ڈاکٹر سید محمد عظیم شاہ بُخاری 245

بُدھو کا آوا

بُدھو کا آوا
‘بدھو کا آوہ” نام جتنا دلچسپ ہے اتنی ہی دلچسپ اور پیچیدہ اس سے منسوب کہانیاں بھی ہیں۔مؤرخ کنہیا لال کے مطابق یہ دورِ جہانگیر کا مقبرہ ہے جہاں نواب نصرت اللہ خان مدفون ہیں۔
ڈاکٹر سید محمد عظیم شاہ بُخاری
زبان دانی میں ایک لفظ ہے بُدھو جو بے وقوف یا سادہ لوح انسان کے لیئے استعمال ہوتا ہے، جیسے لوٹ کے بدھو گھر کو آئے لیکن یہ بھی جان لیں کہ بہت پہلے شاید یہ ایک نام رہا ہے۔ وہ نام جس سے لاہور شہر میں واقع ایک مقبرہ بھی منسوب ہے۔ قیاس ہے کہ یہ کسی نام کا بگڑا ہوا لقب ہے جِسے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بےوقوفی سے جوڑ دیا گیا ہو۔ ”آوا” کا لفظ پنجابی اور فارسی میں بھٹی کے لیئے استعمال کیا جاتا ہے جہاں سفال گر مٹی کے برتن اور اینٹیں بنا کر پکاتے ہیں۔

بُدھو کا آوا یا مقبرہ لاہور کے علاقے مغلپورہ میں جی ٹی روڈ پر یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے دوسری جانب واقع ہے۔ چھوٹے سے احاطے میں واقع یہ ننھا سا مقبرہ گو پہلے بھی بہت نمایاں نہیں تھا لیکن اورنج لائن ٹرین کا ٹریک بننے کے بعد اب اور بھی زیادہ چھپ سا گیا ہے۔

”بدھو کا آوہ” نام جتنا دلچسپ ہے اتنی ہی دلچسپ اور پیچیدہ اس سے منسوب کہانیاں بھی ہیں۔

مؤرخ کنہیا لال کے مطابق یہ دورِ جہانگیر کا مقبرہ ہے جہاں نواب نصرت اللہ خان مدفون ہیں۔
1641 کے آس پاس بننے والا یہ مقبرہ عموماً بُدھو کا مقبرہ کہلایا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ شاہجہاں کے دور میں ایک کمہار اینٹیں بنانے میں بہت مہارت رکھتا تھا جس کا نام ”بُدھو” تھا جو جہانگیر کے دور میں اینٹیں بنانے والے کمہار سُدھو کا بیٹا تھا۔
دونوں باپ بیٹا اپنے فن میں طاق تھے۔ چونکہ شاہجہاں کو عمارتیں بنوانے کا بہت شوق تھا لہٰذا بدھو اس کام کے لیئے موزوں ترین بندہ ٹھہرا اور شاہجہاں کا پسندیدہ بندہ قرار پایا۔ اُسے اینٹ کا بادشاہ قرار دے دیا گیا اور پورے علاقے میں اس کی دھوم مچ گئی۔
محترم تارڑ صاحب لکھتے ہیں کہ جاڑے کے کسی دن عبدالحق نام کا ایک مجذوب (جو حضرت میاں میرؒ کا مرید تھا) سردی سے کانپتا ہوا بدھو کے بھٹے پر پہنچا اور تاپنے کے لیئے آگ طلب کی۔
دولت و رتبے کے نشے میں چور بدھو نے مجزوب کو دھتکار دیا اور مجزوب نے غصے میں آ کے اُسے بد دعا دے دی کہ ”جا تیرا بھٹہ بیٹھ جائے” اور اینٹیں کچی رہ جائیں۔ اس کے بعد بُدھو میاں کے بھٹے میں نہ آگ جلے اور نہ اینٹیں پکیں۔ واقعی میں اسکا بٹھہ بیٹھ گیا۔ پھر بدھو کو عقل آئی اور اس نے مجزوب کو ڈھونڈ کر ان سے معافی مانگی ۔ اس اللہ کے بندے نے معاف کر دیا اور دعا دی جس کی بدولت دوبارہ بدھو کا ڈنکا بجنے لگا۔
فقیر عبدالحق کے مرنے پر بدھو نے اس کے لیئے ایک شاندار مقبرہ تعمیر کروایا۔
دوسری کہانی جو اس جگہ سے منسوب ہے وہ بالکل مکتلف ہے۔ کہا جاتا ہے کہ 1590 میں جب سکھوں کے ”گرو ارجن دیو” لاہور میں تھے تو ان کا ایک مرید تھا جس کا نام بھائی بُدھو تھا۔ وہ روزانہ آپ کے دربار میں آتا اور کیرتن بھی سنتا۔ اس کا کاروبار بہت مندا جا رہا تھا۔ گرو ارجن نے اسے کہا کہ ضرورت مندوں میں لنگر تقسیم کرو اس سے تمہارے کاروبار میں برکت آئے گی ۔

