سیدہ آسیہ 246

بیمار وضعیف سیدہ آسیہ اندرابی موت وحیات کی کشمکش میں

بیمار وضعیف سیدہ آسیہ اندرابی موت وحیات کی کشمکش میں
پاکستان کے دفتر خارجہ نے گذشتہ دِنوں اقوامِ متحدہ سے آسیہ اندرابی کی فوری رہائی کے لئے اپنا کردار ادا کرنے کی درخواست کی ہے اور اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس اور جنیوا میں اقوامِ متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق سے رجوع کیاہے۔پاکستان نے اپنی درخواست میں واضح کیا ہے کہ آسیہ اندرابی بھارت کی بدنامِ زمانہ تہاڑ جیل میں قید ہیں اور 18 جنوری 2021 ء کو عدالت کے ذریعے سے ان پر تعزیراتی فرد جرم عائد ہونے کے خدشے کی وجہ سے ان کی زندگی خطرے میں ہے۔بھارتی حکام آسیہ اندرابی پر من گھڑت الزامات کو بنیاد بنا کرمقدمہ چلا رہے ہیں اور طریقہ کار سے ہٹ کر جان بوجھ کر ان کے مقدمے کی کارروائی کو تیز کیا گیا ہے، جوکہ جو بدنیتی پر مبنی اور عدالتی قتل کی جانب واضح اشارہ ہے، لہٰذا ضروری ہے کہ اقوامِ متحدہ آسیہ اندرابی، ان کے شوہر اور ساتھیوں کے خلاف من گھڑت الزامات ختم کروانے میں اپناکردار ادا کرے۔

خاص طور پر ان حالات میں جبکہ دختران ملت کی سربراہ سیدہ آسیہ اندرابی۔

شدید بیمارہیں، وینٹی لیٹر پرہیں اور موت وحیات کی کشمکش میں زندگی کے دن گن رہی ہیں۔انہیں سانس لینے میں دشواری ہورہی ہے، نقاہت ہے، پیرانہ سالی ہے ستم بالائے ستم یہ کہ وہ مسلسل سات سال سے تہاڑ جیل میں ہیں۔تہاڑ جیل بھارت کی چند ایک سخت ترین جیلوں میں شمار ہوتی ہے،جہاں قیدیوں پرسخت نگرانی کی جاتی ہے اور سہولتیں کم سے کم دی جاتی ہیں۔ سیدہ آسیہ اندرابی کی عمر ساٹھ سال سے اوپر ہے۔بڑھاپا بذات خود ایک بیماری ہے۔ انسان بوڑھاہو اور ساتھ بیمار بھی ہو تو بڑے بڑے بہادر بھی حوصلہ ہارجاتے ہیں، لیکن سیدہ آسیہ بڑی پامردی، جرأت و بہادری سے بیماری، بڑھاپے اور بھارتی حکمرانوں کے ظلم وستم کا مقابلہ کررہی ہیں۔ پیرانہ سالی اور شدید بیماری کا تقاضا تھا کہ بھارتی حکمران انسانیت کے ناتے آسیہ اندرابی کو رہا کر دیتے، لیکن آسیہ اندرابی کا مقابلہ برہمن سے ہے۔ وہ ایک بوڑھی اور بیمار خاتون کو جیل میں ڈال کر اپنی آتش انتقام کو ٹھنڈا کرنے کے درپے ہے۔ جموں کشمیر انٹرنیشنل فورم برائے ہیومن رائٹس کے چیئرمین محمد احسن اونٹو اور حریت رہنماؤں نے سیدہ آسیہ اندرابی کی بگڑتی ہوئی صحت کی صورت حال پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ ا ٓسیہ اندرابی ذہنی اور جسمانی صدمے سے گذر رہی ہیں۔ دمے کی مریضہ ہونے کی وجہ سے انہیں سانس لینے میں دشواری پیش آرہی ہے وہ وینٹی لیٹر پر ہیں لہذا ضروری ہے کہ بھارتی حکومت انہیں فی الفور رہا کرے۔

آسیہ اندرابی اور ان کے شوہر ڈاکٹر قاسم 5فروری 1993ء کوپہلی بار گرفتا ر ہوئے تو ان کے ساتھ ان کا سات ماہ کا معصوم اور شیر خوار بچہ محمد بھی تھا،جو ابھی آزادی وغلامی کے مفہوم سے بھی آشنا نہ تھا بھارتی حکمرانوں کی سفاکیت کی انتہا ہے کہ انہوں نے سات ماہ کے بچے کو بھی جیل میں ڈال دیا۔ گرفتاری کے وقت یہ میاں بیوی جن آزمائشوں، پریشانیوں،اذیتوں اور تکلیفوں سے گزرے کم والدین کو اس اذیت سے گزرنا پڑا ہو گا۔باپ ایک کو ٹھڑی میں،ماں دوسری کوٹھڑی میں اور بچہ کسی تیسری جگہ۔بعض اوقات ماں کو دودھ پلانے کی اجازت بھی نہ ملتی۔اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ دودھ نہ ملنے کی وجہ سے بچہ کس طرح تڑپتا، چیختا،چلاتا اور روتا ہوگااوراس بات کا اندازہ بھی کیا جاسکتاہے کہ بچے کے رونے اور چیخنے کی وجہ سے والدین پر کیا گزرتی ہوگی۔بلاشبہ یہ ڈاکٹر قاسم اور آسیہ اندرابی کے لئے بہت ہی سخت دن تھے۔اس دوران ڈاکٹر قاسم پر بے پناہ تشددکیا گیا،ہڈیاں توڑ دی گئیں اور جسم کی کھال ادھیڑ دی گئی۔

جب بھارتی اور کٹھ پتلی حکومت کا ظلم حد سے بڑھ گیا تو ان کے ورثاء نے ایک بار پھر عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا عدالت نے پبلک سیفٹی ایکٹ کو کالعدم قرار دے کر دونوں کی رہائی کا حکم دے دیا۔ڈاکٹر قاسم اور آسیہ اندرابی نے ابھی سکھ کا سانس بھی نہ لیا تھا کہ دونوں کو ایک بار پھر گرفتار کر لیا گیا اس لئے کہ بھارتی حکومت دونوں کی رہائی زیادہ عرصہ برداشت نہ کر سکتی تھی۔ اس بار بھارتی حکومت نے ڈاکٹر قاسم کو ایک کشمیری پنڈت کے قتل کے الزام میں گرفتار کر کے عمر قید کی سزا سنادی وہ تب سے اب تک جیل میں ہیں۔