالی فائدے کاسبب ہواکرتے تھے۔ان دنوں میں برتھ کنٹرول اوراسقاط حمل کے خلاف احساسات کامناسب معاشی جواز موجودتھا۔وہ جواز اب نہیں رہا۔لیکن برتھ کنٹرول اوراسقاط حمل کے خلاف احساسات اب بھی موجود ہیں کیونکہ وہ مذہب سے منسلک ہوگئے ہیں۔یہ کام منصفانہ معاشی نظام میں ایک مکمل تبدیلی ہی سے پورا ہوسکے گا۔محض اس بنیاد پر یہ امید کرناجائز ہوسکتا ہے کہ موجودہ نظام کی موجودگی میں مغربی دنیا جس قسم کے انسان پیداکررہی ہے ،منصفانہ نظام میں تعلیم اس سے بہتر انسان پیداکرے گی”۔
رسل کے مضمون میں یہ بتایا گیا ہے کہ برطانیہ اوریورپ میں تعلیمی نظام کیسے پروان چڑھا۔پہلے صرف پادری ہی تعلیم حاصل کرتے تھے۔امراء عام طورپر تعلیم حاصل نہیں کرتے تھے۔وہ صرف وراثتی دولت کی بناپر معاشرے میں اپنا وقار قائم رکھتے تھے۔لازمی تعلیم کاتصور اس وقت پیداہونا شروع ہوا۔جب صنعتی انقلاب آگیا۔حکومتوں کے وسائل بڑھ گئے۔اس صنعتی انقلاب کے نتیجے میں اب یورپ میں خواندگی کی شرح ہرملک میں100فیصد ہوگئی ہے۔ابتدائی تعلیم ہربچہ حاصل کررہا ہے۔حکومتیں تعلیم کے لئے بجٹ کابہت بڑا حصہ مختص کرتی ہیں۔ترقی پزیر ملکوں کے لئے اس میں کئی اسباق ہیں۔