630

تحریک لبیک پاکستان پر پابندی

تحریک لبیک پاکستان پر پابندی
تحریر: مفتی گلزار احمد نعیمی
تحریک لبیک پاکستان اب حکومت کے ریکارڈ میں کالعدم ہوگئی ہے۔یہ عملی طور پر بھی کالعدم ہوتی ہے یا نہیں یہ تو وقت ہی بتائے گا مگر موجودہ صورت حال میں اسکا دوبارہ اسی نام سے متحرک ہونا محال نہیں تو از حد مشکل ضرور ہوگا۔اس ملک کا المیہ ہے کہ یہاں بہت سی شدت پسند تنظیموں پر پابندی لگی مگر وہی تنظیمیں نام بدل کر پہلے سے زیادہ متحرک ہیں۔نام بدلتےہی اسکے تمام قائدین واراکین کوثر و تسنیم سے دھل جائے ہیں۔بے گناہ قرار دے دیے جاتے ہیں، نہ صرف بے گناہ بلکہ سرکار کے منظور نظر بن کر سرکاری عہدوں سےبھی خوب متمتع ہوتےہیں۔حسب ضرورت “اپنا کردار” ادا کرنے کے لیے کرائے پر دستیاب بھی ہوتے ہیں۔
تحریک کے لیے حکومت کے ساتھ معاہدہ اسکی پابندی کا سبب بنا۔میں نے پچھلے ماہ ایک صحافی جناب نادر بلوچ کو انٹرویو کے دوران سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ معاہدہ نہیں ہونا چاہیے تھا کیونکہ اس معاہدے سے نہ ہی تحریک کو اور نہ ہی حکومت اور ریاست کو کوئی فائدہ ہوا ہے۔اس پر مجھے تحریک کے جیالوں نے بہت ہی نازیبا کلمات کہے، ماں بہن کی گالیاں دیں۔ناموس رسالت کا غدار کہا، فرانس کا ایجنٹ اور نہ جانے کیا کیا دشنام طرازی کی۔منبر پر بیٹھ کر مجھے وہ کچھ کہا گیا جسکا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔میں تو ایک نہایت گنہگار انسان ہوں مگر منبر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تقدس کو یوں پامال کرنا ایک مسلمان کو زیب نہیں دیتا۔خیر کوئی بات نہیں میں نے اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کردیا کہ وہی دلوں کے حال جانتا ہے۔کون مخلص ہے اور کون بکا ہوا ہے اس سے کچھ چھپاہوا نہیں ہے۔دکھ اس بات کا ہے کہ وہی معاہدہ جسے تحریک اپنی سب سے بڑی کامیابی قرار دے رہی تھی اور جس کی مخالفت کرنے والی ہر باعزت و قابل تکریم شخصیت کو بے عزت کیا گیا وہی معاہدہ ٹی ایل پی کے کالعدم ہونے کا سبب بنا۔ہمیں اس پابندی پر زرا بھی خوشی نہیں ہوئی اور واللہ۔! نہیں ہوئی. بلکہ شدید تکلیف ہوئی ہے کہ ناموس رسالت کے حق میں اٹھنے والی ایک توانا آواز خاموش ہوگئی ہے۔
حکمت و دانائی مؤمن کی گم شدہ میراث ہے اور روئے زمین پر وہ اسکا سب سے زیادہ حقدار ہے۔جب معاملات حکمت و دانائ کی روشنی میں طے کیے جائیں تو غلطی اور نقصان کا خدشہ قدرے کم ہوتا ہے۔اگر یہی معاملات طاقت کے بل بوتے پر حل کیے جائیں تو تباہی کے علاوہ ہاتھ کچھ بھی نہیں آتا۔عقلمند ملّاح اسی کو کہا جاتا ہے جو اپنی کشتی کو سمندری طوفانوں اور بے رحم موجوں سے بچا کر منزل مقصود تک لے جائے۔یہ دنیا ہے،یہاں کا نظام کچھ لو اور کچھ دو کے اصولوں پرچلتا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑھ کر دنیا میں کوئی صاحب فراست نہیں آیامگر انہوں نے بھی صلح حدیبیہ کے موقع پر طاقت کا اظہار نہیں فرمایا بلکہ فہم و فراست اور کمال کی دانش و بینش سے اپنے مد مقابل کو شکست فاش سے دوچار کیا۔
ایک اور اہم بات یہ ہے کہ دشمن شناسی بھی ایک اہم فن ہے۔جسے اپنے دشمن کی پہچان نہ ہو وہ کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا۔دوست کو دشمن سمجھ کر اپنی طاقت اس کے خلاف صرف کردینا کہاں کی عقلمندی ہے؟۔بدقسمتی سے تحریک نے ریاست پاکستان کو فرانس سمجھ کر اس کے خلاف متشد اور انتہاء پسندانہ رویہ اختیار کیا جو اسکی پابندی پر منتج ہوا۔اس میں کچھ حکومت کا بھی قصور ہے۔ریاست ماں کے جیسی ہوتی ہے اور اسکے باشندے اس کی اولاد ہوتے ہیں۔ماں کی نِظر میں فرمانبردار اور سرکش اولاد برابر ہوتی ہے وہ دونوں سے محبت کرتی ہے۔یہاں میرے خیال میں ریاست کو بھی قدرے تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھااور کچھ عرصہ تک تحریک پر گہری نظر(under observation) رکھتی اور پھر بھی صورت حال جوں کی توں رہتی تو بے شک پابندی لگا دیتی۔یہ میری اپنی رائے ہےجو غلط بھی ہوسکتی ہے۔