چنانچہ بدھو نے بڑے پیمانے پر ارداس (سکھ مذہب کی عبادت) اور لنگر کا انتظام کیا جہاں ایک مذہبی لیکن غریب اور سادہ لوح نظر آنے والے سکھ، بھائی لکھو پٹولیا ( جو بھائی کمالیا کے نام سے بھی جانے جاتے ہیں) کو اندر آنے اور لنگر میں شامل ہونے سے روک دیا گیا۔ اس وقت ارداس میں بدھو کے لیئے دعا کی گئی کہ؛
”بدھو کی اینٹیں بہترین طریقے سے پکی ہوئی ہوں”
ٹھیک اسی وقت بھائی کمالیہ نے رو کر کہا کہ؛
”بدھو کی اینٹیں آدھی پکیں”۔

اور اس کے بعد بدھو کی اینٹیں آدھی پکی آدھی کچی رہتیں اور اسکا کاروبار بیٹھ گیا۔ وہ بھاگم بھاگ گرو ارجن جی کے پاس گیا اور اپنی بپتا سنائی۔ گرو ارجن نے کہا کہ ایک غریب کے دل سے نکلی بددعا کو میں رد نہیں کر سکتا لیکن تمہیں دعا دیتا ہوں کہ تمہاری آدھی پکی اینٹیں بھی پوری پکی کے بھاؤ بکیں اور پھر ایسا ہی ہوا۔ بدھو کی آدھی پکی اینٹیں بھی ہاتھوں ہاتھ بِک گئیں۔

اس کے بعد بدھو میاں نے شکرانے کے طور پہ بھٹی کی جگہ ایک گُردوارہ تعمیر کروایا۔ گردوارے کا تو اب نام و نشان نہیں ملتا لیکن یہ مقبرہ اب بھی موجود ہے۔ سکھوں کے مطابق اس جگہ بھائی بدھو اور ان کی بیوی کی سمادھی موجود ہے۔
لیکن تاریخ کچھ اور ہی بتاتی ہے۔ تاریخی اعتبار سے یہ مقبرہ خان دوراں بہادر نُصرت جنگ کی بیوی کا ہے جومغلیہ دربار میں اہم امراء میں شمار ہوتا تھا۔
کہتے ہیں کہ 1643 میں اپنی وفات کے بعد وہ بھی اپنی بیوی کے نزدیک اسی مقبرے میں مدفون ہوئے۔

