یاسر پیر زادہ 237

بغیر نکاح کے؟ توبہ توبہ۔۔۔

بغیر نکاح کے؟ توبہ توبہ۔۔۔
یاسر پیر زادہ

میں صبح اٹھ کر تمام بڑے اردو انگریزی اخبارات کا مطالعہ کرتا ہوں پر یہ خبر نہ جانے کیوں میری نظر سے نہیں گزری۔ بھلا ہو پروفیسر ہود بھائی کا جن کا انگریزی کالم پڑھ کر مجھے پتا چلا کہ گزشتہ ہفتے سے متحدہ عرب امارات میں نئے قوانین کا اطلاق ہوا ہے جن کے بعد اب وہاں شراب پینے پر رہی سہی پابندی بھی ختم کر دی گئی ہے، یہی نہیں بلکہ اب غیر مرد اور عورت بغیر شادی کے اکٹھے رہ سکتے ہیں۔ اِس کے علاوہ بھی کچھ قوانین میں ترمیم کی گئی ہے جیسے کہ غیرت کے نام پر قتل کو اب عام قتل کی طرح ہی جرم سمجھ کر مقدمہ چلایا جائے گا اور شادی، طلاق، وراثت وغیرہ کے قوانین بھی تبدیل کیے گئے ہیں۔ ہوسکتا ہے کبھی کوئی لبرل قسم کا عالم دین کھینچ تان کر کہیں سے شراب کی گنجائش پیدا کر لے مگر نا محرم مرد اور عورت کا بغیر نکاح کے اکٹھے رہنا کہیں سے بھی اسلامی قوانین یا شریعت کے مطابق نہیں۔ تو کیا یہ سمجھا جائے کہ امارات میں مذہب کی نئی تشریح کی گئی ہے یا پھر وہاں کے حکمران بدل گئے ہیں؟ جی نہیں، ایسا کچھ نہیں ہوا، مذہب بھی وہی ہے اور حکمران بھی پرانے ہیں، فقط زمانہ بدل گیا ہے۔ کچھ دہائیو ں کی بات ہے، کیا خبر کہ مسلمان ممالک ہم جنس پرستی کی اجازت بھی دے دیں!

جب بھی کوئی شخص اِس قسم کے موضوعات پر قلم اٹھاتا ہے تو ہم یہ کہہ کر اُس کی بات کو رد کر دیتے ہیں کہ وہ معاشرے میں فحاشی پھیلانا چاہتا ہے یا پھر مغربی اقدار سے متاثر ہے۔ حالانکہ ایسا شخص صرف ہمیں آئینہ دکھا رہا ہوتا ہے، اُس کا مقصد صرف یہ بتانا ہوتا ہے کہ وقت کا پہیہ تصویر اور آلہ مکبر الصوت (لاؤڈ اسپیکر) کے فتاوٰی کو پیچھے چھوڑ کر آگے نکل چکا ہے، عالمی تصورات بدل چکے ہیں اور جدید دنیا کا انسان اب شراب نوشی اور نکاح و طلاق کے مسائل سے ماورا ہو چکا ہے کیونکہ اب اسے کہیں زیادہ پیچیدہ اور گنجلک مسائل کا سامنا ہے۔ جی ہاں، آ پ اِس کے مقابلے میں یہ دلیل دے سکتے ہیں کہ دنیا چاہے مریخ پر پہنچ جائے یا انسان خود کو ہنوط کروا کے دوبارہ زندہ ہوجائے، جن معاملات پر مذہب نے حدود کا تعین کر دیا ہے اُن میں کوئی حکومت، اسلامی یا غیر اسلامی، یا قیامت تبدیلی نہیں کر سکتی۔ یہ بات درست ہے مگر اِس کے ساتھ ہی یہ بھی حقیقت ہے کہ اِس وقت مسلم دنیا کا کوئی بھی ملک ایسا نہیں جہاں مذہب اُس شکل میں رائج ہو جس شکل میں ہمارے کچھ مذہبی دوست پاکستان میں رائج دیکھنا چاہتے ہیں۔ مثلاً اِس وقت مسلم دنیا کے ’رول ماڈل ‘ ممالک میں ترکی، ملایشیا، قطر ، کسی حد تک انڈونیشیا اور متحدہ عرب امارات شامل ہیں۔ اِن میں کہیں بھی ہمیں شدت پسند ی یا جنونیت (انڈونیشیا کا قصہ الگ ہے ) نظر نہیں آتی یا مذہب کی وہ تشریح دکھائی نہیں دیتی جو ہمارے ہاں کی جاتی ہے۔ اپنے عالم تقریر کا مدعا فقط یہ ہے کہ جدید دنیا میں قدامت پسند رویوں کے ساتھ رہنا اب ممکن نہیں۔ امارات نے اسی وجہ سے اپنے قوانین تبدیل کیے۔ سعودی عرب میں اسی لیے سنیما گھر کھولے جا رہے ہیں۔ ایران میں بھی شراب نوشی پر اب فقط ’خاموش‘ پابندی ہے۔