ہمیں غور و فکر کرنا ہوگا کہ ناموس رسالت کے مسئلہ پر ہمارا مد مقابل صرف فرانس نہیں بلکہ تمام یورپی یونین اور امریکہ سرکار بھی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں نے فرانس نے دوقدم آگے نکل کر توہین رسالت کا ارتکاب کیا۔فرانس کے صدر نے سرکاری سطح پر توہین کرنے والوں کی حمایت کی جو نہ صرف قابل مذمت ہے بلکہ شرم ناک حد تک قابل مذمت ہے۔اسی لیے ترکی کے صدر نے فرانسیسی صدر کو پاغل کہا تھا۔فرانس کے صدر نے پوری امت اسلامیہ کےجذبات مجروح کیے تھے۔اس بیان پر بھی تحریک لبیک نے فیض آباد میں دھرنا دیا جس کے نتیجہ میں یہ معروف معاہدہ معرض وجود میں آیا تھا۔اس کے اہم نکات یہ تھے
1-حکومت تین ماہ کے اندر اندر پارلیمنٹ میں سفیر بدری کے معاملے کو لے جائے گی۔
2-فرانس میں پاکستان کا سفیر متعین نہیں ہوگا۔
3-فرانسیسی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جائے گا۔
4-لبیک کے تمام گرفتار شدگان کو رہا کیا جائے گا۔
میں حیران ہوں کہ حکومت اور لبیک نے اس بات پر کیسے اتفاق کر لیا تھاکہ فرانس سےسفارتی سطح پر مکمل بائیکاٹ کر لیا جائے گا۔انہوں نے ان غریب الوطن پاکستانیوں کے بارے میں ذرا بھی نہیں سوچا کہ وہ جن شدید ترین مسائل سے دوچار ہونگے انکا مداوا کون کرے گا۔حکومتوں کو ایسے معاہدات کرتے وقت تمام پہلوؤں کو مدنظر رکھنا چاہیے۔لبیک کو بھی چاہیے تھا کہ وہ اپنے پاکستانیوں کے سفارتی مسائل کو مدنظر رکھتے۔یاد رکھیں! جماعتیں اور حکومتیں چلانا کوئی گُڈی گُڈے کا کھیل نہیں ہوتا۔اس کے لیے ایک بہت ہی بڑے وژن کی ضرورت ہوتی ہے۔جب تک فہم و ادراک کی قوت نہ ہوتو جماعتیں یا حکومتیں نہیں چلا کرتیں۔وقتی اور “ڈنگ ٹپاو”فیصلے مسائل میں اضافہ کرتے ہیں۔بالکل یہی کچھ لبیک اور حکومت نے کیا۔ہم نے ایک بین الاقوامی مسئلہ کو آپس کی دشمنی کا سبب بنا دیا۔توہین رسالت کا مسئلہ ہمارا قومی مسئلہ نہیں تھا۔ہم سب رسول اللہ کی عزت و ناموس پر جان قربان کرنے کو ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔بلکہ میں یو کہوں کہ پوری امت اسلامیہ کے عوام توہین رسالت کو کسی طور پر بھی برداشت نہیں کرتے تو درست ہوگا۔پوری امت کے عوام رسول اللہ کی ناموس کو اپنی ناموس سے کہیں بڑھ کر سمجھتے ہیں۔اس پر امت اسلامیہ کے عوام کا اتفاق ہے۔اس حوالہ سے ہمارا مقابلہ اسلام مخالف قوتوں سے تھا۔بجائے اس کے کہ ہم پاکستانی عوام اور ریاست اس معاملے میں ایک ہیج پر ہوکر بین الاقوامی گستاخوں کے خلاف بیک زبان ہوکر احتجاج کرتے، ہم آپس میں دست وگریباں ہوگئے۔ہم نے ایک دوسرے کے لوگ شھید کیے حالانکہ دوطرف ہمارے اپنے پاکستانی مسلمان بھائی ہی تھے،سرکاری اور نجی املاک کو نظر آتش کیاگیا۔ہم نے یہ جو کچھ کیا بہت برا کیا۔جگ ہنسائی ہوئی اور سب سے بڑھ کر تحفظ ناموس رسالت کے ایشو کو ہم نے کمزور کیا۔
میرا یہ ایمان ہے کہ پاکستان اسلام کی ایک محفوظ پناہ گاہ ہے۔ہم اسے اسلام کا قلعہ کہتے ہیں۔اگر ہم اس قلعے کی دیواروں کو اپنے ہاتھوں سے کمزور کرنا شروع کر دیں تو نہ اسلام کا تحفظ ممکن ہوسکے گا اور نہ ناموس رسالت کا۔
آخر میں عرض کرونگا کہ میرا دل زخمی زخمی ہے اور جگر چھلنی چھلنی ہے کہ میں اور میرا مکتب فکر جو ایک روحانی اور عرفانی مکتب فکر ہےاس پر کبھی انتہاء پسندی اور دہشت گردی کا ٹیگ نہیں لگا تھا، پاکستان کی تاریخ میں میری کسی سیاسی یا غیر سیاسی جماعت پر انتہاء پسندی اور دھشت گردی کی وجہ سے پابندی نہیں لگی لیکن اب یہ سب کچھ ہوگیا۔افسوس صد افسوس۔
میرے اللہ گواہ رہنا ہمارا دہشت گردوں اور انتہاء پسندوں سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ہم تیرے نبی کی امت کو جوڑنے والے ہیں۔ہم اتحاد امت کے علمبردار ہیں۔ہم اپنے نبی کی ناموس پر مر مٹنے والے ہیں۔ہم تیرے اور تیرے نبی کے دشمنوں کے دشمن ہیں۔