تعزیت کے احکام و آداب 1,032

تعزیت کے احکام وآداب

تعزیت کے احکام وآداب
مفتی محمدزمان سعیدی رضوی
موت ایک فطری عمل ہے ،جانے والے کی موت پر صدمہ بھی فطری بات ہے ۔لیکن اس صدمہ کو احسن طریقے سے برداشت کرنامومن کی شان ہے ۔پورے وقار اورادب واحترام کے ساتھ میت کی تکفین اور تدفین کی جائے ۔ہمارے عرف میں میت کے ورثاء کے ساتھ اظہار ہمدردی وغم گساری کو ’’تعزیت ‘‘کہا جاتا ہے ۔تعزیت ایک مسنون عمل بھی ہے ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر حق بھی ۔مصیبت کے وقت کسی کو ذہنی وجذباتی سہارا دینا بہت بڑی مدد ہوتی ہے ۔ علامہ ابن عساکر رحمۃ اللہ علیہ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ’’جو اپنے مسلمان بھائی کی مصیبت میںاس سے اظہار ہمدردی کرتا ہے اللہ تعالیٰ روز قیامت اسے قابل رشک پوشاک پہنائیں گے ‘‘(تاریخ دمشق :کتاب الجنائز: رقم ۱۰۹۹۳) اس عمل کو خالصتاً قرآن وسنت کے مطابق رضائے الہٰی کے لئے بجالانا چاہئے تاکہ انسانی ہمددری کے ساتھ ساتھ قرآن وسنت کی اتباع کا ثواب بھی حاصل ہو ۔تعزیت کے نام پر معاشرے میںرائج کئی رسومات عام ہوچکی ہیں ان سے مکمل اجتناب ضروری ہے ۔ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت طیبہ میں تعزیت کی تشفی بخش ہدایات موجود ہیںیہاں تفصیل کا موقع نہیں ۔اصلاح معاشرہ اور درستگی احوال کے پیش نظر تعزیت کے چند مسائل وآداب کا تذکر ہ کیا جاتا ہے
۱۔موت کے بعد، میت دفن کرنے سے پہلے یا دفن کرنے کے بعدمیں میت کے تمام رشتہ داروں سے تعزیت کی جائے ،خواہ چھوٹے ہوں یا بڑے،ہاں عورتوں کے سلسلہ میں یہ قید ضروری ہے کہ وہ محرم ہوں،غیرمحرم عورتوں سے تعزیت درست نہیں ۔
۲۔تعزیت کا وقت موت سے تین دن تک ہے ۔اس کے بعدتعزیت کرنے کو پسندیدہ نہیں کہا گیا کیونکہ اس سے غم تازہ ہوگا البتہ اگر تعزیت کرنے والا یا جس سے تعزیت کی جارہی ہے وہاں موجود نہ ہو یا اسے علم نہ ہو تو تین دن کے بعد بھی تعزیت میں حرج نہیں ۔
۳۔خط وکتابت کے ساتھ بھی تعزیت کی جاسکتی ہے ۔امام حاکم اور طبرانی کی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول معظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہماکے لئے ان کے بیٹے کے انتقال پر تعزیت نامہ لکھوایا تھا ۔مکتوب مبارک کا خلاصہ ملاحظہ فرمائیں تاکہ تحریر اً تعزیت کرنے میں ہمیں اُسوہ رسول علی صاحبھا الصلوٰۃ والسلام سے سیکھنے کا موقع ملے :’’حمد وثناء کے بعد! اللہ تعالیٰ تمہیں اجرعظیم عطافرمائے اور صبر کی توفیق دے اور ہمیں اور تمہیں شکر ادا کرنا نصیب فرمائے ،بے شک ہماری جانیں ،ہمارا مال ، ہمارے اہل وعیال اور ہماری اولاد اللہ عزوجل کے خوشگوار عطیے اور امانت کے طور پر سپر د کی ہوئی اشیاء ہیں ۔ جس سے ہمیں ایک معینہ مدت تک فائدہ اٹھانے کا موقعہ دیا جاتا ہے اور مقررہ وقت پر اللہ تعالیٰ واپس لے لیتا ہے پھر ہم پر فرض عائد کیا گیا ہے کہ جب وہ دے تو ہم شکر ادا کریں اور جب وہ آزمائش فرمائے تو صبر کریں ۔تمہارا بیٹا بھی اللہ تعالیٰ کی انہیں خوشگوار نعمتوں اور سپر د کی ہوئی امانتوں میں سے تھا ۔ اللہ تعالیٰ نے اس سے تم کو قابل رشک اور خوشیوں والا نفع پہنچایا ۔اور اب اجر عظیم رحمت اور مغفرت وہدایت کا عوض دے کر لے لیا ۔بشرطیکہ تم صبر کرو ،تم صبر کے ساتھ رہو ،یاد رکھو کہ تمہارا رونااور جزع وفزع کرنا تمہارے اجر کو ضائع نہ کردے پھر تمہیں پریشانی اٹھانی پڑے، یادرکھوکہ رونا کچھ واپس نہیں لاتا اور نہ ہی غم کو دور کرتا ہے اور جو ہونے والا ہے وہ تو ہوکر رہے گا ۔اورجوہونا تھا وہ ہوچکا ۔{المستدرک للحاکم ۳۰۶/۳،المعجم الاوسط رقم ۸۳}(محققین کے نزدیک یہ مکتوب صحابہ کرام میں سے کسی کا تحریر کردہ ہے اور اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف منسوب کیا گیا ہے ھکذا فی الحلیۃ الاولیاء ،کنزالعمال ،جامع الاحادیث للسیوطی)
۴۔مسنون طریقہ ایک بار تعزیت کرنا ہے کیونکہ اس سے مسلمان کا فریضہ ادا ہوجاتا ہے ۔تعزیت کے لئے بار بار جانااور مخصوص دنوں میں جانا شرعاً ضروری نہیں ہے۔انتہائی قریبی رشتہ دار اپنے قریبی اور دوستانہ تعلق کی وجہ دوسری یا تیسری بار جاتے ہیں تو ایساکیا جاسکتا ہے مثلاً بیوہ عورت کے پاس اس کی عدت میں کسی قریبی کا جانا لیکن یاد رہے کہ میت کے لواحقین کے ساتھ تعلق ہونا اور ان کو تعلق جتانے کے لئے جانے میں زمین وآسمان کا فرق ہے ۔تعلق جتانے کے لئے بار بار اہل میت کے پاس جانا انہیں تکلیف میں ڈالنے کا باعث ہوتا ہے ۔
۵۔احسن یہ ہے کہ میت کے لواحقین اورعزیز واقارب سے اُن کلمات میں تعزیت کی جائے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مروی ہیں ۔
٭ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے(غالباً) اپنی نواسی حضرت اُمیمہ بنت زینب سلام اللہ علیہماکی حالت نزع میں اپنی صاحبزادی سیدہ زینب سلام اللہ علیہا کو دلاسے دیتے ہوئے جو کلمات فرمائے تھے وہ کلمات یہ ہیں ’’اِنَّ لِلّٰہِ مَا اَخَذَ وَمَا اَعْطٰی وَکُلَّ شَیْئٍ عِنْدَہٗ اِلٰی اَجَلٍ مُسَمًّی فَلْتَصْبِرْوَلْتَحْتَسِبْ‘‘ اللہ تعالیٰ جو لیتا ہے یا دیتا ہے وہ اسی کا ہے اور ہر چیز کا ایک وقت مقرر ہے لہٰذا صبر کرواور اجر کے طلب گار رہو{بخاری:کتاب الجنائز :رقم ۱۲۸۴،مسلم کتاب الجنائز:رقم۹۲۳}امام نووی رحمۃ اللہ علیہ شارح مسلم فرماتے ہیں اظہار ِ تعزیت کے لئے درج بالا الفاظ بہت عمدہ ہیں ۔