میرے ایک دوست کو البتہ میری اِن باتوں سے اختلاف ہے، اُس کا کہنا ہے کہ نام نہاد مسلم ممالک میں یہ تصورات مغربی ممالک سے مستعار لیے جا رہے ہیں اور ان کے خطرناک نتائج نکلیں گے، ثبوت کے طور پر وہ مغربی ممالک میں ہونے والے ریپ کے اعداد و شمار پیش کرتا ہے اور مجھ سے اِس بات پر نالاں رہتا ہے کہ میں اکثر مغربی ممالک کی مثالیں دے کر کہتا ہو کہ وہا ں قانون کی حکمرانی کی وجہ سے عورتیں محفوظ ہیں جبکہ اعداد و شمار ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ سب سے زیادہ ریپ مغربی ممالک میں ہوتے ہیں۔ ریپ کے اعداد و شمار کے بارے میں بارہا میں اپنے دوست سے کہہ چکا ہوں کہ ہم کینیڈا اور افغانستان کا تقابل کرکے یہ نہیں کہہ سکتے کہ کینیڈا میں ریپ زیادہ ہوتے ہیں کیونکہ ہمارے پاس افغانستان کا تو کسی قسم کا ڈیٹا ہی موجود نہیں جبکہ کینیڈا کا حال یہ ہے کہ وہاں شادی شدہ عورت کو اگر اُس کا شوہر بغیر مرضی کے ہاتھ لگائے تو وہ بھی ریپ شمار ہوتا ہے۔ اسی طرح مغربی ممالک میں ریپ کی جو تعریف کی جاتی ہے اُسے اگر سوڈان، نائجیریا، پاکستان یا افغانستان پر لاگو کیا جائے تو یہاں ہر دوسری عورت ریپ کا شکار سمجھی جائے گی اور پھر ہمیں منہ چھپانے کو جگہ نہیں ملے گی۔ مغربی ممالک میں ریپ کی شکایات درج کروانے اور ان کا ریکارڈ رکھنے کی شرح غیر ترقی یافتہ مسلم ممالک کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔ یہ بالکل اسی طرح جیسے سویڈن، ناروے اور ڈنمارک میں ٹرین میں سوار ہونے والے ہر شخص کا ٹکٹ چیک کیا جائے اور پھر خلاف ورزی کرنے والوں کی فہرست کو پوری دنیا میں جاری کر دیا جائے جبکہ پاکستان، افغانستان اور سوڈان کی ٹرینوں میں سرے سے کوئی ٹکٹ چیکر ہو اور نہ کوئی فہرست جاری کی جائے اور پھر کہا جائے کہ بغیر ٹکٹ کے سفر کرنے والوں میں سب سے زیادہ تعداد سکینڈینیوین ممالک کے شہریوں کی ہے۔ہم جب تک چاہیں اِس قسم کی دلیلوں سے خود کو مطمئن کر سکتے ہیں مگر اس سے حقیقت تبدیل نہیں ہوگی۔ تصویر، ٹیلی ویژن اور لاؤڈ اسپیکر کے خلاف دلائل بھی وقت کے سامنے نہیں ٹھہر سکے تھے، یہ دلائل بھی کچھ عرصے بعد ختم ہو جائیں گے۔ مگر تب تک وقت کا پہیہ ہمیں روند کر آگے نکل چکا ہوگا۔

کالم کی دُم:جنرل (ر) اسد درانی کی نئی کتاب Honour Among Spies حال ہی میں شائع ہوئی ہے۔ شالا نظر نہ لگے۔ مگر کیا ہی اچھا ہوتا اگر وہ اِس کا مسودہ کسی صاحب علم شخص کو دکھا دیتے کیونکہ جاسوسی کی بھاری ذمہ داریوں کو نبھاتے ہوئے خود انہیں تو زیادہ پڑھائی لکھائی کا موقع نہیں ملا ہوگا۔ پہلے ہی صفحے پر جنرل صاحب نے غالب کا شعر یوں لکھا ہے :’’یارب وہ نہ سمجھیں ہیں نہ سمجھیں گے میری بات، نہ دے دل ان کو، تو دے مجھ کو زباں اور ‘‘۔ جبکہ اصل شعر کچھ یوں ہے کہ ’’ یارب وہ نہ سمجھے ہیں، نہ سمجھیں گے مری بات۔۔۔ دے اور دِل اُن کو جو نہ دے مجھ کو زباں اور‘‘۔