دیگر مغلیہ عمارتوں کی طرح یہ مقبرہ بھی ایک وسیع باغ میں بنایا گیا تھا جس کا اب نام و نشان بھی باقی نہیں۔
سِکھ دور میں اس مقبرے کو رنجیت سنگھ کے فرانسیسی جنرل ”ایویٹیبل” نے اپنی گرمیوں کی رہائش گاہ کے طور پر استعمال کیا۔
اس نے مقبرے کے نزدیک ایک بنگلہ بھی تعمیر کیا تھا۔
قیام پاکستان کے بعد یہ علاقہ پاکستان ریلوے کی تحویل میں دے دیا۔ ریلوے حکام نے ریلوے ورکشاپ اور سٹور بنانے کے لیئے بدھو کے آوے یعنی بھٹی کی جگہ کو برابر کر دیا اور نشانی کے طور پر یہاں ایک چھوٹا سا ستون بنا کہ اس پہ تختی لگا دی جو اب خستہ حال ہے۔ کچھ لوگوں کے مطابق یہی وہ جگہ ہے جہاں بدھو کا آوا موجود تھا۔
یہ ستون آج بھی بدھو کے آوے کے پاس ہے جس پر درج ذیل الفاظ پڑھے جا سکتے ہیں؛
The site of Buddhu Ka Awa or General Avitable
یہ جگہ بھی دیگر کچھ جگہوں کی طرح متنازعہ ہے۔ کچھ کے مطابق یہ مقبرہ بدھو کا آوا ہے جبکہ کچھ کہتے ہیں ستون کی جگہ اصل میں بدھو کا آوا ہے۔
واللہ العلم۔۔۔۔۔۔
اس چھوٹے سے مقبرے کے بنیادی ڈھانچے کو پانچ فٹ کے ایک چوکور چبوترے پر بنایا گیا ہے جس کے عین وسط میں جائے مدفن ہے اور اس مرکزی کمرے کے چہار جانب دروازے موجود ہیں۔
ان دروازوں کے دونوں اطراف میں ایک ایک محراب بنائی گئی ہے جبکہ ایک محراب دروازے کے اوپر بھی ہے۔ مقبرے کا مرکزی داخلی دروازہ شمالی سمت میں ہے۔
اس کمرے کے اوپر ایک ہشت پہلو (آٹھ کونوں والا) والی بنیاد موجود ہے جس کے چاروں طرف ایک محرابی کھڑکی بنائی گئی ہے۔ اسی ہشت پہلو بنیاد پر روغنی اینٹوں کا ایک بلند گنبد بنایا گیا ہے جس کا قطر لگ بھگ 32 فٹ ہے۔
بلاشبہ وسط ایشیائی طرزِ تعمیر کا حامل یہ گنبد مقبرے کی شان میں مزید اضافہ کر رہا ہے۔
اس مقبرے پر نیلی اور پیلی رنگ کی خوبصورت روغنی اینٹوں کا کام کیا گیا تھا جو اب بھی کہیں کہیں دیکھا جا سکاتا ہے۔ نیلے پیلے اور ہرے پھول اور پتے اب بھی کہیں کہیں اپنی بہار دکھا رہے ہیں۔
اندرونی حصے کی بات کریں تو نِچلے حصے کی دیواروں کو روغن کر کہ برابر کر دیا گیا ہے اور وہاں کوئی نقش و نگار باقی نہیں۔
دیواروں سے اوپر ہشت پہلو کی اندرونی محرابوں اور گنبد کا کام ابھی بھی دیکھا جا سکتا ہے جہاں جیومیٹری کے اصولوں کے مطابق مُقرنص کے مختلف دیدہ زیب ڈیزائن بنائے گئے ہیں ایسے جیسے انسانی جسم کے خُلیے جُڑ کے کھڑے ہوں ۔ گنبد کے عین وسط میں سورج مُکھی کا ایک پھول بنایا گیا ہے جس سے مختلف زاویے نکل رہے ہیں ۔
محکمہ آثارِ قدیمہ نے اس مقبرے کو ”محفوظ تاریخی ورثہ” قرار دیکر 2014 میں بہترین طریقے سے مرمت کے بعد عوام کے لیئے کھول دیا ہے۔
محکمہ آثارِ قدیمہ اور پارکس اینڈ ہارٹیکلچر اتھارٹی نے اس کی شکل ہی بدل کہ رکھ دی ہے جس کے لیئے یقیناً یہ محکمے لائقِ تحسین ہیں۔ ان کی محنت آپ مقبرے کی پہلے اور بعد کی تصاویرکا موازنہ کر کے بھی دیکھ سکتے ہیں۔ یہاں آپ کو پی ایچ اے کے مالی اکثر باغ میں کام کرتے بھی دکھائی دے جاتے ہیں۔ ننھا سا یہ مقبرہ آپ کے دورے کے انتطار میں ہے۔