٭دعائیہ کلمات کے بعد اِدھر اُدھر باتیں کرنے سے بہتر ہے میت کے لواحقین کو صبر کرنے اور اس پر ملنے والی بشارت کی احادیث سنائیں ۔یا سلف صالحین کے اقوال زریں ذکر کریں تاکہ ان کا غم ہلکا ہو ۔بیہقی ، حاکم اور بزار نے روایت فرمایا کہ ایک انصاری عورت کا بچہ فوت ہوگیا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے تعزیت کرتے ہوئے فرمایا :مجھے پتہ چلا ہے کہ تم نے اپنے بچے کی وفات جزع وفزع کیا ہے پھر آپ نے اسے صبر وتقوی کی تلقین فرمائی ،اس عورت نے عرض کیا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں جزع وفزع کیوں نہ کروں جب کہ میں رقوب ہوں (اس عورت نے سمجھا کہ رقوب اسے کہتے ہیں جس کا بچہ زندہ نہ بچے )آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایارقوب تو وہ ہے جس کا بچہ باقی رہے ۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’جس مسلمان مرد یا عورت کے تین بچے فوت ہوجائیں اگر وہ اللہ تعالیٰ سے اجر کا طلب گار رہے تو اللہ تعالیٰ اسے ان بچوں کی وجہ سے جنت میں داخل کرے گا۔سیدنا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا (آپ اس وقت سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دائیں طرف موجود تھے )میرے والدین آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر قربان :دو بچوں کا کیا حکم ہے ؟آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہاں دو بچوں کی وجہ سے بھی (والدین کو یہ فضیلت حاصل ہوگی ){مسند البزار:رقم ۴۴۰۱،المستدرک للحاکم :کتاب الجنائز :رقم ۱۴۱۶،شعب الایمان : رقم ۹۳۰۱}اس فرمان مقدس میں ہمارے آقاصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تعزیت بھی فرمائی اورساتھ ہی صبر کرنے پر بشارت کا تذکرہ فرمایا ۔
۶۔تعزیت کرتے وقت میت کے لئے بھی ضرور دعا کی جائے ۔صحیح مسلم اورسنن ابی داؤد میں ہے سیدنا حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہاکے ہاں تشریف لے گئے اور حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کے لئے دعائے مغفرت کرتے ہوئے فرمایا ’’یااللہ !ابو سلمہ کی مغفرت فرما،ہدایت یافتہ لوگوں میں ان کا درجہ بلند فرمااوران کے پسماندگان کی حفاظت فرما۔اے اللہ! ہم سب کو اور مرنے والوں کو معاف فرما،اس کی قبر کشادہ فرمااور اسے نور سے بھر دے ‘‘۔{صحیح مسلم :کتاب الجنائز:رقم ۹۲۰،سنن ابی داؤد: کتاب الجنائز :رقم ۱۳۱۸}
۷۔تعزیت کرتے وقت میت کے لواحقین کو بھی دعاؤں میں یاد رکھا جائے ۔یہ ایک مسنون طریقہ بھی ہے اوراس میں اہل میت کے ساتھ اظہار ہمدردی اور خیر خواہی کے جذبہ کا اظہاربھی پایاجاتا ہے ۔حضرت سیدنا جعفر رضی اللہ عنہ کی وفات پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاندان جعفر کے ہاں تشریف لے گئے اور ان کی اہلیہ حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا سے تعزیت کرتے ہوئے ان کے بڑے صاحبزادے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ (جو اس وقت کم سن تھے ) کے لئے دعا فرمائی ۔’’