تالاب کا راجا 189

تالاب کا راجا

تالاب کا راجا
سب مینڈکوں نے بوڑھے مینڈک کی اس بات کی تائید کی اور اسے اپنا راجا بنا لیا اور ہنسی خوشی رہنے لگے

میمونہ ارم مونشاہ
ایک جنگل میں چھوٹا سا تالاب تھا،جس میں بہت سے مینڈک آپس میں ہنسی خوشی اور اتفاق سے رہتے تھے۔ایک بار ایسا ہوا کہ بارش نہ ہونے کی وجہ سے تمام درخت اور پودے مرجھانے لگے۔دور دور کے جنگلی جانوروں نے اپنی پیاس بجھانے کے لئے اس تالاب کا رُخ کیا۔
آہستہ آہستہ تالاب کا پانی کم ہونے لگا اور بہت سے مینڈک ان بڑے جانوروں کے پاؤں کے نیچے آکر کچلے گئے ۔رہے سہے مینڈک اپنی جان بچانے کے لئے کسی اور جگہ جانے کا سوچ رہے تھے،مگر وہاں دور دور تک کوئی تالاب نہیں تھا۔ایک دن اس جنگل میں کسی کالج کے طالب علم پہنچے،جنھیں لیبارٹری میں تجربے کرنے کے لئے کچھ مینڈک چاہیے تھے۔
انھیں دیکھ کر تالاب کے سارے مینڈک ڈر کے مارے چھپ گئے۔ایک بوڑھے مینڈک نے کہا:”ہم میں سے کچھ مینڈک ان لوگوں کے پاس جا کر ان سے مدد مانگتے ہیں،شاید یہ ہماری کچھ مدد کر سکیں۔


یہ سن کر باقی سب مینڈکوں نے احتجاج کیا کہ ان کی تعداد پہلے ہی بہت کم رہ گئی ہے،اگر مزید مینڈکوں کو بھی وہ اپنے ساتھ لے گئے تو جنگل میں تو ان کی نسل ہی ختم ہو جائے گی۔

بوڑھے مینڈک نے کہا:”میری بات غور سے سنو۔میں بھی ساتھ جاؤں گا اور وہاں کسی سے مدد کی اپیل کروں گا کہ ہماری نسل بچانے میں ہماری مدد کریں۔ ویسے انسان اتنے بُرے بھی نہیں ہوتے،جتنا ہم نے انھیں سمجھ رکھا ہے۔انسانوں سے زیادہ تو جنگلی جانور خطرناک ہوتے ہیں،جنھوں نے ہمارے بہت سے مینڈکوں کو ہلاک کر دیا ہے۔

ان سب میں تین چار مینڈک بہت سمجھ دار تھے،انھوں نے کہا:”باقی سب کی سلامتی کے لئے ہم اپنی جان قربان کرنے کے لئے تیار ہیں۔“
جیسے ہی جنگل میں وہ لوگ تالاب کے پاس آئے ،بوڑھا مینڈک ان کے سامنے گیا اور کہا:”تم لوگ کیا چاہتے ہو؟“
”ہم ایک میڈیکل کالج کے طالب علم ہیں اور ہمیں تجربات کرنے کے لئے کچھ مینڈکوں کی ضرورت ہے۔
“ایک طالب علم نے جواب دیا۔
”ٹھیک ہے،لیکن اپنے ساتھیوں کے ساتھ میں بھی جاؤں گا۔مجھے تمہارے کالج کے پروفیسر سے کچھ بات کرنی ہے۔“
ان لوگوں نے سب مینڈکوں کو شیشے کے بڑے جار میں ڈالا اور وہاں سے چلے گئے۔باقی رہ جانے والے مینڈک اپنے ساتھیوں کے لئے پریشان تھے وہ بوڑھے مینڈک کی کامیابی کے لئے دعا مانگنے لگے۔
تجربہ گاہ میں جانے کے بعد انھوں نے بوڑھے مینڈک کو جار سے نکال کر پلیٹ میں رکھا اور پروفیسر کو بلانے چلے گئے۔پروفیسر نے آکر بوڑھے مینڈک سے پوچھا:”وہ اس سے کیوں ملنا چاہتا تھا؟“
بوڑھے مینڈک نے آنسو بہانا شروع کر دیئے اور جنگل میں ہونے والے واقعات سے پروفیسر صاحب کو آگاہ کر دیا۔
بوڑھے مینڈک کی بات سن کر پروفیسر صاحب کو دکھ ہوا۔انھوں نے کہا:”ٹھیک ہے میں تمہاری مدد کرنے کے لئے تیار ہوں۔مجھے پہلے جا کر پورے جنگل کا معائنہ کرنا ہو گا۔“
یہ کہہ کر پروفیسر صاحب نے اپنے ایک شاگرد کو ان مینڈکوں کا خیال رکھنے کو کہا اور خود کچھ ساتھیوں کو لے کر جنگل کی طرف چلے گئے۔
پورا دن گھومنے کے بعد ایک جگہ پر انھیں بڑا سا تالاب نظر آیا،جسے دیکھ کر وہ لوگ خوش ہوئے۔پروفیسر صاحب نے واپس آکر یہ خوش خبری بوڑھے مینڈک کو سنائی،پھر سارے مینڈکوں کو اپنے ساتھ لے کر تالاب پر چلے گئے۔وہاں جاکر بوڑھے مینڈک نے تالاب میں رہ جانے والے باقی ساتھیوں کو باہر بالایا اور کہا کہ پروفیسر کی مدد سے انھیں رہنے کے لئے بڑی اور اچھی جگہ مل گئی ہے۔
سب مینڈکوں نے پروفیسر صاحب کا شکریہ ادا کیا اور ان لوگوں کے ساتھ اس نئے تالاب پر چلے گئے۔
”رکو بڑے میاں!“پروفیسر صاحب نے بوڑھے مینڈک سے کہا۔
بوڑھا مینڈک پانی سے باہر آیا اور سوالیہ نظروں سے پروفیسر کو دیکھنے لگا۔
پروفیسر نے اپنے ہاتھ میں پکڑا،جار کھولا اور اس میں رکھے اس کے باقی ساتھیوں کو بھی آزاد کر دیا۔
بوڑھے مینڈک نے اس مہربانی کی وجہ پوچھی تو پروفیسر نے جواب دیا:”چونکہ تمہاری نسل ختم ہو رہی تھی اور ہم نہیں چاہتے کہ جس طرح بے شمار جانور دنیا سے ختم ہو گئے ہیں،تم بھی مٹ جاؤ ،اس لئے تمہیں تحفظ دینے کے لئے آزاد کر دیا ہے۔
اب ہم کسی مینڈک کو پکڑنے یہاں نہیں آئیں گے۔“یہ سن کر بوڑھے مینڈک نے ایک بار پھر پروفیسر صاحب کا شکریہ ادا کیا اور پانی میں جا کر اپنے ساتھیوں سے کہا:”میں نے کہا تھا نا!انسان اتنے بُڑے بھی نہیں ہوتے جتنا ہم انہیں سمجھ لیتے ہیں۔“سب مینڈکوں نے بوڑھے مینڈک کی اس بات کی تائید کی اور اسے اپنا راجا بنا لیا اور ہنسی خوشی رہنے لگے۔