اے اللہ !خاندان جعفر کا والی بن جا اور عبد اللہ بن جعفر کی روزی میں برکت عطا فرما ‘‘آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ کلمات تین مرتبہ ارشاد فرمائے ۔ {مسند احمد :مسند اہل بیت علیہم السلام : رقم۱۷۵۰ }
۸۔ قرب وجوار میں اگر کوئی غیر مسلم مر جائے تو اس سے بھی تعزیت کی جاسکتی ہے یا نہیں۔یاد رہے، غیر مسلم کے لئے دعائے مغفرت کرنا یہ مسئلہ اور ہے۔ دعائے مغفرت صرف اہل ایمان کے لئے کی جاسکتی ہے ۔ اظہار ہمدردی ،غم میں تسلی دینا اور اظہار تعزیت کرنا یہ مسئلہ اور ہے ۔ صحیح بخاری میں ایک یہودی کے جنازہ کا واقعہ موجود ہے۔ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے سے ایک جنازہ گزار تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہوگئے ۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ ایک یہودی کا جنازہ ہے ۔تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’الیست نفسا‘‘کیاوہ انسان نہیں تھا ؟{صحیح بخاری :کتاب الجنائز :رقم۱۳۱۲،صحیح مسلم : کتاب الجنائز :رقم۹۶۱}قرب وجوار میں رہنے والے غیر مسلموں سے تعزیت کی جاسکتی ہے البتہ تعزیت کے موقع پر ان کے لئے کون سے الفاظ کہہ جائیں گے ۔اس سلسلہ میں فقہاء کرام سے مختلف الفاظ منقول ہیں ۔بہتر ہے یہ کلمات کہے جائیں’’اَخْلَفَ اللّٰہُ عَلَیْکَ خَیْرًا وَاَصْلَحَکَ‘‘اللہ (اچھا بدلہ دے اور بعد میں) کوئی اچھی صورت نکالے اور حال درست فرمائے ۔{درمختار،بحرالرائق، البنایہ ،تبین الحقائق}
۹۔تعزیت کے لئے بعض اقوام میں مختلف طریقے رائج ہوتے ہیں وہ طریقے اب آہستہ آہستہ اہل ِاسلام اپناتے جارہے ہیں مثلاً کچھ دیر کی خاموشی ،موم بتیاں جلانا ،یا جھنڈے سرنگوں کرنا ،تعزیت کے یہ طریقے مسلمانوں کے لئے جائز نہیں ۔اسلامی طریقہ تعزیت سے ہٹ کے نئے نئے طریقے وضع کرنا افسوس ناک بھی اور اسلامی غیرت ودینی حمیت کے خلاف بھی ہے ۔کیونکہ جو شخص کسی دوسری قوم کے خاص اخلاق وعادات اور طور طریقوںکی پیروی کرنے لگے تووہ انہیں میں سے ہوجاتا ہے ۔تعزیت اور اظہار ہمدردی کے لئے دین اسلام کا طریقہ جتنا باکمال ہے اتنا مفید بھی ہے ۔
۱۰۔جس کے گھر میت ہوجائے تو اس کے رشتہ داروں اور پڑوسیوں کے لئے یہ حکم ہے کہ وہ ایک دن اور ایک رات متوسط اور معتدل انداز کا قدرے ضرورت طعام بناکر اہل میت کے گھر بھیجیں ،انہیں بزور واصرار کھلائیں ان کے یہاں دور دراز سے نماز جنازہ میں شرکت کے لئے جو مہمان آئیں گے انہیں بھی کھلائیں ۔یہ اہتمام خالصتاً رضائے الہٰی کے لئے ہو اور افراط اورریاسے پاک ہو۔یہ کھانا صرف اس میت کے گھر والوں اور قریبی رشتہ داروں کے لئے ہوتا ہے نہ کہ اہل محلہ کے لیے ۔بہت افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارا معاشرتی عمل بالکل اس کے خلاف ہے کجا کہ ہم اہل میت کے لئے کچھ نہ کچھ تیار کر لے جائیں بلکہ خود وہیں سے کھانے کو ترجیح دیتے ہیں ۔خدا کی پناہ !یہ برا طریقہ ہے اس کا تدارک انتہائی ضروری ہے ۔
۱۱۔قبرستان کے اندر تعزیت کرنے کو فقہاء نے بدعت کہا ہے ۔{بہار شریعت}یاد رہے نماز جنازہ پڑھنا ایک علیحدہ عبادت ہے اور تعزیت ایک علیحدہ عمل ہے دونوں کا اجر جدا جدا ہے ۔
۱۲۔تعزیت کے لئے اکثر عورتیں جمع ہوکر زور سے روتی پیٹتی ہیں ،انہیں اس سے روکا جائے ۔اور سختی کے ساتھ ان جیسوں کی حوصلہ شکنی کی جائے ۔
۱۳۔ہمارے معاشرے میںمیت دفن کرنے کے بعد ایصال ثواب کے لئے جو اہتمام کئے جاتے ہیں ان میں لوگ بہت افراط کے شکار ہیں ۔اس معاملے میں اہل اسلام کو سنجیدگی سے سوچ وبچار کرنا چاہیے ۔پہلی بات تو یہ کہ تیسرے دن یاساتویں جمعرات ،چہلم ،سالانہ برسی کی تقریبات کوئی فرض ،واجب نہیں ۔بلکہ استحبابی عمل ہے ۔اس لئے مستحب عمل کو مستحب کا ہی درجہ دیا جائے ۔اگر میت کے ورثاء کوئی اہتمام کرتے ہیں تو وہ کھانا صرف فقراء کے لئے ہوتا ہے جب کہ ہمارے معاشرے میں اس چیز کا خیال نہیں رکھا جاتا ۔
۱۴۔ہمارے معاشرے میں یہ رواج عام ہورہا ہے کہ جو کوئی تعزیت کرنے آتا ہے وہ وفات پانے والے کے متعلق سوال کرتا ہے کہ وفات کیسے واقع ہوئی ؟ یہاں تک اختصار کے ساتھ تو یہ سوال درست ہے ،لیکن بعض تفصیل کے ساتھ جان چکنے کے باوجود بھی بار بارتفصیل پوچھتے رہتے ہیں پھر اس پرافسوس ناک اور غم بڑھانے والے جملوں کے ساتھ ایسا رنگ بھرتے ہیں کہ کہانی سننے والے کے آنسو جھلک پڑتے ہیں جب حالت زیادہ خراب ہونے لگے تو تعزیت کرنے والے خود کہتے ہیں کہ صبر کریں جی ،صبر کے علاوہ ہم کرکیا سکتے ہیں ؟ ان سے کوئی پوچھے خدا کے بندے ! پہلے خود ہی رُلادیا اور اب آپ صبر کی تلقین بھی کررہے ہیں ۔تو تعزیت کرنے والے کو چاہیے کہ وہ سوالات کی بھر مار نہ کرے بلکہ جتنا تک ممکن ہو غمگساری کرے ۔
۱۳۔اہل میت کو محرومی کا احساس دلانے سے گریز کرنا چاہیے۔بعض دفعہ تعزیت کے لئے آنے والے ایسے غم ناک جملے کہہ جاتے ہیں کہ سننے والے کا دل بے اختیار تڑپ اٹھتا ہے ۔تو اس طرح سے مرحوم کے لواحقین کے ساتھ کیا تسلی وتعزیت ہوئی ۔کوشش کی جائے ہمددری اور ہمت بندھوانے والی گفتگو کی جائے۔اللہ تعالیٰ کی معیت کا احساس دلایا جائے ۔اور مستقبل میںانہیں غم سے نکالنے کی سبیل سوچی جائے۔
۱۴۔ اہل میت کی نفسیاتی ، اجتماعی اور معاشی حالت کا خیال رکھنا انتہائی ضروری ہے ۔
اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے ۔وماتوفیقی الا باللہ العلی العظیم